Featured Post

Khalid001

20 April 2020

Khalid135


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  135
ابن الولیدؓ ابو عبیدہؓ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے نہ رکے۔ وہ گھوڑ سوار دستے کے پاس چلے گئے جو انہوں نے اس روز کی جنگ کیلئے تیارکیا تھا۔ آٹھ ہزار سواروں کے اس دستے کو دائیں پہلو پر عمروؓ بن العاص کے دستوں کے عقب میں ایسی جگہ کھڑا کیا گیا تھا جہاں سے یہ دشمن کو نظر نہیں آسکتا تھا۔
خالدؓ نے اپنی تمام فوج کو سامنے کا حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ رومی سالار حیران ہوئے ہوں گے کہ مسلمان سالاروں کا دماغ جواب دے گیا ہے کہ انہوں نے ایک ہی بار ساری فوج حملے میں جھونک دی ہے۔ رومیوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار دستے حملے میں شریک نہیں ۔ رومیوں کو یہ سب کچھ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی تھی، کیونکہ خالدؓ کے حکم کے مطابق بہت تیز حملہ کیا جا رہا تھا۔ رومیوں کی بہت سی نفری ہلاک اور شدید زخمی ہو چکی تھی۔ پھربھی ان کی نفری مسلمانوں کی نسبت سہ گنا تھی، مسلمانوں کا جانی نقصان بھی ہوا۔ اتنی کم نفری کا اتنی بڑی تعداد پر حملہ خودکشی کے برابر تھا۔
’’انہیں آنے دو۔‘‘ … رومی سالار ماہان چلّارہا تھا۔ … ’’اور آگے آنے دو … یہ ہمارے ہاتھوں مرنے کیلئے آ رہے ہیں۔‘‘
خالدؓ آٹھ ہزار سواروں کو پیچھے لے جا کر رومیوں کے بائیں پہلو سے پرے لے گئے۔ انہوں نے سالار عمروؓ بن العاص سے کہا تھا کہ رومیوں کے اس پہلو پر تیز اور زور دار حملہ کریں ۔ عمروؓ بن العاص نے حکم کی تعمیل کی اور جانیں لڑادیں۔ خالدؓ چاہتے تھے کہ دشمن کو پہلو کے دستوں کے سامنے سے الجھالیا جائے۔
عمروؓ بن العاص نے خالدؓ کا مقصد پورا کر دیا۔ خالدؓ نے آٹھ ہزار سواروں میں سے دو ہزار سواروں کا ایک دستہ الگ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن کے پہلو کے دستے عمروؓ بن العاص کے دستوں سے الجھ گئے ہیں تو چھ ہزار سواروں کے ساتھ رومیوں کے پہلو والے دستوں کے خالی پہلو کی طرف سے حملہ کردیا ۔ رومیوں کیلئے یہ حملہ غیر متوقع تھا۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ عمروؓ بن العاص نے اپنے حملوں میں شدت پیدا کردی۔
دشمن کے انہی دستوں پر سامنے سے شرحبیلؓ بن حسنہ نے بھی حملہ کیا تھا۔ خالدؓ نے جن دو ہزار سواروں کو الگ کیاتھا، انہیں حکم دیا کہ وہ دشمن کے اس سوار دستے پر حملہ کریں جو اپنے پہلو کے دستوں کی مدد کیلئے تیا ر کیا تھا۔ ان دو ہزار سواروں کیلئے یہ حکم تھا کہ وہ دشمن کے سوار دستے کو روک رکھیں یعنی حملہ شدید نہ کریں بلکہ دشمن کو دھوکے میں رکھیں۔
بعد میں پتا چلا کہ رومیوں کا یہ سوار دستہ خاص طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اسے ہر ا س جگہ مدد کیلئے پہنچنا تھا جہاں مدد کی ضرورت تھی۔ مسلمان سواروں نے اس سوار دستے کو اس طرح الجھایا کہ حملہ کرتے اور پیچھے یا دائیں بائیں نکل جاتے ، پینترا بدل کر پھر آگے بڑھتے اور ہلکی سی جھڑپ لے کر اِدھر اُدھر ہو جاتے۔
…………bnb…………

خالدؓ کی یہ چال کارگر ثابت ہوئی۔ انہوں نے دشمن کے مقابلے میں اتنی کم تعداد کو ایسی عقلمندی سے استعمال کیا تھا کہ دشمن کے پہلوکے دستوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان دستوں کو توقع تھی کہ مشکل کے وقت سوار دستے مددکوآجائیں گے لیکن مدد کو آنے والے سواروں کو خالدؓ کے دو ہزار سواروں نے آنکھ مچولی جیسی جھڑپوں میں الجھا رکھا تھا۔
دشمن کے پہلو کے دستے ایک بار پیچھے ہٹے تو خالدؓ نے چھ ہزار سواروں سے حملے میں شدت پیدا کردی، ماہان نے خود آکر اپنے دستوں کو جم کر لڑانے کی کوشش کی لیکن اس کا سوار دستہ بری طرح بکھرنے اور پیچھے ہٹنے لگا ۔ پیادہ دستے سوار دستوں کی مدد کے بغیر لڑ نہیں سکتے تھے، وہ بے طرح بکھرنے اور بھاگنے لگے۔
بھاگنے والے پیادہ دستے آرمینی تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کے بھاگنے کی ایک وجہ تو مسلمانوں کے سوار دستے کاحملہ تھا اور ان پر سامنے سے بھی بہت زیادہ دباؤ پڑ رہا تھا، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آرمینی سالاروں نے محسوس کیاکہ انہیں دانستہ سواروں کی مدد دسے محروم رکھاجا رہا ہے۔ ان کے پیچھے عیسائی عرب تھے۔ جن کا سالار جبلہ بن الایہم تھا۔ انہوں نے بھی رسالے کی مدد نہ آنے کو غلط سمجھا اور لڑنے سے منہ موڑ گئے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ آرمینیوں اور عیسائیوں کی پسپائی بھگدڑ کی مانندتھی۔ مؤرخوں نے اسے سیلاب بھی کہا ہے جس کے آگے جو کچھ بھی آتا ہے سیلاب اسے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ رومیوں کے بائیں پہلو سے بھاگنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی گئی ہے، چالیس ہزار انسانوں کی بھگدڑ ایسابے قابو سیلاب تھا جو اپنے سالاروں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا، یہاں تک کہ سالارِاعلیٰ ماہان جو ابھی میدان نہیں چھوڑناچاہتا تھا اپنے محافظوں سمیت اس سیلاب کی لپیٹ میں آگیا اور بہتا چلا گیا۔
یہ کامیابی خالدؓ کی عسکری دانش کا حاصل تھی۔ انہوں نے دشمن کے پیادوں کو سواروں کی مددسے محروم کردیا تھا اور سواروں سے پیادوں پر ہلہ بول دیا تھا۔ خالدؓ کے آگے بڑھنے کارخ ماہان اور اس کے دو ہزار سوار محافظوں کی طرف تھا۔
…………bnb…………

اِدھر ابو عبیدہؓ اوریزیدؓ بن ابی سفیان اپنے سامنے کے دستوں پر اس اندازسے حملے کر رہے تھے کہ بھرپور لڑائی بھی نہیں لڑتے تھے اور پیچھے بھی نہیں ہٹتے تھے۔ ابو عبیدہؓ نے دشمن کے ان دستوں کو روکاہوا تھا جو زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔ یہ دستے تیزی سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتے تھے۔
خالدؓ دشمن کے اس رسالے کو جس نے سارے محاذ کو مدد دینی تھی، بکھیر کر بھگا چکے تھے۔اس رسالے کو کھل کر لڑنے کا موقع ہی نہیں دیاگیا تھا۔خالدؓ اب اپنے رسالے (سواردستے) کے ساتھ رومیوں کے عقب میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے عقب سے حملہ کردیا۔ یہ رومی فوج کادوسرا حصہ تھا۔ اس پر اپنے بائیں پہلو کے دستوں اور سوار دستوں کے بھاگنے کا بہت برا اثر پڑ چکا تھا۔ ماہان کے غائب ہوجانے کی وجہ سے مرکزیت بھی ختم ہو گئی تھی۔اب سالار اپنی اپنی لڑائی لڑ ہے تھے۔وہ اب صرف دفاع میں لڑ سکتے تھے۔
کسی بھی فوج کا بڑا حصہ بھاگ نکلے اور کمک کی امید نہ رہے تو اس صورت میں یہی ہو سکتا ہے کہ اپنی جانیں بچانے کیلئے لڑا جاتا ہے اور موقع ملتے ہی پسپائی اختیار کی جاتی ہے۔رومی لشکر کیلئے یہ صورتِ حال پیدا ہو چکی تھی۔ خالدؓ نے دشمن کے بھاگنے کے راستے روک لیے تھے سوائے ایک کے۔ خالدؓ کی بھی یہی کوشش تھی کہ رومی اسی راستے سے بھاگیں۔ چنانچہ دشمن کے بھاگنے والے دستے اسی راستے پر جارہے تھے۔
رومی فو ج بھی پسپا ہو رہی تھی لیکن منظم طریقہ سے۔اس کا کچھ حصہ بھگدڑ میں بہہ گیا تھا۔زیادہ تعداد منظم انداز سے پسپا ہوئی۔
خالدؓ نے اس تمام علاقے کی زمین کو دور دور تک دیکھ لیا تھا اور انہوں نے اس زمین سے فائدہ اٹھانے کیلئے اور جو کچھ سوچ لیا تھا وہ کسی عام دماغ میں نہیں آسکتا تھا۔رومی لشکر جب بھاگ رہا تھا تو خالدؓ کے حکم سے ان کے دستے بھاگنے والوں کا تعاقب کرکے ایک خاص طرف جانے پر مجبور کر رہے تھے۔ اس طرف وادی الرّقاد تھی جس میں ایک ندی بہتی تھی اور اس وادی کے خدوخال کچھ اس طرح تھے ۔وادی اردگرد کی زمین سے گہرائی میں چلی جاتی تھی۔ اس کی ایک طرف کی ڈھلان تو ٹھیک تھی لیکن اس کے بالمقابل کی ڈھلان زیادہ تر سیدھی تھی۔ وہاں سے اوپر چڑھا تو جا سکتا تھا لیکن بہت مشکل سے۔
رومی فوج کے باقاعدہ دستے اس طرف چلے گئے۔ ان کے سامنے ایک یہی راستہ تھا۔وہ آسان ڈھلان اتر گئے اور انہوں نے ندی بھی پار کرلی۔ جب وہ دوسری ڈھلان چڑھنے لگے تو مشکل پیش آئی۔ آہستہ آہستہ اوپر چلے گئے۔ اچانک اوپر سے نعرے بلند ہوئے اور للکار سنائی دی۔
نعرے لگانے والے مسلمان سوار تھے، اور ان کے سالار ضرار بن الازور تھے۔ ان کاجسم ناف کے اوپر سے ننگا تھا ۔خالدؓ نے رات کو جو منصوبہ بنایا تھااس کے مطابق انہوں نے اسی وقت ضرار کو پانچ سو سوار دے کر وادی الرقاد کے دوسرے کنارے پر بھیج دیا اور اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
خالدؓ نے جیسے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ رومی فوج کی دراصل کوشش یہی تھی کہ کے تعاقب میں جو مسلمان آرہے ہیں، ان سے بہت فاصلہ رکھاجائے۔ اس لیے وہ بہت جلدی میں جا رہے تھے۔ خالدؓ نے تعاقب اسی مقصد کیلئے جاری رکھاتھاکہ رومی فوج جلدی میں رہے۔ اس مقصد میں کامیابی یوں ہوئی کہ رومی اوپر گئے تو اوپر ضرار کے پانچ سو سوار برچھیاں تانے کھڑے تھے ۔ رومی جو اوپر چلے گئے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے اور جو ابھی اوپر جا رہے تھے وہ پیچھے مڑے لیکن عمودی کنارے سے وہ تیزی سے نہیں آسکتے تھے ۔ مسلمانوں نے ان پر پتھر برسانے شروع کر دیئے، جو انہوں نے اسی مقصدکیلئے اکٹھے کر رکھے تھے۔ اوپر والے گرتے اور لڑھکتے ہوئے نیچے جاتے تھے۔ اوپر سے ان پر وزنی پتھر گرتے تھے ۔ان میں گھوڑ سوار بھی تھے۔ گھوڑے بھی گرے اور پیادے ان کے نیچے آکر مرنے لگے۔
…………bnb…………

رومی کچھ کم تو نہ تھے، ابھی ایک بڑی تعداد ندی تک نہ پہنچی تھی۔ رومی سالاروں نے اپنے آگے جانے والوں کی تباہی دیکھی تو اپنے دستوں کوآگے جانے سے روک دیا اور وادی میں اترنے کے بجائے انہیں اوپر صف آراء کر دیا۔ وہ لڑ کر مرنا چاہتے تھے۔آرمینیوں اور عیسائی عربوں کی بھی کچھ نفری ان سے آملی تھی۔ یہ نفری بھاگ رہی تھی اور مسلمان انہیں وادی کی طرف لے آئے تھے۔
خالدؓ اپنی فوج کے ساتھ تھے۔ انہوں نے دشمن کو صف آراء دیکھا تو اپنے سالاروں کو بلا کر کہا کہ دشمن پر حملہ کردیں۔
’’ان میں لڑنے کادم نہیں رہا۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’سیدھا حملہ کرو۔ میرے حکم کا انتظار نہیں کرنا۔ ان کیلئے پیچھے ہٹنے کی جگہ نہیں ہے۔ ایک طرف دریا (یرموک) ہے ، دوسری طرف گہری وادی ہے۔ سامنے ہم کھڑے ہیں۔ ان پر ہلہ بول دو۔‘‘
رومی پھندے میں آگئے تھے۔ ان کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی ختم ہوچکاتھا۔ بعض مؤرخوں نے مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار اور دو نے اس سے کچھ کم لکھی ہے ۔ شہادت اور شدیدزخمیوں کی وجہ سے نفری کم ہو گئی تھی۔ ایک دستے کو عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔
مسلمانوں نے حملہ کردیا۔ اس میں کوئی چال نہ چلی گئی، اس حملے کاانداز ٹوٹ پڑنے جیسا تھا۔ سوار اور پیادے گڈ مڈ ہو گئے تھے، رومی اب زندگی اور موت کا معرکہ لڑنے کیلئے تیار ہو گئے تھے۔ وہ تو تربیت یافتہ فوج تھی۔ اس فوج کی اگلی صف نے مسلمانوں کا جم کرمقابلہ کیا لیکن وہ جگہ ایسی تھی جہاں دائیں بائیں ہونے اور گھوم پھرکرلڑنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس وجہ سے رومی اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ ٹکرانے اور ایک دوسرے کیلئے رکاوٹ بننے لگے۔
یہ صورتِ حال مسلمانوں کیلئے سودمند تھی۔ رومیوں کی اگلی صف نے مقابلہ تو کیا لیکن اس کا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہ رہا۔ مسلمان سواروں نے رومی پیادوں پر گھوڑے چڑھا دیئے اور انہیں صحیح معنوں میں کچل ڈالا، جہاں جگہ کچھ کشادہ تھی۔ وہاں رومیوں نے مقابلہ کیا لیکن مؤرخوں کے مطابق ، یوں بھی ہوا کہ گردوغبار میں رومیوں نے رومیوں کو ہی کاٹ ڈالا۔ اپنے پرائے کی پہچا ن نہ رہی۔
یہ بڑا خوفناک معرکہ تھا۔بڑی بھیانک لڑائی تھی۔ یہ رومیوں، عیسائی عربوں اور ان کے اتحادی قبیلوں کا قتلِ عام تھا۔
’’گھوڑوں کو اٹھا کر ان پر گراؤ۔‘‘ … یہ خالدؓ کی للکار تھی۔ … ’’مومنین! کفر کی چٹانوں کو پیس ڈالو۔‘‘
مسلمان سوار باگوں کو جھٹکا دیتے تو گھوڑے اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا لیتے اور جب گھوڑے ٹانگیں نیچے لاتے تو ایک دو رومی کچلے جاتے۔ یہ تو رومیوں کا قتلِ عام تھا۔ رومی وادی الرقاد کی طرف بھاگ رہے تھے جہاں وہ اگلے عمودی کنارے کی ایک گھاٹی چڑھتے تو ضرار کے سواروں کی برچھیوں سے چھلنی ہوتے اور اوپر سے لڑھکتے ہوئے نیچے آتے۔
مسلمانوں نے اس فتح کیلئے بہت سی جانیں قربان کی تھیں اور جو شدید زخمی ہوئے تھے ان میں کئی ایک ساری عمر کیلئے معذور ہو گئے تھے۔ یہ جنگ مسلمان عورتیں بھی لڑی تھیں۔ عورتوں نے اپنے بھاگتے مردوں کو دھمکیاں دے کر بھاگنے سے روکا تھا۔ اب وہ دشمن جو اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے ارادے سے ڈیڑھ لاکھ کالشکر لایا تھا۔ بڑے برے پھندے میں آگیا تھا۔ وادی الرقاد اس کیلئے موت کی وادی بن گئی تھی۔
اﷲ نے مومنین کی وہ دعائیں قبول کر لی تھیں جو وہ راتوں کو جاگ جاگ کر مانگتے اور اﷲ کے حضور گڑگڑاتے رہے تھے ۔ وہ ایک آیت کا ورد کرتے رہے تھے:
’’کتنی ہی بار چھوٹی چھوٹی جماعتیں اﷲکے چاہنے سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں ۔ اﷲ صبر و استقامت والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ (قرآن حکیم ۲/۲۴۹)
اب میدانِ جنگ کی یہ کیفیت ہو چکی تھی کہ رومیوں کی چیخیں اٹھتی تھیں جو مسلمانوں کے نعروں میں دب جاتی تھیں۔ داوی میں گہری کھائیاں بھی تھیں، بعض رومی ان میں بھی گرے اور بڑی بری موت مرے۔
…………bnb…………

جنگِ یرموک کے چھٹے اور آخری روزکا سورج میدانِ جنگ کے گردوغبار میں ڈوب گیا۔ فضاء خون کی بو سے بوجھل تھی۔ مشعلیں جل اٹھیں اور رومیوں کی لاشوں کے درمیان گھومنے پھرنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی مشعلیں تھیں،وہ اپنے شہیدوں اور شدید زخمیوں کو اٹھا رہے تھے اور مالِ غنیمت بھی اکٹھا کر رہے تھے۔ خیمہ گاہ میں خبر پہنچی تو عورتیں آگئیں۔ وہ کئی میل فاصلہ طے کر کے آئی تھیں۔ وہ اپنے خاوندوں کو، بھائیوں اور بیٹوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
’’تو جنتی ہے۔‘‘ … کسی نہ کسی عورت کی آواز سنائی دیتی تھی (اﷲ اکبر … اﷲ اکبر … اﷲ اکبر)
’’ تو جنت میں جا رہا ہے۔‘‘ … جنگ ختم ہو چکی تھی لیکن خالدؓ کی جنگ ابھی جاری تھی۔ رات بھر مجاہدین شہیدوں، زخمیوں اور مالِ غنیمت میں مصروف رہے لیکن خالدؓ کی مصروفیت کچھ اور تھی۔ ان کیلئے جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے جو رومی قیدی پکڑے تھے ان سے خالدؓ معلوم کر رہے تھے کہ ان کا سالارِ اعلیٰ ماہان جو آرمینیہ کا بادشاہ بھی تھا، کس طرف گیا ہے۔ بیشتر قیدیوں کو معلوم نہ تھا۔آخر پتہ چل گیا، ماہان کو انطاکیہ کے بجائے دمشق کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیاتھا۔ اس کے ساتھ اس کا محافظ سوار دستہ بھی تھا جس کی تعداد دو ہزار تھی۔
صبح ہوتے ہی خالدؓ اپنے سوار دستے کو ساتھ لے کر ماہان کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔ اس وقت ماہان دمشق سے دس بارہ میل دور پہنچ چکا تھا۔ اسے یہ توقع نہیں تھی کہ مسلمان اس کے تعاقب میں پہنچ جائیں گے۔ شاید اسی لیے وہ بڑے اطمینان سے جا رہا تھا۔ اس رات اس نے پڑاؤ کیا اور صبح دمشق کو روانہ ہوا تھا۔
’’سالارِ معظم!‘‘ … اسے اپنے کسی ساتھی نے کہا۔ … ’’وہ دیکھیں گرد اڑ رہی ہے، یہ کوئی سوار دستہ لگتا ہے۔‘‘
’’اپنا ہی ہوگا۔‘‘ … ماہان نے کہا۔ … ’’ان کی گرد کو نہ دیکھو جو میدانِ جنگ کی گرد سے بھاگ آئے ہیں۔ یہ شکست کھا کر آئے ہیں۔‘‘
ان کے درمیان پھر خاموشی چھا گئی۔ ماہان کی ذہنی کیفیت بہت بری تھی۔ وہ کسی کے ساتھ بولتا نہیں تھا۔ اس کی افسردگی کا باعث صرف یہ نہیں تھا کہ اس نے شکست کھائی تھی بلکہ یہ کہ اس نے بڑی تھوڑی تعداد کی فوج سے شکست کھائی تھی۔ اس نے مسلمانوں کو کچل کر واپس آنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مگر اب وہ انطاکیہ جانے کے بجائے دمشق کی طرف جا رہا تھا۔ انطاکیہ میں شہنشاہِ روم تھا۔ ماہان اس کاسامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
جن سواروں کی گرد نظر آئی تھی۔اب ان کے گھوڑوں کے قدموں کی ہنگامہ خیز آواز سنائی دینے لگی تھی۔ جو بڑی تیزی سے قریب آرہی تھی۔ ماہان پیچھے نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ انہیں میدان سے بھاگے ہوئے سوار سمجھ رہا تھا۔
سوار قریب آئے تو دو حصوں میں بٹ گئے اور ا س کے گرد گھیرا ڈالنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ایک للکار سنائی دی:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
تب ماہان چونکا۔ اس کے ساتھ اپنے دو ہزار سوار محافظ ہی نہیں تھے بلکہ آرمینیا کی باقاعدہ فوج کی بھی کچھ تعداد تھی اور کچھ عیسائی عرب بھی تھے۔ اس نے ان سب کو لڑنے کی ترتیب میں کردیا اور خود اپنے چند ایک محافظ ساتھ لے کر الگ ہٹ گیا۔
خالدؓ کو بتایا گیا تھا کہ ماہان کے ساتھ اپنے محافظوں کا سوار دستہ ہے لیکن اس کے ساتھ اس سے دگنی سے بھی کچھ زیادہ تعداد تھی۔ خالدؓ نے گھیرے کی شکل میں حملہ کیا۔ ماہان کی فوج نے جم کر مقابلہ کیا لیکن مسلمان تھکے ہوئے ہونے کے باوجود تازہ دم لگتے تھے ۔ یہ فتح کی خوشی کا اثر تھا۔
تاریخ میں اس مجاہد کا نام نہیں ملتاجو لڑائی میں بچتا بچاتا ماہان تک جا پہنچا۔ وہ ماہان کے سواروں کا حصار توڑ گیا اور اس نے ماہان کو ہلاک کر دیا۔ مجاہد خود بھی زخمی ہوا لیکن ماہان کو ہلاک کرکے اس نے اپنے ساتھیوں کا کام آسان کر دیا۔ اپنے شہنشاہ اور سالارِ اعلیٰ کو مرتا دیکھ کر اس کے سوار معرکے سے نکلنے لگے۔
کچھ دیر بعد دشمن کے سوار اور پیادے جدھر کو رخ ہوا ادھر کو بھاگ نکلے لیکن بہت سی لاشیں اور اچھے بھلے گھوڑے چھوڑ گئے۔
دمشق دور نہیں تھا۔ خالدؓ نے دمشق کا رُخ کر لیا۔ یہ ان کا ایک اور دلیرانہ اقدام تھا۔ دمشق پر مسلمانوں کا قبضہ رہا تھا لیکن رومیوں کے اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر مسلمانوں نے دمشق سے قبضہ اٹھا لیا تھا۔
’’خدا کی قسم!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’دمشق کے دروازے اب بھی ہمارے لیے کھل جائیں گے۔‘‘
توقع نہیں تھی کہ ایسا ہوگا۔ ہوہی نہیں سکتا تھا کہ مسلمانوں کے چلے جانے کے بعد بھی رومیوں نے اس اہم شہر پر اپنا تسلط نہ جمایا ہو۔
خالدؓ کی قیادت میں جب مسلمان سواروں کا دستہ دمشق پہنچا تو دیوار کے اوپر سے کسی نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟
’’کیا تم نے نہیں پہچانا کہ یہ تمہارے حاکم تھے لیکن حکومت تمہاری تھی؟‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کیا تم نہ کہتے تھے کہ رومیوں سے مسلمان اچھے ہیں … خدا کی قسم! … ہم رومیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر آئے ہیں۔‘‘
’’مسلمان آگئے ہیں۔‘‘ … یہ ایک نعرہ تھا جو دیوار کے اوپر بلند ہوا۔ پھر یہ نعرہ سارے شہر میں پھیل گیا۔
شہر کا بڑا دروازہ کھل گیا اور شہریوں کا ایک بڑا ریلا باہر نکلا۔ لوگوں نے بازو پھیلا کر مسلمانوں کا استقبال کیا اور خوشی سے ناچتے ہوئے خالدؓ اور ان کے سوار دستے کو شہر میں لے گئے، یہ اس اچھے سلوک اور برتاؤ کا اثر تھا جو مسلمانوں نے اہلِ دمشق سے کیا تھا۔ مسلمانوں نے تو کردار کی بلندی کا یہ مظاہرہ کیا تھا کہ دمشق سے رخصت ہونے سے پہلے شہریوں سے وصول کیا ہوا جزیہ واپس کر دیا تھا۔
 خالدؓ دمشق میں نہیں رُک سکتے تھے۔ انہیں یرموک پہنچنا تھا اور فتح کے بعد کے امور اور انتظامات دیکھنے تھے وہ اسی وقت روانہ ہو گئے۔
…………bnb…………

شام سے رومی سلطنت کا بوریا بستر گول ہو گیا۔ چند دنوں بعد شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ سے رخصت ہوا۔ اس کا ٹھکانہ اب قسطنطنیہ تھا۔ دو مؤرخوں بلاذری اور طبری نے لکھا ہے کہ شہنشاہِ ہرقل جب انطاکیہ سے روانہ ہو اتو اس نے کچھ دور جا کر رُک کر اور پیچھے مڑ کر دیکھا:
’’اے ارضِِ شام!‘‘ … اس نے آہ لے کر بوجھل سی آواز میں کہا۔ … ’’اس بد نصیب کا آخری سلام قبول کر جو تجھ سے جدا ہو رہا ہے۔ اب رومی ادھر آئے بھی تو ان پر تیرا خوف سوار ہوگا … کتنا خوبصورت ملک دشمن کو دیئے جا رہا ہوں۔‘‘
جنگِ یرموک پر ہر دور کے مبصر نے کچھ نہ کچھ لکھا ہے ۔اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ جنگ خالدؓ کی عقل سے جیتی گئی تھی اور یہ کامیابی کارگر چالوں سے حاصل کی گئی تھی۔
اس جنگ میں چار ہزار مومنین شہید ہوئے تھے اور زخمی تقریباً سبھی ہوئے تھے خود خالدؓ بھی زخمی تھے۔ رومیوں کی اموات ایک لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہیں۔لیکن مؤرخوں کی اکثریت ستر ہزار پر متفق ہے۔
سلطنتِ اسلامیہ شام تک پھیل گئی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages