Featured Post

Khalid001

26 May 2019

Khalid028


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  28
یہ عورت (کسی بھی تاریخ میں نام نہیں دیا گیا) اپنے اونٹ اور بکریاں چرانے کیلئے لے گئی۔ انہیں وہ ہانکتی جا رہی تھی کسی نے بھی نہ دیکھا کہ اونٹوں کی پیٹھیں ننگی تھیں لیکن ایک اونٹنی سواری کیلئے تیار کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ پانی کا مشکیزہ اور ایک تھیلا بھی بندھا ہو اتھا۔ عورت اس ریوڑ کو شہر سے دور لے گئی۔
بہت دیر گزر گئی تو یہودی نے اس جوان لڑکی کو جو گھر میں تھی ،کہا۔’’ وہ جا چکی ہو گی۔ تم جاؤاور اونٹوں اور بکریوں کو شام کے وقت واپس لے آنا۔‘‘
وہ لڑکی ہاتھ میں گدڑیوں والی لاٹھی لے کر باہر نکل گئی۔ لیکن وہ شہر سے باہر جانے کی بجائے شہر کے اندر چلی گئی۔وہ اس طرح اِدھر اُدھر دیکھتی جا رہی تھی جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو۔وہ گلیوں میں سے گزر ی اور ایک میدان میں جا رکی ۔وہاں بہت سے مسلمان ڈھالیں اور تلواریں لیے تیغ زنی کی مشق کر رہے تھے۔ایک طرف شتر دوڑ ہو رہی تھی اور تماشائیوں کابھی ہجوم تھا۔
لڑکی اس ہجوم کے اردگرد گھومنے لگی یہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھی ۔اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے جو بڑھتے جا رہے تھے ۔اسکے قدم تیزی سے اٹھنے لگے۔ایک جوان سال آدمی نے اسے دیکھ لیا اور بڑی تیزچلتااس کے پیچھے گیا۔قریب پہنچ کر اس نے دھیمی آواز سے کہا:’’زاریہ!‘‘لڑکی نے چونک کر پیچھے دیکھا اور ا سکے چہرے سے پریشانی کا تاثر اُڑ گیا۔
’’وہیں آجاؤ !‘‘زاریہ نے کہا اور وہ دوسری طرف چلی گئی۔زاریہ کو وہاں پہنچتے خاصہ وقت لگ گیا جہاں وہ عورت اونٹوں اور بکریوں کو لے جایا کرتی تھی۔ اونٹ اور بکریاں وہیں تھیں۔ وہ عورت اور ا س کی اونٹنی وہاں نہیں تھیں۔ زاریہ وہاں اس انداز سے بیٹھ گئی جیسے بکریاں چرانے آئی ہو۔ وہ بار بار اٹھتی اور شہر کی طرف دیکھتی تھی۔ اسے اپنی طرف کوئی آتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ ایک بار پھرپریشان ہونے لگی۔
سورج ڈوبنے کیلئے افق کی طرف جا رہا تھا جب وہ آتا دکھائی دیا۔ زاریہ نے سکون کی آہ بھری اور بیٹھ گئی۔
’’او ہ عبید!‘‘ زاریہ نے اسے اپنے پاس بٹھا کر کہا۔’’تم اتنی دیر سے کیوں آئے ہو ؟میں پریشان ہو رہی ہوں۔‘‘
’’کیا میں نے تمہیں پریشانی کا علاج بتایا نہیں؟‘‘عبید نے کہا۔’’میرے مذہب میں آجاؤاور تمہاری پریشانی ختم ہو جائے گی۔جب تک تم اسلام قبول نہیں کرتیں ،میں تمہیں اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔ سوچو زاریہ سوچو۔ ہم کب تک اس طرح چھپ چھپ کر ملتے رہیں گے۔‘‘
’’یہ باتیں پھر کر لیں گے۔‘‘ زاریہ نے کہا۔ میری محبت مذہب کی پابند نہیں۔ میں تمہاری ہی پوجا کرتی ہوں۔ خوابوں میں بھی تمہیں ہی دیکھتی ہوں لیکن آج میرے دل پر بوجھ آپڑا ہے۔‘‘
’’کیسا بوجھ؟‘‘
’’مسلمان­مکہ پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ زاریہ نے کہا۔ ’’تم نہ جاؤ عبید۔تمہیں اپنے مذہب کی قسم ہے نہ جانا۔کہیں ایسا نہ ہو…‘‘
’’مکہ والوں میں اتنی جان نہیں رہی کہ ہمارے مقابلے میں جم سکیں۔‘‘ عبید نے کہا۔’’لیکن زاریہ! ان میں جان ہو نہ ہو، مجھے اگر میرے رسول ﷺ آگ میں کود جانے کا حکم دیں گے تو میں آپﷺ کا حکم مانوں گا۔ دل پر بوجھ نہ ڈالو زاریہ! ہمارا حملہ ایسا ہو گا کہ انہیں اس وقت ہماری خبر ہو گی جب ہماری تلواریں ان کے سروں پر چمک رہی ہوں گی۔‘‘
’’ایسانہیںہو گا عبید۔‘‘ زاریہ نے پریشانی اور جذبات کی شدت سے عبید کا سر اپنے سینے سے لکا کر کہا۔ ’’ایسانہیں ہو گا۔وہ گھات میں بیٹھے ہوں گے۔آج رات کے پچھلے پہر یا کل صبح ابو سفیان کو پیغام مل جائے گا کہ مسلمان تمہیں بے خبری میں دبوچنے کیلئے آ رہے ہیں …تم نہ جانا عبید! قریش اور ان کے دوست قبیلے تیار ہوں گے۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو زاریہ ؟‘‘عبید نے بدک کر پوچھا۔’’ابو سفیان کو کس نے پیغام بھیجا ہے؟‘‘
’’ایک یہودی نے۔‘‘زاریہ نے کہا۔’’اور پیغام میرے بڑے بھائی کی بیوی لے کر گئی ہے … میری محبت کا اندازہ کرو عبید! میں نے تمہیں وہ راز دے دیا ہے جو مجھے نہیں دیناچاہیے تھا۔ یہ صرف اس لیے دیا ہے کہ تم کسی بہانے رک جاؤ، قریش اور دوسرے قبیلے مسلمانوں کا کشت وخون کریں گے کہ کوئی قسمت والا مسلمان زندہ واپس آئے گا۔‘‘
عبید نے اس سے پوچھ لیا کہ اس کے بھائی کی بیوی کس طرح اور کس وقت روانہ ہوئی ہے؟ عبید اٹھ کھڑا ہوا اور زاریہ جیسی حسین اور نوجوان لڑکی اور اس کی والہانہ محبت کو نظر انداز کرکے شہر کی طرف دوڑ پڑا، اسے زاریہ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ ’’ عبید …رک جاؤ عبید…‘‘ اور عبید زاریہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
…………bnb…………

رسولِ کریمﷺ کو پوری تفصیل سے بتایا گیا کہ ایک عورت بڑی تیز رفتار اونٹنی پرا بو سفیان کے نام پیغام اپنے بالوں میں چھپا کر لے گئی ہے ۔اسے ابھی راستے میں ہوناچاہیے تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے اسی وقت حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کو بلا کر اس عورت کی اور اس کی اونٹنی کی نشانیاں بتائیں اور انہیں اس عورت کو راستے میں پکڑنے کو بھیج دیا۔
حضرت علیؓ اور حضرت ؓزبیر کے گھوڑے عربی نسل کے تھے اور انہوں نے اسی وقت گھوڑے تیار کیے اور ایڑیں لگا دیں۔اس وقت سورج غروب ہو رہا تھا۔ دونوں شہسوار مدینہ سے دور نکل گئے تو سورج غروب ہو گیا۔
اگلے دن کاسورج طلوع ہوا تو حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کے گھوڑے مدینہ میں داخل ہوئے ان کے درمیان ایک اونٹنی تھی جس پر ایک عورت سوارتھی۔مدینہ کے کئی لوگوں نے اس عورت کو پہچان لیا۔اسے رسولِ کریمﷺ کے پاس لے گئے اس کے بالوں سے جو پیغام نکالا گیا تھاوہ حضورﷺ کے حوالے کیا گیا۔آپﷺ نے پیغام پڑھا تو چہرہ لال ہو گیا۔ یہ بڑا ہی خطرناک پیغام تھا ۔اس عورت نے اقبالِ جرم کر لیا اور پیغام دینے والے یہودی کا نام بھی بتا دیا۔ رسول ِ اکرمﷺ نے اس عورت کو سزائے موت دے دی لیکن یہودی اس کے گھر سے غائب ہو گیا تھا اگر یہ پیغام مکہ پہنچ جاتا تو مسلمانوں کا انجام بہت برا ہوتا، مکہ پر فوج کشی کی قیادت رسول اﷲﷺ فرما رہے تھے۔
رسول اﷲﷺ نے تیاریوں کا جائزہ لیا اور کوچ کا حکم دے دیا۔
اس اسلامی لشکر کی تعداد دس ہزار پیادہ اور سوار تھی۔ اس لشکر میں مدینہ کے ارد گرد کے وہ قبیلے بھی شامل تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ لشکر مکہ جا رہا تھا تو راستے میں دو تین قبیلے اس لشکر میں شامل ہو گئے۔ تقریباً تمام مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رسولِ خدا ﷺ کی قیادت میں اس لشکر کی پیش قدمی غیر معمولی طور پر تیز تھی اور یہ مسلمانوں کا پہلا لشکر تھا جس کی نفری دس ہزار تک پہنچی تھی۔
یہ لشکر مکہ کے شمال مغرب میں ایک وادی مرّالظہر میں پہنچ گیا جو مکہ سے تقریباً دس میل دور ہے۔ اس وادی کا ایک حصہ وادیٔ فاطمہ کہلاتا ہے ۔رسولِ اکرمﷺ اس مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے کہ اہلِ مکہ کو اسلامی لشکر کی آمدکی اطلاع نہ ہو ۔اب خبر ہو بھی جاتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔اب قریش دوسرے قبیلوں کو مدد کیلئے بلانے نہیں جا سکتے تھے۔ رسولِ اکرمﷺ نے کسی نہ کسی بہروپ میں اپنے آدمی مکہ کے قریب گردونواح میں بھیج دیئے تھے۔
…………bnb…………

تھوڑی دیر آرام کرکے اسلامی لشکر مکہ کی طرف چل پڑا۔ جُعفہ ایک مقام ہے جہاں لشکر کا ہراول دستہ پہنچاتو مکہ کی طرف سے چھوٹا سا ایک قافلہ آتا دکھائی دیا۔ اسے قریب آنے دیا گیا۔ دیکھا وہ قریش کا ایک سرکردہ آدمی عباس تھا۔جو اپنے پورے خاندان کو ساتھ لیے مدینہ کو جا رہا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے حضرت عباسؓ کے نام سے تاریخِ اسلام میں شہرت حاصل کی۔یہ آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓبن عبدالمطلب تھےا نہیں رسولِ اکرمﷺ کے حضور لے جایا گیا۔ آپ انہیں اچھی طرح جانتے تھے۔
’’کیوں عباسؓ!‘‘ رسولِ اکرمﷺ نے کہا ۔’’کیا تو اس لیے مکہ سے بھاگ نکلا ہے کہ مکہ پر قیامت ٹوٹنے والی ہے؟‘‘
’’خدا کی قسم! مکہ والوں کو خبر ہی نہیں کہ محمد (ﷺ) کا لشکر ان کے سر پر آگیا ہے ۔‘‘عباس ؓنے کہا۔’’اور میں تیری اطاعت قبول کرنے کو مدینہ جا رہا تھا۔‘‘
’’میری نہیں عباسؓ!‘‘ رسولِ خداﷺ نے کہا۔’’اطاعت اس اﷲ کی قبول کرو جو وحدہٗ لا شریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ میں اس کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔‘‘
حضرت عباس ؓ نے اسلام قبول کر لیا۔رسولِ کریمﷺ نے انہیں گلے لگا لیا۔ آپﷺ کو مسرت اس سے ہوئی کہ اہلِ قریش مکہ میں بے فکر اور بے غم بیٹھے تھے۔
حضرت عباس ؓنے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے رسول اﷲﷺ سے کہا کہ ’’اہلِ قریش آخر ہمارا اپنا خون ہیں ۔دس ہزار کے اس لشکر کے قدموں میں قریش کے بچے اور عورتیں بھی کچلی جائیں گی۔‘‘ عباسؓ نے رسول اﷲﷺ کو یہ بھی بتایا کہ’’ قریش میں اسلام کی قبولیت کی ایک لہر پیدا ہو گئی ہے ۔کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ انہیں صلح کاایک اور موقع دیا جائے؟‘‘
رسولِ اکرمﷺ نے عباسؓ سے کہا کہ وہ ہی مکہ جائیں اور ابو سفیان سے کہیں کہ مسلمان مکہ پر قبضہ کرنے آ رہے ہیں اگر اہلِ مکہ نے مقابلہ کیا تو کسی کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا، مکہ شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے۔
‘‘رسولِ اکرمﷺ نے عباسؓ کو نہ صرف مکہ جانے کی اجازت دی بلکہ انہیں اپنا خچر بھی دیا جو آپﷺ گھوڑے کے علاوہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
…………bnb…………

ابو سفیان مدینہ سے جو تاثر لے کر گیا تھا وہ اس کے لیے بڑا ہی ڈراؤنا اور خطرناک تھا۔وہ تجربہ کار آدمی تھا ۔وہ مسلمانوں کی شجاعت اور عزم کی پختگی سے بھی واقف تھا۔ اسے ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ مسلمان مکہ پر حملہ کریں گے۔ اس کی بیوی ہند اس کے سالار عکرمہ اور صفوان اس کا حوصلہ بڑھاتے رہتے تھے ۔ لیکن اسے اپنے ذاتی وقار کی اور اپنے قبیلے کی تباہی نظر آرہی تھی۔وہ ہر وقت بے چین رہنے لگا تھا۔
ایک روز وہ اس قدر بے چین ہوا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر مکہ سے باہر چلا گیا ۔اس کی کوئی حس اسے بتا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اس کے دل پر گھبراہٹ طاری ہوتی چلی گئی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کہ ’’ہو گا یہی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آجائیں گے۔‘‘ یہ سوچ کروہ یہ دیکھنے کیلئے مدینہ کے راستے پر ہو لیا کہ مدینہ کی فوج آ ہی تو نہیں گئی؟ اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہواکی بو بھی بدلی بدلی سی ہے۔
وہ ان سوچوں میں گم مکہ سے چند میل دور نکل گیا۔اسے عباسؓ ایک خچر پر سوار اپنی طرف آتے دکھائی دیئے ۔وہ رک گیا۔
’’عباس!‘‘ اس نے پوچھا۔’’کیا تم اپنے پورے خاندان کے ساتھ نہیں گئے تھے؟واپس کیوں آ گئے ہو؟‘‘
’’میرے خاندان کی مت پوچھ ابو سفیان !‘‘ عباسؓ نے کہا۔’’مسلمانوں کے دس ہزار پیادوں ،گھوڑ سواروں اور شتر سواروں کا لشکر مکہ کے اتنا قریب پہنچ چکا ہے جہاں سے چھوڑے ہوئے تیر مکہ کے دروازوں میں لگ سکتے ہیں۔ کیا تومکہ کو اس لشکرسے بچا سکتا ہے؟ کسی کو مدد کیلئے بلا سکتا ہے تُو؟ صلح کا معاہدہ تیرے سالاروں نے توڑا ہے۔ محمدﷺ جسے میں اﷲکا رسولﷺ مان چکا ہوں سب سے پہلے تجھے قتل کرے گا۔ اگر تو میرے ساتھ رسول اﷲﷺ کے پاس چلا چلے تو میں تیری جان بچا سکتا ہوں۔‘‘
’’خدا کی قسم! میں جانتا تھا مجھ پر یہ وقت بھی آئے گا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’چل! میں تیرے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
…………bnb…………

شام کے بعد عباسؓ ابو سفیان کو ساتھ لیے ہوئے مسلمانوں کے پڑاؤ میں داخل ہوئے ۔حضرت عمرؓ کیمپ کے پہرے داروں کو دیکھتے پھر رہے تھے ۔انہوں نے ابوسفیان کو دیکھا تو آگ بگولہ ہو گئے ۔کہنے لگے کہ ’’اﷲ کے دین کا یہ دشمن ہمارے پڑاؤ میں رسول اﷲﷺ کی اجازت کے بغیر آیا ہے۔‘‘ عمرؓ رسول اﷲﷺ کے خیمے کی طرف دوڑ پڑے۔ وہ ابو سفیان کے قتل کی اجازت لینے گئے تھے۔ لیکن عباسؓ بھی پہنچ گئے۔ رسولِ اکرمﷺ نے انہیں صبح آنے کو کہا۔ عباسؓ نے ابو سفیان کو رات اپنے پاس رکھا۔
’’ابو سفیان! ‘‘صبح رسولِ کریمﷺ نے ابو سفیان سے پوچھا۔’’کیا تو جانتا ہے کہ اﷲ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی معبود ہے اور وہی ہم سب کا مدد گار ہے۔‘‘
’’میں نے یہ ضرور مان لیا ہے کہ جن بتوں کی عبادت میں کرتا رہا ہوں وہ بتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ابو سفیان نے کہا ۔’’وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکے۔‘‘
’’پھر یہ کیوں نہیں مان لیتا کہ میں اس اﷲ کا رسول ہوں جومعبود ہے ۔‘‘رسولِ کریمﷺ نے پوچھا۔
’’میں شاید یہ نہ مانوں کہ تم اﷲ کے رسول ہو۔‘‘ ابو سفیان ہاری ہوئی سی آواز میں بولا۔
’’ابو سفیان! ‘‘عباسؓ نے قہر بھری آواز میں کہا۔’’کیا تو میری تلوار سے اپنا سر تن سے جدا کرانا چاہتا ہے ؟‘‘عباسؓ نے رسولِ کریمﷺ سے کہا۔ ’’یا رسول اﷲ! ابو سفیان ایک قبیلے کا سردار ہے ،باوقار اور خوددار بھی ہے۔ یہ ملتجی ہو کہ آیا ہے۔‘‘
ابو سفیان پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس نے بے اختیار کہا۔’’محمد اﷲ کے رسول ہیں، میں نے تسلیم کر لیا ،میں نے مان لیا۔‘‘
’’جاؤ!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے کہا ۔’’مکہ میں اعلان کردو کہ مکہ کے وہ لوگ مسلمانوں کی تلواروں سے محفوظ رہیں گے جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائیں گے اور وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو مسجد میں داخل ہو جائیں گے اور وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو اپنے دروازے بند کر کے اپنے گھروں میں رہیں گے۔‘‘
ابو سفیانؓ اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے اور رسولِ اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلۂ خیال شروع کر دیا کہ مکہ میں عکرمہ اور صفوان جیسے ماہر او ردلیر سالار موجود ہیں ۔وہ مقابلہ کیے بغیر مکہ پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages