Featured Post

Khalid001

23 May 2019

Khalid015


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  15
خالد اور عکرمہ آئے تو ابوسفیان نے انہیں بتایا کہ نعیم اسے کعب بن اسد کے متعلق کیا بتا گئے ہیں۔
’’غیروں کے سہارے لے کر لڑائیاں نہیں لڑی جاتیں ابوسفیان!‘‘ خالد نے کہا ۔’’آپ نے یہ تو سوچا ہی نہیں کہ بنو قریظہ مسلمانوں کے سائے میں بیٹھے ہیں۔ وہ زمین کے نیچے سے مسلمانوں پر وار کر سکتے ہیں لیکن وہ ہیں تو مسلمانوں کے رحم و کرم پر۔ اگر آپ لڑنے آئے ہیں تو جنگجوؤں کی طرح لڑیں۔‘‘
’’کیا یہ صحیح نہیں ہو گا کہ تم دونوں میں سے کوئی کعب بن اسد کے پاس جائے۔‘‘ ابوسفیان نے پوچھا۔’’ہو سکتا ہے کہ اس نے نعیم سے کہا ہو کہ وہ ہم سے یرغمال مانگے گا۔ لیکن تم جاؤ تو وہ ایسی شرط پیش نہ کرے۔ کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا ہے کہ تمام کا تمام لشکر نیم فاقہ کشی کی حالت میں ہے۔ کیا یہ لشکر خندق عبور کر سکتا ہے؟ یہی ایک صورت ہے کہ کعب مدینہ کے اندر مسلمانوں پر شب خون مارنے کا انتظام کرے۔‘‘
’’میں جاؤں گا۔‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’میں آ پ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ کعب بن اسد نے یرغمال کی شرط پیش کی تو میں آپ سے پوچھے بغیر معاہدہ منسوخ کر آؤں گا۔‘‘
’’کیا میں بھی عکرمہ کیساتھ چلا جاؤں ؟‘‘خالد نے ابو سفیان سے پوچھا۔’’اس کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’اگر خطرہ ہے تو میں دو سالار ضائع نہیں کر سکتا۔عکرمہ اپنی حفاظت کیلئے جتنے لشکری ساتھ لے جانا چاہتا ہے لے جائے۔‘‘
عکرمہ اسی وقت روانہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ چار لشکری تھے۔اسے بڑی دور کا چکر کاٹ کر بنو قریظہ تک پہنچنا تھا۔وہ جمعہ کی رات اور تاریخ 14 مارچ 627ء تھی۔ جب عکرمہ خندق سے دور دور چلتا شیخین کے سلسلۂ کوہ میں داخل ہوااورکعب بن اسد کے گھر پہنچا۔ کعب کو معلوم تھا کہ عکرمہ کیوں آ یا ہے۔
’’آؤ عکرمہ!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’ میں جانتا ہوں کہ تم کیوں آ ئے ہو۔ تمہارے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔میں نے دس دن کی مہلت مانگی تھی۔‘‘
کعب بن اسد نے اپنے غلام کو آواز دی۔ غلام آیا تو اس نے غلام سے شراب اور پیالے لانے کو کہا۔
’’پہلے میری بات سن لو کعب!‘‘ عکرمہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔’’میں شراب پینے نہیں آیا ۔مجھے بہت جلدی واپس جانا ہے۔ ہم محاصرے کو اور زیادہ طول نہیں دے سکتے ۔ہم کل مدینہ پر حملہ کر رہے ہیں۔ تمہارے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق تم مدینہ میں ان جگہوں پر جو ہم نے تمہیں بتائی ہیں کل سے حملے شروع کر دو۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم نے ظاہری طور پر ہمارے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن درپردہ تم نے وہ معاہدہ قائم کر رکھا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ تم نے کیا ہے۔‘‘
اتنے مین ایک نہایت حسین لڑکی شراب کی صراحی اور پیالے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ عکرمہ کو دیکھ کر مسکرائی۔ عکرمہ نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر سنجیدگی کا تاثر اور زیادہ گہرا ہو گیا۔
’’کعب!‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’تم نے اپنا مذہب اور اپنی زبان ان چیزوں کے عوض بیچ ڈالی ہے۔ جنہوں نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
کعب بن اسد نے لڑکی کو اشارہ کیا تو وہ چلی گئی۔
’’میرے عزیز عکرمہ!‘‘ کعب نے کہا۔’’میں تمہارے چہرے پر رعونت کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ صاف پتا چلتا ہے کہ تم مجھے اپنا غلام سمجھ کر حکم دینے آئے ہو۔ میں نے مسلمانوں کیساتھ جو معاہدہ کیا تھا وہ بنو قریظہ کے تحفظ اور سلامتی کیلئے کیاتھا اور میں نے جو معاہدہ تمہارے ساتھ کیا ہے وہ تمہاری فتح اور مسلمانوں کی شکست کی خاطر کیا ہے۔ مسلمانوں کو ختم کرنا میرے مذہب کا حکم ہے۔ تمہارے ساتھ معاہدہ نبھانا اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے۔ اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کیلئے میں تمہیں استعمال کروں گا۔ حُیَیّ بن اخطب سے میں نے کہہ دیا تھا کہ اہلِ قریش اور اہلِ غطفان مجھے بنو قریظہ کی سلامتی کی ضمانت دیں تاکہ ایسانہ ہو کہ تم لوگ ناکام ہو جاؤ اور مسلمان ہم سے ظالمانہ انتقام لیں۔‘‘
نعیمؓ بن مسعود نے جو چنگاری ان لوگوں کے درمیان پھینک دی تھی وہ عکرمہ کے سینے میں سلگ رہی تھی۔ نعیم ؓنے عکرمہ کے ذہن میں ابو سفیان کی معرفت پہلے ہی ڈال دیا تھا کہ کعب افراد کی صورت میں ضمانت مانگے گا۔ کعب کی زبان سے ضمانت کا لفظ سنتے ہی عکرمہ بھڑک اٹھا۔
’’کیا تمہیں ہم پر اعتماد نہیں؟‘‘عکرمہ نے غصیلی آوا ز میں کہا۔’’کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم شاید بھول گئے ہیں کہ محمد (ﷺ) ہمارا اور تمہارا مشترکہ دشمن ہے۔‘‘
’’میں یہ نہیں کہتا جو تم کہہ رہے ہو۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اپنے مشترکہ دشمن کو جتنا میں جانتا ہوں اتنا تم نہیں جانتے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ جو عقل خدا نے محمد (ﷺ) کو دی ہے وہ ہم میں سے کسی کو نہیں دی … میں اس کی ضمانت چاہتا ہوں۔‘‘
’’کہو، تمہیں کیسی ضمانت چاہیے؟‘‘عکرمہ نے پوچھا۔
’’قبیلۂ قریش کے چند ایک سرکردہ افراد ہمارے پاس بھیج دو۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔ ’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا عکرمہ! یہ ہمارا تمہارا دستور ہے۔اس رواج اور شرط سے تم واقف ہو۔ میں نے ضمانت کے طور پر یرغمال میں لینے والے آدمیوں کی تعداد نہیں بتائی، یہ تعداد تم خود مقرر کر لو۔تم جانتے ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرو گے تو تمہارے ان سرکردہ افراد کو ہم قتل کر دیں گے۔‘‘
’’انہیں تم قتل نہیں کرو گے۔‘‘ عکرمہ نے بھڑکی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’تم انہیں مسلمانوں کے حوالے کر دو گے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو عکرمہ؟‘‘کعب بن اسد نے حیرت اور پریشانی کے لہجے میں پوچھا۔’’کیا تم مجھے اتنا ذلیل سمجھتے ہو کہ میں تمہیں یہ دھوکا دوں گا کہ تمہارے قبیلوں کے سرداروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کرواؤں گا؟مجھ پر اعتبار کرو۔‘‘
’’یہودی پر اعتبار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی نے سانپ پر اعتبار کر لیا ہو۔‘‘ عکرمہ نے غصے کے عالم میں کہا۔ ’’اگر تم اپنے آپ کو اتنا ہی قابلِ اعتبار سمجھتے ہو تو کل مدینہ میں ان چھوٹے قلعوں پر حملے شروع کردو جہاں پر مسلمانوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا ہے۔‘‘
’’کل؟‘‘ کعب نے کہا۔ ’’کل ہفتے کا دن ہے۔ہفتے کا دن یہودیوں کا ایک مقدس دن ہوتا ہے جسے ہم ’’سبت‘‘ کہتے ہیں۔ اس روز عبادت کے سوا ہم اور کوئی کام نہیں کرتے۔ کوئی یہودی سبت کے دن کوئی کام یا کاروبار کرے یا کسی پر حملہ کرے تو خدائے یہودہ اسے انسان سے خنزیر یا بندر کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے۔‘‘
عکرمہ دیکھ چکا تھا کہ کعب بن اسد کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔وہ شراب پیتا چلاجا رہا تھا۔عکرمہ نے شراب پینے سے انکار کر دیا تھا۔اس نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ وہ فیصلہ کر کے ہی واپس آ ئے گا۔ ’’تم کل حملہ کرو یا ایک دن بعد کرو۔ ہم تمہاری نیت کو عملی صورت میں دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ تمہیں یرغمال میں اپنے آدمی دیئے جائیں یا نہ دیئے جائیں۔‘‘ عکرمہ نے کہا۔ ’’اس سے پہلے ہم تمہیں ایک آدمی بھی نہیں دیں گے۔‘‘
’’میں کہہ چکا ہوں کہ یرغمال کے بغیر ہم کچھ نہیں کریں گے۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔ ’’جوں ہی تمہارے آدمی ہمارے پاس پہنچ جائیں گے ہم تمہاری منشاء کے مطابق مدینہ کے اندر کھلبلی مچا دیں گے ۔تم دیکھنا کہ ہم محمد (ﷺ) کی پیٹھ میں کس طرح چھرا گھونپتے ہیں۔‘‘
عکرمہ اٹھ کھڑا ہوا اور غصے میں بولا۔’’تم بد طینت ہو۔تمہاری نیت صاف ہوتی تو تم کہتے کہ مجھے کسی ضمانت کی ضرورت نہیں۔آؤ مل کر مسلمانوں کو مدینہ کے اندر ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں۔‘‘
’’مجھے اگر حکم ماننا ہی ہے تو میں محمد (ﷺ) کا حکم کیوں نہ مان لوں؟‘‘ کعب بن اسد نے عکرمہ کاغصہ دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہم مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ جو تحفظ ہمیں ان سے مل سکتا ہے وہ تم نہیں دے سکو گے۔‘‘
مؤرخ ابنِ ہشام اور ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ نعیمؓ بن مسعود کا چھوڑا ہوا تیر نشانہ پہ لگا۔ عکرمہ غصے کے عالم میں کعب بن اسد کے گھر سے نکل آیا۔ یہودیوں اور اہلِ قریش کا معاہدہ جو اگر برقرار رہتا تو مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جاتی، کعب کے گھر کے اندر ہی ٹوٹ گیا۔
…………bnb…………

جب عکرمہ کعب بن اسد سے ملنے جا رہا تھا۔اس وقت نعیم ؓبن مسعود اپنے قبیلے کے سردارغطفان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔اس کے ساتھ بھی انہوں نے کعب بن اسد کے متعلق وہی باتیں کیں جن باتوں سے وہ ابو سفیان کو بھڑکا چکے تھے۔ابو سفیان نے غصے میں آ کر عکرمہ کو بلا لیا تھا۔غطفان نے اپنے سالار عینیہ کو بلالیا۔’’ کیا تم نے سنا ہے کہ کعب بن اسد ہمیں کیا دھوکا دے رہا ہے؟‘‘غطفان نے عینیہ سے کہا۔’’وہ ہم سے یرغمال میں رکھنے کیلئے سرکردہ افراد مانگتا ہے۔کیا یہ ہماری توہین نہیں؟‘‘
’’سردار غطفان!‘‘ سالار عینیہ نے کہا۔’’میں پہلے تمہیں کہہ چکا ہوں کہ میرے ساتھ میدانِ جنگ کی بات کرو۔میں آمنے سامنے کی لڑائی جانتاہوں۔مجھے اس شخص سے نفرت ہو گی جو پیٹھ کے پیچھے آکر وار کرتا ہے اور مجھے اس شخص سے بھی نفرت ہوگی جس کی پیٹھ پر وار ہوتا ہے اور پھر تم یہودیوں پر اعتبار کرتے ہو؟اگر کعب بن اسد کہے گا کہ مجھے اپنے قبیلے کا سردار غطفان یرغمال میں دے دوتو کیا میں تمہیں اس کے حوالے کر دوں گا؟‘‘
’’میں اس شخص کا سر اڑا دوں گا جو ایسامطالبہ کرے گا۔‘‘نعیمؓ بن مسعود نے کہا۔’’میں ان یہودیوں کو اپنے قبیلے کی ایک بھیڑ یا بکری بھی نہ دوں گا۔خدا کی قسم! کعب نے ہماری توہین کی ہے۔‘‘
’’ابو سفیان کیا کہتا ہے؟‘‘غطفان نے نعیمؓ سے پوچھا۔
’’یہ بات سن کر ابو سفیان غصے سے کانپنے لگا۔‘‘نعیمؓ نے کہا ۔’’ابو سفیان کہتا ہے کہ وہ کعب بن اسد سے اس توہین کا انتقام لے گا۔‘‘
’’اور اسے انتقام لینا چاہیے۔‘‘سالار عینیہ نے کہا۔’’بنو قریظہ کی حیثیت ہی کیا ہے؟وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان اس طرح پس جائیں گے کہ ان کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔‘‘
…………bnb…………

خالد کو آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے وہ وقت یاد آ رہا تھا جب عکرمہ بنو قریظہ کی بستی سے واپس آ یا تھا۔خالد دوڑتا ہوا اس تک پہنچا تھا ۔اُدھر سے ابو سفیان گھوڑا دوڑاتا آگیا۔ عکرمہ کے چہرے پر غصے اور تھکن کے گہرے آثار تھے۔
’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘ ابو سفیان نے اس سے پوچھا۔
’’خدا کی قسم ابو سفیان! میں نے کعب سے زیادہ بد طینت انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔‘‘عکرمہ نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے جواب دیا۔’’نعیم نے ٹھیک کہا تھا۔‘‘
’’کیا اس نے ہم سے یرغمال میں رکھنے کیلئے آدمی مانگے ہیں؟‘‘خالد نے پوچھا تھا۔
’’ ہاں خالد!‘‘ عکرمہ نے کہا تھا۔’’ اس نے مجھے شراب پیش کی اور میرے ساتھ اس طرح بولا جیسے ہم اس کے مقروض ہیں۔اس نے کہا کہ پہلے یرغمال میں اپنے آدمی دو پھر میں مدینہ کے اندر شب خون ماروں گا۔‘‘
’’کیا تم نے اسے کہا نہیں کہ اہلِ قریش کے سامنے بنو قریظہ کی حیثیت اونٹ کے مقابلے میں ایک چوہے کی سی ہے؟‘‘خالد نے کہا تھا۔ ’’کیا تم نے اس کا سر اس کے کندھوں سے اتار نہیں دیا؟‘‘
’’میں نے اپنا ہاتھ بڑی مشکل سے روکا تھا۔‘‘ عکرمہ نے کہا تھا۔’’اس کے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا تھا وہ میں توڑ آیا ہوں۔‘‘
’’تم نے اچھا کیا۔‘‘ابو سفیان نے دبی دبی آواز میں کہا تھا۔’’تم نے اچھا کیا۔‘‘اور وہ پرے چلا گیا تھا۔
یہ کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں تھا، ڈیڑھ دو سال پہلے کی ہی بات تھی۔ آج جب خالد مدینہ کی طرف جا رہا تھا تو یہ جانا پہچانا رستہ اسے اجنبی سا لگ رہا تھا ۔کبھی اسے ایسا محسوس ہونے لگتا جیسے وہ خود اپنے لیے اجنبی ہو گیا ہو ۔اسے ابو سفیان کا افسردہ چہرہ نظر آنے لگا۔ خالد نے محسوس کرلیا تھا کہ ابو سفیان مدینہ پر حملے سے منہ موڑ رہا ہے۔ خالد اور عکرمہ وہیں کھڑے رہ گئے تھے۔
’’کیا سوچ رہے ہو خالد ؟‘‘عکرمہ نے پوچھا تھا۔
’’کیا تم میری تائید نہیں کرو گے کہ میں اس شخص ابو سفیان کی موجودگی کو صرف اس لیے برداشت کر رہا ہوں کہ یہ میرے قبیلے کا سردار ہے۔‘‘خالد نے عکرمہ کو جواب دیا تھا۔’’اہلِ قریش کو ابو سفیان سے بڑھ کر بزدل سردار اور کوئی نہیں ملے گا۔تم پوچھتے ہو کہ میں کیاسوچ رہا ہوں؟ میں اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتا۔ میں نے خندق کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھا ہے۔ایک جگہ خند ق کم ہے اور زیادہ گہری بھی نہیں ہے۔ ہم وہاں سے خندق کے پار جا سکتے ہیں اگر تم میرا ساتھ دو تو میں آج ہی ابھی اس جگہ سے چند سوار خندق کے اس پار لے جانا چاہتاہوں۔ابو سفیان کسی غیبی مدد اور سہارے کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کرتا رہے۔‘‘
’’میں تمہارا ساتھ کیوں نہ دوں گا خالد؟‘‘ عکرمہ نے کہا تھا ۔’’کیا میں مسلمانوں کے ان قہقہوں کو برداشت کرسکوں گا جو اس وقت بلند ہوں گے جب ہم یہاں سے لڑے بغیر واپس جائیں گے۔چلو میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages