Featured Post

Khalid001

23 May 2019

Khalid016


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  16
وہ جگہ ذباب کی پہاڑی کے مغرب اور سلع کی پہاڑی کے مشرق میں تھی۔جہاں خندق کی چوڑائی اتنی تھی کہ گھوڑا اسے پھلانگ سکتا تھا۔ضرورت شہسوار کی تھی۔پیادے خندق میں اتر کر اوپر چڑھ سکتے تھے۔ اسی جگہ کے قریب تقریباً سامنے مسلمانوں کی خیمہ گاہ تھی۔
خالد نے عکرمہ کو یہ جگہ دور سے دکھائی۔
’’پہلے میرے سوار خندق پھلانگیں گے ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’ لیکن ابھی ہم تمام کا تمام سوا ر دستہ نہیں گزاریں گے۔ پار جا کر مسلمانوں کو ایک ایک سوار کے مقابلے کیلئے للکاریں گے۔وہ اس رواج کی خلاف ورزی نہیں کریں گے،میرے ساتھ آؤ خالد۔میں اپنے منتخب سوار آگے لاؤں گا۔تم ابھی خندق کے پاس نہ جانا۔اگرہم دونوں مارے گئے تو اہلِ قریش کو سوائے ذلت کے اورکچھ نہ ملے گا۔ابو سفیان کا دل محاصرہ اٹھا چکا ہے۔وہ لڑنے کے جذبے کو سرد کر چکا ہے۔‘‘
وہ مقام جہاں خندق گھوڑے کی لمبی چھلانگ سے پھلانگی جا سکتی تھی ایسی اوٹ میں تھا۔جسے گشتی سنتری قریب آ کر ہی دیکھ سکتے تھے۔عکرمہ نے سات سوار منتخب کر لیے تھے ان میں ایک قوی ہیکل بلکہ دیو قامت شخص ’’عمرو بن عبدو‘‘ بھی تھا۔جس کی دھاک اس کی جسامت کی بدولت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ عکرمہ ان سات سواروں کو مقررہ مقام سے کچھ دور تک اس اندازے سے لے گیا جیسے گھوڑوں کو ٹہلائی کیلئے لے جا رہے ہوں۔مسلمانوں کے سنتریوں کو ان پر شک نہ ہوا۔
’’سب سے پہلے میں خندق پھلانگوں گا۔‘‘ عکرمہ نے چلتے چلتے اپنے سات سواروں سے کہا۔
’’کیا یہ ٹھیک نہیں ہو گا کہ سب سے پہلے میرا گھوڑا خندق کو پھلانگے؟‘‘ عمرو بن عبدو نے کہا۔
’’نہیں عمرو!‘‘عکرمہ نے کہا۔’’پہلے میں جاؤں گا۔ اگر میرا گھوڑا خندق میں گر پڑا تو تم خندق پھلانگنے کی کوشش نہ کرنا۔تمہارا سالار اپنی جان کی قربانی دے گا۔‘‘
یہ کہہ کر عکرمہ نے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا ۔گھوڑے کا رخ خندق کی طرف ہوا۔تو عکرمہ نے ایڑھ لگا دی۔عربی نسل کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔عکرمہ نے لگام اور ڈھیلی کر دی اور گھوڑے کو پھر ایڑھ لگائی گھوڑے کی لگام اور تیز ہو گئی۔خندق کے کنارے پہ جا کر عکرمہ گھوڑے کی پیٹھ سے اٹھااور آگے کو جھک گیا۔گھوڑا ہوا میں بلند ہو گیا۔خالد کچھ دور کھڑا دیکھ رہا تھا قبیلہ ٔ قریش کے بہت سے لشکری دیکھ رہے تھے۔ زمین و آسمان دیکھ رہے تھے تاریخ دیکھ رہی تھی۔
گھوڑے کے اگلے پاؤں خندق کے دوسرے کنارے سے کچھ آگے اور پچھلے پاؤں عین کنارے پر لگے گھوڑا رفتار کے زور پر آگے چلا گیا۔اس کی اگلی ٹانگیں دوہری ہو گئیں۔ اس کا منہ زمین سے لگا ،عکرمہ گرتے گرتے بچا۔ گھوڑا بھی سنبھل گیا اور عکرمہ بھی، اسے اپنے پیچھے للکار سنائی دی۔
’’آگے نکل جاؤ عکرمہ!‘‘
عکرمہ نے پیچھے دیکھا۔عمرو بن عبدو کا گھوڑا ہوا میں اڑا آ رہا تھا ۔عمرو رکابوں پر کھڑا آگے کو جھکا ہوا تھا۔کسی کو توقع نہیں تھی کہ اتنے وزنی سوار کے نیچے گھوڑا خندق پھلانگ جائے گا لیکن گھوڑا اسی جگہ جا پڑا جہاں عکرمہ کا گھوڑا گرا تھا۔عمرو کے گھوڑے کی ٹانگیں ایسی دوہری ہوئیں کہ منہ کے بل گرا اور ایک پہلو پر لڑھک گیا ۔عمرو گھوڑے کی پیٹھ سے لڑھک کر قلابازیاں کھاتا گیا ۔ایک لمحے میں گھوڑا اٹھ کھڑا ہوا ،ادھر عمرو اٹھا اور پلک جھپکتے میں گھوڑے پر سوار ہو گیا۔
اس کے پیچھے عکرمہ کے دو سوار اکھٹے چلے آ رہے تھے۔ خندق کے کنارے پر آکے دونوں سواروں نے اپنے گھوڑوں کی پیٹھیں خالی کر دی تھیں اور ان کی گردنوں پر جھکے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔
اہلِ قریش کے لشکر نے داد وتحسین کے نعرے لگائے۔ اس شور سے مسلمان پہرے دار دوڑے آئے،اتنے میں عکرمہ کے دو اور گھوڑے اپنے سواروں کو اٹھائے خندق کے کنارے سے ہوا میں اٹھے۔ ان کے پیچھے سات میں سے باقی سواروں نے بھی اپنے گھوڑوں کو ایڑھ لگا دی۔ تمام گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔
’’ٹھہر جاؤ!‘‘ عکرمہ نے مسلمان سنتریوں کو بلند آواز میں کہا۔’’ کوئی اور گھوڑا خندق کے اس طرف نہیں آئے گا۔ محمد (ﷺ) کو بلاؤ۔ تم میں جو سب سے زیادہ بہادر ہے اسے لاؤ۔ وہ میرے ایک آدمی کا مقابلہ کرکے گرا لے تو ہم سب کو قتل کر دینا۔خدا کی قسم! ہم تمہارا خون اس ریت پر چھڑک کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘
…………bnb…………

مسلمانوں کی اجتماع گاہ میں کھلبلی بپا ہو چکی تھی ۔ایک شور تھا ’’قریش اور غطفان نے خندق عبور کر لی ہے۔مسلمانوں تمہارے امتحان کا وقت آ گیا ہے ۔ ہوشیار…… خبردار……دشمن آگیا ہے۔‘‘
رسول اﷲﷺ نے مسلمانوں کو بے قابو نہ ہونے دیا۔آپﷺ نے دیکھ لیا تھا کہ اہلِ قریش خندق کے پار کھڑے قہقہے لگا رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کا مذاق بھی اڑا رہے تھے۔ پھبتیاں بھی کس رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اس جگہ پہنچے جہاں عکرمہ اور اس کے سوار کھڑے للکار رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ کے ساتھ حضرت علی ؓبھی تھے۔ آپﷺ نے صورتِ حل کا جائزہ لیا تو سمجھ گئے کہ عکرمہ انفرادی مقابلے کیلئے آیا ہے۔ آپﷺ کو اور حضرت علیؓ کو دیکھ کر عمرو بن عبدو نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا۔
’’قسم نے ہبل اور عزیٰ کی!‘‘عمرو نے للکار کر کہا۔’’تم میں مجھے کوئی ایک بھی نظر نہیں آ رہا جو میرے مقابلے میں اتر سکے۔‘‘
مؤرخ عینی شاہدوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کی خاموشی گواہی دے رہی تھی کہ ان پر عمرو کا خوف طاری ہو گیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ عمرو کی جسامت اور طاقت کے ایسے ایسے قصے مشہور تھے جیسے وہ مافوق الفطرت طاقت کا مالک ہو۔ دیکھا شاید کسی نے بھی نہیں تھا۔لیکن سب کہتے تھے کہ عمرو گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے اور وہ پانچ سو گھڑ سواروں کو اکیلا شکست دے سکتا ہے۔ اس کے متعلق ہر کوئی تسلیم کرتا تھا کہ اسے نہ کوئی گرا سکا ہے نہ کوئی گرا سکے گا۔
ابو سفیان خندق کے پاس کھڑا دیکھ رہا تھا ۔خالد اور صفوان بھی دیکھ رہے تھے۔ غطفان، عینیہ اور ان کا تمام لشکر دیکھ رہا تھا اور نعیم ؓبن مسعود بھی غیر مسلموں کے لشکر میں دم بخود کھڑے تھے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں تم میں سے کوئی بھی آگے نہیں آئے گا۔‘‘عمرو بن عبدو کی للکار ایک بار پھر گرجی۔خندق کے پارقریش کا قہقہہ بلند ہوا اور کئی پھبتیاں سنائی دیں۔
حضرت علیؓ نے رسولِ خداﷺکی طرف دیکھا ۔آپﷺ نے اپنا عمامہ سر سے اتارا اور حضرت علیؓ کے سر پر باندھ دیا پھر اپنی تلوار حضرت علیؓ کو دی۔ مؤرخ ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کی سرگوشی سنائی دی۔’’ علی کا مدد گار تو ہی ہے میرے اﷲ!‘‘
مؤرخین نے اس تلوار کے متعلق جو رسولِ کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو دی تھی، لکھا ہے کہ ’’یہ تلوار قریش کے مشہور جنگجو منبّہ بن حجاج کی تھی۔وہ بدر کی لڑائی میں مارا گیا تھا۔ فاتح مجاہدین نے یہ تلوار حضورﷺ کو پیش کی تھی۔ آپﷺ نے اس کے بعد یہی تلوار اپنے پاس رکھی، اب آپﷺ نے وہی تلوار حضرت علیؓ کو دے کر عرب کے ایک دیو قامت کے مقابلے میں اتارا۔ یہ تلوار تاریخ ِاسلام میں ’’ذوالفقار ‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔
حضرت علیؓ، عمرو بن عبدو کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔
’’ابو طالب کے بیٹے!‘‘ عمرو جو گھوڑے پر سوار تھا۔حضرت علیؓ سے مخاطب ہوا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارا باپ میرا کتنا گہرا دوست تھا؟کیا یہ میرے لیے بہت برا فعل نہیں ہو گا۔کہ میں اپنے عزیز دوست کے بیٹے کو قتل کر دوں۔‘‘
’’اے میرے باپ کے دوست!‘‘حضرت علیؓ نے للکارکر جوا ب دیا۔ ’’ہماری دوستی ختم ہوچکی ہے۔ خدا کی قسم! میں تمہیں صرف ایک بار کہوں گا کہ اﷲ کو برحق اور محمدﷺ کو اﷲ کا رسول تسلیم کرلواور ہم میں شامل ہو جاؤ۔‘‘
’’تم نے ایک بار کہہ لیا ہے ۔‘‘عمرو نے کہا۔’’ میں دوسری بار یہ بات نہیں سنوں گا ۔میں یہ بھی کہوں گا کہ میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
’’میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں عمرو!‘‘ حضرت علیؓ نے کہا ۔’’اتر گھوڑے سے اور آ میرے مقابلے پہ۔اور بچا اپنے آپ کو اس تلوار سے جو مجھے اﷲ کے رسولﷺ نے عطا کی ہے۔‘‘
…………bnb…………

عمرو کے متعلق مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ وحشی تھا۔ جب غصے میں آتا تھا تو اس کا چہرہ غضب ناک ہو کر درندوں جیسا ہو جاتا تھا۔ وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور تلوار سونت کر حضرت علی ؓپر پہلا وار اتنی تیزی سے کیا کہ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کو کاٹ دیا ہے۔لیکن حضرت علی ؓیہ بھرپور وار بچا گئے۔اس کے بعد عمرو نے یکے بعد دیگرے حضرت علیؓ پر متعدد وار کیے۔ حضرت علیؓ نے ہر وار غیر متوقع پینترا بدل کر بچایا۔ عمرو نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ جس جسامت اور طاقت پر اسے اتنا گھمنڈ ہے وہ ہر جگہ کام نہیں آ سکتی۔ تیغ زنی کے معرکے میں جس تیزی اورپھر تی کا مظاہرہ حضرت علی ؓکر رہے تھے وہ عمرو نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اس کا جسم بھاری بھرکم تھا،اگروہ گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا بھی سکتا تھا تو بھی اس میں گھوڑے جیسے رفتار نہیں تھی۔ اس کی طاقت گھوڑے سے زیادہ بھی ہو سکتی تھی۔ حضرت علیؓ نے اس پر ایک بھی وار نہ کیا جسے عمرو نے خوفزدگی سمجھاہو گا۔ وہ وار پہ وار کرتا رہا اور حضرت علیؓ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہوتے رہے۔
خندق کے پار اہلِ قریش کا لشکر جو قہقہے لگا رہا تھا، یک لخت خاموش ہو گیا۔کیونکہ ان کا دیو قامت عمرو وار کرتے کرتے رک گیا تھا، اور خاموش کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ ہانپ رہا تھا۔وہ غالباً حیران تھا کہ کہ یہ نوجوان جو قد بت میں اس کے جسم کا بیسواں حصہ بھی نہیں ہے اس سے مرعوب کیوں نہیں ہوا۔دراصل عمرو تھک گیا تھا۔
حضرت علیؓ نے جب اس کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی طاقت اتنے سارے وار کرتے کرتے صرف کرچکا ہے اور حیران و پریشان کھڑا ہے تو حضرت علیؓ نے یہ حیران کن مظاہرہ کیا کہ تلوار پھینک کر بجلی کی سی تیزی سے عمرو پر جھپٹے ،اور اچھل کر اس کی گردن اپنے ہاتھوں میں دبوچ لی۔اس کے ساتھ ہی حضرت علیؓ نے عمرو کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگ ایسے پھنسائی کہ وہ پیٹھ کے بل گرا۔
اس نے اپنی گردن چھڑانے کیلئے بہت زور لگایا لیکن اس کی گردن حضرت علیؓ کی آہنی گرفت سے آزاد نہ ہو سکی۔ حضرت علی ؓنے اس کی گردن سے ایک ہاتھ ہٹا کر کمر بند سے خنجر نکالا اور اس کی نوک عمرو کی شہہ رگ پر رکھ دی۔
’’اب بھی میرے اﷲ کے رسول ﷺپر ایمان لے آ تو میں تیری جان بخشی کر دوں گا۔‘‘حضرت علیؓ نے کہا۔
عمرو بن عبدونے جب دیکھاکہ اس کی وہ طاقت جس سے اہلِ عرب لرزتے تھے بے کار ہو گئی ہے تو اس نے یہ اوچھی حرکت کی کہ حضرت علیؓ کہ منہ پر تھوک دیا۔
دیکھنے والے ایک بار پھر حیران رہ گئے کیونکہ حضرت علیؓ خنجر سے اس کی شہ رگ کاٹ دینے کے بجائے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے خنجر کمر بند میں اڑس لیا اور ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا، عمرو اب اس طرح اٹھا جیسے اس کے جسم کی طاقت ختم ہو چکی ہو۔صرف اسے ہی نہیں ہر کسی کو توقع تھی کہ حضرت علی ؓاسے زندہ نہیں اٹھنے دیں گے لیکن حضرت علیؓ بڑے آرام سے پیچھے ہٹے۔
’’عمرو!‘‘ حضرت علی ؓنے کہا۔’’میں نے اﷲ کے نام پر تیرے ساتھ زندگی اور موت کا مقابلہ کیا ہے لیکن تو نے میرے منہ پر تھوک کر میرے دل میں ذاتی دشمنی پیدا کر دی ہے۔میں تجھے ذاتی دشمنی کی بناء پر قتل نہیں کروں گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے خدا کو میرا یہ انتقام اچھا نہ لگے…… جا یہاں سے۔ اپنی جان لے کر واپس چلا جا۔‘‘
عمرو بن عبدو شکست تسلیم کرنے والا آدمی نہیں تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ میدان میں ا س کی یہ پہلی ہار تھی جسے وہ برداشت نہ کر سکا ۔ا س نے اپنی ہار کوجیت میں بدلنے کیلئے یہ اوچھی حرکت کی کہ تلوار نکال کر حضرت علیؓ پر جھپٹ پڑا۔ حضرت علیؓ اس حملے کیلئے تیارنہیں تھے لیکن ان کی کامیابی کیلئے رسولِ خداﷺ نے خدا سے مدد مانگی تھی ۔عین وقت پر جب عمرو کی تلوار اور حضرت علیؓ کی گردن میں دو چار لمحوں کا فاصلہ رہ گیا تھا، حضرت علیؓ نے اپنی ڈھال آگے کر دی۔ عمرو کا وار اس قدر زور دار تھا کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کی ڈھال کو کاٹ دیا۔ڈھال حضرت علی ؓکے کان کے قریب سر پر لگی جس سے خون پھوٹنے لگا۔
عمرو ڈھال میں سے تلوار کھینچ ہی رہا تھا کہ حضرت علی ؓکی وہ تلوار جو انہیں رسولِ کریمﷺ نے دی تھی ،اتنی تیزی سے حرکت میں آئی کہ عمرو کی گردن کٹ گئی۔گردن پوری نہ کٹی لیکن شہہ رگ کٹ چکی تھی۔ عمرو کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اس کاجسم ڈولنے لگا۔ حضرت علیؓ نے ا س پردوسرا وار نہ کیا۔ انہو ں نے دیکھ لیا تھا کہ یہی وار کافی ہے۔ عمرو کی ٹانگیں دوہری ہوئیں، اس کے گھٹنے زمین پر لگے اور وہ لڑھک گیا۔ عرب کی مٹی اس کا خون چوسنے لگی۔
خندق کے پار دشمن کے لشکر پر ایسا سکوت طاری ہو گیا جیسے پورے کا پورا لشکر کھڑے کھڑے مر گیا ہو۔اب مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے۔
عربوں کی رسم کے مطابق اس مقابلے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا تھا۔مسلمانوں کے ایک جیش نے عکرمہ اور اس کے باقی سواروں پر حملہ کر دیا تھا۔ قریش کے ان سواروں کیلئے بھاگ نکلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔وہ خیریت سے پسپا ہونے کیلئے لڑے۔ اس معرکے میں قریش کاایک آدمی مارا گیا۔عکرمہ نے اپنا ایک گھوڑا خندق کی طرف موڑ کر بھاگ نکلنے کیلئے ایڑھ لگائی ۔خندق پھلانگنے سے پہلے عکرمہ نے اپنی برچھی پھینک دی۔ان میں سے ایک سوار جس کا نام ’’خالد بن عبداﷲ‘‘ تھا خندق کو پھلانگ نہ سکا ۔اس کا گھوڑا خندق کے اگلے کنارے سے ٹکرایا اور خندق میں جا پڑا۔وہ اٹھ کر کنارے پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔لیکن مسلمانوں نے اس پر پتھروں کی بوچھاڑکر دی اور وہ وہیں ختم ہو گیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages