Featured Post

Khalid001

24 May 2019

Khalid020


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  20
لیث بن موشان ،یوحاوہ اور یہودیوں کے تین چار سرکردہ آدمی ابھی تک کعب بن اسد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔جرید بن مسیب بھی وہیں تھا۔ انہوں نے اپنی سازش کاوقت رات کا مقررکیا ۔لیکن ایک یہودی دوڑتا ہوا اندر آیا۔
’’مسلمان آ رہے ہیں۔‘‘ اس نے گھبراہٹ سے کانپتی ہوئے آواز میں کہا۔’’صاف نظر آتا ہے کہ وہ دوست بن کر نہیں آ رہے۔گرد بتا رہی ہے کہ وہ چڑھائی کرکے آرہے ہیں۔گرد دائیں بائیں پھیل رہی ہے۔ دیکھو…… اٹھو اور دیکھو ۔‘‘
کعب بن اسد دوڑتا ہوا باہر نکلا اور قلعہ کے برج میں چلا گیا ۔وہاں سے دوڑتا اترا اور لیث بن موشان کے پاس پہنچا۔
’’مقدس موشان!‘‘کعب بن اسد نے کانپتی ہوئے آوا زمیں کہا ۔’’کیا آپ کا جادو ان برچھیوں اور تلواروں کو توڑ سکتا ہے؟جو ہمیں قتل کرنے آ رہی ہیں۔‘‘
’’روک سکتا ہے ۔‘‘بوڑھے لیث بن موشان نے کہا۔’’اگر محمد (ﷺ) کا جادو زیادہ تیز ہوا تو میں مجبور ہوں گا۔ تم اوپر جاکر کیا دیکھ آئے ہو؟‘‘
’’خدائے یہودہ کی قسم!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’یہ مخبری نعیم بن مسعود نے کی ہے۔مجھے معلوم نہ تھا کہ و ہ مسلمان ہو چکا ہے۔مسلمان محاصرے کی ترتیب میں آ رہے ہیں۔ ہم نکل نہیں سکیں گے۔‘‘
’’ان دونوں کو نکال دو۔‘ ‘ لیث بن موشان نے کہا۔ ’’یوحاوہ جرید کو ساتھ لے کر پچھلے دروازے سے نکل جاؤ۔ میں تمہارے پیچھے پیچھے آ رہا ہوں۔‘‘
’’آپ اوپر کیوں نہیں جاتے لیث بن موشان؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’آپ کا وہ علم اور وہ جادو کہاں گیاجو آپ …‘‘
’’تم اس راز کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ بوڑھے لیث نے کہا۔’’ موسیٰ نے فرعون کو ایک دن میں ختم نہیں کر دیا تھا۔ یہ عصا جو تم میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو، وہی ہے جو موسیٰ نے دریا میں مارا تھاتو پانی نے انہیں رستہ دے دیا تھا۔ یہ عصاکا کرشمہ تھاکہ فرعون کا لشکر اور وہ خود دریا میں ڈوب کر فنا ہو گیا تھا۔ جس طرح موسیٰ اپنے قبیلے کو مصر سے نکال لائے تھے اسی طرح میں تمہیں یہاں سے نکال لوں گا۔‘‘
یوحاوہ اور جرید بن مسیّب پچھلے دروازے سے نکل گئے اور لیث بن موشان بھی نکل پڑا۔
مسلمان جب بنو قریظہ کی بستی کے قریب آئے تو عورتوں اور بچوں میں ہڑبونگ بپا ہو گئی اور بھگدڑ مچ گئی۔ عورتیں اور بچے اپنے گھروں کو بھاگے جا ہے تھے۔ کوئی آدمی مقابلے کیلئے باہر نہ آیا۔ جو مسلمان ٹیکریوں کی طرف سے محاصرے کیلئے آگے بڑھ رہے تھے انہیں دو آدمی اور ایک عورت نظر آئی۔ تینوں بھاگے جا رہے تھے۔ آدمی جو بوڑھا تھا اور عورت، اپنے ساتھی کو گھسیٹ رہے تھے۔ وہ پیچھے کو مڑ مڑ کر دیکھتا اور آگے نہیں چلتاتھا۔
وہ لیث بن موشان ،جرید اور یوحاوہ تھے۔ لیث نے جرید کے ذہن پر قبضہ کر کے اسے رسولِ کریمﷺ کے قتل پر آمادہ کر لیا تھا لیکن اب جرید اس کیلئے مصیبت بن گیا تھا۔ وہ اس عمل کے زیرِاثر تھا جسے آج ہپناٹزم کہا جاتا ہے، یوحاوہ اپنی محبت کی خاطر اسے اپنے ساتھ لے جا رہی تھی۔ اسے یہی ایک خطرہ نظر آرہا تھا کہ جرید مسلمانوں کے ہاتھوں مار اجائے گا۔ اور لیث، جرید کواس لیے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش میں تھاکہ اسے کسی اور موقع پر رسول اﷲ ﷺ کے قتل کیلئے استعمال کرے گا۔ لیکن جرید لیث کے عمل ِ تنویم کے زیرِ اثر بار بار کہتا تھا: ’’کہاں ہے وہ جو اپنے آپ کو خدا کانبی کہتا ہے؟ وہ ہم میں سے ہے۔ وہ میرے ہاتھوں قتل ہو گا۔ مجھے چھوڑ دو مجھے مدینہ جانے دو۔‘‘
ایک مسلمان نے ٹیکری پر کھڑے ہوکر انہیں للکارا اور رکنے کو کہا۔ لیث اور یوحاوہ نے پیچھے دیکھا اور وہ جرید کواکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جرید نے تلوار نکال لی۔ ’’کہاں ہے محمد؟‘‘ جرید نے تلوار لہرا کر ٹیکری کی طرف آتے ہوئے کہا۔ ’’وہ ہم میں سے ہے۔ میں اسے پہچانتا ہوں ،میں اسے قتل کروں گا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ یوحاوہ میری ہے۔‘‘ وہ للکارتا آ رہا تھا۔ ’’یوحاوہ ہبل اور عزیٰ سے زیادہ مقدس ہے۔ سامنے لاؤ اپنے نبی کو۔‘‘
کون مسلمان اپنے اﷲ کے رسول ﷺکی اتنی توہین برداشت کرتا ؟جس مسلمان نے ان تینوں کوللکارا تھا اس نے کمان میں تیر ڈالا اور دوسرے لمحے یہ تیر جرید بن مسیب کی دائیں آنکھ میں اتر کر کھوپڑی کے دور اند رپہنچ چکا تھا۔جرید کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس کا دوسرا ہاتھ دائیں آنکھ پر چلا گیااور اس نے تیر کو پکڑ لیا۔ وہ رک گیا۔ اس کا جسم ڈولا پھر اس کے گھٹنے زمین سے جا لگے ۔اس کا وہ ہاتھ جس میں تلوار تھی اس طرح زمین سے لگا کہ تلوار کی نوک اوپر کو تھی۔ جرید بڑی زور سے آگے کو گرا ،تلوار کی نوک اس کی شہ رگ میں اتر گئی ۔وہ ذرا سا تڑپا اور ہمیشہ کیلئے بے حس و حرکت ہو گیا۔
…………bnb…………

سعد ؓبن معاذ جو زخمی تھے، کعب بن اسد کے دروازے پر جا رکے اور دستک دی۔ کعب نے غلام کو بھیجنے کے بجائے خود دروازہ کھولا۔
’’بنو قریظہ کے سردار!‘‘ سعد ؓبن معاذنے کہا۔ ’’تیرے قبیلے کے بچے بچے نے دیکھ لیا ہے کہ تیری بستی ہمارے گھیرے میں ہے۔ کیا تو کہہ سکتا ہے کہ تو نے وہ گناہ نہیں کیا جس کی سزا آج تیرے پورے قبیلے کو ملے گی؟ کیا تو نے سوچا نہیں تھا کہ بد عہدی کی سزا کیا ہے؟‘‘
’’مجھے انکار نہیں۔‘‘ کعب بن اسد نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’لیکن میں نے وہ گناہ کیا نہیں جو ابو سفیان مجھ سے کرانا چاہتا تھا۔‘‘
’’اس لیے نہیں کیا کہ تو اس سے یرغمال میں اونچے خاندا نوں کے آدمی کو مانگتا تھا۔‘‘سعدؓ بن معاذنے کہا۔’’اس سے پہلے تو نے اسے کہہ دیا تھا کہ تیرا قبیلہ مدینہ کے ان مکانوں پر شب خون مارے گا جس میں ہماری عورتیں اوربچے تھے۔تو نے ایک مخبر بھی بھیجا تھا بدبخت انسان ۔تو نہ سوچ سکا کہ مسلمانوں کی ایک عورت بیدار ہوئی تو وہ یہودیوں کی شیطانیت کو صرف ایک ڈنڈے سے کچل دے گی۔‘‘
’’میں جانتا ہوں تمہیں نعیم بن مسعود نے خبر دی ہے کہ میں نے تم سے بد عہدی کی ہے ۔‘‘کعب بن اسد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’تم یہ جان لو کہ یہ خبر غلط نہیں۔میں نے جوکچھ کیا وہ اپنے قبیلے کی سلامتی کیلئے کیا تھا۔‘‘
’’اب اپنے قبیلے کیلئے سزا خود ہی مقرر کرلو۔‘‘سعد ؓبن معاذنے کہا۔’’تو جانتا ہے کہ معاہدہ توڑنے والے قبیلے کو کیا تاوان دینا پڑتا ہے۔اگر تو خود اپنی سزا کا فیصلہ نہیں کرتا تو بھی تجھے معلوم ہے کہ تیرے قبیلے کاانجام کیا ہو گا۔کیا تو بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام بھول گیا ہے؟مجھے اس زخم کی قسم !جومیں نے خندق کی لڑائی میں کھایا ہے ،تیرے قبیلے کا انجام ان سے زیادہ برا ہو گا۔‘‘
’’ہاں سعد! ‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’میں جانتا ہوں میرے قبیلے کا انجام کیا ہو گا۔ ہمارے بچے اورہماری عورتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔میرافیصلہ یہ ہے کہ معاہدے کے مطابق میرے قبیلے کے تمام مردوں کو قتل کردواور ہماری عورتو ں اور ہمارے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔وہ زندہ تورہیں گے۔‘‘
’’صرف زندہ نہیں رہیں گے۔‘‘سعدؓ بن معاذنے کہا۔’’وہ خدا کے سچے نبی ﷺکی رحمت کی بدولت با عزت زندگی بسر کریں گے۔اپنے تمام آدمیوں کو باہر نکالو۔‘‘
…………bnb…………

سعدؓ بن معاذ واپس آ گئے ۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے کہا ۔’’بنو قریظہ نے اپنی سزا خود مقررکی ہے۔ان میں جو آدمی لڑنے کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔‘‘
سب نے دیکھاکہ بنو قریظہ کے لوگ قلعے سے باہر آ رہے تھے۔ محاصرے میں سے کسی کو بھاگ نکلنے کا موقع نہ ملا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی تاریخ فتنہ و فساد اور بد عہدی سے بھری پڑی تھی۔اسے خدا کی دھتکاری ہوئی قوم کہا گیا تھا۔ان کے ساتھ جس نے بھی نرمی برتی اسے یہودیوں نے نقصان پہنچایا چنانچہ بنو قریظہ کو بخش دینا بڑی خطرناک حماقت تھی۔ مسلمانوں نے اس قبیلے کے ایسے تما م آدمیوں کو قتل کردیا جو لڑنے کے قابل تھے اور بوڑھوں عورتوں اور بچوں کواپنی تحویل میں لے لیا۔
دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے بنو قریظہ پر فوج کشی کی تو یہودیوں نے بڑا سخت مقابلہ کیا۔ مسلمانوں نے پچیس روز بنو قریظہ کو محاصرے میں لیے رکھا۔آخر یہودیوں نے رسولِ اکرم ﷺ کو پیغام بھیجا کہ سعد ؓبن معاذ کو ان کے پاس صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے بھیجا جائے۔چنانچہ سعدؓ بن معاذ گئے اور یہ فیصلہ کر آئے کہ بنو قریظہ کے آدمیوں کو قتل کر دیاجائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو مالِ غنیمت میں لے لیا جائے۔جن یہودیوں کو قتل کیا گیا ان کی تعدا د چار سو تھی۔
زیادہ تر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بنو قریظہ نے مقابلہ نہیں کیا اور اپنے کیے کی سزا پانے کیلئے قلعہ سے نکل آئے۔
مدینہ میں یہودیوں کے قتلِ عام کے ساتھ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس سے پہلے مسلمانوں نے یہودیوں کے دو قبیلوں بنو نضیر اور بنو قینقاع کو ایسی ہی بدعہدی اور فتنہ پردازی پر ایسی ہی سزا دی تھی ،ان قبیلوں کے بچے کچھے یہودی شام کو بھاگ گئے تھے، شام میں ایرانیوں کی حکومت تھی۔ ایک عیسائی بادشاہ ہرقل نے حملہ کرکے شام پرقبضہ کر لیا۔ یہودیوں نے اس کے ساتھ بھی بدعہدی کی،اِدھر مدینہ میں مسلمان بنو قریظہ کو قتل کر رہے تھے، اُدھر ہرقل بنو نضیر اور بنو قینقاع کا قتلِ عام کر رہا تھا۔
ایک حدیث ہے جو سیدہ عائشہؓ کے حوالے سے ہشام بن عروہ نے بیان کی ہے کہ سعد ؓبن معاذ کے فیصلے کو رسولِ کریمﷺ نے قبول فرما لیا اور بنو قریظہ کے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ہشام بن عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے والد ِ بزرگوار نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا کہ سعد ؓبن معاذ کو سینہ میں برچھی لگی تھی، جب بنو قریظہ کو سزا دی جا چکی تو رسول اﷲﷺ کے حکم سے سعد ؓبن معاذ کیلئے مسجد کے قریب ایک خیمہ لگا کر اس میں انہیں رکھا گیا، تاکہ ان کے زخم کی دیکھ بھال آسانی سے ہوتی رہے۔
سعدؓ بن معاذ اس خیمے میں لیٹ گئے لیکن اٹھ بیٹھے اور انہوں نے خدا سے دعا مانگی کہ ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ہراُس قوم کے خلاف لڑیں جو اﷲ کے رسولﷺ کو سچا نبی نہیں سمجھتی، مگر لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے خدا سے التجا کی کہ اگر میر ے نصیب میں کوئی اور لڑائی لڑنی ہے تو مجھے اس میں شریک ہونے کیلئے زندگی عطا فرما اگر یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے تو میرے زخم کو کھول دے کہ میں تیری راہ میں جان دے دوں۔
سعد ؓبن معاذ کی یہ دعا تین چار آدمیوں نے سنی تھی لیکن انہوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی۔صبح کسی نے دیکھاکہ سعد ؓبن معاذ کے خیمے سے خون بہہ بہہ کر باہر آ رہا تھا۔ خیمہ میں جاکر دیکھا، سعدؓ بن معاذ شہید ہو چکے تھے۔انہوں نے خدا سے شہادت مانگی تھی، خدا نے ان کی دعا قبول کر لی۔ان کے سینے کا زخم کھل گیا تھا۔
…………bnb…………

بنو قریظہ کی تباہی کی خبر مکہ پہنچی تو سب سے زیادہ خوشی ابو سفیان کو ہوئی۔
’’خدا کی قسم! بنو قریظہ کو اس بد عہدی کی سزا ملی ہے جو اس کے سردار کعب بن اسد نے ہمارے ساتھ کی تھی۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ ’’اگر اس کاقبیلہ مدینہ پر شب خون مارتا رہتا تو فتح ہماری ہوتی اور ہم بنو قریظہ کو موت کے بجائے مالِ غنیمت دیتے … کیوں خالد؟ کیا بنو قریظہ کا انجام بہت برا نہیں ہوا؟‘‘
خالد نے ابو سفیان کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے اس کی بات اچھی نہ لگی ہو۔
’’کیا تم بنو قریظہ کے اس انجام سے خوش نہیں ہو خالد؟‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔
’’مدینہ سے پسپائی کا دکھ اتنا زیادہ ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی بھی میرا یہ دکھ ہلکا نہیں کر سکتی۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’بد عہد کی دوستی، دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہودیوں نے کس کے ساتھ وفا کی ہے؟ اپنی بیٹیوں کو یہودیت کے تحفظ اور فروغ کیلئے دوسری قوموں کے آدمیوں کی عیاشی کا ذریعہ بنانے والی قوم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’ہمیں مسلمانوں نے نہیں طوفانی آندھی نے محاصرہ اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ ’’ہمارے پاس خوراک نہیں رہی تھی۔‘‘
’’تم لڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘‘خالد نے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔
خالد اب خاموش رہنے لگا تھا۔ اسے کوئی زبردستی بلاتا تو وہ جھنجھلا اٹھتا تھا۔ اس کے قبیلے کا سردار ابو سفیان اس سے گھبرانے لگا تھا۔ خالد اسے بزدل کہتا تھا۔ خالد نے اپنے آپ سے عہد کر رکھا تھاکہ وہ مسلمانوں کو شکست دے گا۔ لیکن اسے جب میدانِ جنگ میں مسلمانوں کی جنگی چالیں اور ان کا جذبہ یاد آتا تھا تو وہ دل ہی دل میں رسولِ اکرمﷺ کو خراجِ تحسین پیش کرتا تھا۔ ایساعسکری جذبہ اور ایسی عسکری فہم و فراست خالد میں تھی لیکن اپنے قبیلے سے اسے تعاون نہیں ملتا تھا۔
آج جب وہ مدینہ کی طرف اکیلا جا رہا تھا تو اسے معرکۂ خندق سے پسپائی یاد آ رہی تھی۔ اسے غصہ بھی آ رہا تھا اور وہ شرمسار بھی ہو رہا تھا۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ اس نے ایک سال کس طرح گزارا تھا۔ وہ مدینہ پر ایک اور حملہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اہلِ قریش مدینہ کا نام سن کر دبک جاتے تھے۔
آخر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ اسے یہ خبر ابو سفیان نے سنائی تھی۔
’’مسلمان مکہ پر حملہ کرنے صرف اس لیے آ رہے ہیں کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ قبیلہ ٔ قریش محمد (ﷺ) سے ڈرتا ہے۔‘‘ خالد نے ابو سفیان سے کہا۔’’ کیا تم نے اپنے قبیلے کو کبھی بتایا ہے کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرسکتے ہیں ۔کیا قبیلہ حملہ روکنے کیلئے تیار ہے؟‘‘
’’اب اس بحث کا وقت نہیں کہ ہم نے کیا کیا اور کیا نہیں؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’مجھے اطلاع دینے والے نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار ہے ۔تم کچھ سوچ سکتے ہو؟‘‘
’’میں سوچ چکا ہوں۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’مجھے تین سو سوار دے دو۔ میں مسلمانوں کو راستے میں روک لوں گا، میں کرع الغیم کی پہاڑیوں میں گھات لگاؤں گا۔ وہ اسی درّے سے گزر کر آئیں گے۔ میں انہیں ان پہاڑیوں میں بکھیر کر ماروں گا۔‘‘
’’تم جتنے سوار چاہو، لے لو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ ’’اور فوراً روانہ ہو جاؤ۔ ایسانہ ہو کہ وہ درّے سے گزر آئیں۔‘‘
خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس خبر نے اس کے جسم میں نئی روح پھونک دی تھی ۔اس نے اسی روز تین سو سوار تیار کر لیے تھے ۔مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔ ان میں زیادہ تر نفری پیادہ تھی۔ خالد خوش تھا کہ اپنے سواروں کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے۔ اب ابو سفیان اس کے سر پر سوار نہیں تھا۔ سب فیصلے اسے خود کرنے تھے۔ وہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کیلئے روانہ ہو گیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages