Featured Post

Khalid001

07 May 2020

Khalid140


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  140
معرکہ ختم ہو ا تو حاضر کے لوگ جو سب کے سب عیسائی تھے۔ باہر نکل آئے اور خالدؓ سے ملے۔
’’آپ کے خلاف جو لڑے ہیں وہ اپنے انجام کوپہنچ گئے ہیں۔‘‘ … ایک عیسائی بزرگ نے شہریوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا۔ … ’’ہم بھی عیسائی ہیں لیکن ہم آپ سے لڑنے کاارادہ نہ پہلے رکھتے تھے نہ اب ایسا کچھ ارادہ ہے ۔ہم آپ کی اطاعت قبول کرتے ہیں۔‘‘
’’جس نے ہم سے لڑے بغیر اطاعت قبول کرلی وہ ہماری پناہ میں آگیا۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’نہ تم پر جزیہ واجب ہے نہ ہم تمہیں اسلام قبول کرلینے کوکہتے ہیں۔ تمہاری عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی۔‘‘
ابھی ابو عبیدہؓ کے دستے نہیں پہنچے تھے۔ انہیں محاصرے کیلئے جانا تھا۔ اس لئے انہیں کوئی جلدی نہیں تھی ۔انہوں نے ایک پڑاؤ بھی کیا تھا۔ خالدؓنے وہاں انتظار نہ کیا کیونکہ انہیں قنسرین کو محاصرے میں لینا تھا۔ یہ جگہ وہاں سے زیادہ دورنہیں تھی۔
قنسرین کے اندر رومیوں کی کچھ فوج موجود تھی۔ خالدؓ نے محاصرہ کیا تو رومیوں نے شہر کی دیوار پر آکر تیر اندازی شروع کردی۔ خالدؓ کو اندازہ تھا کہ اندر فوج اتنی زیادہ نہیں ہوگی اگر ہوتی بھی تو خالد ؓہمت نہ ہارتے۔انہوں نے اپنے ایک ایلچی کو یہ پیغام دے کر قلعے کے دروازے پر بھیجا۔
’’اے رومیوں! تم اگر آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں میں ہوتے تو بھی ہمارا اﷲ ہمیں تم تک یا تمہیں ہم تک پہنچادیتا ۔ ہم تمہیں موقع دیتے ہیں کہ بہت برے انجام تک پہنچنے سے پہلے قلعے کے دروازے کھول دو۔ اگر دروازے ہم نے کھولے تو پھر صلح کی شرطیں تمہاری کمر توڑ دیں گی۔ تمہارا سالارحاضر کے باہر مرا پڑا ہے اور جوفوج وہ اپنے ساتھ لے گیا تھااس کاکوئی ایک بھی سپاہی زندہ نہیں۔ہم نے تمہیں بہت برے انجام سے آگاہ کر دیا ہے۔‘‘
اس پیغام کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ قلعے کے دروازے کھل گئے۔ مسلمان فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوئے۔ … جزیہ کی رقم اور دیگر شرائط طے ہوئیں۔ جن میں حسبِ معمول ایک شرط یہ بھی تھی کہ قنسرین شہر اور اس کے شہریوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور جو شہری شہر چھوڑ کرجانا چاہتا ہو وہ اپنے خاندان کےافراد اور اپنے مال و اموال کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے۔
جب خالدؓ قنسرین کوپوری طرح لے چکے تھے۔ اس وقت ابو عبیدہؓ پہنچے۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓکوگلے لگاتے ہوئے کہا۔ … ’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو! میں حاضر کے باہر رومیوں کی لاشیں دیکھ آیا ہوں۔‘‘
ابو عبیدہؓ نے اسی روز مدینہ خلیفۃ المسلمین ؓکو پیغام بھیجا جس میں انہوں نے خالدؓ کی اتنی بڑی کامیابی کی تفصیلات لکھیں۔ یہ کامیابی اس لحاظ سے بہت بڑی تھی کہ سلطنتِ روم کے تابوت میں ایک اور کیل گاڑھ دی گئی تھی۔
تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب نے پیغام پڑھ کر کہا تھا۔’’ اﷲ نے خالد کو سپاہ گری اور سالاری پیدائش کے ساتھ ہی عطا فرمائی تھی۔ ابوبکر پر اﷲکی رحمت ہو!وہ مجھ سے بہتر مردم شناس تھے۔‘‘
…………bnb…………

قنسرین سے آگے حلب ایک اور مشہور شہر تھا۔ جہاں رومیوں کی خاصی بڑی تعداد قلعہ بند تھی۔ رومی سالار جو وہاں کا قلعہ دار تھا۔ اس کا نام یوقنّہ تھا۔ یہ بھی تجربہ کار سالار تھا۔ جس نے بے شمار لڑائیاں لڑی تھیں اورہر لڑائی میں فتح حاصل کی تھی۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ حلب کی طرف پیش قدمی کررہے تھے ۔رومی سالار یوقنّہ کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر آرہاہے۔
رومی سالاروں نے کچھ عرصے سے یہ سلسلہ شروع کردیا تھا کہ وہ جب سنتے تھے کہ مسلمانوں کالشکر آرہا ہے۔ وہ اپنے دستوں کو اکٹھا کرکے جوشیلی تقریر کرتے اور قلعے سے باہر آکر لڑتے تھے، یہ ایک دلیرانہ اقدام تھا۔ وہ شاید یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں سے نہیں ڈرتے۔ یوقنّہ نے بھی یہی کیا۔ وہ حلب سے اپنے دستے نکال کر قلعے سے چھ میل دور آگیا۔
مسلمانوں کی فوج کے ہراول میں اب بھی خالدؓ اپنے سواروں کے ساتھ تھے۔ یوقنّہ نے اپنے ساتھی سالارمنیاس کی طرح مسلمانوں کے ہراول سے ٹکر لینے کا طریقہ اختیار کیا۔ یوقنّہ کو یقین تھا کہ وہ مسلمانوں کو قلعے سے دور ہی دور ختم کردے گا۔ اسے بھی منیاس کی طرح توقع ہوگی کہ آمنے سامنے آکر مسلمان رُک جائیں گے، اور جنگی ترتیب میں آکر لڑیں گے۔
اب بھی خالدؓ نے ویسے ہی کیا، کہ اطلاع ملتے ہی کہ آگے رومی لشکر آرہا ہے۔ اپنے دستے کو جنگی ترتیب میں کرلیا ۔رومیوں کو دیکھ کر خالدؓنے اپنے دستوں کو روکا نہیں۔ انہیں تین حصوں میں تقسیم کرکے پہلوؤں سے حملہ کردیا، سوار اس طرح گھوم پھرکر لڑے کہ رومی میدان میں اکٹھے ہوگئے،خالدؓنے سامنے سے بھی حملہ کردیا۔
خالدؓ کایہ جارحانہ انداز یوقنّہ کیلئے غیر متوقع تھا۔ اس نے جو سوچا تھا اس کے اُلٹ ہوااور اس کے دستوں کے قدم اکھڑ گئے۔ اس معرکے میں بھی رومیوں کی تعدادمسلمانوں کی نسبت زیادہ تھی۔
یوقنّہ کے دستے حوصلہ ہار بیٹھے۔ اس نے پسپائی اختیار کی اور قلعے میں چلا گیا۔ یہ قلعہ پہاڑی کے اوپر تھا، اس لئے اسے سر کرنا بہت مشکل تھا۔ مسلمانوں نے قلعے کامحاصرہ کرلیا۔ یوقنّہ نے متعدد بار اپنے دستوں کو باہر نکال کر مسلمانوں پر حملے کروائے لیکن جانی نقصان کے سوا اسے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔
یوقنّہ کو امید تھی کہ شہنشاہ ہرقل کمک اور رسدبھیجے گا۔ اسے شاید معلوم نہ تھا کہ تمام تر شام میں مسلمان پھیل گئے ہیں اور اب اسے کہیں سے بھی کمک نہیں مل سکتی۔ اس نے دستوں کو باہر نکال کر حملوں کا سلسلہ روک دیا اور قلعے میں دبک کر بیٹھ گیا۔ مسلمان کسی نہ کسی طرح قلعے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
چار مہینے محاصرے میں گزر گئے۔ قلعے کے اندر رومی ایسے پریشان اور خوفزدہ ہوئے کہ یوقنّہ نے ایک روز اپناایلچی باہر اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر تیار ہے۔ یوقنّہ کو امید نہیں تھی کہ خالد اس کی شرط کو تسلیم کرلیں گے۔ اس کی شرط یہ تھی کہ اسے اور اس کی فوج کوقلعے سے چلے جانے دیا جائے۔
اس کے ایلچی نے جب واپس جاکراسے بتایا کہ مسلمانوں نے اس کی شرط مان لی ہے تووہ حیران رہ گیا۔
’’نہیں!‘‘ … اس نے کہا۔ … ’’ایسانہیں ہو سکتاکہ فاتح اس فوج کو بخش دے جس نے اس کے آگے ہتھیار ڈالے ہوں … میں جانتاہوں کیا ہو گا … جب نہتے سپاہی باہر نکلیں گے تو مسلمان انہیں قتل کردیں گے۔‘‘
آخر وہ وقت آیا جب یوقنّہ کے دستے بغیر ہتھیاروں کے باہر نکلے اور مسلمانوں کی فوج کے درمیان سے گزر گئے۔یوقنّہ کو سب سے پہلے نکلنا چاہیے تھالیکن وہ آخر میں بھی باہر نہ نکلا۔ خالدؓ قلعے میں گئے تو یوقنّہ نے ان کا استقبال کیا۔
’’اے رومی سالار!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’تو جاسکتا ہے۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … یوقنّہ نے کہا۔ … ’’میں نہیں جاؤں گا، اگر میں تمہارے ساتھ رہناچاہوں تو مجھے کیا شرط پوری کرنی پڑے گی؟‘‘
’’اسلام قبول کرلے!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’پھر تیری حیثیت یہی رہے گی جو اب ہے۔‘‘
’’بے شک یہی میری خواہش تھی۔‘‘ … یوقنّہ نے کہا۔
اس نے خالدؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا، اور اگلے ہی معرکے میں اس نے ثابت کردیا کہ وہ اسلام کاوفادار سالار ہے۔
…………bnb…………

انطاکیہ شام کا ایک بڑا شہر تھا۔ اس کی اہمیت یہ تھی کہ شہنشاہ ہرقل نے اسے اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا تھا۔ یہیں سے وہ احکام کمک اور رسد وغیرہ اپنی فوج کو بھجواتا تھا۔ ہرقل اب وہاں نہیں تھا۔ وہ شام کی سرحد سے جا چکا تھااور غالباً قسطنطنیہ میں تھا۔ لیکن انطاکیہ میں رومی فوج اور ہیڈ کوارٹر موجود تھا۔وہاں سے رومیوں کو نکالنا لازمی تھا۔جس سے شام کی فتح مکمل ہو جاتی۔
ابوعبیدہؓ نے انطاکیہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دے دیا۔حسبِ معمول خالدؓ اپنے گھوڑ سوار دستے کے ساتھ ہراول میں جا رہے تھے۔
انطاکیہ چونکہ رومیوں کا آخری بڑا قلعہ اور اہم مقام رہ گیا تھا اور وہ رومی فوج کا مرکز بھی تھا۔ اس لیے توقع تھی کہ وہاں یرموک جیسا خونریز معرکہ ہوگا۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ نے اپنے مجاہدین کو آگاہ کر دیا تھا کہ آگے کیا خطرہ ہے۔ سب سے بڑا خطرہ تو یہ تھا کہ مجاہدین کی اس فوج کو مدینہ سے نکلے چار سال ہو چکے تھے اور وہ مسلسل لڑ رہے تھے، جہاں تک جسموں کا تعلق تھا وہ ختم ہو چکے تھے ۔اب تو یہ روح کی قوت تھی جو انہیں انسانی سطح سے بہت اوپر لے گئی تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو اﷲکے سپرد کر دیا تھا۔
انہیں آرام نہیں ملتا تھا۔ دن تلواروں کی جھنکار، تیروں کے زناٹوں ،برچھیوں کے وار روکنے اور وار کرنے میں گزر جاتا تھا اور راتیں اپنے زخمی ساتھیوں کی کربناک آوازوں میں گزرتی تھیں۔ وہ باطل کی ایک چٹان کو توڑتے تو ایک اور چٹان سامنے آکھڑی ہوتی تھی۔
وہ آخر گوشت پوست کے انسان تھے اور یہ گوشت پوست تھکن سے ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ دشمن ان کی اس جسمانی کیفیت سے آگاہ تھا، اور یہی ایک خطر ہ تھا جو سالار محسوس کر رہے تھے۔ انطاکیہ کا دفاع بہت مضبوط تھا۔ جاسوسوں کی لائی ہوئی اطلاعیں سالاروں کو پریشان کر رہی تھیں مگر رکنااور انتظارکرنا بھی خطرناک تھا۔ رومیوں کی کمک آنے سے پہلے انطاکیہ پر قبضہ کرنا ضروری تھا۔
مجاہدین کو قرآن کی یہ آیت بار بار یاد دلائی جا رہی تھی کہ لڑو اس وقت تک جب تک کفر کا فتنہ ختم نہیں ہو جاتا۔ حکمرانی صرف اﷲاور اﷲکے دین کی رہ جائے۔
انطاکیہ کے راستے میں دو تین چھوٹے چھوٹے قلعے تھے۔ انہیں سر کرتے ہوئے مجاہدین انطاکیہ سے تیرہ چودہ میل کے فاصلے پر پہنچے تو ایک جاسوس آیا۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … جاسوس نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’تھوڑا ہی آگے ایک دریا ہے جس پر ایک مضبوط پل ہے ۔اس پل سے اس طرف رومیوں کاایک لشکر تیار کھڑا ہے۔ راستہ بدل لیا جائے یا جنگ کی تیاری کر لی جائے۔‘‘
’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’اﷲکو منظور ہوا تو یہ لشکر بھی ہمارا راستہ نہیں روک سکے گا۔ … تعداد کتنی ہوگی؟‘‘
’’ہمارے پورے لشکر سے دوگنی تو ضرور ہوگی۔‘‘ … اس نے بتایا۔
’’پیچھے جاؤ۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’سپہ سالار سے کہو کہ بہت جلدی لشکر کو آگے لے آئیں۔‘‘
ابو عبیدہؓ جب خالدؓ سے آملے تو پورے لشکر نے جنگی ترتیب میں پیش قدمی کی۔ رومیوں کا لشکر زیادہ دور نہیں تھا۔ یہ مقام جہاں رومی لشکر مسلمانوں کا راستہ روکے کھڑا تھا انطاکیہ سے بارہ میل دور تھا۔ رومی سالار نے یہ دانشمندی کی تھی کہ دریا کو اپنی پشت پررکھا تھا۔ اسی مقام پر بڑا مضبوط پل تھا یہ بھی رومیوں کے عقب میں تھا۔
خالدؓنے حسبِ معمول توقف نہ کیا۔ آمنے سامنے آتے ہی اپنے رسالے کو خاص انداز سے حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کی ترتیب بکھر جائے یا وہ سکڑ جائیں۔ اس خصوصی رسالے کے سوار ضرب لگاؤ اور اِدھر اُدھر جاؤ کے اصول پر حملے کرتے تھے۔
جب دشمن کی جمعیت بکھرنے لگی تو ابو عبیدہؓ نے دشمن کے ایک پہلو پر حملہ کرا دیا۔ پیچھے دریا تھا۔ خالدؓ کی کوشش یہ تھی کہ دشمن کو اتنا پیچھے دھکیل دیا جائے کہ دریا اس کیلئے مصیبت بن جائے یا اسے اتنا آگے لایا جائے کہ اس کے عقب میں جانے کیلئے گھوڑ سوراوں کو جگہ مل جائے۔
ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے حملے اسی نوعیت کے تھے جن سے مقصد حاصل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن رومی لشکر کا سالار بھی تجربہ کار اور جنگی قیادت اور چالوں کا ماہر تھا۔ اس نے اپنے دستوں کو ترتیب میں منظم رکھا اور مسلمانوں پر حملے کیے بھی اور مسلمانوں کے حملے روکے بھی۔ اس طرح جنگ زیادہ سے زیادہ خونریز ہوتی چلی گئی۔
خالدؓ نے رومی سالار کو دیکھ لیا، اور اپنے چند ایک سواروں سے کہا کہ وہ رومیوں کے قلب میں گھسنے کی کوشش کریں۔کئی ایک سوار اس کوشش میں جان پر کھیل گئے۔ آخر کچھ سوار رومی سالار تک جاپہنچے اور اس کے محافظوں کاحصار توڑ کر اسے ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
رومیوں کا پرچم گرتے ہی ان میں افراتفری مچ گئی اور وہ پسپا ہونے لگے۔ کچھ دریا میں کود گئے باقی پل کے ذریعے دریا کے پار گئے ۔ جتنی دیر میں مسلمان ان تک پہنچتے تھے۔ وہ انطاکیہ کے قلعے کے اندر جا چکے تھے۔
ابو عبیدہؓ اور خالدؓ نے جا کر قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ رومیوں کے لڑنے کا جذبہ میدان میں ہی ختم ہو گیاتھا۔قلعے میں انہوں نے پناہ لی تھی۔ خالدؓ نے کئی بار اعلان کروایا کہ قلعے کے دروازے کھول دیئے جائیں ورنہ کسی کی جان بخشی نہیں ہوگی اورکوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی۔
رومیوں کا لشکر جو اب پہلے جیسا طاقتور نہیں رہ گیا تھا ۔بغیر سالار کے تھا۔ اندر سے ایک ایلچی باہر آیاجس نے ہتھیار ڈال دیئے اور یہ شرط پیش کی کہ لشکر کو آزادی سے چلے جانے دیا جائے۔ مسلمان سالاروں نے یہ شرط مان لی۔ روم کی تمام تر فوج جو قلعے کے ا ندر تھی۔ قلعے سے نکل گئی اور مسلمان انطاکیہ میں داخل ہو گئے۔
یہ ۳۰ اکتوبر ۶۳۷ء (۵ شوال ۱۶ھ) کا دن تھا۔ رومیوں کا آخری اور سب سے بڑا شہر بھی مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔ اس کے بعد چھوٹی چھوٹی دو چار جگہیں رہ گئی تھیں جہاں رومی موجود تھے لیکن وہ لڑنے کیلئے موجود نہیں تھے۔ بلکہ انہیں بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا ۔۶۳۷ء کے آخری مہینے تک شام پر مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہو گیااور وہاں رومیوں کا عمل دخل بالکل ہی ختم ہو گیا۔
…………bnb…………

قسطنطنیہ میں ہرقل عیسائیوں کے ایک وفد کے سامنے اپنے محل میں بیٹھا تھا۔ یہ وہی شہنشاہ ہرقل تھاجس کی آنکھوں کی ہلکی سی جنبش سے کئی انسانوں کو جلاد کے حوالے کر دیاجاتا تھا۔ یہی ہرقل تھا جس نے ابتداء میں مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دینے کا حکم دیا تھا۔ یہی ہرقل تھا جس نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ عرب کے ان بدوؤں کو اتنی جرات کیونکر ہوئی کہ انہوں نے سلطنت روم کی سرحد کے اندر قدم رکھاہے۔ اب تھوڑے ہی عرصے بعد وہی ہرقل اپنی آدھی سلطنت مسلمانوں کے حوالے کرکے شکست خوردگی کے عالم میں اپنے دارالحکومت قسطنطنیہ میں بیٹھا جیسے کبھی نہ ہارنے والا جواری ہار گیاہو۔ اور اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ رہی ہو۔
’’تم لوگ مجھے کس طرح یقین دلا سکتے ہو کہ مسلمانوں کو ان علاقوں سے باہر نکال دو گے جو انہوں نے فتح کرلیے ہیں؟‘‘ … ہرقل ان عیسائیوں سے کہہ رہا تھا۔ … ’’اگرتم میں اتنی جان ہوتی تو میں آج تہا رے سامنے اس طرح نہ بیٹھا ہوتا۔‘‘
’’شہنشاہِ روم!‘‘ … عیسائیوں کے وفد کے لیڈر نے کہا۔ … ’’اب یہ سوچنا بیکار ہے کہ شکست کا ذمہ دار کون ہے۔ ہم یہ مسئلہ لے کر آئے ہیں وہ ایک بار پھر سن لیں۔ آپ جس خطے کومسلمانوں کے حوالے کر آئے ہیں وہ نہ آپ کا تھا اور نہ مسلمانوں کا ہے۔ وہ ہمارا خطہ ہے۔ شکست آپ کی فوج کو ہوئی لیکن ایک غیر قوم کے غلام ہم بن گئے۔ مسلمانوں نے جزیہ ہم سے لیا ہے۔ یہ ہماری بے عزتی ہے۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے خلاف نہیں لڑ سکتے۔ ہم لڑیں گے۔ ہم اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کمک بھیجنے کا وعدہ کریں۔ تو ہم مسلمانوں کے خلاف جنگ کااعلان کر دیتے ہیں۔‘‘
ہرقل ان عیسائیوں کی جو شام کے شمالی علاقوں کے رہنے والے تھے یہ باتیں اس طرح سن رہا تھا جیسے یہ لوگ اس سے بھیک مانگنے آئے ہیں اور اسے ان لوگوں کے اس مسئلے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ ہو۔ حقیقیت یہ تھی کہ ہرقل چاہتا ہی یہی تھا کہ شام کے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ایسی جنگ کیلئے تیار کرے جو بہت ہی طویل ہو تاکہ مسلمان شام کے علاقے میں ہی الجھے رہیں اور روم کی سلطنت میں مزید آگے نہ بڑھیں۔ یہ جنگ شب خون قسم کی ہو سکتی تھی۔
بیشتر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ہرقل نے در پردہ شام کے قابلِ اعتماد پادریوں کو اکسایا تھا کہ وہ عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں۔ تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ عیسائی تیار ہو گئے تھے۔ عیسائیوں کا یہ وفد جو اس کے پاس بیٹھا تھا۔ اس سے بے خبر تھا کہ جو تجویز وہ پیش کرنے آئے ہیں اس پر ہرقل پہلے ہی کام کر رہا ہے۔ اس وفد پر وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ انہیں مدد دے کر وہ ان پر بہت بڑ ا احسان کر رہا ہے۔
آخر میں ہرقل نے انہیں کہا کہ وہ واپس جا کر اپنے پادریوں سے ملیں اور پادری انہیں بتائیں گے کہ کہ اس تجویز پرکس طرح عمل درآمد ہو گا۔ اس نے انہیں یہ بھی بتایا کہ عیسائی جب مسلمانوں پر جگہ جگہ حملے شروع کریں گے تو ہرقل انہیں کمک کی صورت میں اپنی فوج دے دے گا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages