Featured Post

Khalid001

23 May 2019

Khalid018


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  18
’’میں یہ بات لیث بن موشان کی موجودگی میں سناؤں تو کیا اچھا نہ ہوگا؟‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’اس بات میں اس بزرگ کا عمل دخل زیادہ ہے۔‘‘
’’ہم اس بوڑھے جادوگر کو کہاں سے بلائیں۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔ ’’ہم تم پر اعتبار کرتے ہیں۔‘‘
’’وہ یہیں ہیں۔‘‘ بوڑھے یہودی نے کہا۔ ’’ہم اسے ساتھ لائے ہیں اور ہم اسے بھی ساتھ لائے ہیں جو محمد (ﷺ) کو قتل کرے گا۔اب ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ہم سب کو امید تھی کہ قریش غطفان اور ان کے دوسرے قبائل اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے مگر ہر میدا ن میں انہوں نے شکست کھائی۔ ہم نے انہیں مدینہ پر حملہ کیلئے اکسایا تھا وہ یہاں سے بھی بھاگ نکلے۔ خدائے یہودہ کی قسم! کعب تم نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ نہ کرکے بہت برا کیا ہے۔‘‘
’’میں اس کی وجہ بتا چکا ہوں۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔
’’وجہ صحیح تھی یا غلط۔‘‘ معمر یہودی نے کہا۔ ’’وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اب ہم قریش کی فتح کا انتظار نہیں کر سکتے۔‘‘ اس نے یوحاوہ سے کہا۔ ’’لیث بن موشان کو بلاؤ دوسرے کو ابھی باہر رکھو۔‘‘
یوحاوہ کمرے سے نکل گئی ۔واپس آئی تو اس کے ساتھ لیث بن موشان تھا ۔وہ ایک بوڑھا یہودی تھا جس کی عمر ستر اور اسی برس کے درمیان تھی۔اس کے سر اور داڑھی کے بال دودھ کی طرح سفید ہو چکے تھے۔ داڑھی بہت لمبی تھی،اس کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھا ،اس نے اونٹ کے رنگ کی قبا پہن رکھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں لمبا عصاتھاجو اوپر سے سانپ کے پھن کی طرح تراشا ہوا تھا۔
لیث بن موشان کو یہودیوں میں جادوگر کے نام سے شہرت حاصل تھی۔شعبدہ بازی اور کالے علم میں وہ مہارت رکھتا تھا ۔وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔اس کے متعلق بہت سی روایات مشہور تھیں،جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ مردے کو تھوڑی سی دیر کیلئے زندہ کر سکتا ہے اور وہ کسی بھی مرد یا عورت کو اپنے تابع کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ یہودی اسے اپنا پیرومرشد سمجھتے تھے۔ وہ جہاندیدہ اور عالم فاضل تھا۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو سب اس کی تعظیم کو اٹھے وہ جب بیٹھ گیا تو سب بیٹھے۔
’’خاندانِ موشان کی عظمت سے کون واقف نہیں۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آپ کو یہاں بلانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ یوحاوہ شاید آپ کو لے آئی ہے۔‘‘
’’میں پیغمبر نہیں، کعب بن اسد!‘‘ لیث بن موشان نے کہا۔ ’’میں یہ خوبصورت الفاظ سننے کا عادی نہیں اور تعظیم و احترام کاوقت بھی نہیں۔ کوئی نہ بلاتا تو بھی مجھے آنا تھا۔ تم لوگ اپنے فرض کی ادائیگی میں بہت وقت ضائع کر چکے ہو۔ تم سے یہ لڑکی اچھی ہے جس نے وہ کام کر لیا ہے جو تمہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
’’معزز موشان‘‘ کعب بن اسدنے کہا۔ ’’ہم نے ابھی اس انتہائی اقدام کی سوچی نہیں تھی۔اگر ہم محمد (ﷺ) کے قتل جیسا خوفناک ارادہ کرتے بھی تو یوحاوہ کو استعمال نہ کرتے۔ہم اتنی خوبصورت اور جوان لڑکی کو استعمال نہیں کر سکتے۔
’’کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘ … لیث بن موشان نے کہا … ’’کیا تم فراموش کر بیٹھے ہو کہ ساری دنیا پر خدائے یہودہ کی حاکمیت ہو گی؟ … داؤد کے ستارے کی قسم! بنی نوع انسان پر بنی اسرائیل کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے ہم سب کو قربانیاں دینی پڑیں گی۔ ہمیں انسان کی فطری کمزوریوں کو اپںے ہاتھ میں لینا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ مرد کیا چاہتا ہے؟ … اعلیٰ نسل کے بیس گھوڑے اور بیس غلام یوحاوہ کے ساتھ کھڑے کر دو۔ کسی سے بھی کہو کہ اسے جو پسند ہے وہ لے جائے۔ داؤد کے ستارے کی قسم! وہ آدمی بیس گھوڑے اور بیس غلام چھوڑ دے گا اور یوحاوہ کو لے جائے گا۔‘‘
اس پر محفل پر خاموشی طاری رہی۔
’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میری بات نہیں سمجھ سکے۔‘‘ … لیث بن موشان نے کہا … ’’تمہارے دماغوں میں اپنی بیٹیوں کی عصمت سمائی ہوئی ہے … میری بات غور سے سنو۔ عصمت کا شرم وحیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک ہتھیار ہے جو ہمیں اپنے دشمنوں کو بیکار کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ بدی کیا ہے؟ نیکی کیا ہے؟ … میں جانتا ہوں تم مجھے کیا جواب دو گے۔ یہ جواب صحیح ہو گا لیکن جب تم دنیا کے کونے کونے تک یہودیت کو پہنچانے کی بات کرو گے تو بدی اور نیکی کے معنی بدل جائیں گے۔ محمد (ﷺ) برائی اور بدی کو ختم کر رہا ہے۔ ہمیں برائی اور بدی پیدا کرنی ہے مگر ہم خود برے اور بدکار نہیں ہوں گے۔ اگر تم روئے زمین پر پھیلی ہوئی نسل انسانی کو اپنی غلامی کے جہنم میں ڈالنا چاہتے ہو تو غیر یہودیوں کو جنت دکھاؤ۔ انہیں جنت کی حوریں دکھاؤ۔ انہیں میٹھی شراب پلاؤ … یہ لوگ بدمست حیوان ہیں۔ ان میں اور زیادہ حیوانیت پیدا کرو۔ یہ مت سوچو کہ اچھا کیا اور برا کیا ہے۔ یہ دیکھو کہ یہودیت کی حاکمیت کے لیے کیا اچھا ہے‘ خواہ وہ برا ہی ہو۔‘‘ … اس نے یوحاوہ کی طرف دیکھا اور بولا … ’’انہیں بتاؤ یوحاوہ‘ انہیں سمجھاؤ۔‘‘
یوحاوہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور اس نے ایک کہانی سنا دی۔
…………bnb…………

یہ کہانی چند ماہ پہلے مکہ سے شروع ہوئی تھی۔ یوحاوہ نے شرم وحجاب کے بغیر سب کو سنایا کہ وہ قریش کے تین نامور سالاروں … خالد‘ عکرمہ اور صفوان … کو اپنے حسن وجوانی کے طلسم میں الگ الگ گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ اسن ے انہیں آپس میں ٹکرانے کی سوچی تھی لیکن ان میں کوئی بھی اس کے ہاتھ نہ آیا۔ اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ وہ تینوں کے دلوں میں اپنے سردار ابوسفیان کی نفرت پیدا کر دے گی۔
’’… لیکن خالد پتھر ثابت ہوا۔‘‘ … یوحاوہ نے کہا … ’’اس نے مجھے دھتکارا نہیں لیکن دلچسپی بھی ظاہر نہ کی جس کی مجھے توقع تھی۔ میرا خیال ہے کہ عکرمہ اور صفوان پر خالد کا ہی اثر ہے۔ یہ تینوں جنگ وجدل کے دلدادہ ہیں۔ اس کے سوا کچھ سوچتے ہی نہیں۔‘‘
یوحاوہ مایوس نہ ہوئی۔ اس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ خالد سے اس نے توجہ جلدی ہٹا لی کیونکہ اس کے دماغ میں یہی ایک سودا سمایا ہوا تھا کہ مسلمانوں کو میدان میں شکست دینی ہے اور رسول اکرمﷺ کو میدان جنگ میں یا جنگی قیدی بنا کر قتل کرنا ہے۔
ایک روز یوحاوہ مکہ سے چار میل دور ایک گاؤں میں گئی اور دن کے پچھلے پھر وہاں سے واپس چلی۔ اس کے ساتھ دو لڑکیاں اور تین آدمی تھے۔ وہ سب یہودی تھے اور دو گھوڑوں والی گاڑی پر سوار تھے۔ ابھی آدھا راستہ بھی طے نہیں ہوا تھا کہ وہ صحرائی آندھی آگئی جو ریت کے ٹیلوں کو اڑا لے جاتی ہے۔ ایک تو اس کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ تنومند آدمی بھی پاؤں جما کر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ اگر جسم کا کوئی حصہ ننگا رہ جائے تو ریت اتنی زور سے ٹکراتی ہے کہ کھال اترتی محسوس ہوتی ہے۔ اونٹ گھوڑے بے قابو ہو کر بھاگ اٹھتے ہیں۔
اچانک ریت کی ایک دیوار جو زمین سے آسمان تک پہنچی ہوئی تھی بڑی تیزی سے آئی اور ان یہودیوں کی گھوڑا گاڑی کو اس دیوار نے نگل لیا۔ فضاء لال ہو گئی۔ ریت کے تھپیڑے اتنی زور سے پڑنے لگے جیسے بحری طوفان میں موجیں اٹھ اٹھ کر کشتی میں پڑتی اور کشتی کو پٹختی ہیں۔ ٹیلے جڑوں سے اکھڑنے لگے۔ صحرائی آندھی میں رک کر کھڑے ہو جانا بہت ہی خطرناک ہوتا ہے۔ ریت اس طرح جسم سے ٹکرا کر وہیں اکٹھی ہونے لگتی ہے جیسے کوئی بیلچے سے ریت پھینک رہا ہو۔ کچھ دیر بعد وہاں ریت کی اونچی ڈھیری بن جاتی ہے اور اس میں ایک انسان دفن ہوتا ہے مگر وہ زندہ رہ نہیں سکتا۔
’’آندھی ہمارے پہلو کی طرف سے آئی تھی۔‘‘ … یوحاوہ نے سنایا … ’’گھوڑآ ریت سے لدے ہوئے جھکڑ برداشت نہ کر سکے اور بے لگام ہو گئے۔ انہوں نے اپنا رخ آندھی کے رخ کے مطابق کر لیا اور سرپٹ دوڑ پڑے۔ آگے چھوٹے بڑے گڑھے آگئے۔ گھوڑ گاڑی بڑی زور سے اچھلتی‘ ڈولتی اور بے لگام گھوڑٔں کے رحم وکرم پر اُڑی جا رہی تھی۔ گاڑی کے اندر اس قدر ریت آ رہی تھی کہ اپنا آپ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
’’ایک جگہ گاڑی کے ایک طرف کے پہئیے گڑھے میں چلے گئے یا دوسری طرف کے پہیئے اونچی جگہ چڑھ گئے۔ گاڑی ایک طرف سے اتنی اوپر اٹھ گئی کہ اس کا پہلو کے بل گرنا یقینی تھا لیکن گاڑی نہ گری۔ اسے اتنا سخت جھٹکا لگا کہ میں جو اس طرف بیٹھی تھی‘ لڑھک کر باہر جا پڑی‘ گاڑی آگے نکل گئی۔ میں قلا بازیاں کھاتی گئی۔ سنبھل کر اٹھی اور اپنے ساتھیوں کو پگارا مگر آندھی کے زناٹوں اور اس کی چیخوں میں اپنی آواز مجھے بھی مشکل سے سنائی دے رہی تھی۔ میرے ساتھ گاڑی میں جو بیٹھے تھے‘ انہوں نے شاید مجھے گرتے نہیں دیکھا تھا۔ اگر دیکھا تھا تو ان میں سے کسی نے اتنی ہمت نہ کی کہ میرے پیچھے کود آتا تا کہ میں تنہا نہ رہتی…‘‘
’’میں اتنی خوفزدہ کبھی نہیں ہوئی تھی اور میں ایسی خوفناک آندھی میں بھی کبھی نہیں پھنسی تھی۔ آندھی میں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ میرے نیچے کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ گھوڑآ صحیح راستے سے ہٹ کر نہ جانے گاڑی کو کس طرف لے آئے تھے۔ میں چہرے پر کپڑا ڈالے آندھی کے رخ میں جا رہی تھی۔ پاؤں جمتے نہیں تھے۔‘‘
…………bnb…………

یوحاوہ کو آندھی دھکیلتی لے جا رہی تھی۔ اچانک آندھی کی چیخیں بہت ہی بلند اور ڈراؤنی ہو گئیں۔ یوحاوہ پہلے نیچے گئی۔ وہ گھاٹی تھی جو وہ آندھی کے زور پر اتر گئی‘ پھر وہ ایک دیوار سے ٹکرائی۔ یہ ریتلی مٹی کی دیوار تھی۔ یوحاوہ اس پر ہاتھ رکھ رکھ کر آگے چلتی گئی۔ یہ نشیبی جگہ تھی جس میں مٹی کے ٹیلے اور ٹنڈ منڈ سے صحرائی درخت بھی تھے۔ یہاں آندھی کی چیخیں ایسی ہو گئی تھیں جیسے بہت سی عورتیں چیخ چلا رہی ہوں۔ بعض چیخیں آندھی کی لگتی ہی نہیں تھیں۔ یہ انسانوں کی بھی نہیں لگتی تھیں۔ یہ چڑیلوں یا درندوں کی معلوم ہوتی تھیں۔
یہ یہودی حسینہ جو اپنے آپ کو نڈر اور دلیر سمجھتی تھی‘ خوف سے روپڑی۔ وہ جانتی تھی کہ آندھی تھم جائے گی لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کسی کے ہاتھ چڑھ گئی تو وہ اسے اس کے گھر نہیں اپنے گھر لے جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ کوئی اسے خراب کر کے قتل کر جائے۔ رات آ رہی تھی۔ بھیڑیوں کا خطرہ الگ تھا۔ کوئی اور خطرہ نہ ہوتا تو یہ خطرہ موجود تھا کہ وہ مکہ کے راستے سے بھٹک آئی ہے۔ صحرا میں راستے کی تلاش ناممکن ہوتی ہے۔ بھٹکے ہوئے مسافر کا انجام موت ہوتا ہے۔ وہ تھکن سے نہیں پیاس سے مرتا ہے۔
اسے اونٹ کے بڑبڑانے کی آواز آئی۔ اس کی دہشت زدگی بڑھ گئی لیکن اسے آندھی کی آواز سمجھ کر اس نے دل کو تسلی دے لی۔ اسے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ مٹی کی دیوار پر ہاتھ رکھ رکھ کر جا رہی تھی۔ یہ دیوار بہت بڑا ٹیلہ تھا جو آگے جا کر گھوم گیا۔ اونٹ کی آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ اب یہ آواز بہت قریب سے آئی تھی۔ اتنی قریب سے کہ یوحاوہ رک کر پیچھے ہٹ آئی۔ اب اسے شک نہ رہا یہ اونٹ کی ہی آواز تھی۔
اونٹ اکیلا نہیں ہو سکتا تھا۔ دو تین آدمیوں کا وہاں ہونا ضروری تھا۔ یہ آدمی اس کے ہمدرد تو نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ گناہ اور بدی کا دور تھا۔ یوحاوہ نے وہاں سے بھاگنے کا ارادہ کیا لیکن کس طرف؟ کہاں؟ وہاں کوئی پناہ نہیں تھی۔ آندھی ٹیلوں اور خشک درختوں کے درمیان سے گذر کر ہیبت ناک چیخیں پیدا کر رہی تھی۔ یوحاوہ کے پاؤں جیسے زمین نے جکڑ لیے تھے۔ اسے اپنے ان آدمیوں پر غصہ آنے لگا جن کے ساتھ وہ گھوڑا گاڑی میں جا رہی تھی۔ انہیں اتنا بھی پتہ نہ چلا کہ وہ گاڑی سے گر گئی ہے۔
…………bnb…………

کوئی طاقت تھی جو اسے دھکیل کر ایک طرف لے گئی۔ وہاں سے دیوار کی طرف سیدھا کھڑا ٹیلہ اندر کو چلا گیا تھا۔ یہ بڑی اچھی اوٹ تھی۔ وہ آندھی کے تھپیڑوں سے محفوظ ہو گئی۔ وہاں تین چار گز دور تک وہ دیکھ بھی سکتی تھی۔ اسے اونٹ نظر نہیں آ رہا تھا۔ دیوار کے ساتھ ساتھ وہ اور اندر گئی تو ایک غار کا دہانہ دکھائی دیا لیکن اس نے اندر جانے کی جرأت نہ کی وہ رک گئی۔
’’اندر آ جاؤ۔‘‘ … اسے ایک آدمی کی آواز سنائی دی … ’’باہر کیوں کھڑے ہو بھائی‘ اندر آجاؤ۔‘‘
یوحاوہ کی بے اختیار چیخ نکل گئی اور وہ پیچھے کو د وڑی۔ جوں ہی وہ اس اوٹ سے باہر نکلی‘ آندھی نے اس پر اس طرح ریت پھینکی جیسے کسی نے بیلچے سے پھینکی ہو۔ یوحاوہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔ ایک آدمی جو پیچھے سے آیا تھا‘ اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔
’’اوہ … تم عورت ہو۔‘‘ … اس آدمی نے پوچھا … ’’اکیلی ہو؟ تم اکیلی نہیں ہو سکتیں۔‘‘
’’میرے ساتھ چار آدمی ہیں۔‘‘ … یوحاوہ نے اپنا چہرہ اوڑھنی میں چھپا کر کہا … ’’ان کے پاس گھوڑآ ہیں۔ ان کے پاس تلواریں اور برچھیاں ہیں۔‘‘
’’کہاں ہیں وہ؟‘‘ … اس آدمی نے کہا … ’’تم ان سے الگ ہو کر ادھر کیوں آئی تھیں؟ … انہیں ادھر لے آؤ۔ بڑا اچھا غار ہے ہم سب آسانی سے اس میں بیٹھ سکیں گے۔‘‘
یوحاوہ وہاں سے نہ ہلی۔ اس آدمی نے اسے تین بار کہا کہ وہ ان آدمیوں کو ساتھ لے آئے لیکن یوحاوہ کی زبان بند ہو گئی تھی۔ اس آدمی نے جھپٹا مار کر یوحاوہ کی اوڑھنی کھینچ لی۔
’’تم اس یہودی کی بیٹی نہیں ہو؟‘‘ … اس آدمی نے پوچھا اور یوحاوہ کے باپ کا نام لے کر بولا … ’’تم اکیلی ہو۔‘‘
’’ہاں میں اکیلی ہوں‘‘ … یوحاوہ نے روتی ہوئی آواز میں کہا … ’’مجھ پر رحم کرو۔‘‘
یوحاوہ نے اسے بتا دیا کہ یہاں کس طرح پہنچی ہے۔
’’میرے ساتھ آؤ۔‘‘ … اس آدمی نے کہا اور یوحاوہ کا بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے چلا۔
’’ذرا رکو‘‘ … یوحاوہ نے کہا … ’’تم کتنے آدمی ہو؟ … کیا تم مجھ پر رحم نہیں کرو گے؟ … تم قبیلۂ قریش کے آدمی ہو شاید!‘‘
’’میں اکیلا ہوں‘‘ … آدمی نے کہا … ’’اور میرا قبیلہ قریش ہی ہے۔ میں تم پر رحم ہی کر رہا ہوں۔‘‘
’’میں نے تمہیں مکہ میں اکثر دیکھا ہے۔‘‘ … یوحاوہ نے کہا … ’’تمہارے نام سے میں واقف نہیں۔‘‘
’’میں جرید بن مسیب ہوں … میرے ساتھ آؤ۔‘‘
’’پھر تم مجھے گھر تک پہنچا دو گے؟‘‘ … یوحاوہ نے پوچھا … ’’میں تمہیں ناراض نہیں کروں گی۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages