Featured Post

Khalid001

23 May 2019

Khalid019



شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  19
اونٹ جس کی آوازیں یوحاوہ نے سنی تھیں وہ جرید بن مسیب کا تھا جو باہر کھیں بیٹھا تھا۔ جرید یوحاوہ کو غار میں لے گیا۔ جرید دراز قد‘ گٹھے ہوئے جسم اور دل کش چہرے مہرے والا جوان آدمی تھا۔ اس نے غار میں لے جا کر یوحاوہ کو پانی پلایا اور ایک تھیلی اس کے آگے رکھ دی جس میں کھجوریں تھیں۔
’’خاموشی سے بیٹھی رہو۔‘‘ … جرید نے کہا … ’’آندھی کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ میں تمہیں گھر پہنچا دوں گا۔‘‘ … ذرا خاموش رہ کر اس نے یوحاوہ سے پوچھا … ’’تم نے یہ کیوں کہا تھا کہ میں تمہیں ناراض نہیں کروں گی؟‘‘
’’تم مجھے گھر پہنچانے کا معاوضہ لو گے۔‘‘ … یوحاوہ نے کہا … ’’میں اور کیا معاوضہ دے سکتی ہوں؟‘‘
’’میں کوئی معاوضہ نہیں لوں گا۔‘‘ … جرید نے کہا … ’’میں ان میں سے نہیں ہوں۔ اگر میں نے تمہیں کسی سے لڑ کر چھینا ہوتا تو تم میرا انعام ہوتیں مگر تم نے مجھ سے رحم مانگا ہے۔ رحم کرنے کا معاوضہ کون لیتا ہے؟‘‘
یوحاوہ اس کے منہ کی طرف دیکھتی رہی۔ جرید بن مسیب لیٹ گیا۔ یوحاوہ نے اس کے ساتھ کچھ باتیں کیں۔ تھوڑی دیر بعد اسے یقین ہو گیا کہ جرید کی نیت میں خرابی نہیں۔ وہ تو اس کے ساتھ کھل کر بات بھی نہیں کرتا تھا۔ یوحاوہ پریشان ہو گئی۔
’’جرید!‘‘ … یوحاوہ نے پوچھا … ’’کیا میں خوبصورت نہیں؟ کیا تم مجھے پسند نہیں کرتے؟‘‘
جرید نے قہقہہ لگایا مگر بولا کچھ بھی نہیں۔
’’تم کیوں ہنسے ہو؟‘‘ … یوحاوہ نے پوچھا … ’’میں تمہاری ہنسی سے ڈر گئی ہوں۔‘‘
’’خدا کی قسم! تم بہت خوبصورت ہو۔‘‘ … جرید نے کہا … ’’تم میری پسند کی لڑکی ہو لیکن جس طرح اور جس جگہ تم مجھے ملی ہو‘ یہ مجھے پسند نہیں … میری مردانگی کو مت للکارو۔ تمہارا جسم مجھے بہت اچھا لگتا ہے لیکن میرے دیوتا مجھ پر لعنت بھیجیں گے کہ میں نے مصیبت میں پھنسی ہوئی لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور اس کے جسم کو اپنا انعام سمجھ لیا۔‘‘
جرید پھر خاموش ہو گیا۔ یوحاوہ کے دل سے خوف نکلتا چلا گیا اور جرید اسے بڑا ہی خوبصورت نظر آنے لگا۔
…………bnb…………

’’میں نے جرید کو مکہ میں کئی بار دیکھا تھا۔‘‘ … یوحاوہ نے کعب بن ساد کے گہر میں سب کو یہ کہانی سناتے ہوئے کہا … ’’لیکن میں نے اس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ اپنے قبیلے میں اسے کوئی رتبہ یا اونچی حیثیت حاصل نہیں تھی مگر اس روز غار میں اس کے پاس تنہا اور بے بس بیٹھ کر مجھے محسوس ہونے لگا کہ یہ تو اونچی حیثیت والے لوگوں سے بھی اونچا ہے…‘‘
’’آندھی کا زور ٹوٹا تو سورج ڈوب رہا تھا۔ اس نے مجھے کہا‘ آؤ چلیں۔ میں اس کے پیچھے پیچھے غار سے نکلی۔ کچھ دور اس کا اونٹ ٹیلے کے ساتھ لگا بیٹھا تھا۔ وہ اونٹ پر بیٹھا اور مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ اس کے اشارے پر اونٹ اٹھا اور چل پڑا۔ گرد وغبار صاف ہو گیا تھا۔ میں نے وہ جگہ دیکھی۔ وہ بڑی ہی ڈراؤنی جگہ تھی۔ میں نے اس جگہ کے متعلق کچھ پراسرار باتیں سنی تھیں۔ آندھی میں تو میں دیکھ نہ سکی تھی کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ آندھی کے بعد دیکھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بعض ٹیلے انسانوں کی طرح تھے۔ ان کا رنگ بھی ڈؤارنا تھا…‘‘
’’میں شتر سواری جانتی ہوں۔ اونٹ کو دوڑا سکتی ہوں لیکن اس شام جرید کے پیچھے اونٹ پر بیٹھے ہوئے میں ڈرنے لگی کہ میں گر پڑوں گی۔ میں نے جرید کی کمر میں بازو ڈال کر اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ مجھ میں یہ احساس بیدار ہو گیا کہ میں بڑی کمزور لڑکی ہوں اور جرید بن مسیب میرا محافظ ہے۔ آپ کو یہ تو معلوم ہے کہ میں اپنے مذہب کے لیے کیا کر رہی ہوں لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ اس راستے پر مجھے میرے باپ نے ڈالا ہے۔‘‘
یوحاوہ نے انہیں بتایا کہ جب اہل قریش بدر میں مسمانوں کے ہاتھوں شکست کھا کر آئے تو ان کی عورتوں نے بازو لہرا لہرا کر بین کیے تھے۔ یوحاوہ کا باپ کٹڑ یہودی تھا۔ قریش کی شکست پر اس کے آنسو نکل آئے تھے۔ اس نے کہا تھا کہ قریش کے ایک ہزار جنگجو اگر رسول خداﷺ کے تین سو تیرہ آدمیوں سے شکست کھا آئے ہیں تو اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ’’محمد (ﷺ) کوئی جادو لے کر آیا ہے۔‘‘ … اس نے کہا تھا … ’’محمد کے پیروکار اسی قبیلۂ قریش کے آدمی ہیں۔ وہ آسمان سے نہیں اترے‘ پھر وہ جیت کس طرح گئے؟‘‘
اس وقت یوحاوہ کمسن تھی۔ اگلے روز اس کے باپ نے گھر والوں کو اپنا خواب سنایا جو اس نے گذشتہ رات دیکھا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں تلوار ہے جو خون سے لال ہے اور اس کے سامنے ایک آدمی زمین پر پڑا تڑپ رہا ہے۔ اس کے کپڑے خون سے لال ہیں۔ یوحاوہ کو معلوم نہیں کہ یہ کون ہے جسے اس نے قتل کر دیا ہے۔ اسے ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ … ’’یہ کام تمہیں کرنا ہے۔‘‘ …تڑپتا ہوا زخمی مر جاتا ہے اور لاش اپنے آپ زمین میں غائب ہو جاتی ہے۔ وہاں سے ایک بڑی خوبصورت اور کمسن لڑکی اُبھرتی ہے جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے۔
اس پر اس خواب کا ایسااثر ہوا کہ وہ لیث بن موشان کے پاس چلا گیا اوراس سے خواب کی تعبیر پوچھی۔لیث بن موشان نے اسے بتایا کہ وہ اپنی کمسن بیٹی یوحاوہ کو اسلام کی جڑیں کاٹنے کیلئے وقف کردے۔اس بوڑھے یہودی جادوگر نے یہ پشین گوئی بھی کی تھی کہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے (یعنی نبی کریمﷺ) وہ اس لڑکی کے ہاتھوں قتل ہوں گے یا یہ لڑکی ان کی نبوت کے خاتمے کا ذریعہ بنے گی۔ اس نے یوحاوہ کے باپ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ یوحاوہ کو اس کے پاس لے آئے۔
یوحاوہ کو لیث بن موشان کے حوالے کردیا گیا۔
…………bnb…………

’’میں نے اس لڑکی کی تربیت کی ہے۔‘‘ لیث بن موشان نے یوحاوہ کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’خدائے یہودہ نے اسے جو حسن اور جو جسم دیا ہے،یہ ایک دلکش تلوار ہے یا اسے بڑا میٹھا زہر سمجھ لیں۔ اس نے قریش کو مسلمانوں سے ٹکرانے میں جو کام کیا ہے وہ تم میں سے کوئی نہیں کر سکتا۔ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے سرداروں کو اس لڑکی نے قریش کا اتحادی اور محمد (ﷺ) کا دشمن بنایا ہے۔ اب اس نے محمد (ﷺ) کے قتل کا جو انتظام مجھ سے کرایا ہے وہ اسی سے سنو۔‘‘
یوحاوہ نے سنایا کہ لیث بن موشان نے اس میں ایسی جرأت اور ایسی عقل پیدا کر دی کہ وہ مردوں پر اپنے حسن کا جادو چلانے کی ماہر ہو گئی۔ حسین لڑکی ہوتے ہوئے اس میں مردوں جیسی جرات آ گئی تھی۔ (لیکن اس کا استاد اسے یہ نہ بتا سکا کہ جس نئے عقیدے کو روکنے کا اور جس شخصیت کے قتل کا انہوں نے ارادہ کررکھا ہے ۔وہ عقیدہ خدا نے اتارا ہے اور ااس شخصیت کو خدا نے اس عقیدے کے فروغ کیلئے رسالت عطا کی ہے۔)
یوحاوہ کی تربیت ایسی ہی ہوئی کہ وہ اپنے مذہب کو دنیا کا واحد سچا مذہب سمجھتی رہی، اور یہ نہ سمجھ سکی کہ حق پرستوں پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے خدا نے اسے آندھی میں تنہا پھینک دیا لیکن وہ خدا کا یہ اشارہ سمجھ نہ سکی، کہاں وہ جرأت کے مقابلے میں اپنے آپ کو مردوں کے برابر سمجھتی تھی، کہاں وہ ایک کمزور اور بے بس لڑکی بن گئی۔
وہ مرد کے جسم سے ناآشنا نہیں تھی، جرید بن مسیّب کا جسم بھی ایک مرد کا ہی جسم تھا لیکن اس جسم کو وہ مقدس اور پاک سمجھنے لگی اور جرید اسے فرشتہ لگنے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اس کے حسین چہرے، ریشم جیسے بالوں، اور دلکش جسم سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا تھا۔ یوحاوہ پر جرید کے اس رویے کا یہ اثر ہواکہ وہ جرید کے جسم میں کشش محسوس کرنے لگی۔
مکہ دور نہیں تھا۔شام کے بعد جب رات گہری ہو چکی تھی،جرید نے یوحاوہ کو اس کے گھر پہنچا دیا۔ یوحاوہ کے قلعہ نما مکان کا دروازہ کھلا تو اس کا باپ پریشان نظر آیا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی بیٹی زندہ واپس آجائے گی۔ انہوں نے جرید کو روک لیا اور شراب سے اس کی تواضع کی، جرید جب چلا گیا تو یوحاوہ نے اپنی ذات میں خلاء محسوس کیا۔
دوسرے ہی روز اس نے جرید کو پیغام بھیجا کہ اسے ملے، جرید آگیا۔ یہ ایک جذباتی ملاقات تھی۔ جرید نے یہ ملاقات جذبات تک ہی رکھی۔ اس کے بعد ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں اور جرید کے دل میں بھی یوحاوہ کی محبت پیدا ہو گئی۔ یہ محبت پاک رہی۔ یوحاوہ حیران تھی کہ اس کے اندر پاکیزہ اور والہانہ محبت کے جذبات موجود ہیں۔ ایک روز جرید نے یوحاوہ سے پوچھا کہ ’’وہ اس کے ساتھ شادی کیوں نہیں کر لیتی؟‘‘
’’نہیں!‘‘ یوحاوہ نے جواب دیا۔ ’’میں تمہارے جسم کی پوجا کرتی ہوں۔شادی ہو گئی تو جذبات مر جائیں گے۔‘‘
’’میری بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں۔‘‘ جرید نے اسے کہا۔ ’’میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔مجھے بیٹا چاہیے۔‘‘ یوحاوہ سوچ میں پڑ گئی۔وہ جرید بن مسیّب کی یہ خواہش پوری کرنا چاہتی تھی۔ اسے ایک رستہ نظر آگیا۔
’’ہمارا ایک بزرگ ہے لیث بن موشان۔‘‘ یوحاوہ نے کہا۔ ’’اس کے پاس کوئی علم ہے۔اس کے ہاتھ میں کوئی طاقت ہے۔مجھے امید ہے کہ وہ اپنے علم اور عمل کے زور سے تمہیں اسی بیوی سے بیٹا دے گا۔ تم میرے ساتھ چلو وہ میرا اتالیق ہے۔‘‘
جرید بن مسیّب اس کے ساتھ لیث بن موشان کے پاس جانے کیلئے تیار ہو گیا۔
…………bnb…………

ان کی دوستی دو آدمیوں یا دو عورتوں کی صورت اختیا رکر گئی تھی۔وہ جب اکھٹے بیٹھتے تو رسولِ کریمﷺ کے خلاف باتیں کرتے تھے۔اسلام کے فروغ کو روکنے کے منصونے بھی بناتے تھے۔لیکن جرید مسلمانوں کے خلاف کسی جنگی کارروائی میں شریک نہیں ہوتا تھا۔یوحاوہ کو اس کی یہ بات پسند نہیں تھی۔وہ اسے اُکساتی اور بھڑکاتی تھی۔
’’میرا مذہب تم ہو۔‘‘جرید بن مسےّب نے اسے ایک روز فیصلے کے لہجے میں کہہ دیا تھا۔’’تم میری بیوی نہیں بن سکتیں تو نہ سہی،میں تمہیں دیکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘
’’میں تمہیں ایک راز بتا دیتی ہوں جرید!‘‘ یوحاوہ نے اسے کہا تھا۔ ’’میں کسی کی بھی بیوی نہیں بنوں گی۔ میرے باپ نے میری زندگی یہودیت کیلئے وقف کردی ہے۔ لیث بن موشان نے مجھے یہ فرض سونپا ہے کہ اسلام کے زیادہ سے زیادہ دشمن پیدا کروں۔ میرے دل میں اپنے مذہب کے بعد صرف تمہاری محبت ہے ۔مجھے تم اپنی ملکیت سمجھو۔‘‘
ایک روز جرید یوحاوہ کے ساتھ لیث بن موشان سے ملنے اس کے پاس چلا گیا۔ یوحاوہ اسے لیث بن موشان کے سامنے لے جانے کے بجائے پہلے خود اندر گئی اور اس نے لیث کو صاف الفاظ میں بتایا کہ وہ جرید کو محبت کا دیوتا سمجھتی ہے۔ اس نے لیث بن موشان کو بتایا کہ جرید نے اسے موت کے منہ سے نکالا تھا۔ اس نے لیث کو بتایا کہ جرید کی بیٹیاں ہیں، بیٹا ایک بھی نہیں۔
’’کیا آپ کے علم میں اتنی طاقت ہے کہ جرید کی بیوی کے بطن سے لڑکا پیدا ہو؟‘‘ یوحاوہ نے پوچھا۔
’’کیا نہیں ہو سکتا۔‘ ‘لیث بن موشان نے کہا۔ ’’پہلے میں اسے دیکھوں گا، پھر میں بتا سکوں گا کہ مجھے کیا کرنا پڑے گا۔اسے میرے پاس بھیج دو۔‘‘
یوحاوہ نے اسے اندر بھیج دیا۔اور خود باہر کھڑی رہی۔بہت سا وقت گزرجانے کے بعد لیث بن موشان نے جریدکو باہر بھیج کر یوحاوہ کو اندر بلالیا۔
’’جو شخص تم جیسی خوبصورت اور دل کش لڑکی کے ساتھ اتنا عرصہ پاک محبت کر سکتا ہے وہ بہت ہی مضبوط شخصیت کا آدمی ہے۔‘ ‘لیث بن موشان نے کہا۔’’یا وہ اس قدر کمزور شخصیت کا ہو سکتا ہے کہ تمہارے حسن کا جادو اپنے اوپر طاری کرکے تمہارا غلام ہو جائے۔‘‘
’’جرید مضبوط شخصیت کاآدمی ہے۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔
’’جرید کی ذات بہت کمزور ہے۔‘‘ لیث بن موشان نے کہا۔’’میں نے تمہارے متعلق اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔میں نے اس کی ذات میں اتر کر معلوم کر لیا ہے۔یہ شخص تمہارے طلسم کا اسیر ہے۔‘‘
’’مقدس اتالیق! ‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’آپ اس کے متعلق ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟میں اسے ایک بیٹا دینا چاہتی ہوں ۔مجھے اس کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ میں نے یہ بھی سوچ رکھاہے کہ میں اس کے بیٹے کو جنم دوں گی۔‘‘
’’نہیں لڑکی!‘‘ بوڑھے لیث نے کہا۔’’تمہاری کوکھ سے اس کا بیٹا جنم نہیں لے گا۔یہ شخص ذریعہ بنے گا اس فرض کا جو خدائے یہودہ نے مجھے اور تمہیں سونپا ہے۔‘‘
یوحاوہ خاموشی سے لیث بن موشان کے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھی۔
’’جسے تم اپنی محبت کا دیوتا سمجھتی ہو، وہ اس شخص کو قتل کرے گا جو کہتا ہے کہ اسے خدا نے نبوت دی ہے۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’جرید سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہو گا۔‘‘
’’کیا آپ پیشن گوئی کر رہے ہیں؟‘‘یوحاوہ نے پوچھا۔’’یہ کس طرح قتل کرے گا؟‘‘
’’اسے میں تیار کروں گا۔‘‘
’’یہ تیارنہیں ہو گا۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’ یہ کہا کرتا ہے کہ اس کا کوئی مذہب نہیں۔محمد (ﷺ) کو یہ اپنا دشمن نہیں سمجھتا ،قتل و غارت کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
’’یہ سب کچھ کرے گا۔‘‘ … بوڑھے لیث نے کہا۔’’اس کے ذہن پر میرا قبضہ ہوگا۔تم میرے ساتھ ہو گی ۔تین روز تک یہ سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکے گا۔جب ہم اسے باہر نکالیں گے تو یہ ایک ہی بات کہے گا۔کہاں ہے خدا کا نبی۔ وہ ہم میں سے ہے ۔میں اسے زندہ نہیں رہنے دوں گا۔‘‘
’’مقدس باپ!‘‘ یوحاوہ نے رندھیائی ہوئی آواز میں التجا کی۔’’جرید مارا جائے گا۔یہ واحد شخص ہے …‘‘
’’خدائے یہودہ سے بڑھ کر محبت کے لائق کوئی نہیں ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔ ’’تمہیں یہ قربانی دینی ہو گی۔جرید اب مکہ کو واپس نہیں جائے گا۔‘‘
پھر یوحاوہ بھی مکہ کو واپس نہ گئی ۔جرید بن مسیّب بھی نہ گیا۔بوڑھے لیث نے دونوں کو تین دن اور تین راتیں ایک کمرے میں بند رکھا ۔جرید کو اپنے سامنے بٹھاکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں پھر اسے کچھ پلایااور زیرِلب کچھ بڑ بڑانے لگا۔اس نے یوحاوہ کو نیم برہنہ کرکے اس کے ساتھ بٹھادیا۔ لیث یوحاوہ کو جو کہتا رہا وہ کرتی رہی۔
’’یہ ضروری نہیں کہ میں تم سب کو یہ بھی بتاؤں کہ میں نے جرید کے ذہن اور اس کی سوچوں کو کس طرح اپنے قبضے میں لیا ہے۔‘‘ لیث نے کہا۔’’میں اسے ساتھ لایا ہوں تم اسے خود دیکھ لو۔‘‘
’’لیث بن موشان نے یوحاوہ کو اشارہ کیا۔‘‘یوحاوہ باہر چلی گئی اور جرید بن مسیّب کو اپنے ساتھ لے آئی۔جرید نے اندر آ کر سب کو باری باری دیکھا۔
’’وہ یہاں نہیں ہے ۔‘‘جرید نے کہا۔’’میں اسے پہچانتا ہوں وہ ہم میں سے ہے ۔وہ یہاں نہیں۔‘‘
’’ذرا صبر کرو جرید!‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’ہم تمہیں ا س تک پہنچائیں گے کل……کل جرید ……بیٹھ جاؤ۔‘‘
جرید یوحاوہ کیساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور بازو اس کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے اور قریب کر لیا۔
اگلی صبح جب مدینہ میں لوگ فتح کی خوشیاں منا رہے تھے اور کعب بن اسد کے گھر رسولِ اکرمﷺ اور اسلام کے خلاف بڑی ہی خطرناک سازش تیار ہو چکی تھی۔ رسولِ کریمﷺ کو یاد دلایا گیا کہ بنو قریظہ نے جس کا سردار کعب بن اسد تھا مدینہ کے محاصرے کے دوران اہلِ قریش اور غطفان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا تھا جسے نعیمؓ بن مسعود نے بڑی دانشمندی سے بیکار کر دیاتھا۔
یہ واقعہ بھی دو چار روز پہلے کا تھا جس میں رسول اﷲﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے ایک یہودی مخبر کو قتل کیا تھا۔ یہ مخبر اس چھوٹے سے قلعے میں داخل ہونے کا رستہ دیکھ رہا تھا ۔جس میں مسلمانوں کی عورتیں اور ان کے بچوں کورکھا گیا تھا ۔اس یہودی نے ایک عورت کو اپنے مقابلے میں دیکھ کر بڑے رعب اور گھمنڈ سے کہا تھا کہ وہ یہودی ہے اور مخبری کیلئے آیا ہے۔ حضرت صفیہ ؓ نے اس کی تلوار کا مقابلہ ڈنڈے سے کیا اور اسے ہلاک کر دیا تھا۔
’’خدا کی قسم!‘‘ کسی صحابی نے للکار کرکہا۔’’ان یہودیوں پر اعتبار کرنا اور ان کی بد عہدی پر انہیں بخش دینا، ایسا ہی ہے جیسے اپنا خنجر اپنے ہی د ل میں اتا رلیا جائے۔‘‘
’’عبداﷲ بن محمد بن اسماء اور نافع حضرت ابنِ عمرؓ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ معرکۂ خندق کے خاتمے پر رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا ’’تم میں ہر کوئی نمازِ عصر بنو قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت انسؓ ہیں ،انہوں نے کہاتھا میں اب تک لشکرِ جبریل کا گرد و غبار بنو غنم میں اڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب رسولِ کریمﷺ بنو قریظہ کو بدعہدی اور دھوکادہی کی سزا دینے گئے تھے۔
تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے مسلمانوں نے چڑھائی کردی اور بنو قریظہ کی قلعہ بند بستی کو محاصرے میں لے لیا۔احادیث کے مطابق سعدؓ بن معاذکو بنو قریظہ کے سرداروں کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ وہ اپنی بد عہدی کی سزا خود تجویز کریں۔ سعدؓ بن معاذ زخمی تھے۔ خندق کی لڑائی میں انہیں قبیلہ قریش کے ایک آدمی حبان بن عرفہ کی برچھی لگی تھی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages