Featured Post

Khalid001

23 May 2019

Khalid017


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  17
رسولِ کریمﷺ نے حکم دیا کہ خندق کے اس مقام پر مستقل پہرے کا انتظام کر دیا جائے کیونکہ وہاں سے خندق پھلانگی جا سکتی تھی۔
دوسرے دن خالد اپنے گھڑ سوار دستے میں سے چند ایک جانباز سوار منتخب کرکے خندق عبورکرنے کو چل پڑا۔
’’خالد رک جاؤ!‘‘ابو سفیان نے اسے کہا۔’’کیا تم نے کل عکرمہ کے سواروں کاانجام نہیں دیکھا؟اب مسلمانوں نے وہاں پہرے کا اور زیادہ مضبوط انتظام کر دیا ہوگا۔‘‘
’’کیا یہ بہتر نہیں کہ لڑے بغیر واپس جانے کے بجائے تم میری لاش میرے گھوڑے پر رکھ کر مکہ لے جاؤ؟‘‘خالد نے کہا۔’’اگر ہم ایک دوسرے کے انجام سے ڈرنے لگے تو وہ دن بہت جلد طلوع ہو گا جب ہم مسلمانوں کے غلام ہوں گے۔‘‘
’’میں تمہیں نہیں روکوں گا میرے دوست! ‘‘عکرمہ نے خالد سے کہا۔’’لیکن میری ایک بات سن لو۔اگر تم میری شکست کا انتقام لینے جا رہے ہو تو رک جاؤ۔تمہیں قریش کی عظمت عزیز ہے تو ضرور جاؤ۔‘‘
آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو وہ لمحے یاد آ رہے تھے ۔اسے نہ اس وقت یہ خیال آیا تھا نہ آج کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خندق عبور کرکے بھی مارا جائے گا ،نہ عبور کر سکا تو بھی مارا جائے گا ،کیوں خندق کی طرف چل پڑا تھا۔
وہ 16مارچ 627ء کے دن کا تیسرا پہر تھا۔خالد چند ایک منتخب سوارو ں کے ساتھ خندق کی طرف بڑھا۔اس نے خندق پھلانگنے کیلئے کچھ فاصلے سے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی۔مگر اس مقام کے پہرے پر جو مسلمان کہیں چھپے بیٹھے تھے۔انہوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔خالد نے لگام کو پوری طاقت سے کھینچا،اور اس کا گھوڑا خندق کے عین کنارے پر جا رکا۔خالد نے گھوڑے کو پیچھے موڑااور اپنے تیر اندازوں کو بلایا۔اس نے سوچا تھا کہ اس کے تیر انداز مسلمانوں پر تیر پھینکتے چلے جائیں گے جس سے مسلمان سر نہیں اٹھا سکیں گے اور وہ خندق پھلانگ لے گا۔لیکن مسلمانوں نے تیر اندازی میں اضافہ کر دیا۔مسلمان تیروں کی بوچھاڑوں میں تیر چلا رہے تھے۔ خالد کو پسپا ہونا پڑا۔
خالد اس انداز سے اپنے سواروں کو وہاں سے ہٹا کر دوسری طرف چل پڑا جیسے اس نے خندق پر ایک اور حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو۔مؤرخین جن میں ابنِ ہشام اور ابنِ سعد قابلِ ذکر ہیں لکھتے ہیں کہ’’ یہ خالدکی ایک چال تھی۔اس نے چلتے چلتے اپنے سوار جیش میں مزید سوار شامل کر لیے۔اس نے سوچا یہ تھا کہ اسے پسپا ہوتے دیکھ کر مسلمان پہرے دار اِدھر ُادھر ہوجائیں گے ۔اس نے ادھر دیکھا ۔وہاں اسے کوئی پہرے دار نظر نہ آیا۔اس نے اپنے دستے کو خندق کے کم چوڑائی والے مقام کی طرف موڑ کر سَر پٹ دوڑادیا۔
خالد کی یہ چال صرف اس حد تک کامیاب رہی کہ اس کے تین چار گھوڑ سوار خندق پھلانگ گئے۔ان میں خالد سب سے آگے تھا۔مسلمان پہرے داروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔قریش کے جو سوار ابھی خندق کے پاس تھے۔ان پر مسلمانوں نے اتنے تیر برسائے کہ انہیں پسپا ہونا پڑا۔خالد اور اس کے سواروں کیلئے مسلمانوں کے گھیرے سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا۔یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا جو خالد نے گھوڑا دوڑا کر اور پینترے بدل بدل کر لڑا۔اس کے سوار بھی تجربہ کار اور پھرتیلے تھے۔ ان میں سے ایک مارا گیا۔ خالد اب دفاعی معرکہ لڑ رہا تھا۔ اس نے کئی مسلمانوں کو زخمی کیا جن میں سے ایک شہید ہو گیا۔ آخر اسے نکلنے کا موقع مل گیا اور اس کا گھوڑا خندق کو پھلانگ آیا۔ اس کے جو سوار زندہ رہ گئے تھے وہ بھی خندق پھلانگ آئے۔
اس کے بعد قریش میں سے کسی نے بھی خندق کے پار جانے کی جرات نہ کی۔عکرمہ اور خالد کی ناکامی کے بعد قریش اور ان کے دیگر اتحادی قبائل کے لشکر میں مایوسی جو پہلے ہی کچھ کم نہ تھی اور بڑھ گئی۔ خوراک نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ ابو سفیان جو اپنے اور دیگر تمام قبائل کے لشکر کا سالارِ اعلیٰ تھا پہلے ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا تھا ۔خالد، عکرمہ اور صفوان نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ ان کا لشکر زندہ و بیدار ہے، یہ کارروائی جاری رکھی کہ وقتاً فوقتاً خندق کے قریب جاکر مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر تیر برساتے رہے۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے تیر اندازوں کو خندق کے قریب پھیلا دیا جو اہلِ قریش کے تیر اندازوں پر جوابی تیر اندازی کرتے رہے۔تیروں کے تبادلے کا یہ سلسلہ صرف ایک دن صبح سے شام تک چلا۔
…………bnb…………

اہلِ قریش ، غطفان اور دیگر قبائل جس محمد (ﷺ) کو شکست دینے آئے تھے وہ محمد (ﷺ) کسی ملک کے بادشاہ نہیں تھے۔ وہ خداکے رسولﷺ تھے۔ خدا نےانہیں ایک عظیم پیغام دے کر رسالت عطا کی تھی۔ آپﷺ نے خدا سے مدد مانگی تھی ۔خدا اپنے رسولﷺ کو کیسے مایوس کرتا؟ اس کے علاوہ مدینہ کے اندر مسلمانوں کی عورتیں اور بچے دن رات اپنی کامیابی اور نجات کی دعائیں مانگتے رہتے تھے یہ دعائیں رائیگاں کیسے جاتیں؟
18 مارچ 627ء بروز منگل مدینہ کی فضاء خاموش ہو گئی۔سردی خاصی تھی، ہوا بند ہو گئی۔ موسم خوش گوار ہو گیا لیکن یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔ اچانک آندھی آگئی جو اس قدر تیز و تند تھی کہ خیمے اڑنے لگے۔ جھکڑ بڑے ہی سرد تھے۔آندھی کی تندی اور اس کی چیخوں سے گھوڑے اور اونٹ بھی گھبرا گئے اور رسیاں تڑوانے لگے۔
مسلمانوں کی اجتماع گاہ سلع کی پہاڑی کی اوٹ میں تھی۔ ا س لیے آندھی انہیں اتنا پریشان نہیں کر رہی تھی جتنا مکہ کے لشکر کو ۔قریش کھلے میدان میں تھے۔ آندھی ان کا سامان اڑارہی تھی ،خیمے اُڑ گئے یا لپیٹ دیئے گئے تھے ۔لشکر کے سردار اور سپاہی اپنے اوپر ہر وہ کپڑا ڈال کر بیٹھ گئے تھے جو ان کے پاس تھا۔ان کیلئے یہ آندھی خدا کا قہر بن گئی تھی۔ اس کی چیخوں میں قہر اور غضب تھا۔
ابو سفیان برداشت نہ کر سکا ،وہ اٹھا اسے اپنا گھوڑا نظر نہ آیا۔قریب ہی ایک اونٹ بیٹھاتھا۔ ابو سفیان اونٹ پر چڑھ بیٹھا اور اسے اٹھایا۔مؤرخ ابنِ ہشام کی تحریر کے مطابق ابو سفیان بلند آواز سے چلانے لگا:
’’اے اہلِ قریش! اے اہلِ غطفان ! کعب بن اسد نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔آندھی ہمارا بہت نقصان کر چکی ہے۔ اب یہاں ٹھہرنا بہت خطرناک ہے۔مکہ کو کوچ کرو، میں جا رہا ہوں……میں جا رہا ہوں۔‘‘
اس نے اونٹ کو مکہ کی طرف دوڑا دیا۔
خالد کو آج وہ منظر یاد آ رہا تھا۔تمام لشکر جسے مکہ سے مدینہ کی طرف کوچ کرتے دیکھ کر اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا، ابو سفیان کے پیچھے پیچھے ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح جا رہا تھا۔ خالد اور عمرو بن العاص نے اپنے طور پر سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے مسلمان عقب سے حملہ کر دیں، چنانچہ انہوں نے اپنے سوار دستوں کو اپنے قابو میں رکھ کر لشکر کے عقب میں رکھاتھا ۔ابو سفیان نے ایسے حفاظتی اقدام کی سوچی ہی نہیں تھی۔
اس پسپا ہوتے لشکر میں وہ آدمی نہیں تھے جو مارے گئے تھے اور اس لشکر میں نعیمؓ بن مسعود بھی نہیں تھے۔ قریش کا لشکر چلا تو نعیم ؓ آندھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خندق میں اتر گئے اور رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے۔
آج خالد مدینہ کی طرف اسی راستے پر جا رہا تھا جس راستے سے ا سکا لشکر ناکام واپس گیا تھا۔ اسے شیخین کی پہاڑی نظر آنے لگی تھی۔
…………bnb…………

آندھی نے تاریخِ اسلام کا رخ موڑ دیا۔
آندھی نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ خدا حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
رسولِ خداﷺ کے دشمنوں کی پسپائی تنکوں کی مانند تھی۔جو آندھی میں اڑے جاتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔
خالد کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ مسلمان تعاقب کریں گے لیکن مسلمانوں نے تعاقب کی سوچی ہی نہیں تھی۔اس آندھی میں تعاقب اور لڑائی مسلمانوں کے خلاف بھی جا سکتی تھی۔جس دشمن کوخدا نے بھگا دیا تھا اس کے پیچھے جانا دانشمندی نہیں تھی۔البتہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے چند ایک آدمیوں کو بلندیوں پر کھڑا کر دیا گیا تھاکہ وہ دشمن پر نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن کہیں دور جا کر رک جائے اور منظم ہو کر واپس آجائے۔
آندھی اتنی مٹی اور ریت اڑا رہی تھی کہ تھوڑی دور تک بھی کچھ نظر نہیں آتا تھا۔بہت دیر بعد تین ،چا رمسلمان گھوڑ سوار اس جگہ سے خندق پھلانگ گئے جہاں سے عکرمہ اور خالدکے گھوڑوں نے خندق پھلانگی تھی۔وہ دور تک چلے گئے انہیں اڑتی ہوئی گرد اور ریت کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا۔وہ رک گئے لیکن واپس نہ آئے۔
شام سے کچھ دیر پہلے آندھی کا زور ٹوٹ گیااور جھکڑ تھم گئے ۔فضاء صاف ہو گئی اور نظر دور تک کام کرنے لگی۔دور افق پر زمین سے گرد کے بادل اٹھ رہے تھے۔ وہ اہلِ قریش اور ان کے اتحادی قبائل کی پسپائی کی گرد تھی جو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں میں بڑی صاف نظر آ رہی تھی۔ یہ گرد مکہ کو جا رہی تھی۔ تعاقب میں جانے والے مسلمان سوار اس وقت واپس آئے جب رات بہت گہری ہو چکی تھی۔
’’خدا کی قسم!‘‘انہوں نے واپس آ کر بتایا۔’’وہ جو ہمارے عقیدے کو توڑنے اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے،وہ مدینہ سے اتنی دہشت لے کر گئے ہیں کہ رک نہیں رہے۔کہیں پڑاؤ نہیں کر رہے۔کیا راتوں کو مسافر پڑاؤ نہیں کیا کرتے؟ کیا لشکر راتوں کو بھی چلتے رہتے ہیں؟ وہی چلتے رہتے ہیں جو منزل تک بہت جلد ی پہنچنا چاہتے ہوں۔‘‘
احادیث اور مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق رسولِ کریمﷺ کو جب یقین ہو گیا کہ دشمن گھبراہٹ کے عالم میں بھاگا ہے اور ایسا امکان ختم ہو چکا ہے کہ وہ منظم ہوکر واپس آ جائے گا، تب آپﷺ نے کمر سے تلوار کھولی،خنجر اتار کر رکھ دیا اور اﷲ کا شکر ادا کر کے غسل کیا۔
…………bnb…………

اس رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا،وہ مدینہ والوں کیلئے فتح و نصرت اور مسرت و شادمانی کی صبح تھی۔ ہر طرف اﷲ اکبر اور خوشیوں کے نعرے تھے۔سب سے زیادہ خوشی عورتیں اور بچے منا رہے تھے۔جنہیں چھوٹے چھوٹے قلعوں میں بند کردیا گیا تھا۔وہ خوشی سے چیختے چلاتے باہر نکلے۔مدینہ کی گلیوں میں مسلمان بہت مسرور پھر رہے تھے۔
فتح کے اس جشن میں بنو قریظہ کے یہودی بھی شامل تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے انہیں امن و امان میں رہنے کے عوض کچھ مراعات دے رکھی تھیں۔ظاہری طور پروہ مسلمانوں کو اپنا دوست کہتے،اور دوستوں کی طرح رہتے تھے۔اہلِ قریش کی پسپائی پر وہ مسلمانوں کی طرح خوشیاں منا رہے تھے لیکن ان کا سردار کعب بن اسد اپنے قلعے نما مکان میں بیٹھا تھا۔ اس کے پاس اپنے قبیلے کے تین سرکردہ یہودی بیٹھے تھے اور اُس وقت کی غیر معمولی طورپر حسین یہودن یوحاوہ بھی وہاں موجود تھی۔ وہ گذشتہ شام اہلِ قریش کی پسپائی کی خبر سن کر آئی تھی۔
’’کیا یہ اچھا نہیں ہوا کہ ہم نے مسلمانوں پر حملے نہیں کیے؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’مجھے نعیم بن مسعود نے اچھا مشورہ دیا تھا۔اس نے کہا تھا کہ قریش سے معاہدے کی ضمانت کے طور پر چند آدمی یرغمال کیلئے مانگو۔اس نے یہ بھی کہا تھاکہ قریش اس سے دگنالشکر لے آئیں تو بھی خندق عبور نہیں کر سکتے۔میں نے نعیم کا مشورہ اس لیے قبول کر لیا تھاکہ وہ اہلِ قریش میں سے ہے۔‘‘
’’وہ اہلِ قریش میں سے نہیں۔‘‘ایک یہودی نے کہا۔’’وہ محمد کے پیروکاروں میں سے ہے۔‘‘
’’خدائے یہودہ کی قسم!تمہاری بات سچ نہیں ہو سکتی۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’وہ اہلِ قریش کے ساتھ آیا تھا۔‘‘
’’مگر ان کے ساتھ گیا نہیں۔‘‘اسی یہودی نے کہا۔’’میں نے کل شام اسے مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ دیکھا ہے۔اس وقت تک ا ہلِ قریش کا لشکر مدینہ سے بہت دور جا چکا تھا۔‘‘
’’پھر تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ محمد)ﷺ( کے پیروکاروں میں سے ہے؟‘‘کعب نے کہا۔’’میں ایسی بات کو کیوں سچ مانوں جو تم نے کسی سے پوچھا نہیں۔‘‘
’’میں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے پوچھا تھا۔‘‘یہودی نے کہا۔’’میں نے نعیم کو دیکھ کر کہا تھا،کیا مسلمان اب قریش کے جنگی قیدیوں کو کھلا رکھتے ہیں؟میرے دوست نے جواب دیا تھا کہ نعیم کبھی کا اسلام قبول کرچکا ہے۔اسے مدینہ میں آنے کا موقع اب ملا ہے۔‘‘
’’پھر اس نے ہمیں مسلمانوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہم سے بچایا ہے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’اس نے جو کچھ بھی کیا ہے ،ہمارے لیے اچھا ثابت ہوا ہے۔اگر ہم قریش کی بات مان لیتے تو…‘‘
’’تو مسلمان ہمارے دشمن ہو جاتے۔‘‘ ایک اور یہودی نے کہا۔ ’’تم یہی کہنا چاہتے ہو نہ کعب! مسلمان پھر بھی ہمارے دشمن ہیں،ہمیں محمد (ﷺ) کے نئے مذہب کو یہیں پر ختم کرنا ہے ورنہ محمد (ﷺ) ہمیں ختم کرا دے گا۔‘‘
’’کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ مذہب جسے یہ لوگ اسلام کہتے ہیں ،کتنی تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا ہے؟‘‘تیسرے یہودی نے جو معمر تھا ،کہا۔’’ہمیں اس کے آگے بندھ باندھنا ہے۔اسے روکنا ہے۔‘‘
’’لیکن کیسے؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔
’’قتل۔‘‘ معمر یہودی نے کہا۔ ’’محمد (ﷺ) کا قتل۔‘‘
’’ایسی جرات کون کرے گا؟‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’تم کہو گے کہ وہ ایک یہودی ہو گا۔ اگر وہ محمد (ﷺ) کے قتل میں ناکام ہو گیا تو بنو قینقاع اوربنو نضیر کا انجام دیکھ لو،مسلمانوں نے انہیں جس طرح قتل کیا ہے اور ان میں سے زندہ بچ رہنے والے جس طرح دوردراز کے ملکوں کو بھاگ گئے ہیں وہ نہ بھولو۔‘‘
’’خدائے یہودہ کی قسم!‘‘ معمر یہودی نے کہا۔ ’’میری عقل تم سے زیادہ کام نہیں کرتی تو تم سے کم بھی نہیں،تم نے جو آج سوچا ہے وہ میں اور’’ لیث بن موشان‘‘ بہت پہلے سوچ چکے ہیں ۔کوئی یہودی محمد (ﷺ) کو قتل کرنے نہیں جائے گا۔‘‘
’’پھر وہ کون ہو گا؟‘‘
’’وہ قبیلۂ قریش کا ایک آدمی ہے۔‘‘ بوڑھے یہودی نے جواب دیا۔ ’’لیث بن موشان نے اسے تیارکر لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ کام کر دیا جائے۔‘‘
’’اگر تم لوگ بھول نہیں گئے کہ میں بنو قریظۃ کا سردار ہوں تو میں اس کام کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں جو مجھے معلوم ہی نہ ہوکہ کیسے کیا جائے گا؟‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔ ’’اور مجھے کون بتائے گا کہ اس آدمی کواتنے خطرناک کام کیلئے کیسے تیار کیا گیا ہے؟ کیا اسے ابو سفیان نے تیار کیا ہے؟ خالدبن ولید نے تیار کیا ہے؟‘‘
’’سنو کعب!‘‘ بوڑھے یہودی نے کہااور یہودی حسینہ یوحاوہ کی طرف دیکھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages