Featured Post

Khalid001

24 May 2019

Khalid021


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  21
خالد کچھ دیر آرام کر کے اور گھوڑے کو پانی پلا کر چل پڑا تھا۔اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا تھا ۔مکہ سے گھوڑا آرام آرام سے چلتا آیاتھا ۔خالد بڑی مضبوط شخصیت کا آدمی تھا ۔اس کے ذہن میں خواہشیں کم اور ارادے زیادہ ہوا کرتے تھے۔ وہ ذہن کو اپنے قبضہ میں رکھا کرتا تھا مگر مدینہ کو جاتے ہوئے ذہن اس پر قابض ہو جاتا تھا۔ یادوں کے تھپیڑے تھے جو اسے طوفانی سمندر میں بہتی ہو ئی کشتی کی طرح پٹخ رہے تھے۔ کبھی اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہو جاتی جیسے وہ مدینہ بہت جلدی پہنچنا چاہتا ہو اور کبھی یوں جیسے اسے کہیں بھی پہنچنے کی جلدی نہ ہو۔ اس کی آنکھوں کے آگے منزل سراب بن جاتی اور دور ہی دور ہٹتی نظر آتی تھی۔
گھوڑا اپنے سوار کے ذہنی خلفشار سے بے خبر چلا جا رہا تھا۔
سوا رنے اپنے سر کو جھٹک کر گردوپیش کو دیکھا ۔وہ ذرا بلند جگہ پر جا رہا تھا۔ افق سے احد کا سلسلۂ کوہ اور اوپر اٹھ آیا تھا۔ خالد کو معلوم تھا کہ کچھ دیر بعد ان پہاڑیوں کے قریب سے مدینہ کے مکان ابھرنے لگیں گے۔
اسے ایک بار پھر خندق اور پسپائی یا د آئی اور اسے مسلمانوں کے ہاتھوں چار سو یہودیوں کاقتل بھی یاد آیا۔ بنو قریظہ کی اس تباہی کی خبر پر قریش کا سردار ابوسفیان تو بہت خوش ہوا تھا، مگر خالد کو نہ خوشی ہوئی نہ افسوس ہوا۔
’’قریش یہودیوں کی فریب کاریوں کاسہارا لے کر محمد (ﷺ) کے پیروکاروں کو شکست دینا چاہتے ہیں۔‘‘ خالد کو خیال آیا۔ اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا جیسے اس خیال کو ذہن سے صاف کر دینا چاہتا ہو۔
اس کا ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ گھنٹیوں کی مترنم آوازیں اسے ماضی سے نکال لائیں۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا، بائیں طرف وسیع نشیب تھا۔ خالد اوپر اوپر جا رہا تھا ۔نیچے چار اونٹ چلے آ رہے تھے۔ اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے تھے ۔ان کے پہلو میں ایک گھوڑا تھا، اونٹوں پر دو عورتیں چند بچے اور دو آدمی سوار تھے ۔اونٹوں پر سامان بھی لدا ہوا تھا ۔گھوڑ سوار بوڑھا آدمی تھا۔ اونٹ کی رفتار تیز تھی۔ خالد نے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کر دی۔
اونٹوں کا یہ مختصر سا قافلہ اس کے قریب آ گیا۔ بوڑھے گھوڑ سوار نے اسے پہچان لیا۔
تمہارا سفر آسان ہو ولید کے بیٹے!‘‘بوڑھے نے بازو بلندکرکے لہرایا اور بولا ’’نیچے آ جاؤ۔کچھ دور اکھٹے چلیں گے۔‘‘
خالد نے گھوڑے کی لگام کو ایک طرف جھٹکا دیا اور ہلکی سی ایڑھ لگائی گھوڑا نیچے اتر گیا۔
’’ہاہا……ہاہا ‘‘خالد نے اپنا گھوڑا بوڑھے کے گھوڑے کے پہلو میں لے جا کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا۔’’ابو جریج !اور یہ سب تمہارا خاندان ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ بوڑھے ابو جریج نے کہا۔ ’’یہ میرا خاندان ہے۔اور تم خالد بن ولید کدھر کا رخ کیا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ مدینہ کو نہیں جا رہے۔مدینہ میں تمہارا کیا کام؟‘‘
یہ قبیلہ غطفان کا ایک خاندان تھا جو نقل مکانی کر کے کہیں جا رہا تھا۔ ابو جریج نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ خالد مدینہ تو نہیں جا رہا، تو خالد نے اسے بتانا مناسب بھی نہ سمجھا۔
’’اہلِ قریش کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’کیا یہ صحیح نہیں کہ محمد (ﷺ) کو لوگ نبی مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔کیا ایسا نہیں ہو گا کہ ایک روز مدینہ والے مکہ پر چڑھ دوڑیں گے اور ابو سفیان ان کے آگے ہتھیار ڈال دے گا۔‘‘
’’جو سردار اپنی شکست کا انتقام لینا ضروری نہیں سمجھتا۔ وہ ہتھیار ڈالنے کو بھی برا نہیں سمجھے گا۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملہ کرنے گئے تھے تو مدینہ والوں نے اپنے اردگرد خندق کھود لی تھی۔‘‘ خالدنے کہا۔ ’’ہم خندق پھلانگ سکتے تھے۔ میں خندق پھلانگ گیا تھا، عکرمہ بھی خندق کے پار چلا گیا تھا مگر ہمارا لشکر جس میں تمہارے قبیلے کے جنگجو بھی تھے، دور کھڑا تماشہ دیکھتا رہا تھا۔ مدینہ سے پسپا ہونے والا سب سے پہلا آدمی ہمارا سردار ابو سفیان تھا۔‘‘
’’میرے بازؤں میں طاقت نہیں رہی ابنِ ولید!‘‘ ابو جریج نے اپنا ایک ہاتھ جو ضعیفی سے کانپ رہا تھا۔ خالد کے آگے کر کے کہا۔ ’’میرا جسم ذرا سا بھی ساتھ دیتا تومیں بھی ا س معرکے میں اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتا۔ اس روز میرے آنسو نکل آ ئے تھے جس روز میرا قبیلہ مدینہ سے پسپا ہو کر لوٹا تھا۔ اگر کعب بن اسد دھوکا نہ دیتا اورمدینہ پر تین چار شب خون مار دیتا تو فتح یقیناً تمہاری ہوتی۔‘‘
خالد جھنجھلااٹھا ۔اس نے ابوجریج کو قہر کی نظروں سے دیکھا اور چپ رہا۔
’’کیا تم نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن نے تمہارے قبیلے کے ایک آدمی جرید بن مسیب کو محمد (ﷺ) کے قتل کیلئے تیار کر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ خالد نے کہا۔’’سنا تھا اور مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ جرید بن مسیب میرے قبیلے کا آدمی تھا ۔کہاں ہے وہ؟ ’’وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کا پتا نہیں چلا۔ میں نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن اسے اپنے ساتھ یہودی جادوگر لیث بن موشان کے پاس لے گئی تھی اور اس نے جرید کو محمد (ﷺ) کے قتل کیلئے تیار کیا تھا مگر مسلمانوں کی تلواروں کے سامنے لیث بن موشان کا جادو جواب دے گیا۔جرید بن مسیب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔بنو قریظہ میں سے زندہ بھاگ جانے والے صرف دو تھے لیث بن موشان اور یوحاوہ ۔‘‘
’’اب صرف ایک زندہ ہے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ لیث بن موشان ۔صرف لیث بن موشان زندہ ہے۔‘‘
’’اور جرید اور یوحاوہ؟‘‘
’’وہ بد روحیں بن گئے تھے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔ ’’میں تمہیں ان کی کہانی سنا سکتا ہوں ۔تم نے یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ مکہ کی ہی رہنے والی تھی۔ اگر تم کہو گے کہ اسے دیکھ کر تمہارے دل میں ہل چل نہیں ہوئی تھی اور تم اپنے اندر حرارت سی محسوس نہیں کرتے تھے توخالد میں کہوں گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کیا تمہیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ مدینہ پر حملہ کیلئے غطفان اہلِ قریش سے کیوں جا ملا تھا اور دوسرے قبیلے کے سرداروں نے کیوں ابو سفیان کو اپنا سردار تسلیم کرلیا تھا۔ یہ یوحاوہ اور اس جیسی چار یہودنوں کا جادو چلا تھا۔‘‘
…………bnb…………

گھوڑے اور اونٹ چلے جا رہے تھے۔ اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی ہوئی گھنٹیاں بوڑھے ابو جریج کے بولنے کے انداز میں جلترنگ کا ترنم پیداکر رہی تھیں ۔خالد انہماک سے سن رہا تھا۔
’’جرید بن مسیب یوحاوہ کے عشق کا اسیر ہو گیا تھا۔‘‘ ابو جریج کہہ رہا تھا۔ ’’تم نہیں جانتے ابنِ ولید! یوحاوہ کے دل میں اپنے مذہب کے سوا کسی آدمی کی محبت نہیں تھی ،وہ جرید کو اپنے طلسم میں گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ میں لیث بن موشان کو جانتا ہوں ۔جوانی میں ہماری دوستی تھی۔ جادو گری اور شعبدہ بازی اس کے باپ کا فن تھا۔ باپ نے یہ فن اسے ورثے میں دیا تھا ۔تم میری بات سن رہے ہو ولید کے بیٹے یا اُکتا رہے ہو؟ اب میں باتو ں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
خالد ہنس پڑااوربولا۔’’سن رہا ہوں ابو جریج…… غور سے سن رہا ہوں۔‘‘
’’یہ تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جب ہمارے لشکر کو مسلمانوں کی خندق اور آندھی نے مدینہ کا محاصرہ اٹھا کر پسپائی پر مجبور کر دیا تو محمد (ﷺ) نے بنو قریظہ کی بستی کو گھیر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’لیث بن موشان اور یوحاوہ، جرید بن مسیب کو وہیں چھوڑ کر نکل بھاگے۔‘‘
’’ہاں ہاں ابو جریج!‘‘ خالد نے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ مسلمانوں نے بنو قریظہ کے تمام مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں تم میری باتوں سے اکتا گئے ہو۔‘‘ ابو جریج نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’تم میری پوری بات نہیں سن رہے ہو۔‘‘
’’مجھے یہ بات وہاں سے سناؤ۔‘‘ خالد نے کہا۔’’ جہاں سے میں نے پہلے نہیں سنی۔میں وہاں تک جانتا ہوں کہ جرید بن مسیب اُسی پاگل پن کی حالت میں مارا گیا تھا جو اس بوڑھے یہودی شعبدہ باز نے اس پر طاری کیا تھا اور وہ خود یوحاوہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل بھاگا تھا۔
’’پھر یوں ہوا…‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ اُحد کی پہاڑیوں کے اندر جو بستیاں آباد ہیں وہاں کے رہنے والوں نے ایک رات کسی عورت کی چیخیں سنیں۔ تین چار دلیر قسم کے آدمی گھوڑوں پر سوار ہو کر تلواریں اور برچھیاں اٹھائے سر پٹ دوڑے گئے لیکن انہیں وہاں کوئی عورت نظر نہ آئی اور چیخیں بھی خاموش ہو گئیں۔ وہ اِدھر ُادھر گھوم پھر کر واپس آگئے۔
’’یہ چیخیں صحرائی لومڑیوں یا کسی بھیڑیے کی بھی ہو سکتی تھیں؟‘‘ خالد نے کہا۔
’’بھیڑیے اور عورت کی چیخ میں بہت فرق ہے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔ ’’لوگ اسے کسی مظلوم عورت کی چیخیں سمجھے تھے۔ وہ یہ سمجھ کر چپ ہو گئے کہ کسی عورت کو ڈاکو لے جا رہے ہوں گے یا وہ کسی ظالم خاوند کی بیوی ہو گی اور وہ سفر میں ہوں گے۔ لیکن اگلی رات یہی چیخیں ایک اور بستی کے قریب سنائی دیں۔ وہاں کے چند آدمی بھی ان چیخوں کے تعاقب میں گئے لیکن انہیں کچھ نظرنہ آیا ۔اس کے بعد دوسری تیسری رات کچھ دیر کیلئے یہ نسوانی چیخیں سنائی دیتیں ا ور رات کی خاموشی میں تحلیل ہو جاتیں۔‘‘
’’پھر ان پہاڑیوں کے اندر رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ اب چیخوں کے ساتھ عورت کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔ جرید … جرید … کہاں ہو؟ آجاؤ۔وہاں کے لوگ جرید نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتے تھے۔ ان کے بزرگوں نے کہا کہ یہ کسی مرے ہوئے آدمی کی بدروح ہے جو عورت کے روپ میں چیخ چلارہی ہے۔‘‘
ابو جریج کے بولنے کا انداز میں ایسا تاثر تھا جو ہرکسی کو متاثر کر دیا کرتا تھا لیکن خالد کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا جس سے پتا چلتا کہ وہ قبیلہ غطفان کے اس بوڑھے کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے۔
’’لوگوں نے اس راستے سے گزرنا چھوڑ دیا۔ جہاں یہ آوازیں عموماً سنائی دیا کرتی تھیں۔‘‘ ابو جریج نے کہا ۔’’ایک روز یوں ہوا کہ دو گھوڑ سوا ر جو بڑے لمبے سفر پر تھے، ایک بستی میں گھوڑے سرپٹ دوڑاتے پہنچے۔ گھوڑوں کا پسینہ یوں پھوٹ رہا تھا جیسے وہ پانی میں سے گزر کر آئے ہوں۔ ہانپتے کانپتے سواروں پر خوف طاری تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک وادی میں سے گزر رہے تھے کہ انہیں کسی عورت کی پکار سنائی دی۔ جرید ٹھہرجاؤ … جرید ٹھہرجاؤ … میں آ رہی ہوں۔ ان گھوڑ سواروں نے اُدھر دیکھا جدھر سے آواز آرہی تھی۔ ایک پہاڑ ی کی چوٹی پر ایک عورت کھڑی ان گھوڑ سواروں کو پکار رہی تھی۔ وہ تھی تو دور لیکن جوان لگتی تھی۔ وہ پہاڑی سے اترنے لگی تو دونوں گھوڑ سواروں نے ڈر کر ایڑ لگا دی۔‘‘
’’سامنے والی چٹان گھومتی تھی ۔گھوڑ سوار اس کے مطابق وادی میں گھوم گئے ۔انہیں تین چار مزید موڑ مڑنے پڑے گھبراہٹ میں وہ راستے سے بھٹک گئے تھے۔ وہ ایک اور موڑ مڑے تو ان کے سامنے تیس چالیس قدم دور ایک جوان عورت کھڑی تھی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ نیم برہنہ تھی۔ اس کا چہرہ لاش کی مانند سفید تھا۔ گھوڑسواروں نے گھوڑے روک لیے۔ عورت نے دونوں بازو ان کی طرف پھیلا کر اورآگے کو دوڑتے ہوئے کہا۔ میں تم دونوں کے انتظار میں بہت دنوں سے کھڑی ہوں۔ دونوں گھوڑسواروں نے وہیں سے گھوڑے موڑے اور ایڑھ لگا دی۔‘‘ بوڑھا جریج بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ خالد کی ران پر رکھا اوربولا۔ ’’میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہم کچھ دیرکیلئے رک جائیں پھر نہ جانے تم کب ملو، تمہارا باپ ولید بڑا زبردست آدمی تھا۔ تم میرے ہاتھوں میں پیدا ہوئے تھے۔ میں تمہاری خاطر تواضع کرنا چاہتا ہوں۔ روکو گھوڑے کو اور اتر آؤ۔‘‘
یہ قافلہ وہیں رک گیا۔
…………bnb…………

’’وہ کسی مرے ہوئے آدمی یا عورت کی بدروح ہی ہو سکتی تھی۔‘‘ ابو جریج نے بھنا ہوا گوشت خالد کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔ ’’کھاؤ ولید کے بیٹے !پھر ایک خوفناک واقعہ ہو گیا۔ ایک بستی میں ایک اجنبی اس حالت میں آن گرا کہ اس کے چہرہ پر لمبی لمبی خراشیں تھیں جن سے خون بہہ رہاتھا ۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر بھی خراشیں تھیں۔ وہ گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس کے زخم دھوئے اور اس کے منہ میں پانی ڈالا۔ وہ جب ہوش میں آیا تو اس نے بتایا کہ وہ دو چٹانوں کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ ایک چٹان کے اوپر سے ایک عورت چیختی چلاتی اتنی تیزی سے اُتری جتنی تیزی سے کوئی عورت نہیں اتر سکتی تھی۔ ‘‘
’’یہ آدمی اس طرح رک گیا جیسے دہشت زدگی نے اس کے جسم کی قوت سلب کرلی ہو۔ وہ عورت اتنی تیزی سے آ رہی تھی کہ رُک نہ سکی، وہ اس آدمی سے ٹکرائی اور چیخ نماآواز میں بولی ۔تم آ گئے جرید! میں جانتی تھی تم زندہ ہو۔ آؤ چلیں۔‘‘
’’اس شخص نے اسے بتایا کہ وہ جرید نہیں لیکن وہ عورت اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتی رہی اور کہتی رہی تم جرید ہو، تم جرید ہو۔ اس شخص نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش میں اسے دھکا دیا وہ گر پڑی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ آدمی اسے کوئی پاگل عورت سمجھ کر وہیں کھڑا رہا۔ وہ اس طرح اس کی طرف آئی کہ اس کے دانت بھیڑیوں کی طرح باہرنکلے ہوئے تھے اور اس نے ہاتھ اس طرح آگے کر رکھے تھے کہ اس کی انگلیاں درندوں کے پنجوں کی طرح ٹیڑھی ہو گئی تھیں۔ وہ آدمی ڈر کر الٹے قدم پیچھے ہٹا اور ایک پتھر سے ٹھوکر کھا کر پیٹھ کے بل گرا۔ یہ عورت اس طرح اس پر گری اور پنجے اس کے چہرے پر گاڑھ دیئے جیسے بھیڑیا اپنے شکار کو پنجوں میں دبوچ لیتاہے۔ اس نے اس آدمی کا چہرہ نوچ ڈالا۔‘‘
’’اس نے اس عورت کو دھکا دے کر پرے کیا اور اس کے نیچے سے نکل آیا۔ لیکن اس عورت نے اپنے ناخن اس شخص کے پہلوؤں میں اتار دیئے ا ور اس کے کپڑے بھی پھاڑ ڈالے اور کھال بھی بری طرح زخمی کردی۔اس زخمی نے بتایا کہ اس عورت کی آنکھوں اور منہ سے شعلے سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے، وہ اسے انسانوں کے روپ میں آیا ہوا کوئی درندہ سمجھا۔ اس آدمی کے پاس خنجر تھا لیکن اس کے ہوش ایسے گم ہوئے کہ و ہ خنجرنکالنابھول گیا۔اتفاق سے اس آدمی کے ہاتھ میں اس عورت کے بال آ گئے۔ اس نے بالوں کو مٹھی میں لے کر زور سے جھٹکا دیا ۔وہ عورت چٹا ن پر گری۔ یہ آدمی بھاگ اٹھااسے اپنے پیچھے اس عورت کی چیخیں سنائی دیتی رہیں۔ اسے بالکل یاد نہیں تھا وہ اس بستی تک کس طرح پہنچا ہے۔ وہ ان خراشوں کی وجہ سے بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اس پر دہشت سوار تھی۔‘‘
’’پھر دو مسافروں نے بتایا کہ انہوں نے راستے میں ایک آدمی کی لاش پڑی دیکھی ہے جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر ہلاک کیا ہو گا۔انہوں نے بتایا کہ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور تمام جسم پر خراشیں تھیں، اس جگہ کے قریب جس جگہ اس عورت کی موجودگی بتائی جاسکتی تھی، چھوٹی سی ایک بستی تھی۔ وہاں کے لوگوں نے نقل مکانی کا ارادہ کرلیا لیکن یہودی جادوگر لیث بن موشان پہنچ گیا۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ ایک عورت اس علاقے میں جرید جرید پکارتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور جو آدمی اس کے ہاتھ آ جائے اسے چیر پھاڑ دیتی ہے۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages