Featured Post

Khalid001

24 May 2019

Khalid022


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  22
ابو جریج نے خالد کو باقی کہانی یوں سنائی ۔اسے بدروحوں کے علم کے ساتھ گہری دلچسپی تھی اور وہ لیث بن موشان کو بھی جانتا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ یہودی جادوگر وہاں پہنچ گیا ہے تو وہ بھی گھوڑے پر سوا رہوا اور وہاں جا پہنچا۔ وہ اس بستی میں جا پہنچا جہاں لیث بن موشان آکر ٹھہرا تھا۔
’’ابو جریج!‘‘ بوڑھے لیث بن موشان نے اٹھ کر بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔’’تم یہاں کیسے آ گئے؟‘‘
’’میں یہ سن کہ آیا ہوں کہ تم اس بد روح پر قابو پانے کیلئے آئے ہو۔‘‘ابو جریج نے اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ اس بدروح نے یا وہ جو کچھ بھی ہے،دو تین آدمیوں کو چیر پھاڑ ڈالا ہے؟‘‘
’’وہ بد روح نہیں میرے بھائی!‘‘ لیث بن موشان نے ایسی آواز میں کہا جو ملال اور پریشانی سے دبی ہوئی تھی۔ ’’وہ خدائے یہودہ کی سچی نام لیوا ایک جوان عورت ہے۔ اس نے اپنی جوانی ا پنا حسن اور اپنی زندگی یہودیت کے نام پر وقف کررکھی تھی۔اس کانام یوحاوہ ہے۔‘‘
’’میں نے اسے مکہ میں دو چار مرتبہ دیکھا تھا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔ ’’اسکے کچھ جھوٹے سچے قصے بھی سنے تھے۔ یہ بھی سنا تھاکہ اس نے قریش کے ایک آدمی جرید بن مسیّب کو تمہارے پاس لا کر محمد (ﷺ) کے قتل کیلئے تیار کیا تھا پھر میں نے یہ بھی سنا تھاکہ تم اور یوحاوہ مسلمانوں کے محاصرے سے نکل گئے تھے اور جرید پیچھے رہ گیا تھا۔ اگر یوحاوہ زندہ ہے اوروہ بدروح نہیں تو وہ اس حالت تک کس طرح پہنچی ہے؟‘‘
’’ا س نے اپنا سب کچھ خدائے یہودہ کے نام پر قربان کر رکھا تھا۔‘‘ لیث بن موشان نے کہا۔ ’’ لیکن وہ آخر انسان تھی، جوان تھی، وہ جذبات کی قربانی نہ دے سکی۔ اس نے جرید کی محبت کو اپنی روح میں اتار لیا تھا۔ جرید پرجتنا اثرمیرے خاص عمل کا تھا۔ اتنا ہی یوحاوہ کی والہانہ محبت کا تھا۔‘‘
’’میں سمجھ گیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اسے جرید بن مسیب کی موت نے پاگل کر دیا ہے۔ کیا تمہارا عمل اور جادو اس عورت پر نہیں چل سکتا تھا؟‘‘
لیث بن موشان نے لمبی آہ بھری اوربے نور آنکھوں سے ابو جریج کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھااور کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہا۔ ’’میرا عمل اس پرکیا اثر کرتا۔وہ مجھے بھی چیر پھاڑنے کو مجھ پر ٹوٹ پڑتی تھی۔ میرا عمل اس صورت میں کام کرتا کہ میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا اور میرا ہاتھ تھوڑی دیرکیلئے اس کے ماتھے پر رہتا۔‘‘
’’جہاں تک میں اس علم کو سمجھتا ہوں۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’وہ پہلے ہی پاگل ہو چکی تھی اور تمہیں اپنا دشمن سمجھنے لگی تھی۔‘‘
’’اور اسے میرے خلاف دشمنی یہ تھی کہ میں جرید بن مسیب کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا تھا۔‘‘ لیث بن موشان نے کہا۔’’میں اسے اپنے ساتھ لا سکتا تھا لیکن وہ اس حد تک میرے طلسماتی علم کے زیرِ اثر آچکا تھا کہ ہم اسے زبردستی لاتے تو شاید مجھے یا یوحاوہ کو قتل کر دیتا۔ میں نے اس کے ذہن میں درندگی کا ایساتاثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ قتل وغارت کے سوااور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر میں ایک درخت کی طرف یہ اشارہ کرکہ کہتا کہ یہ ہے محمد، تو وہ تلوار اس درخت کے تنے میں اتار دیتا۔ مجھے یہ توقع بھی تھی کہ یہ پیچھے رہ گیا تو ہو سکتاہے کہ محمد (ﷺ) تک پہنچ جائے اور اسے قتل کر دے لیکن وہ خود قتل ہو گیا۔‘‘
’’کیا تم اب یوحاوہ پر قابو پا سکو گے؟‘‘ ابو جریج نے پوچھا۔
’’مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے اثر میں لے آؤں گا۔‘‘ لیث بن موشان نے جواب دیا۔
’’کیا تم مجھے اس کام میں شریک کر سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا اور کہا۔ ’’میں کچھ جاننا چاہتاہوں۔ کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اگربڑھاپا تمہیں چلنے دے تو چلو۔‘‘ لیث بن موشان نے کہا۔ ’’میں تھوڑی دیر تک روانہ ہونے والا ہوں۔ یہاں کے کچھ آدمی میرے ساتھ چلنے کوتیار ہو گئے ہیں۔‘‘
…………bnb…………

’’اور پھر خالد بن ولید!‘‘ بوڑھے ابو جریج نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذباتی لہجے میں کہا۔ ’’ہم دونوں بوڑھے،اونٹوں پر سوار اس پہاڑی علاقے میں پہنچے جہاں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ ایک عورت کو دیکھا گیا ہے۔ ہم تنگ سی ایک وادی میں داخل ہوگئے۔ ہمارے پیچھے دس بارہ گھڑ سوار اور تین چار شتر سوار تھے۔ وادی میں داخل ہوئے تو ان سب نے کمانوں میں تیر ڈال لیے۔ وادی آگے جاکر کھل گئی، ہم دائیں کو گھومے تو ہمیں کئی گدھ نظر آئے جو کسی مردار کو کھا رہے تھے ۔ایک صحرائی لومڑی گدھوں میں سے دوڑتی ہوئی نکلی۔ میں نے دیکھا اس کے منہ میں ایک انسانی بازو تھا ۔
اور لومڑیاں بھاگیں اور گدھ اڑ گئے۔ وہاں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں ۔سر الگ پڑا تھا۔اس کے بال لمبے اِدھر ُادھر بکھرے ہوئے تھے ۔کچھ کھوپڑی کے ساتھ تھے۔ آدھے چہرے پر ابھی کھال موجود تھی وہ یوحاوہ تھی۔ لیث بن موشان کچھ دیراس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو اور ادھ کھائی چہرے کو دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کی دودھ جیسی داڑھی میں جذب ہو گئے۔ہم وہاں سے آگئے۔‘‘
’’لیث بن موشان اور یوحاوہ نے جرید بن مسیب کو محمد (ﷺ) کے قتل کیلئے تیار کیا تھا۔‘‘ خالد نے ایسے لہجے میں کہا جس میں طنز کی ہلکی سی جھلک بھی تھی۔ ’’جرید بن مسیّب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور یوحاوہ کا انجام تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے …کیا تم سمجھے نہیں ہو ابو جریج؟‘‘
’’ہاں ۔ہاں!‘‘ بوڑھے ابو جریج نے جواب دیا۔ ’’لیث بن موشان کے جادو سے محمد (ﷺ) کا جادوزیادہ تیز اور طاقتور ہے۔ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ محمد (ﷺ) کے ہاتھ میں جادو ہے۔اس جادو کا ہی کرشمہ ہے کہ اس کے مذہب کو لوگ مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ جرید کو قتل ہونا ہی تھا۔‘‘
’’میرے بزرگ دوست! ‘‘خالد نے کہا ۔’’اس بدروح کے قصّے مدینہ میں بھی پہنچے ہوں گے لیکن وہاں کوئی نہیں ڈرا ہو گا۔ محمد (ﷺ) کے پیروکاروں نے تسلیم ہی نہیں کیا ہو گا کہ یہ جن بھوت یا بدروح ہے۔‘‘
’’محمد (ﷺ) کے پیروکاروں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ابو جریج نے کہا۔ ’’محمد (ﷺ) کے جادو نے مدینہ کے گرد حصار کھینچا ہوا ہے، محمد (ﷺ) کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔وہ اُحد کی لڑائی میں زخمی ہوا اور زندہ رہا۔ تمہارا اور ہمارا اتنا زیادہ لشکر مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے گیا تو ایسی آندھی آئی کہ ہمارا لشکر تتّر بتّر ہو کہ بھاگا۔ میدانِ جنگ میں محمد (ﷺ) کے سامنے جو بھی گیا اس کا دماغ جواب دے گیا۔ کیا تم جانتے ہو خالد! محمد (ﷺ) کے قتل کی ایک اور کوشش ناکام ہو چکی ہے؟‘‘
’’سنا تھا۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’ پوری بات کا علم نہیں۔‘‘
’’یہ خیبر کا واقعہ ہے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔ ’’مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں پر چڑھائی کی تویہودی ایک دن بھی مقابلے میں نہ جم سکے۔‘‘
’’فریب کار قوم میدان میں نہیں لڑ سکتی۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’یہودی پیٹھ پر وار کیاکرتے ہیں۔‘‘
’’اور وہ انہوں نے خیبر میں کیا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔ ’’یہودیوں نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن ان پر محمد (ﷺ) کا خوف پہلے ہی طاری ہو گیاتھا۔میں نے سنا تھا کہ جب مسلمان خیبر کے مقام پرپہنچے تو یہودی مقابلے کیلئے نکل آئے۔ ان میں سے بعض محمد (ﷺ) کو پہچانتے تھے۔کسی نے بلند آواز سے کہا کہ محمد بھی آیا ہے ۔پھر کسی اور نے چلا کر کہا۔ محمدبھی آیا ہے۔یہودی لڑے تو سہی لیکن ان پر محمد کا خوف ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔‘‘
یہودیوں نے شکست کھائی تو انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے وفاداری کااظہار کرنا شروع کر دیا اور ایسے مظاہرے کیے جن سے پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کی محبت سے یہودیوں کے دل لبریز ہیں۔ انہی دنوں جب رسولِ کریمﷺ خیبر میں ہی تھے۔ ایک یہودن نے آپﷺ کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ اس نے عقیدت مندی کا ااظہار ایسے جذباتی انداز میں کیا کہ رسولِ خداﷺ نے اسے مایوس کرنا مناسب نہ سمجھا۔ آپﷺ اس کے گھر چلے گئے۔ آپﷺ کے ساتھ ’’بشرؓ بن البارأ‘‘ تھے۔
یہودن زینب بنتِ الحارث نے جو سلّام بن شکم کی بیوی تھی۔ رسولِ خداﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں اور آپﷺ کو کھانا پیش کیا۔ اس نے سالم دنبہ بھونا تھا۔ اس نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ ’’آپﷺ کو دنبہ کاکون ساحصہ پسند ہے؟‘‘ آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔ یہودن دنبہ کی دستی کاٹ لائی اور رسولِ خدا ﷺ اور بشرؓ بن البارأ کے آگے رکھ دی۔
بشرؓ بن البارأ نے ایک بوٹی کاٹ کر منہ میں ڈال لی۔ رسولِ اکرمﷺ نے بوٹی منہ میں ڈالی مگر اگل دی۔
’’مت کھانا بشر!‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘
بشرؓ بن البارأ بوٹی چبا رہے تھے۔ انہوں نے اگل تو دی لیکن زہر لعابِ دہن کے ساتھ حلق سے اتر چکا تھا۔
’’اے یہودن!‘‘رسولِ خداﷺ نے فرمایا۔’’کیا میں غلط کہہ رہا ہوں کہ تو نے اس گوشت میں زہرملایا ہے؟‘‘
یہودن انکار نہیں کر سکتی تھی۔اس کے جرم کا ثبوت سامنے آ گیا تھا۔ بشرؓ بن البارأ حلق پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا۔ وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔
’’اے محمد!‘‘ یہودن نے بڑی دلیری سے اعتراف کیا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔‘‘
رسول اﷲﷺ نے اس یہودن اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم فرمایااور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ آپﷺ نے جو مشفقانہ روّیہ اختیار کیا تھا وہ ان کی ذہنیت کے مطابق بدل ڈالا۔
ابنِ اسحاق لکھتے ہیں۔مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولِ خدا ﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ،آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ ِ بشر بن البارأ کو جب وہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں ۔فرمایا تھا۔’’اُمّ ِ بشر!میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں۔جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا۔میں نے گوشت چبایا نہیں اگل دیا تھا۔مگر زہر کااثر آج تک موجود ہے۔‘‘اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ رسول اﷲﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔
…………bnb…………

’’محمد کو کوئی قتل نہیں کر سکتا۔‘‘ خالد نے کہا۔
’’آخر کب تک؟‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اس کا جادو کب تک چلے گا؟اسے ایک نہ ایک دن قتل ہونا ہے خالد!‘‘ ابو جریج نے خالد کے قریب ہوتے ہوئے پوچھا۔’’کیا تم نے محمد (ﷺ) کے قتل کی کبھی کوئی ترکیب سوچی ہے؟‘‘
’’کئی بار‘‘ خالد نے جواب دیا۔ ’’جس روز میرے قبیلے نے بدر کے میدان میں شکست کھائی تھی، اس روز سے محمد (ﷺ) کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی ترکیب سوچ رہا ہوں۔ لیکن میری ترکیب کارگر نہیں ہوئی۔‘‘
’’کیا وہ ترکیب مجھے بتاؤ گے؟‘‘ ’’کیوں نہیں۔‘‘ خالد نے جواب دیا۔ ’’بڑی آسان ترکیب ہے۔ یہ ہے کھلے میدان میں آمنے سامنے کی لڑائی ۔لیکن میں ایک لشکر کے مقابلے میں اکیلا نہیں لڑ سکتا۔ہم تین لڑائیاں ہار چکے ہیں۔‘‘
’’خدا کی قسم!‘‘ ابو جریج نے قہقہہ لگا کر کہا۔’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ولید کا بیٹا بیوقوف ہو سکتا ہے۔میں یہودیوں جیسی ترکیب کی بات کر رہا ہوں۔میں دھوکے اور فریب کی بات کر رہا ہوں۔ محمد (ﷺ) کو تم آمنے سامنے کی لڑائی میں نہیں مار سکتے۔‘‘
’’اور تم اسے فریب کاری سے بھی نہیں مار سکتے۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’فریب کبھی کامیاب نہیں ہوا۔‘‘
بوڑھا ابو جریج خالد کی طرف جھکا اور اس کے سینے پر انگلی رکھ کر بولا۔ ’’کسی اور کا فریب ناکام ہو سکتا ہے ،یہودیوں کا فریب ناکام نہیں ہو گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فریب کاری یہودیوں کے مذہب میں شامل ہے۔میں لیث بن موشان کا دوست ہوں،کبھی اس کی باتیں سنو۔وہ دانشمند ہے اس کی زبان میں جادو ہے۔وہ تمہیں زبان سے مسحور کردے گا۔وہ کہتا ہے کہ سال لگ جائیں گے، صدیاں گزر جائیں گی، آخر فتح یہودیوں کی ہوگی۔ دنیا میں کامیاب ہوگا تو صرف فریب کامیاب ہوگا۔ مسلمان ابھی تعداد میں تھوڑے ہیں اس لیے ان میں اتفاق اور اتحاد ہے۔ اگر ان کی تعداد بڑھ گئی تو یہودی ایسے طریقوں سے ان میں تفرقہ ڈال دیں گے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے اور سمجھ نہ سکیں گے کہ یہ یہودیوں کی کارستانی ہے ۔محمد (ﷺ) انہیں یکجان رکھنے کیلئے کب تک زندہ رہے گا؟‘‘
خالد اٹھ کھڑا ہوا۔ ابو جریج بھی اٹھا۔خالد نے دونوں ہاتھ آگے کیے ،ابو جریج نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ مصافحہ کرکے خالد اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔
’’تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ ابو جریج نے پوچھا۔
’’مدینے۔‘‘
’’مدینے؟‘‘ ابو جریج نے حیرت سے پوچھا۔ ’’وہاں کیا کرنے جا رہے ہو؟اپنے دشمن کے پاس…‘‘
’’میں محمد (ﷺ) کا جادو دیکھنے جا رہا ہوں۔‘‘خالد نے کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages