Featured Post

Khalid001

20 April 2020

Khalid134


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  134
اس روز ایک اور واقعہ ہو گیا۔ خالدؓ پریشانی کے عالم میں کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ جنگ کے متعلق تو ان کے چہرے پر اضطراب اور ہیجان رہتا تھا لیکن ایسی پریشانی ان کے چہرے پر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہو۔ ان سے پریشانی کا باعث پوچھا گیا۔
’’میری ٹوپی!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ سرخ ٹوپی میری کہیں گر پڑی ہے۔ اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘
یہ دن کا واقعہ ہے جب خالدؓ اپںے سوار دستے کو لڑا رہے تھے۔ معرکے میں کچھ دیر کا تعطل پیدا ہو گیا تھا۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے کہ دشمن سیاہ گھٹاؤں کی طرح چڑھا آ رہا ہے اور فتح کی کوئی امید نہیں اور خالدؓ جیسا ذمہ دار سالار معمولی سی ٹوپی کے لیے پریشان ہو رہا ہے۔ خالدؓ نے سب سے کہا کہ ان ٹوپی تلاش کریں۔
تلاشِ بسیارکے بعد ان کی سرخ ٹوپی مل گئی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ کے چہرے پر رونق اور ہونٹوں پر تبسم آگیا۔
’’ابن الولید!‘‘ … کسی سالار نے پوچھا۔ … ’’کیا تجھے ان کا غم نہیں جو ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئے ہیں؟ تو ایک ٹوپی کیلئے اتنا پریشان ہو گیا تھا۔‘‘
’’اس ٹوپی کی قدروقیمت صرف میں جانتا ہوں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’حجۃالوداع کیلئے رسولِ اکرمﷺ نے سر کے بال منڈھوائے تو میں نے کچھ بال اٹھا لئے، … رسول اﷲﷺ نے پوچھا کہ ان بالوں کو کیا کرو گے؟ … میں نے کہا کہ اپنے پاس رکھوں گا ۔کفار کے خلاف لڑتے وقت یہ بال میرا حوصلہ مضبوط رکھیں گے۔ … رسول اﷲﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ … یہ بال تیرے پاس رہیں گے اور میری دعائیں بھی تیرے ساتھ رہیں گی۔ … اﷲ تجھے ہر میدان میں فتح عطا کرے گا۔ … میں نے یہ بال اپنی اس ٹوپی میں سی لیے تھے۔ میں اس ٹوپی سے جدا نہیں ہو سکتا۔‘‘
خالدؓ کو ٹوپی مل جانے کی تو بہت خوشی ہوئی تھی لیکن وہ رات ان کیلئے شبِ غم تھی۔ وہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ان کے ایک زانو پر سالار عکرمہؓ کا سر تھا اور دوسری زانو پر عکرمہؓ کے نوجوان بیٹے عمرو کا سر رکھا ہوا تھا (واﷲ یہ قسط تیار کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسووں کی قطاریں جاری ہیں ۔ یہی وہ عظیم صحابہ کرامؓ ہیں جن کے بارے کچھ بد باطن کہتے ہیں کہ کہ وہ سب منافق تھے اور مرتد ہوگئے تھے۔کوئی ان ایسے بد باطنوں کو آئینہ دکھائے تو فوراً اسے فرقہ پرست،وہابی اور تکفیری کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ … لاکھوں سلام صحابہ کرامؓ پر … ہمارا سب کچھ آپؓ کی ناموس پر قربان۔)
دونوں باپ بیٹا اس روز کی لڑائی میں اتنے زیادہ زخمی ہو گئے تھے کہ ہوش میں نہیں آرہے تھے۔ جسموں سے خون نکل گیا تھا۔ زخم ایسے تھے کہ ان کی مرہم پٹی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس روز باپ بیٹا قسم کھاکر لڑے تھے کہ مر جائیں گے مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
عکرمہؓ خالدؓکے بھتیجے بھی تھے اور دوست بھی۔ ان کا بڑا پرانا ساتھ تھا۔ دونوں مانے ہوئے شہسوار اور شمشیر زن تھے۔ خالدؓ کو اپنے اتنے عزیز ساتھی کے بچھڑ جانے کا بہت دکھ تھا۔ عکرمہؓ کا نوجوان بیٹا بھی دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔ خالدؓ نے پانی اپنے ساتھ رکھا ہو اتھا۔ وہ پانی میں اپنا ہاتھ ڈبوتے اور انگلیاں جوڑ کر کبھی عکرمہؓ کے نیم وا ہونٹوں پر رکھتے کبھی ان کے بیٹے عمرو کے ہونٹوں پر۔ مگر قطرہ قطرہ پانی جو باپ بیٹے کے منہ میں جا رہا تھا وہ آبِ حیات نہیں تھا۔ اﷲ نے اس عظیم باپ اور اس کے بیٹے کو فرائض سے سبکدوش کر دیا تھا۔
اِس طرح عکرمہؓ نے اور اس کے فوراً بعد ان کے بیٹے نے خالدؓ کی گود میں سر رکھے جانِ جان آفرین کے سپرد کر دی۔ خالدؓ کے آنسو نکل آئے۔ … عکرمہؓ اور ان کے بیٹے کی شہادت معمولی قربانی نہیں تھی۔
وہ رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔جیسے لمحے لمحے ڈر ڈر کر کانپ کانپ کر گزار رہی ہو۔ زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔کئی شہیدوں کی بیویاں وہیں تھیں لیکن کسی عورت کے رونے کی آوازنہیں آتی تھی (یہی فرق ہے اسلام اور کفر کے درمیان۔) فضاء خون کی بو سے بوجھل تھی۔ دن کو اڑی ہوئی گرد زمین پر واپس آرہی تھی۔
شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر انہیں دفن کیا جا رہا تھا۔ ابو عبیدہؓ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو کسی ایک سالار کو مقرر کرتے تھے کہ وہ تمام خیمہ گاہ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرہ داروں کو دیکھے پھر مجاہدین کو جا کر دیکھے جنہیں دشمن کی خیمہ گاہ پر نظر رکھنے کیلئے آگے بھیجاجاتا تھا۔ اس رات ابو عبیدہؓ نے اس خیال سے کسی سالار کو اس کام کیلئے نہ کہا کہ سب دن بھر کے تھکے ہوئے ہیں۔ وہ خود اس کام کیلئے چل پڑے۔ لیکن وہ جدھر بھی گئے انہیں کوئی نہ کوئی سالار گشت پر نظر آیا (سبحان اﷲ)۔ سالار زبیرؓ تو اپنی بیوی کو ساتھ لے کر گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کی بیوی بھی دن کو لڑی تھیں۔
…………bnb…………

یہ رات بھی گزر گئی۔ جنگِ یرموک کی پانچویں صبح طلوع ہوئی۔ خالدؓ نے فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی سالاروں کو بلا لیا تھا۔
’’میرے رفیقو!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’آج کا دن کل سے زیادہ خطرناک ہو گا ۔اپنی تعدا ددیکھ لو۔ ہم تھوڑے رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں ان کی حالت بھی تمہارے سامنے ہے۔ آج زخمی بھی لڑیں گے۔ دشمن کا بھی بہت نقصان ہو چکا ہے لیکن اس کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ اتنے زیادہ نقصان کو برداشت کر سکتا ہے۔ تم نے دشمن کے لڑنے کا انداز دیکھ لیا ہے صرف یہ خیال رکھو کہ مرکزیت قائم رہے۔ اب ہم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘
خالدؓ نے سالاروں کو کچھ ہدایات دیں اور رخصت کر دیا۔ معاً بعد مسلمان دستے اپنی پوزیشنوں پر چلے گئے ۔ ان کی کیفیت یہ تھی کہ ہر دستے میں جسمانی لحاظ سے جتنے بالکل ٹھیک افراد تھے اتنے ہی زخمی بھی تھے۔ زخمیوں میں زیادہ تر ایسے تھے جو کسی حد تک لڑنے کے قابل تھے لیکن ایسے بھی تھے جو لڑنے کے قابل نہیں تھے مگر وہ اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ عورتیں آج بھی لڑنے کیلئے تیار تھیں۔
مسلمانوں کی یہ دگرگوں کیفیت دشمن سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اس نے اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہا تھا۔ مسلمان سالار رومیوں کے محاذ کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں توقع تھی کہ آج رومی زیادہ نفری کے دستوں سے حملہ شروع کر دیں گے۔ مسلمان سالاروں کو یہ خطرہ بھی نظر آرہاتھا کہ رومی اپنے سارے لشکر سے حملہ کردیں گے۔
صبح سفید ہو چکی تھی لیکن رومی آگے نہ آئے، پھر سورج نکل آیا لیکن رومی آگے نہ آئے۔
رومیوں کا یہ سکوت خطرناک لگتا تھا۔ یہ طوفان سے پہلے کی پہلے کی خاموشی معلوم ہوتی تھی۔ خالدؓ کو خیال گزرا کہ رومی مسلمانوں کو حملے میں پہل کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ خالدؓ پہل نہیں کرناچاہتے تھے وہ کچھ وقت اور دفاع کو ہی بہتر سمجھتے تھے۔
آخر رومیوں کی طرف سے ایک سوار آتا دکھائی دیا۔ رومیوں کے لشکر نے کوئی حرکت نہ کی سوار مسلمان دستوں کے سامنے آکر رک گیا۔ وہ کوئی عیسائی عرب تھا۔ عربی روانی سے بولتا تھا۔
’’میں اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کا ایلچی ہوں۔‘‘ … اس نے اعلان کرنے کے انداز سے کہا۔ … ’’تمہارے سالارِاعلیٰ سے ملنے آیا ہوں۔‘‘
سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے۔ یہ تو انہوں نے اپنے طور پر خالدؓ کو سالارِ اعلیٰ کے اختیارات دے رکھے تھے۔ ذمہ داری بہرحال ابو عبیدہؓ کی تھی اور اہم فیصلے انہوں نے ہی کرنے تھے۔ وہ آگے چلے گئے۔ خالدؓ وہاں سے ذرا دور تھے۔ ان کے کان کھڑے ہوئے اور وہ ان کی طرف چل پڑے۔
’’کہو روم کے ایلچی!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔ … ’’کیا پیغام لائے ہو؟‘‘
’’سالارِ اعلیٰ ماہان نے کہا ہے کہ چند دنوں کیلئے لڑائی روک دی جائے۔‘‘ … ایلچی نے کہا۔ … ’’کیا آپ رضامند ہوں گے؟‘‘
’’لیکن تمہارے سالارِ اعلیٰ نے کوئی وجہ نہیں بتائی؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔
’’یہ عارضی صلح ہوگی۔‘‘ … ایلچی نے کہا۔ … ’’اس دوران یہ فیصلہ ہو گا کہ مستقل صلح کیلئے بات چیت ہو گی یا نہیں۔‘‘
’’ہم عارضی صلح پر رضامند ہو جائیں گے۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’لیکن بات چیت کا فیصلہ کون کرے گا؟‘‘
’’کیا آپ لڑائی روکنے پر راضی ہیں؟‘‘ … ایلچی نے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’لیکن…‘‘
’’نہیں!‘‘ … ایک گرجدار آواز سنائی دی۔
دونوں نے دیکھا۔ یہ خالدؓ کی آواز تھی۔ انہوں نے ابو عبیدہؓ کی صرف ہاں سنی تھی۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’ان کے سالار نے عارضی صلح کیلئے کہا ہے۔‘‘
’’امین الامت!‘‘ … خالدؓنے ابو عبیدہؓ کے کان میں کہا۔ … ’’یہ حملے کی تیاری کیلئے مہلت چاہتے ہیں۔ ان کا اتنا نقصان ہو چکا ہے کہ فوری طور پر حملہ نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے اجازت دے کہ اس ایلچی کو کورا جواب دے سکوں۔‘‘
’’اے سلطنتِ روم کے ایلچی!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے ایلچی سے کہا۔ … ’’صلح سمجھوتے کا وقت گزر گیا ہے۔ اپنے اتنے زیادہ آدمی مروا کر میں یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ میں اپنے اتنے زیادہ مجاہدین کا خون ضائع کر آیا ہوں۔ … لڑائی جاری رہے گی۔‘‘
ابو عبیدہؓ نے گھوڑا موڑا اور خالدؓ کے ساتھ اپنے محاذ کی طرف چل پڑے۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’اپنے مجاہدین کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ انہیں آرام مل جائے اور کچھ زخمی ٹھیک ہو جائیں کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ…‘‘
’’سب دیکھ رہا ہوں ابن الجراح!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’لیکن حالت ہمارے دشمن کی بھی ٹھیک نہیں۔ ورنہ صلح کا دھوکا نہ دیتا۔ رومیوں کے ساتھ بہت سے قبیلے تھے۔ رومی سالاروں نے انہی کو سب سے پہلے مروایا ہے اور اپنی باقاعدہ فوج کو وہ بہت کم استعمال کر رہے ہیں۔ یہ قبیلے باغی ہو گئے ہوں گے یا ان کا دم خم ٹوٹ چکا ہو گا۔ ہم انہیں سنبھلنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘
’’کیا تو ان پر حملے کی سوچ رہا ہے؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔
’’کیا تو سوچنے کے قابل نہیں رہا امین الامت!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’آمل کر سوچیں گے۔‘‘
…………bnb…………

خالدؓ نے جو سوچا وہ بڑا ہی پر خطر اور دلیرانہ اقدام تھا۔
وہ دن جو جنگ کاپانچواں دن تھا۔ بغیر لڑائی کے گزر گیا۔ دستوں کو ایک دن کا آرام تو مل گیا تھا لیکن سالاروں نے آرام نہ کیا۔ خالدؓ نے سالاروں کو اپنے ساتھ مصروف رکھا۔ انہوں نے آٹھ ہزار گھوڑ سوار الگ کرکے ایک دستہ بنا لیا۔ سالاروں کو اپنا نیا منصوبہ سمجھایا۔ انہوں نے یہ منصوبہ جن پیادوں اور سواروں کیلئے بنایا تھا ان میں آدھی تعداد زخمی تھی۔ ایسا خطرہ خالدؓ ہی مول لے سکتے تھے۔
چھٹے دن کی صبح طلوع ہوئی، رومی لشکر آگے آگیا، مسلمان میدان میں نئی ترتیب سے موجود تھے۔ رومی سالار گریگری گھوڑے پر سوار آگے بڑھا۔ گریگری ان دستوں کا سالار تھا جن کے دس دس سپاہی ایک ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے ۔ گریگری نے دونوں فوجوں کے درمیان گھوڑا روکا۔
’’کیا تمہارے سالارِ اعلیٰ میں ہمت ہے کہ میرے مقابلے میں آئے؟‘‘ … گریگری نے للکار کر کہا۔ ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گریگری کی طرف گئے۔
’’رُک جا ابن الجراح!‘‘ … خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کو پکارا اور گھوڑا دوڑا کران کے قریب چلے گئے۔ کہنے لگے۔ … ’’تو آگے نہیں جائے گا۔ مجھے جانے دے۔‘‘
’’آہ ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’وہ مجھے للکار رہا ہے۔‘‘
’’امین الامت کو روک لو۔‘‘ … متعدد سالاروں نے شور مچایا۔ … ’’ابن الولید کو جانے دو۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ گریگری کو مسلمان سالار ماہر تیغ زن سمجھتے تھے۔ تیغ زنی میں ابو عبیدہؓ بھی کم نہ تھے پھر بھی سب خالدؓ کو گریگری کی ٹکر کا آدمی سمجھتے تھے لیکن ابو عبیدہؓ نے کسی کی نہ سنی اور گریگری کے مقابلے کیلئے چلے گئے۔
گریگری نے ابو عبیدہؓ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ا س نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس طرح ایک طرف لے گیا جیسے وہ پہلو کی طرف سے آکر تلوار کا وار کرنا چاہتا ہو۔ ابوعبیدہؓ نے گھوڑا روک لیا اور گریگری کو کنکھیوں دیکھتے رہے۔ گریگری نے اپنے ہی انداز سے گھوڑا گھما کر اور دوڑا کر ابو عبیدہؓ پر وار کیا۔ وار ایسا تھا جو لگتا تھا کہ روکا نہیں جا سکے گا۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے وار روک کر گھوڑے کو گھمایا اور بڑی پھرتی سے وار کیا۔ گریگری نے وار روک لیا۔
اس کے بعد تلواریں ٹکراتی اور گھوڑے اپنے سواروں کے پینتروں کے مطابق گھومتے ، مڑتے دوڑتے اور رُکتے رہے۔ دونوں سالار شمشیر زنی کے استاد معلوم ہوتے تھے۔ دونوں کے وار بڑے ہی تیز تھے اور ہر وارلگتا تھا کہ حریف کو کاٹ دے گا۔ دونوں فوجیں اپنے اپنے سالار کو چلّا چلّا کر داد دے رہی تھیں۔ کبھی دونوں فوجیں یوں دم بخود رہ جاتیں جیسے وہاں کوئی انسان موجود ہی نہ ہو۔
گریگری نے ایک وار کیا جو ابو عبیدہؓ نے روک لیا۔ ابو عبیدہؓ وار کرنے لگے تو گریگری نے گھوڑا دوڑا دیا اور ابو عبیدہؓ کے اردگرد گھومنے لگا۔ ابو عبیدہؓ وار کرنے بڑھتے تو وہ رُک کر وار روکنے کے بجائے گھوڑے کو پرے کر لیتا۔ ابو عبیدہؓ نے وار کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ وار سے بھاگ رہا تھا۔ ایسے نظر آتا تھا جیسے وہ مقابلے سے منہ موڑرہا ہو۔ ابوعبیدہؓ اس کے پیچھے ہو گئے۔
آخر اس نے گھوڑے کا رخ اپنے لشکر کی طرف کر دیا۔ ابو عبیدہؓ ا س کے پیچھے پیچھے اور اس کا پیچھا کرتے رہے۔ اس نے گھوڑے کی رفتار تیز کردی۔ ابو عبیدہؓ نے بھی رفتار بڑھا دی۔ رومی لشکر پر تو خاموشی طاری ہو گئی لیکن مسلمانوں نے دادو تحسین کا شور بپا کر دیا۔ رومی سالار مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ گیاتھا۔
گریگری نے گھوڑے کو ایک طرف موڑا اور رفتار تیز کردی۔ ابو عبیدہؓ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے قریب چلے گئے۔ گریگری نے گھوڑا گھما کر ابو عبیدہؓ کے سامنے کر دیا۔ یہ اس کی چال تھی۔ وہ بھاگ نکلنے کا دھوکا دے رہا تھا۔ دھوکا یہ تھا کہ وہ اچانک گھوم کر ابو عبیدہؓ پر وار کرے گا اور انہیں وار روکنے کی مہلت نہیں ملے گی۔
مؤرخ طبری اور بلاذری نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہؓ چوکنے تھے اور گریگری کے دھوکے کو سمجھ گئے تھے ۔گریگری فوراً گھوڑا پیچھے کو موڑ کر وار کرنے لگاتو ابوعبیدہؓ کی تلوار پہلے ہی حرکت میں آچکی تھی۔ گریگری کی گردن موزوں زاویے پر تھی۔ ابو عبیدہؓ کا وار سیدھا گردن پر پڑا۔ جس سے گردن کی ہڈیوں کا ایک جوڑ کٹ گیا اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ گریگری گھوڑے سے گر پڑا۔
مسلمانوں نے داد و تحسین کا غل غپاڑہ بپا کر دیا، دستور کے مطابق ابو عبیدہؓ کو گھوڑے سے اتر کر گریگری کی تلوار خود اور زرہ اتار لینی چاہیے تھی لیکن وہ گھوڑے سے نہ اترے ، کچھ دیر گریگری کو تڑپتا دیکھتے رہے۔ جب اس کا جسم بے حس ہو گیا تو ابو عبیدہؓ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اپنی صفوں میں آگئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages