Featured Post

Khalid001

18 April 2020

Khalid128


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  128
خالدؓ ابو عبیدہؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس میدان کا جائزہ لیا۔ لڑائی کیلئے یہ ہر لحاظ سے موزوں نظر آیا، اس طرح مسلمانوں کو اپنی پسند کے میدان کا فائدہ حاصل ہو گیا، رومی ایک تو اسے بہت بڑی کامیابی سمجھ رہے تھے کہ انہو ں نے مسلمانوں سے مفتوحہ علاقے لے لیے تھے اور وہ اس لیے بھی خوش تھے کہ انہوں نے اس دور کی سب سے بڑی فوج بنا لی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے۔
ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کے مشوروں کے مطابق اپنے دستوں کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا اور اسی ترتیب میں ڈیرے ڈال دیئے، وہ خیمہ زن ہونے کے بجائے تیاری کی حالت میں رہے۔ انہوں نے اپنے بائیں پہلو کو محفوظ رکھنے کیلئے پہاڑیوں سے فائدہ اٹھایا ۔مسلمانوں کے محاذ کی لمبائی کم و بیش گیارہ میل تھی اور گہرائی کچھ بھی نہیں تھی۔
رومی اتنے بڑے لشکر کے باوجود محتاط ہو کر بڑھ رہے تھے حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس ہزار ہے جو کم ہو سکتی ہے زیادہ نہیں ہو سکتی اور انہیں اتنی جلدی کمک بھی نہیں مل سکتی۔ رومی لشکر چند دنوں بعد آگے آیا لیکن آتے ہی اس نے حملہ نہ کیا۔ وہ چند میل دور رک گئے اور اپنے دستوں کو جنگ کی ترتیب میں پھیلا دیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی فوج کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صحیح معنوں میں انسانوں اور گھوڑوں کا سمندر لگتی تھی۔ اس فوج کے محاذ کی لمبائی اٹھارہ میل تھی اور گہرائی بھی خاصی زیادہ تھی۔ صفوں کے پیچھے صفیں تھیں۔
رومی لشکر کے سالارِ اعلیٰ ماہان نے آگے آکر مسلمانوں کی فوج کا جائزہ لیا۔ اسے اپنی جنگی طاقت پر اتنا ناز تھا کہ وہ مسلمانوں کی صفوں کے قریب آگیا، اس کے چہرے پررعونت اور ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ مسلمان اسے خاموشی سی دیکھتے رہے اور وہ مسلمانوں کو حقارت سے دیکھتا آگے بڑھتا گیا، اس کے پیچے پیچھے بارہ محافظ گھوڑوں پر بڑی شان سے جا رہے تھے۔
…………bnb…………

ماہان زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اس کے لشکر کی طرف سے ایک سوار گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا ۔ماہان رک گیا گھوڑ سوار اس کے قریب آرکا اور رومی انداز سے سلام کرکے اس کے ہاتھ میں کچھ دیا۔ یہ ہرقل کا پیغام تھا جو اس نے ماہان کو انطاکیہ سے بھیجا تھا۔ یہ دراصل پیغام نہیں،شہنشاہِ ہرقل کا فرمان تھا۔
ہرقل نے اسے لکھاتھا کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے سے پہلے انہیں صلح نامے کیلئے راضی کرو۔مسلمان اگر یہ شرط مان لیں کہ وہ پر امن طریقے سے واپس چلے جائیں گے اور آئندہ کبھی رومی سلطنت کی سرحد میں داخل نہیں ہوں گے تو انہیں عزت سے اور کچھ رقم دے کر رخصت کرو۔اپنی طرف سے پوری کوشش کرو کہ وہ صلح پر راضی ہوجائیں اگر وہ تمہاری بات نہ مانیں تو عربی عیسائیوں کو استعمال کرو۔شاید ان کی بات مان جائیں۔
ماہان نے یہ پیغام پڑھا تو اس کے چہرے پر غصے کے آثار آگئے،اس نے قاصد کو رخصت کر دیا۔
’’ان بدوؤں کے آگے گھٹنے ہی ٹیکنے تھے تو اتنا لشکر اکٹھا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ … اس نے غصے سے کہا۔
اس نے پیچھے دیکھا‘ اس کا احتجاج سننے والے اس کے محافظ ہی تھے۔ اس نے مسلمانوں کے محاذ کی طرف دیکھا اور گھوڑے کا رخ اس طرف کر کے آگے آگیا۔ قریب جا کر ا س نے گھوڑا روک لیا اور ایک محافظ کو اپنے پاس بلایا۔
’’انہیں کہو کہ اپنے سالارِ اعلیٰ کو سامنے کریں۔‘‘ … اس نے اپنے محافظ سے کہا۔ … ’’اور کہو کہ ہمارے سالارِ اعلیٰ ماہان صلح کی بات کرنے آئے ہیں۔‘‘
محافظ نے اس کے الفاظ بلند آواز سے دہرائے۔ مسلمانوں کی طرف سے جواب آیا کہ آتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہرقل کی آدھی فوج کٹ گئی تھی۔ بے انداز مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا اور مسلمانوں نے سلطنتِ روم کے بے شمار علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا پھر ہرقل نے انہیں بخش کیوں دیا تھا؟ اس نے ڈیڑھ دو لاکھ فوج اکٹھی کر کے بھی مسلمانوں کے آگے صلح کا ہاتھ کیوں بڑھایا تھا؟
فوری طور پر یہ جواب سامنے آتا ہے کہ اس کی فوج پر مسلمانوں کی جو دہشت طاری تھی اس سے وہ خطرہ محسوس کرتا تھا کہ اس کی اتنی بڑی فوج بھی شکست کھاجائے گی۔ لیکن اس وقت کے وقائع نگاروں مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویسوں نے مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ ہرقل اوچھا دشمن نہیں تھا وہ جنگجو تھا اور جنگجو قوم کی قدر کرتا تھا۔ خالدؓ کی قیادت سے وہ متاثر تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک جنگجوقوم کی اتنی پر عزم فوج اس کے لشکر کے ہاتھوں ختم ہو جائے۔ وہ مسلمانوں کو زندہ واپس چلے جانے کا موقع دے رہا تھا۔ اسے توقع تھی کہ مسلمانوں نے جذبے کے زور پر اس کے لشکر سے ٹکر لی تو مسلمانوں کا قتلِ عام ہو گا۔
ہرقل نے جو کچھ بھی سوچا تھا اس کے متعلق آراء مختلف ہوسکتی ہیں لیکن مسلمانوں کی سوچ مختلف تھی۔ میدانِ جنگ میں نہ وہ رحم کرتے تھے نہ رحم کے طلبگار ہوتے تھے۔ اپنی نفری کی کمی اور دشمن کی کئی گنا زیادہ طاقت نے انہیں کبھی پریشان نہیں کیا تھا۔
…………bnb…………

رومی سالار ماہان کی پکار پر ابو عبیدہؓ آگے گئے۔ ان کے ساتھ ایک ترجمان تھا۔
’’اے سالار!‘‘ … ماہان نے بارعب لہجے میں پوچھا۔ … ’’کیا تو امن و امان سے یہاں سے چلے جانا چاہتا ہے؟‘‘
’’ہم امن و امان چاہتے ہیں۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’لیکن جانا نہیں چاہتے۔‘‘
’’شہنشاہ ہرقل کے حکم کی تعمیل لازمی ہے۔‘‘ … ماہان نے کہا۔ … ’’اسی کے حکم سے میں تیرے پاس آیا ہوں۔‘‘
’’لیکن میرے رومی دوست!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’ہم پر صرف اﷲ کے حکم کی تعمیل لازمی ہے۔‘‘
’’شہنشاہ ہرقل تمہیں ایک موقع دے رہے ہیں۔‘‘ … ماہان نے کہا۔ … ’’اپنی اس ذرا سی فوج سے میری فوج کے ساتھ ٹکرلینے سے باز آجاؤ میں اپنے ایک سالار کو صلح کی بات چیت کیلئے بھیج رہا ہوں۔‘‘ … اور وہ چلا گیا۔
رومی فوج کا جو سالار صلح کی بات چیت کرنے آیا وہ گریگری تھا۔ … ابو عبیدہؓ نے اس کا استقبال کیا۔
’’میں شہنشاہ ہرقل کی طرف سے صلح کی پیشکش لے کر آیا ہوں۔‘‘ … گریگری نے کہا۔ … ’’اگر تم واپس چلے جاؤ اور پھر کبھی ادھر نہ آنے کا معاہدہ کرلو تو ہمارے شہروں اور قصبوں سے جو مالِ غنیمت وغیرہ اٹھایا ہے وہ اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔ ہمارا لشکر دیکھ لو اور اپنی تعداد دیکھ لو۔‘‘
’’اگر یہ لڑائی میری ذاتی ہوتی تو میں تمہاری پیشکش قبول کر لیتا۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’میں شہنشاہ نہیں، شہنشاہ اﷲ ہے، اور ہم اسی کے حکم پر آئے ہیں۔ ہم کوئی پیشکش قبول نہیں کر سکتے۔‘‘
گریگری چلا گیا۔ ہرقل نے اپنے فرمان میں لکھاتھا کہ صلح کا ذریعہ استعمال کرو۔ اس حکم کے مطابق ماہان نے ایک اور سالار جبلہ بن الایہم کو بھیجا۔
’’کیا تمہاری فوج کے تمام سالار باری باری صلح کا پیغام لے کر آئیں گے؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔ … ’’کیا کوئی میرے انکار کو اقرار میں بدل سکتا ہے؟‘‘
’’صلح کا پیغام لانے والا میں آخری سالار ہوں۔‘‘ … جبلہ نے کہا۔ … ’’میں اس لئے آیا ہوں کہ میں بھی عربی ہوں،ہوں تو عیسائی۔ لیکن میرے دل میں اپنے وطن کے لوگوں کی محبت ہے ،میں تمہیں تباہی سے بچانے کیلئے آیا ہوں۔ تم واپس چلے جاؤ اگر تمہارا کوئی مطالبہ ہے وہ بتا دو، میں وہ پورا کردوں گا۔‘‘
’’ہمارا مطالبہ تم جانتے ہو۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’ہم خیرات نہیں جزیہ لیں گے۔‘‘
’’اے عربی سالار!‘‘ … جبلہ نے حیران ہوکر پوچھا۔ … ’’کیا چالیس ہزار کی فوج چار گنا طاقت ور لشکرسے جزیہ وصول کر سکتی ہے؟‘‘
ابو عبیدہؓ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طر ف کی اور ان کے ہونٹوں پر تبسم آگیا۔ انہوں نے رومیوں کی ہر پیشکش ٹھکرادی اور صلح سے انکار کر دیا۔
…………bnb…………

جولائی ۶۳۶ء (جمادی الآخر ۱۵ ھ) کا تیسرا ہفتہ شروع ہو چکا تھا۔ جبلہ بن الایہم نے اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کو جاکر بتایا کہ مسلمان کسی قیمت پرکسی شرط پر صلح کیلئے تیار نہیں۔
’’ہم شہنشاہِ ہرقل کے حکم کی تعمیل کر چکے ہیں۔‘‘ … ماہان نے کہا۔ … ’’میں نے اپنے ذرائع استعمال کر لیے ہیں … جبلہ! اب وہ طریقہ اختیار کرو جو شہنشاہِ ہرقل کو پسند نہیں تھا۔ ان بدقسمت اور کم عقل مسلمانوں پر حملہ کردو۔ اس سے انہیں ہماری طاقت کا اندازہ ہو جائے گا، اور ہم یہ دیکھ لیں گے کہ ان میں کتنا دم خم ہے اور ان کے انداز کیا ہیں۔‘‘
رومی لشکر کا پڑاؤ کئی میل دور تھا۔ جبلہ اپنے دستوں کو لے کر مسلمانوں کے سامنے آیا، اس کے دستوں کو رومی فوج کے ہتھیار دیئے گئے تھے جو بہتر قسم کے تھے۔ ان دستوں میں عربی عیسائی تھے، وہ جب آئے تو مسلمان لڑائی کیئے تیار ہو چکے تھے۔ جبلہ نے آتے ہی حملہ نہ کیا۔ وہ مسلمانوں کے محاذ کو دیکھ کر حملہ کرنا چاہتا تھا۔
آخر اس نے ہلہ بولنے کاحکم دے دیا، وہ ابھی مسلمانوں کی اگلی صف تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اس کے دستوں کے دونوں پہلوؤں پر حملہ ہو گیا۔ حملہ کرنے والا مسلمان سواروں کا دستہ تھا جس کی کمان خالدؓ کررہے تھے۔ گھوم پھر کر لڑنے والے اس دستے نے اپنا مخصوص انداز اختیار کیا۔ جبلہ کی ترتیب گڈمڈ ہو گئی۔ اس پر سامنے سے بھی حملہ ہوا۔
عیسائی بوکھلا گئے۔ انہیں اپنے پہلوؤں پر حملے کی توقع نہیں تھی۔ مسلمان سواروں نے انہیں بکھیر دیا۔ عیسائی اب بھاگنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔وہ بہت سی لاشیں اور بے انداز زخمی پیچھے پھینک کر پسپا ہو گئے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ماہان نے مسلمانوں کولڑتے بھی دیکھا اور جس تیزی سے مسلمان سواروں نے جبلہ کے دستوں پر حملہ کیا تھا وہ بھی دیکھااور وہ سمجھ گیاکہ مسلمانوں سے لڑنا بہت مشکل ہے اور اس کیلئے مزید تیاری کی ضرورت ہے۔ ماہان نے حملے کیلئے کوئی اور دستہ نہ بھیجا۔
ماہان کو توقع تھی کہ مسلمان جوابی حملہ کریں گے لیکن نفری کی کمی مسلمانوں کی مجبوری تھی۔ وہ جوابی حملہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے، ادھر جبلہ محتاط ہو گیا۔ دن گزرنے لگے۔ دونوں طرف کی فوجوں نے ایک دوسرے پر نظر رکھنے کیلئے اپنے اپنے آدمی مقرر کر دیئے۔
یہ وقفہ مسلمانوں کیلئے فائدہ مند رہا۔ انہیں مدینہ سے چھ ہزار افراد کی کمک مل گئی۔ یہ چھ ہزار افراد یمنی تھے اور تازہ دم تھے۔ ان سے مسلمانوں کے محاذ کو کچھ تقویت مل گئی۔
مسلمانوں کی فوج کی تفصیل کچھ اس طرح تھی کہ اس کی کل تعداد چالیس ہزار تھی۔ ان میں ایک ہزار رسولِ کریمﷺ کے صحابہ کرامؓ تھے۔ ان ایک ہزار میں ایک سو وہ مجاہدین بھی شامل تھے جو بدر کی لڑائی لڑے تھے۔ اس نفری میں رسولِ کریمﷺ کے پھوپھی زاد بھائی زبیرؓ بھی شریک تھے اور اس نفری میں پہلی جنگوں کی دو مشہور شخصیتیں بھی شامل تھیں۔ ابی سفیانؓ اور ان کی بیوی ہندؓ ۔ ابی سفیانؓ کے بیٹے یزیدؓ پہلے ہی چالیس ہزار کی اس فوج میں شامل تھے اور سالار تھے۔
…………bnb…………

ایک مہینہ گزر گیا تو دشمن نے دیکھا کہ اس کا لشکر لڑنے کیلئے تیار ہو گیا ہے اور مسلمانوں کی نفری میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا، تو اس نے مزید انتظار مناسب نہ سمجھا لیکن ایک بار پھر صلح کی کوشش کو ضروری سمجھا۔ اس نے اپنا ایک ایلچی مسلمانوں کے محاذ کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ سالارِ اعلیٰ بات چیت کیلئے آئیں۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’کیا اب یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اس شخص کے ساتھ تو بات کرے؟ وہ ہمیں اپنی طاقت سے ڈرا کر صلح حاصل کرناچاہتا ہے۔‘‘
’’مجھے ہی جانا چاہیے امین الامت!‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’اس کے ساتھ میں ہی بات کروں گا۔‘‘
خالدؓگھوڑےپر سوار ہوئے اور ایڑ لگادی۔ ماہان نظر نہیں آرہا تھا، خالدؓ کے ساتھ چند ایک محافظ تھے وہ رومیوں کے محاذ تک چلے گئے۔ ماہان نے ان کا استقبال کیا اور انہیں اپنے خیمے میں لے گیا۔ خیمے میں محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ میدانِ جنگ ہے۔ یہ شاہانہ کمرہ تھا۔
’’میں ماہان ہوں۔‘‘ … ماہان نے اپنا تعارف کرایا۔ … ’’رومی افواج کا سالارِ اعلیٰ!‘‘
’’میں کچھ بھی نہیں ہوں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’میرا نام خالد بن ولید ہے۔‘‘
’’تم سب کچھ ہو ابنِ ولید!‘‘ … ماہان نے کہا۔ … ’’جہاں تک تم نہیں پہنچ سکے وہاں تک تمہارا نام پہنچ گیا ہے … میرا خیال ہے کہ تم جتنے قابل اور جرات مند سالار ہو اتنے ہی دانشمند انسان بھی ہو گے۔ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری چالیس ہزار فوج میرے اس لشکر کے ہاتھوں ماری جائے جو بڑی دور دور تک پھیلی ہوئی چٹانوں کی مانند ہے۔ دانشمند آدمی چٹا نوں سے نہیں ٹکرایا کرتے۔‘‘
’’بہت اچھے الفاظ ہیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’میں ان الفاظ کی قدر کرتا ہوں لیکن ہم وہ دانشمند ہیں جو باطل کی چٹانوں سے ڈرا نہیں کرتے۔ تم نے مجھے یہاں تک آنے کا موقع اس لئے دیا ہے کہ میں تمہارا لشکر دیکھ کر ڈر جاؤں۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … ماہان نے کہا۔ … ’’کیا تجھے اپنے سپاہیوں کے بیوی بچوں کا بھی کوئی خیال نہیں جو تمہارے لشکر کے ساتھ ہیں ؟ کیا تم نے سوچا نہیں کہ اگر تم سب مارے گئے تو یہ بیویاں بچے ہماری ملکیت ہوں گے؟‘‘
’’ماہان!‘‘ … خالدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ … ’’ہم سب کچھ سوچ چکے ہیں … صلح نہیں ہوگی۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … ماہان نے کہا۔ … ’’کیا تم یہ بھی نہیں سمجھ رہے کہ میں تم پر رحم کر رہا ہوں؟ … میں تمہیں، تمہارے سارے لشکر کو اور تمہارے خلیفہ کو بھی اتنی رقم پیش کروں گاجو تم سب کو حیران کر دے گی۔‘‘
’’رحم کرنے والا صرف اﷲ ہے جس کے قبضے میں میری اور تیری جان ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد اور رحم مانگتے ہیں۔ اگر تو نہیں چاہتا کہ کشت و خون ہو تو اسلام قبول کرلے جو اﷲکا سچا دین ہے۔‘‘
’’نہیں!‘‘ … ماہان نے بڑے رعب سے جواب دیا۔
’’اگر مجھے، میرے لشکر اور میرے خلیفہ کو انعام دینا ہے تو جزیہ ادا کردے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’لیکن جزیہ لے کر ہم چلے نہیں جائیں گے بلکہ تجھے اور ہرقل کی رعایا کی حفاظت ، عزت اور ہر ضرورت کے ذمہ دار ہوں گے … اگر یہ بھی منظور نہیں تو میدانِ جنگ میں ہماری تلواروں کی ملاقات ہو گی۔‘‘
مؤرخ واقدی، بلاذری اور ابو یوسف نے لکھاہے کہ خالدؓ ماہان پر اپنابڑا ہی اچھا تاثر چھوڑ آئے اور ماہان کا جو تاثر لے کر آئے وہ بھی اچھا تھا۔ اس نے کوئی اوچھی بات نہ کی۔ خالدؓ نے واپس آکر ابو عبیدہ ؓکو ایک تو یہ بتایا کہ ماہان کے ساتھ کیا بات ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ماہان کتنا اچھا اور کتنا باوقار سپہ سالار ہے۔
’’پھر اس میں ایک ہی خرابی ہے۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’اس کی عقل و دانش شیطان کے قبضے میں ہے۔‘‘
خالدؓ ماہان کو آخری فیصلہ سناآئے کہ صلح نہیں ہوگی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages