Featured Post

Khalid001

07 May 2020

Khalid141


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  141
مسلمانوں نے اپنے جاسوس تمام علاقے میں پھیلا رکھے تھے۔ جن میں ایسے جاسوس بھی تھے جو عیسائی بن کر عیسائیوں کے ساتھ رہتے اور پادریوں کے مرید بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض شام سے نکل کر جنوبی ترکی تک چلے گئے تھے۔ یہ علاقہ سلطنت روم کا حصہ تھا۔
ایک روز ایک جاسوس نے شمالی شام کے جاسوسوں سے رپورٹیں لے کر ابوعبیدہؓ کو آخر بتایا کہ عیسائی وسیع پیمانے پر جنگی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اور ہرقل نے انہیں کمک دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے بعد دو جاسوس اور آئے جنہوں نے اسی قسم کی رپورٹیں دیں۔ ان سے بڑی خوفناک صورت سامنے آئی۔ عیسائیوں کا اجتماع بہت زیادہ تھا۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو احساس تھا کہ عیسائیوں کے خلاف ٹکر بہت خطرناک ہوگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رومی جن علاقوں سے بھاگے تھے وہ ان کے نہیں تھے۔ وہ تو بھاگ کر اپنی سلطنت میں جا پناہ گزیں ہوئے تھے۔ یہ خطے دراصل عیسائیوں کے تھے۔ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر کے انہیں کوئی معاشی معاشرتی یا مذہبی پابندی نہیں تھی لیکن وہ مسلمانوں کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ لڑائی کی صورت میں اگر انہیں شکست ہوتی تو ان کیلئے کوئی پناہ گاہ نہیں تھی۔ اس لئے انہوں نے جنگ کی تیاریاں ایسے پیمانے پر کی تھیں جو ان کی فتح کا باعث بن سکتی تھیں۔
جاسوسوں سے پوری رپورٹ لی گئی کہ لڑنے والے عیسائیوں کی تعداد کتنی ہوگی۔ ان کے ہتھیار کیسے ہوں گے اور ان کی قیادت کیسی ہوگی۔ خیال کیا جاتا تھا کہ قیادت رومی سالار کریں گے کیونکہ عیسائیوں کے پاس قیادت کیلئے کوئی سالار نہیں تھا۔ اگر کوئی تھا بھی تو وہ مسلمان سالاروں کی ٹکر کا نہیں ہو سکتا تھا۔ پھر بھی جو صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی وہ مسلمانوں کیلئے بہت بڑے خطرے کا باعث بن سکتی تھی۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے مشورہ لینے کیلئے کہا۔ … ’’شام میں ہماری حکومت نوزائیدہ ہے۔ ہمارے قدم ابھی جمے نہیں۔ اگر ہم نے کوئی خطرہ مول لیا، اور حالات ہمارے خلاف ہوگئے تو ہم پسپا ہو کر مدینہ تک زندہ بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘
’’امین الامت! … خالد نے کہا … ’’سوال ہمارے زندہ رہنے یا نہ رہنے کا نہیں۔ یہ سوچ کہ اسلام کا زوال شروع ہو جائے گا۔ تمام فوج شام میں ہے۔‘‘
’’کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم امیر المومنین کو اطلاع دے دیں۔‘‘ … ابوعبیدہؓ نے پوچھا۔ … ’’اور مدینہ سے کمک بھی مانگ لیں، ہماری تعداد رہ ہی کیا گئی ہے۔‘‘
’’امین الامت!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’مدینہ تک پیغام جاتے اور وہاں سے کمک آتے بہت وقت لگے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم ہر جگہ سے فوج ایک مقام پر اکٹھی کر لیں۔ ان جگہوں پر ہم ضرورت کے مطابق فوج رہنے دیں۔خدا کی قسم! میں عیسائیوں کو کھلے میدان میں لا کر لڑانا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ باتیں حمص میں ہو رہی تھیں ۔وہاں دوسرے سالار بھی تھے۔ ان سب کی رائے یہ تھی کہ حمص کے اندر رہیں اور عیسائیوں کو آنے دیں کہ وہ محاصرہ کر لیں۔ ابو عبیدہؓ کو اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے ان دستوں کو بھی حمص میں بلالیا جو اردگرد کے علاقوں میں تھے ۔اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہؓ نے ایک تیز رفتار قاصد کے ہاتھ خلیفۃ الرسول عمرؓ بن الخطاب کو پیغام بھیج دیا جس میں انہوں نے تفصیل سے لکھوایا کہ عیسائیوں نے ہرقل کی پشت پناہی میں کیا صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ ابو عبیدہؓ نے یہ بھی لکھوایا کہ وہ حمص میں قلعہ بند ہو کر لڑیں گے۔
۶۳۸ء کا سال شروع ہو چکا تھا۔
…………bnb…………

ڈیڑھ دو مہینے اور گزر گئے تو ایک روز عیسائیوں کا جم غفیر حمص میں آپہنچا اور شہر کا محاصرہ کرلیا۔ مسلمان اس کیلئے تیار تھے۔ انہوں نے بڑے لمبے عرصے کے خوراک اور تیروں وغیرہ کا ذخیرہ شہر میں جمع کر لیا تھا۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کو قلعہ بند دیکھا تو وہ حیران ہوئے کہ کھلے میدان میں لڑنے والی فوج قلعہ بند ہوکر لڑنے پرآگئی ہے۔ اسے عیسائیوں نے مسلمانوں کی کمزوری سمجھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو للکارنا شروع کر دیا۔
’’اہلِ اسلام! اب تمہارا مقابلہ عیسائی عربوں سے ہے۔‘‘
’’ہم رومی نہیں مسلمانوں! ہمت کرو۔ باہر آکر لڑو۔‘‘
’’قلعے کے دروازے کھول دو۔ ورنہ تم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
’’اب ہم جزیہ لیں گے۔‘‘
’’اسلام کا سورج ڈوب گیا ہے۔‘‘
’’باہر آؤ اور ہم سے رحم مانگو۔‘‘
اور ایسے بے شمار طنزیہ نعرے تھے جو عیسائی لگاتے رہے۔ مسلمانوں کی طر ف سے خاموشی تھی۔ ابوعبیدہؓ، خالدؓ اور دوسرے سالاروں نے طے کر رکھا تھا کہ وہ باہر نکل نکل کر عیسائیوں پر حملے کریں گے۔
حملوں کی نوبت ہی نہ آئی۔ محاصرے کا چوتھا یا پانچواں دن تھا۔ عیسائیوں میں ہڑبونگ سی بپا ہو گئی ۔ان پر کوئی مصیبت نازل ہو گئی تھی۔ یا ہو رہی تھی۔ مسلمان جو دیوار پر کھڑے تھے۔ وہ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ انہیں ہو اکیا ہے؟
دور افق سے گرد اٹھنے لگی۔ جو پھیلتی اوپر ہی اوپر اٹھتی گئی ۔ یہ کسی قافلے کی اڑائی ہوئی گرد نہیں تھی۔ یہ کسی فوج کی گرد معلوم ہوتی تھی۔ اگر یہ فوج تھی تو عیسائیوں کی ہی ہو سکتی تھی یا یہ رومیوں کی فوج ہو سکتی تھی۔
عیسائیوں میں جوافراتفری بپا ہوئی تھی۔ وہ زیادہ ہو گئی اور وہ لڑنے کی ترتیب میں آنے لگے۔ گرد ابھی دور تھی۔ عیسائیوں نے تو محاصرہ اٹھا ہی دیا اور وہ بڑی تیزی سے ایک سمت کو روانہ ہو گئے۔ مسلمانوں نے قلعے کی دیواروں پر نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ گرد میں سے ایک فوج آہستہ آہستہ نمودار ہونے لگی ۔یہ مسلمانوں کی فوج تھی۔ عیسائیوں کو اس کی آمد کی اطلاع پہلے ہی مل گئی تھی۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عیسائی غیر تربیت یافتہ تھے۔ وہ وہاں رکتے تو خود محاصرے میں آجاتے۔ حمص کے دروازے کھل جاتے اور اندر سے بھی مسلمانوں کی فوج باہر آجاتی۔ عیسائیوں کاانجام بہت برا ہوتا۔ انہوں نے یہ خطرہ بھی دیکھ لیا تھا کہ وہ اپنی بستیوں میں کوئی فوج نہیں چھوڑ آئے تھے۔ لڑائی کی صورت میں مسلمانوں نے انہیں شکست دے کر ان بستیوں پر ٹوٹ پڑنا تھا۔
مسلمانوں کی یہ فوج جو حمص میں محصور فوج کی مدد کو آئی تھی۔ وہ چار ہزار سوار تھے جو قعقاعؓ بن عمرو کے زیرِ کمان تھے۔ یہ سوار اس طرح آئے تھے کہ خلیفۃ الرسول عمر ؓکو ابو عبیدہؓ کا پیغام ملا تھا۔ تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ عیسائی تربیت یافتہ فوج نہیں ۔بلکہ یہ غیر منظم ہجوم ہے۔ جسے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ سنبھال لیں گے۔ لیکن کمک ضروری ہے۔ چنانچہ انہوں نے سعدؓ بن ابی وقاص کو جو عراق میں مقیم مسلمانوں کی فوج کے سپہ سالار تھے۔ حکم بھیجاکہ تین سالاروں کو عیسائیوں کے علاقے جزیرہ کی طرف بھیج دو۔
ان سالاروں میں سہیل بن عدی، عبداﷲ بن عتبہ، اور عیاض بن غنم بھی شامل تھے۔ عمرؓ نے حکم نامے میں یہ بھی لکھا تھا کہ سالار قعقاعؓ بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر ابو عبیدہؓ کی مدد کیلئے حمص بھیج دیا جائے۔
اس طرح قعقاعؓ محصور مسلمانوں کی مدد کو پہنچ گئے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ حمص عیسائیوں کے محاصرے میں ہے۔ انہیں دیکھ کر ہی عیسائی محاصرہ اٹھا کر چلے گئے۔
امیر المومنینؓ نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ عیسائی کوئی منظم فوج نہیں۔یہ عیسائیوں نے خود ہی ثابت کر دیا اور اس کے ساتھ ہی عیسائیوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کو عیسائیوں پر اعتماد نہیں کرناچاہیے اور مسلمان ارضِ شام کی فتح کو اس وقت تک مکمل نہ سمجھیں جب تک کہ وہ اندرونی خطروں کو بھی ختم نہ کرلیں۔ عیسائیوں کے اس جنگی اقدام سے واضح ہو گیا تھا کہ ہم مذہب ہونے کی وجہ سے یا مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے ان کی دلچسپیاں اور وفاداریاں رومیوں کے ساتھ ہیں۔
خلیفہؓ کے حکم کے مطابق جزیرہ کے تمام علاقے کو مسلمانوں نے اپنی عمل داری میں لے لیا۔ عیسائیوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔ اگر کہیں عیسائیوں نے مسلح مزاحمت کی تو ان کے خلاف جنگی کارروائی کی گئی۔ شمالی سرحد کو تخریب کاری سے بچانے کیلئے ابو عبیدہؓ نے سرحد پار جا کر حملے شروع کر دیئے۔ اس سے شام میں امن و امان ہو گیا۔
…………bnb…………

عمرؓ بن الخطاب نے عدل و انصاف میں شہرت پائی ہے ۔عدلِ فاروقی ضرب المثل کے طور پراستعمال ہوتا ہے۔ ان کے عدل کی لاٹھی سے سب یکساں طور پر ہانکے جاتے تھے۔ ان کی لاٹھی غربت اور امارت رنگ ونسل آقا اور غلا م کو نہیں پہچانتی تھی۔ اس دور میں خالدؓ کی ٹکر کا کون سا ایسا سالار تھا جس نے اسلام کو ارضِ شام، اردن اور فلسطین تک پھیلا دیا ہو؟ بیت المقدس کا فاتح جوکوئی بھی تھا، اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ خالدؓ نہ ہوتے تو بیت المقدس کی فتح اتنی آسان بھی نہ ہوتی۔ عمرؓ ذاتی طور پر جانتے تھے ۔قیصر و کسریٰ کے خلاف بعض فتوحات اس لئے ممکن ہو سکی تھیں کہ خالدؓ نے غیر معمولی طور پر دلیرانہ فیصلے کیے تھے۔
ابو عبیدہؓ ٹھنڈے مزاج کے سالار تھے۔ اگر خالدؓ ان کے ساتھ نہ ہوتے تو رومیوں کے خلاف اتنی تیزی سے اتنی زیادہ کامیابیاں حاصل نہ کی جا سکتیں۔
خود عمرؓ خالدؓ کے معترف تھے لیکن عمرؓ کو جب خالدؓ کے خلاف ایک ایسی بات کاپتا چلاجواسلام کی روح کی منافی تھی اور جسے عمرؓ نظر انداز بھی کرسکتے تھے ۔تو انہوں نے فوری کارروائی کاحکم دے دیا۔ عمرؓ نے سوچا تک نہیں کہ خالدؓ کی جو قدروقیمت ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ یہ چھوٹا سا الزام ہضم بھی کیا جا سکتا ہے۔
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عمرؓ بن الخطاب نے مسندِ خلافت پر بیٹھتے ہی تمام دستوں میں ایک ایک دو دو مخبر رکھ دیئے تھے۔ جو سالاروں اور دیگر عہدیداروں کی ذاتی سرگرمیوں پر نظر رکھتے تھے۔ جب شام میں امن و امان ہو گیا اور خالدؓ کو قنسرین کا حاکم بنا دیا گیا۔ عمرؓ کو مدینہ میں اطلاع ملی کہ خالدؓ نے ایک شاعر کو جس کا نام اشعث بن قیس تھا، دس ہزار درہم صرف اس لئے انعام کے طور پردیئے ہیں کہ اس نے قنسرین میں جاکر خالدؓ کی فتوحات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ایک قصیدہ پڑھا تھا۔
اشعث بن قیس بنو کندہ کا سردار تھا۔ا س نے شاعری اور مدح سرائی کو پیشہ بنا لیا تھا۔ وہ اور اس جیسے چند اور شاعر سالاروں اور حاکموں وغیرہ کے ہاں جاتے ،قصیدہ پڑھتے اورتحفے تحائف اور انعام و اکرام وصول کرتے تھے۔ اس ضمن میں اشعث قنسرین خالدؓ کے ہاں جا پہنچا۔
خالدؓامیر باپ کے بیٹے تھے انہوں نے غربت دیکھی ہی نہیں تھی۔ شہزادوں کی طرح پلے بڑھے تھے۔ یہ تو ان کی عظمت تھی کہ صحیح معنوں میں شہزادہ ہوتے ہوئے انہوں نے آدھی عمر میدانِ جنگ میں پیش قدمیوں میں زمین پر سوتے اور گھوڑے کی پیٹھ پر گزار دی تھی۔ وہ طبعاً خوش ذوق تھے، فیاض تھے، ہر حسین چیز کے دلدادہ تھے۔
انہوں نے اس شاعر کو جو انعام دیا تھا وہ اپنی جیب سے دیا تھا۔ اس وقت سالار اس سے زیادہ امیر ہوتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ دشمن کے جس سالار کو وہ ذاتی مبازرت میں شکست دیتے تھے ان کے تمام تر مال و دولت کے خود حقدار ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں مالِ غنیمت میں سے بھی حصہ ملتا تھا۔
خالدؓ نے دشمن کے بے شمار سالاروں کو ذاتی مقابلوں میں قتل کیا تھا۔ ان کے مال و اموال خالدؓ کے حصے میں آئے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ خالدؓنے اتنا مال و دولت اپنے پاس رکھا ہی نہیں تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ شام کی جنگ ختم ہوئی تو خالدؓ نے اپنے سوار دستے کے سواروں کو اپنی جیب سے نقد انعامات دیئے تھے ۔ان کے سوار دستے نے جو کارنامے کردکھائے تھے وہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ وہ اس سے بھی بڑے انعام کے حقدار تھے لیکن خلافتِ مدینہ کی نگاہ میں انعام کاتصور کچھ اور تھا، اور وہی اسلام کی روح کے عین مطابق تھا۔
…………bnb…………

عمرؓ بن خطاب نے تاریخِ اسلام کے مشہور مؤذن بلالؓ کے ہاتھ ابو عبیدہؓ کو ایک تحریری حکم نامہ بھیجا۔
’’… خالدبن ولید کو مجاہدین کی جماعت کے درمیان کھڑا کرو۔ اس کے سر سے دستار اتارو۔ دستار سے اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھو، ٹوپی بھی اس کے سر سے اتار دو۔ پھر اس سے پوچھو کہ اس نے ایک شاعر اشعث بن قیس کوانعام اپنی جیب سے دیا ہے یا مالِ غنیمت سے؟ اگر وہ اقبال کرے کہ مالِ غنیمت میں سے دیا ہے تو اسے خیانت میں پکڑو۔ اگر ا س نے اپنی جیب سے دیا ہے تو اس پر اسراف کا الزام عائد کرو۔ان میں سے جس الزام کا بھی وہ اعتراف کرتا ہے۔ اس کی پاداش میں اسے اس کے موجودہ عہدے سے معزول کردو اور اس کی جگہ تم خود کام کرو۔‘‘
یہ عربوں کا رواج تھاکہ جس پر کوئی الزام ہوتا تھا اس کے ہاتھ اسی کی پگڑی سے باندھ کر لوگوں کے سامنے پوچھا جاتا تھا کہ اس نے یہ جرم کیا ہے یا نہیں؟ ایک عام آدمی کے ساتھ یہی سلوک ہوتا تھا۔ لیکن عمرؓ نے خالدؓ جیسے عظیم اور تاریخ ساز سالار کو بھی عام آدمی کی سطح پر کھڑا کر دیا۔
مؤرخوں نے لکھاہے کہ ابو عبیدہؓ نے جب یہ حکم نامہ پڑھا تو ان پر سناٹا طاری ہوگیا۔اگر عمرؓ ابو عبیدہؓ کو تھوڑی سی بھی اجازت دے دیتے کہ وہ یہ تحقیقات اپنے طور پر کریں تو ابو عبیدہؓ خالدؓکے ساتھ یہ طریقہ اختیارنہ کرتے لیکن وہ جانتے تھے کہ عمرؓ ڈسپلن اور عدل و انصاف کے معاملے میں کس قدر سخت ہیں۔
اس وقت ابو عبیدہؓ حمص میں اور خالدؓ قنسرین میں تھے۔ابو عبیدہؓ نے قاصد کو بھیجا کہ وہ قنسرین سے خالدؓکو بلا لائیں۔
قاصدنےجب خالدؓ کو پیغام دیا، تو خالدؓ اچھل کر اٹھے۔
’’خداکی قسم!‘‘ … خالدؓ نے نعرہ لگانے کے انداز میں کہا۔ … ’’مجھے ایک اور جنگ لڑنے کیلئے بلایا گیا ہے۔‘‘
خالدؓاس خوشی کو دل میں بسائے حمص پہنچے کہ رومیوں یا بازنطینیوں کے خلاف کوئی بڑی جنگ لڑی جانے والی ہے۔ لیکن وہ جب ابو عبیدہؓ کے سامنے گئے تو ابو عبیدہؓ کے چہرے پر اداسی کے آثار دیکھے۔
’’امین الامت!‘‘ … خالدؓ نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ … ’’کیا وہ غلط ہے جو میں سمجھ کر آیا ہوں؟‘‘
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے غم سے بوجھل آواز میں خالدؓ سے کہا۔ … ’’امیرالمومنین نے تجھ پر الزام عائد کیاہے کہ تو نے دس ہزار درہم اشعث کو دیئے ہیں۔ وہ اگر مالِ غنیمت سے دیئے ہیں تو یہ خیانت کاجرم ہے اور اگر اپنی جیب سے دیئے ہیں تو یہ فضول خرچی ہے ۔جو اسلام کی نگاہ میں ناجائز ہے۔ بلال یہی جواب لینے آیا ہے۔‘‘
خالدؓ کا ردِ عمل یہ تھا کہ ان پر خاموشی طاری ہو گئی۔ ابو عبیدہؓ نے ایک بار پھر پوچھا۔ لیکن خالدؓ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ دراصل ابو عبیدہؓ چاہتے تھے کہ خالدؓ کچھ نہ کچھ ضرور کہیں تاکہ وہ طریقہ اختیار نہ کرنا پڑے جو امیرالمومنینؓ نےاختیار کرنے کو لکھا تھا۔ خالدؓ پر ایسااثرہوا کہ انہوں نے بلالؓ کی طرف دیکھا بھی نہیں۔
آخر ابو عبیدہؓ نے بلالؓ کی طرف دیکھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بلالؓ عربوں کے رواج کے مطابق خالدؓ سے بیان لیں۔ بلالؓ پورا حکم لے کر آئے تھے۔ انہوں نے کارروائی مکمل کرکے جانا تھا۔ خالدؓ نے تھوڑی سی مہلت مانگی جو انہیں دے دی گئی۔ یہ مہلت تو انہیں ملنی ہی تھی۔ کیونکہ دستور کے مطابق تمام فوج کو اکٹھا کرنا تھا۔ جس کے سامنے خالدؓ سے اعترافِ جرم کرانا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages