Featured Post

Khalid001

23 May 2019

Khalid014


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  14
اﷲ کے رسول ﷺکے خلاف کون بول سکتا تھا۔مگر آپﷺ نے اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق اپنے سرکردہ ساتھیوں کو بلایا اور انہیں موقع دیا کہ کسی کو آپﷺ کے فیصلے سے اختلاف ہے تو وہ بولے۔ آپﷺ ایک شخص کا فیصلہ پوری قوم پر ٹھونسنے کے قائل نہ تھے چنانچہ آپﷺ نے سب کو بتایا کہ آپﷺ نے غطفان کو کیا پیش کش کی ہے۔
’’نہیں!‘‘ چند پر جوش آوازیں اٹھیں ۔’’ہماری تلواریں جن کے خون کی پیاسی ہیں ،خدا کی قسم! ہم انہیں اپنی زمین کی پیدوار کا ایک دانہ بھی نہیں دیں گے۔جنگ تو ہوئی نہیں ہم لڑے بغیر کیوں ظاہر کریں کہ ہم لڑ نہیں سکتے۔‘‘
اس کی تائید میں کچھ آوازیں اٹھیں۔ ایسی دلیلیں دی گئیں جنہیں رسول اﷲﷺ نے اس لیے قبول فرما لیا کہ یہ اکثریت کی آواز تھی۔آپﷺ نے اپنے ایلچی کو دوبارہ غطفان اور عینیہ کے پاس نہ بھیجا لیکن آپﷺ نے سب پر واضح کر دیا کہ تدبر اور حکمت عملی کے بغیر محاصرہ نہیں توڑا جا سکے گا۔
خدا حق پرستوں کے ساتھ تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے اﷲ سے مدد مانگی جو ایک انسان کے روپ میں آپ ﷺکے سامنے آگئی۔ یہ تھے ’’نعیم ؓبن مسعود‘‘۔ ان کا تعلق غطفان کے قبیلے کے ساتھ تھا۔نعیمؓ سرکردہ شخصیت تھے ۔خدا نے انہیں غیر معمولی دماغ عطا کیا تھا۔تین اہم قبیلوں قریش ،غطفان اور بنو قریظہ پر ان کا اثر و رسوخ تھا۔ ایک روز نعیمؓ جو کہ قبیلہ غطفان میں تھے، مدینہ میں رسولِ خداﷺ کے سامنے آکھڑے ہوئے۔
’’خدا کی قسم تو قبیلہ غیر کا ہے۔‘‘رسول اﷲﷺ نے فرمایا ۔’’تو ہم میں سے نہیں۔ تو یہاں کیسے آ گیا؟‘‘’’میں آپ میں سے ہوں۔‘‘نعیمؓ نے کہا۔’’مدینہ میں گواہ موجود ہیں۔ میں نے درپردہ اسلام قبول کر لیا تھا۔اپنے قبیلے کے ساتھ اسی مقصدکیلئے آیا تھا کہ آپﷺ کے حضور حاضر ہو جاؤں مگر موقع نہ ملا، پتا چلا کہ آپﷺ نے میرے قبیلے کے سردار اور سالار کو قریش سے دوستی ترک کرکے واپس چلے جانے کا پیغام بھیجا تھا اور آپﷺ نے اس کا معاوضہ بھی بتا دیا تھا لیکن آپﷺ نے بات کو مزید آگے نہ بڑھایا۔‘‘
’’اﷲ کی تجھ پررحمت ہو۔‘‘رسولِ خداﷺ نے پوچھا۔’’کیا تو بات کو آگے بڑھانے آیا ہے؟‘‘
’’نہیں، میرے اﷲ کے سچے نبیﷺ! ‘‘نعیم نے جواب دیا۔’’مجھے آپﷺ ہی کے قدموں میں آنا تھا۔اہلِ مدینہ پر مشکل کا وقت آن پڑا ہے۔میں اپنی جان لے کے حاضر ہوا ہوں۔ یہ حضور ﷺکے اور اسلام کے شیدائیوں کے جس کام آ سکتی ہے حضورﷺ کے قدموں میں پیش کرتا ہوں۔اپنے لشکر میں سے چھپ چھپا کر نکلا ہوں۔ خندق میں اتر تو گیا لیکن سنتریوں کی موجودگی میں اوپر آنا خودکشی کے برابر تھا۔اوپر چڑھنا ویسے بھی محال تھا ۔بڑی مشکل پیش آئی۔ خدا سے آپ ﷺکے نام پر التجاکی، گڑ گڑا کر دعا مانگی ،اﷲ نے کرم کیا ۔سنتری آگے چلے گئے اور میں خندق پر چڑھ آیا۔‘‘
رسولِ اکرمﷺ کو نعیمؓ کے متعلق بتایا گیا کہ یہ کس حیثیت کی شخصیت ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے ان کے ساتھ دو چار باتیں کیں تو آپﷺ کو اندازہ ہو گیا کہ نعیمؓ اونچی سطح اور عقل کے انسان ہیں۔ آپﷺ نے نعیم ؓکو بتایا کہ محاصرے نے جو حالات پیدا کر دیئے ہیں ان سے نکلنے کیلئے ضروری ہو گیا ہے کہ قریش کے لشکر میں جو مختلف قبائل شامل ہیں انہیں قریش سے بدزن کیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو تین قبائل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرلیے جائیں۔
’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ نعیم نے کہا۔’’اگر میں یہ کام اپنے طریقے سے کردوں تو کیا حضورﷺ مجھ پر اعتماد کریں گے؟‘‘
’’تجھ پر اﷲ کی رحمت ہو نعیم‘‘۔رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔’’ میں تجھے ا ور تیرے نیک ارادوں کو اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘
’’میں واپس اپنے قبیلے میں چلا جاؤں گا۔‘‘نعیم نے کہا۔’’لیکن یہ نہیں بتاؤں گا کہ میں مدینہ میں آیا تھا۔یہاں سے میں کعب بن اسد کے پاس جا رہا ہوں، میرے اﷲ کے رسولﷺ !میری کامیابی کیلئے دعا فرمائیں۔‘‘
…………bnb…………

مدینہ میں رات کو پہرے بڑے سخت تھے۔ پیچھے کی طرف خندق نہیں تھی ۔ادھر پہاڑیوں نے قدرتی دفاع مہیا کر رکھا تھا ۔ادھر پہرے داروں اور گشتی سنتریوں کی تعداد زیادہ رکھی گئی تھی اور شہر کے کسی آدمی کا بھی ادھر جانا بڑا مشکل تھا۔رسولِ اکرمﷺ نے نعیم ؓکے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیج دیا تھا تاکہ کوئی سنتری انہیں روک نہ لے ۔یہ آدمی نعیمؓ کو مدینہ کے ساتھ باہرتک چھوڑ کر واپس آ گیا۔رات کا پہلا پہر تھا جب نعیمؓ بنو قریظہ کی بستی میں کعب بن اسد کے دروازے پر پہنچے۔دروازہ غلام نے کھولا۔
’’تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو نہ کعب؟‘‘نعیم ؓنے پوچھا۔
’’نعیم بن مسعود کو کون نہیں جانتا۔‘‘کعب نے کہا ۔’’غطفان کے قبیلے کو تجھ جیسے سردار پر بہت فخر ہوگا۔کہو نعیم رات کے اس پہر میں تمہاری کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ میں نے دس دنوں کی مہلت مانگی تھی۔ ابھی تو چھ سات دن گزرے ہیں ۔میں نے مسلمانوں پر شب خون مارنے کیلئے آدمی تیار کر لیے ہیں۔ کیا تم یہی معلوم کرنے آ ئے ہو؟‘‘
’’میں اسی سلسلے میں آیا ہوں۔‘‘ نعیمؓ نے کہا۔’’تم بے وقوفہو کعب۔تم نے قریش کیساتھ کس بھروسے پر معاہدہ کر لیا ہے؟مجھ سے نہ پوچھنا کہ میرے دل میں تمہاری ہمدردی کیوں پیدا ہوئی۔ میں مسلمانوں کا بھی ہمدرد نہیں کیونکہ میں مسلمان نہیں۔ تم اچھی طرح جانتے ہو میرے دل میں انسانیت کی ہمدردی ہے۔ میرے دل میں ہمدردی ہے تمہاری ان خوبصورت اور جوان بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کی، جو مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں گی۔ تم نے قریش سے بڑا ہی خطرناک معاہدہ کر لیا ہے لیکن اس کی ضمانت نہیں لی کہ اہلِ قریش تمہیں مسلمانوں سے بچا لیں گے۔ ہم نے بھی قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن کچھ ضمانت بھی لی ہے۔‘‘
’’کیا قریش جنگ ہار جائیں گے؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔
’’وہ جنگ ہار چکے ہیں۔‘‘نعیم ؓنے کہا ۔’’کیا یہ خندق انہیں شہر پر حملہ کرنے دے گی؟ قریش کے لشکر کو بھوک نے بے حال کرنا شروع کر دیا ہے ۔میرا قبیلہ بھوک سے پریشان ہو گیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کل تم میرے قبیلے کو بدنام کرو کہ غطفان تمہیں مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے تھے، تم مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں اپنا دشمن بنا لو گے اور قریش اور ہم محاصرہ اٹھا کہ واپس چلے جائیں گے۔ اپنے دونوں قبیلوں قینقاع اور بنو نضیر کا انجام جومسلمانوں کے ہاتھوں ہواتھا وہ تمہیں یا د ہو گا۔‘‘
کعب بن اسد پر خاموشی طاری ہو گئی۔
’’میں جانتا ہوں کہ تم نے قریش سے کتنی اجرت لی ہے۔‘‘ نعیم نے کہا۔ ’’لیکن یہ خزانہ جو تم ان سے لے رہے ہو، یہ خوبصورت لڑکیاں جو حُیَیّ بن اخطب نے تمہارے پاس بھیجی ہیں۔ یہ سب مسلمانوں کی ملکیت ہو جائے گی اور تمہارا سر تمہارے تن سے جدا ہوگا۔‘‘
’’تو کیا میں قریش سے معاہدہ توڑ دوں؟‘‘ کعب نے پوچھا۔
’’معاہدہ نہ توڑو۔‘‘ نعیم ؓنے کہا۔ ’’انہیں ابھی ناراض نہ کرو لیکن اپنی حفاظت کی ان سے ضمانت لو۔عرب کے رواج کے مطابق انہیں کہو کہ ان کے اونچے خاندانوں کے کچھ آدمی تمہیں یرغمال کے طور پر دے دیں۔اگر انہوں نے اپنے چند ایک معزز اور سرکردہ آدمی دے دیئے تو یہ ثبوت ہو گا کہ وہ معاہدہ میں مخلص ہیں۔‘‘
’’ہاں نعیم!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’میں ان سے یرغمال میں آدمی مانگوں گا۔‘‘
…………bnb…………

نعیمؓ بن مسعود رات کے وقت پہاڑیوں میں چلے جا رہے تھے ۔ان کی منزل قریش کی خیمہ گاہ تھی جو کئی میل دور تھی۔ سیدھا رستہ چھوٹا تھالیکن راستے میں خندق تھی۔ وہ بڑی دور کا چکر کاٹ کہ جا رہے تھے۔ وہ گذشتہ رات سے مسلسل چل رہے تھے مگر چھپ چھپ کر چلنے اور عام سفر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔نعیمؓ جب ابو سفیان کے پاس پہنچے تو ایک اور رات شروع ہو چکی تھی۔ اس وقت ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی تھیں اور ان کی زبان سوکھ گئی تھی۔ ایک ہی بار بے تحاشا پانی پی کر وہ بولنے کے قابل ہوئے۔ ابوسفیان نعیم ؓکی دانشمندی اور تدبر سے متاثر تھا۔
’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تم اپنے لشکر میں سے نہیں آئے۔‘‘ابوسفیان نے نعیمؓ سے پوچھا۔’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
’’بہت دور سے۔‘‘ نعیمؓ بن مسعود نے جواب دیا۔’’ جاسوسی کی ایک مہم سے آ رہا ہوں ،تم لوگ بنو قریظہ کیساتھ معاہدہ کر آئے ہو۔ کیا تم بھول گئے تھے کہ یہودیوں کو ہمارے ساتھ جو دلچسپی ہے وہ صرف اس لیے ہے کہ وہ اسلام کو ہمارے ہاتھوں یہیں پر ختم کرا دینا چاہتے ہیں۔ میں بنو قریظہ کے دو دوستوں سے مل آیا ہوں اور مجھے مدینہ کا بھی ایک پرانا دوست مل گیا تھا۔ مجھے پتا چلا ہے کہ کعب بن اسد نے محمد (ﷺ) کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ کعب نے مسلمانوں کو خوش کرنے کا ایک نیا طریقہ سوچا ہے۔ تم نے اسے کہا کہ وہ مدینہ میں مسلمانوں پر حملے کرے ۔وہ اب تم سے قریش کے سرکردہ خاندانوں کے چند افراد یرغمال میں ضمانت کے طور پر رکھنے کیلئے مانگے گا۔ مگر انہیں وہ مسلمانوں کے حوالے کر دے گااور مسلمان ان افراد کو قتل کر دیں گے۔پھر یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے اور دونوں ہم پر حملہ کر دیں گے۔ میں تمہیں خبردار کرنے آیا ہوں کہ یہودیوں کو یرغمال میں اپنا ایک آدمی بھی نہ دینا۔‘‘
’’خدا کی قسم نعیم!‘‘ ابوسفیان نے کہا۔’’اگر تمہاری یہ بات سچ نکلی ۔تو میں بنو قریظہ کی بستیاں اجاڑ دوں گا۔کعب بن اسد کی لاش کو میں اپنے گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھسیٹتا ہوا مکہ لے جاؤں گا۔اس نے کیا سوچ کر ہمیں دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے؟‘‘
’’اس کی سوچ پر آپ نے شراب اور حسین لڑکیوں کا طلسم طاری کر دیا ہے۔‘‘ نعیمؓ بن مسعود نے کہا۔’’ کیا شراب اورعورت کسی کے دل میں خلوص اور دیانت داری رہنے دیتی ہے؟‘‘
’’اسے شراب اور عورت کس نے دی؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’کیا بد بخت کعب اتنی سی بات نہیں سمجھ سکا کہ میں نے اس کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس میں اس کی قوم اور اس کے مذہب کا تحفظ ہے۔اگر محمد)ﷺ(کا مذہب اسی طرح پھیلتا چلا گیا تو یہودیت ختم ہو جائے گی۔‘‘
’’تم یہودیوں کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔‘‘نعیم ؓنے کہا۔’’وہ اپنے دشمن پر بھی ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ اس کے دشمن ہیں ۔حُیّ بن اخطب بھی یہودی ہے ۔اس نے تمہاری طرف سے کعب کو شراب کا نصف مٹکا اور دو نہایت حسین لڑکیا ں دی ہیں۔ میں جب کعب سے ملا تو وہ شراب میں بد مست تھا اور دونوں لڑکیاں نیم برہنہ حالت میں اس کے پاس تھیں ۔اس نے بد مستی کے عالم میں مجھے کہا کہ وہ اہلِ قریش کو انگلیوں پر نچا رہا ہے۔‘‘
’’نعیم!‘‘ ابو سفیان نے تلوار کے دستے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’میں مدینہ سے محاصرہ اٹھاکر بنو قریظہ کی نسل ختم کر دوں گا۔ اس کی یہ جرأت کہ قبیلہ قریش کے سرکردہ چند افراد کو ضمانت کے طور پر یرغمال بناکر رکھنا چاہتا ہے۔‘‘
’’تمہیں اتنا نہیں بھڑکنا چاہیے ابو سفیان۔‘‘ نعیمؓ نے کہا۔ ’’ٹھنڈے دل سے سوچواور فیصلہ کر لو کہ کعب کو تم ایک بھی آدمی یرغمال میں نہیں دو گے۔‘‘
’’میں فیصلہ کر چکا ہوں ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ کیا تم اہلِ مدینہ کی کوئی خبر دے سکتے ہو؟وہ کس حال میں ہیں؟ وہ کب تک بھوک برداشت کریں گے؟‘‘
نعیمؓ بن مسعود کو ابو سفیان کے پاؤں اکھاڑنے کا موقع مل گیا۔
’’میں حیران ہوں ابو سفیان !‘‘ نعیمؓ نے کہا۔’’ اہلِ مدینہ خوش اور مطمئن ہیں ۔وہاں بھوک کے کوئی آثار نہیں، خوراک کی کمی ضرور ہے لیکن اہل ِمدینہ کا جوش اور جذبہ ایسا ہے کہ جیسے انہیں خوراک کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے محاصرے کا ان پر کوئی اثرنہیں ہوا۔‘‘
ابوسفیان نے کہا۔ ’’بالکل نہیں۔‘‘نعیم ؓبن مسعود نے کہا۔’’ان پر محاصرے کا یہ اثر ہے کہ وہ جوش و خروش سے پھٹے جا رہے ہیں۔‘‘
’’ہمارے یہودی جاسوس ہمیں بتا رہے ہیں کہ مدینہ میں خوراک تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘‘ ابو سفیان نے ذرا پریشان ہو کر کہا۔
’’وہ جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ نعیمؓ نے اسے اور زیادہ پریشان کرنے کیلئے کہا۔’’میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ یہودیوں پر بھروسہ نہ کرنا۔ یہ بتا کر کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں وہ تمہیں اکسا رہے ہیں کہ تم مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر کہیں سے خندق عبور کر لو اور مدینہ پر حملہ کر دو۔ وہ اہلِ قریش اور میرے قبیلے غطفان کو مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ کرانا چاہتے ہیں۔‘‘
میں ان کی نیت معلوم کرلیتا ہوں۔‘‘ ابو سفیان نے کہااور اپنے غلام کو آواز دی۔
’’عکرمہ اور خالد کو بلا لاؤ۔‘‘ ابو سفیان نے غلام سے کہا۔
نعیمؓ بن مسعود یہ کہہ کر چلے گئے ۔’’میں اپنے سردار غطفان کو خبردار کرنے جا رہا ہوں۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages