Featured Post

Khalid001

26 May 2019

Khalid029


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  29
اونٹ بہت تیز دوڑا چلا آ رہا تھا۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچا تو اس کے سوار نے چلانا شروع کر دیا ۔’’عزیٰ او رہبل کی قسم! مدینہ والوں کا لشکر مرالظہر میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے اور میں نے اپنے سردار ابو سفیان کو وہاں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اہلِ قریش ہو شیار ہو جاؤ! محمد (ﷺ) کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘ اس نے اونٹ کو روکا اور اسے بٹھا کر اترنے کے بجائے اس کی پیٹھ سے کود کر اترا۔ اس کی پکار جس نے سنی وہ دوڑا آیا۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں یہی کہے جا رہا تھاکہ مدینہ کالشکر مرالظہراء تک آن پہنچا ہے اور ابو سفیان کو اس لشکر کے پڑاؤ کی طرف جاتے دیکھا ہے۔ مکہ کے لوگ اس کے اردگرد اکھٹے ہوتے چلے گئے۔
’’ابو حسنہ!‘‘ ایک معمر آدمی نے اس سے پوچھا۔’’تیرا دماغ صحیح نہیں یا تو جھوٹ بول رہا ہے۔‘‘
’’میری بات کو جھوٹ سمجھو گے تواپنے انجام کو بہت جلد پہنچ جاؤ گے ۔‘‘شترسوار ابو حسنہ نے کہا۔’’کسی سے پوچھو ہمارا سردار ادھر کیوں گیا ہے؟‘‘ اس نے پھر چلانا شروع کر دیا۔’’اے قبیلۂ قریش !مسلمان اچھی نیت سے نہیں آئے۔‘‘
ابو حسنہ کا واویلا مکہ کی گلیوں سے ہوتا ہوا ابو سفیانؓ کی بیوی ہند کے کانوں تک پہنچا۔ وہ آگ بگولہ ہوکہ باہر آئی اور اس ہجوم کو چیر نے لگی جس نے ابو حسنہ کو گھیر رکھا تھا۔
’’ابو حسنہ !‘‘اس نے ابو حسنہ کا گریبان پکڑ کر کہا۔ ’’میری تلوار محمد کے خون کی پیاسی ہے۔ تومیری تلوار سے اپنی گردن کٹوانے کیوں آگیا ہے ؟کیا تو نہیں جانتا کہ جس پر تو جھوٹا الزام تھوپ رہا ہے وہ میرا شوہر اور قبیلے کا سردار ہے۔‘‘
’’اپنی تلوار گھر سے لے آ خاتون!‘‘ ابو حسنہ نے کہا۔’’لیکن تیرا شوہر آجائے تو اس سے پوچھنا کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟‘‘
’’اور تو کہتا ہے کہ محمد (ﷺ) لشکر لے کر آیا ہے۔‘‘ ہند نے پوچھا۔
’’خدا کی قسم!‘‘ ابو حسنہ نے کہا۔’’میں وہ کہتا ہوں جومیں نے دیکھا ہے۔‘‘
’’اگر تو سچ کہتا ہے تو مسلمانوں کو موت ادھر لے آئی ہے۔‘‘ ہند نے کہا۔
ابو سفیانؓ واپس آ رہا تھا۔
…………bnb…………

اہل ِمکہ ایک میدان میں جمع ہو چکے تھے۔ رسولِ کریمﷺ کی پیش قدمی اب راز نہیں رہ گئی تھی لیکن اب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اہلِ قریش اب کسی کو مدد کیلئے نہیں بلاسکتے تھے۔
ابو سفیان آ رہا تھا۔ لوگوں پر خاموشی طاری ہو گئی۔ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند لوگوں کو دائیں بائیں دھکیلتی آگے چلی گئی۔ اس کے چہرے پر غضب اور قہر تھااور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے ۔ابو سفیانؓ نے لوگوں کے سامنے آ کر گھوڑا روکا۔ انہوں نے اپنی بیوی کی طرف توجہ نہ دی۔
’’اہل قریش!‘‘ ابوسفیان نے بلند آواز سے کہا۔ ’’پہلے میری بات ٹھنڈے دل سے سن لینا‘ پھر کوئی اور بات کہنا۔ میں تمہارا سردار ہوں۔ مجھے تمہارا وقار عزیز ہے … محمد اتنا زیادہ لاؤ لشکر لے کر آیا ہے جس کے مقابلے میں تم قتل ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکو گے۔ اپنی عورتوں کو بچاؤ۔ اپنے بچوں کو بچاؤ۔ قبول کر لو اس حقیقت کو جو تمہارے سر پر آگئی ہے۔ تمہارے لیے بھاگ جانے کا بھی کوئی راستہ نہیں رہا۔‘‘
’’ہمیں یہ بتا ہمارے سردار‘ ہم کیا کریں؟‘‘ … لوگوں میں سے کسی کی آواز آئی۔
’’محمد کی اطاعت قبول کر لینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔‘‘ … ابوسفیان نے کہا۔
’’خدا کی قسم! مسلمان ہمیں پھر بھی نہیں بخشیں گے۔‘‘ … ایک اور آواز اُٹھی … ’’وہ اپنے مقتولوں کا بدلہ لیں گے۔ وہ سب سے پہلے تمہیں قتل کریں گے۔ احد میں تمہاری بیوی نے ان کی لاشوں کو چیرا پھاڑا تھا۔‘‘
ہند الگ کھڑی پھنکار رہی تھی۔
’’میں تم سب کی سلامتی کی ضمانت لے آیا ہوں۔‘‘ … ابوسفیان نے کہا۔ … ’’میں محمد سے مل کر آ رہا ہوں۔ اس نے کہا ہے کہ تم میں سے جو میرے گھر میں آجائیں گے وہ مسلمانوں کے جبر وتشدد سے محفوظ رہیں گے۔‘‘
’’کیا مکہ کے سب لوگ تمہارے گھر میں سما سکتے ہیں؟‘‘ … کسی نے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ … ابوسفیان نے کہا۔ … ’’محمد نے کہا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے اور ان کے دروازے بند رہیں گے‘ ان پر بھی مسلمان ہاتھ نہیں اٹھائیں گے … اور جو لوگ خانۂ خدا کے اندر چلے جائیں گے‘ ان کو بھی مسلمان اپنا دوست سمجھیں گے۔ وہ دشمن صرف اسے جانیں گے جو ہتھیار لے کر باہر آئے گا۔‘‘ … ابوسفیان گھوڑے سے اتر آیا اور بولا … ’’تمہاری سلامتی اسی میں ہے‘ تمہاری عزت اسی میں ہے کہ تم دوستوں اور بھائیوں کی طرح ان کا استقبال کرو۔‘‘
’’ابوسفیان!‘‘ … قریش کے مشہور سالار عکرمہ نے للکار کر کہا … ’’ہم اپنے قبیلے کے قاتلوں کا استقبال تلواروں اور برچھیوں سے کریں گے۔‘‘
’’ہمارے تیر ان کا استقبال مکہ سے دور کریں گے۔‘‘ … قریش کے دوسرے دلیر اور تجربہ کار سالار صفوان نے کہا … ’’ہمیں اپنے دیوتاؤں کی قسم! ہم دروازے بند کر کے اپنے گھروں میں بند نہیں رہیں گے۔‘‘
’’حالات کو دیکھو عکرمہ!‘‘ … ابوسفیان نے کہا … ’’ہوش کی بات کرو صفوان! وہ ہم میں سے ہیں۔ آج خالدؓ محمدؐ کے ساتھ جا ملا ہے تو مت بھول کہ اس کی بہن فاختہ تمہاری بیوی ہے۔ کیا تو اپنی بیوی کے بھائی کو قتل کرے گا؟ … کیا تجھے یاد نہیں رہا کہ میری بیٹی ام حبیبہؓ محمدؐ کی بیوی ہے؟ کیا تو یقین نہیں کرے گا کہ میں اپںے قبیلے کی عزت اور ناموس کی خاطر مدینہ گیا تو میری اپنی بیٹی نے میری بات سننے سے انکار کر دیا تھا؟ میں محمد کے گھر میں چار پائی پر بیٹھنے لگا تو ام حبیبہؓ نے میرے نیچے سے چار پائی پر بچھی ہوئی چادر کھینچ لی تھی؟ … باپ اپنی بیٹی کا دشمن نہیں ہو سکتا صفوان!‘‘
مکہ کے لوگوں میں ع کرمہ اور صفوان اور دو تین اور آدمیوں کے سوا اور کسی کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ قبیلہ قریش کی خاموشی ظاہر کرتی تھی کہ ان لوگوں نے ابوسفیان کا مشورہ قبول کر لیا ہے۔ ابوسفیان کے چہرے پر اطمینان کا تاثر آکیا مگر اس کی بیوی ہند جو الگ کھڑی پھنکار رہی تھی‘ تیزی سے ابوسفیان کی طرف بڑھی اور اس کی مونچھیں جو خاصی بڑی تھیں‘ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیں۔
’’میں سب سے پہلے تجھے قتل کروں گی۔‘‘ … ہند نے ابوسفیان کی مونچھیں زور زور سے کھینچتے ہوئے کہا … ’’بزدل بوڑھے! تو نے قبیلے کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔‘‘ … اس نے ابوسفیان کی مونچھیں چھوڑ کر اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مارا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر بولی … ’’تم لوگ اس بوڑھے کو قتل کیوں نہیں کر دیتے جو تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار کرنے کی باتیں کر رہا ہے؟‘‘
مؤرخ مغازی اور ابن سعد لکھتے ہیں کہ ہند نے اپنے خاوند کے ساتھ اتنا توہین آمیز سلوک کیا تو لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا۔ ابوسفیان جیسے بت بن گیا ہو۔ عکرمہ اور صفوان ان کے درمیان آگئے۔
’’ہم لڑیں گے ہند!‘‘ … صفوان نے کہا … ’’اسے جانے دے۔ اس پر محمدؐ کا جادو چل گیا ہے۔‘‘
ابوسفیان خاموش رہا۔
شام تک اہل قریش دو حص وں میں بٹ چکے تھے۔ زیادہ تر لوگ لڑنے کے حق میں نہیں تھے۔ باقی سب عکرمہ‘ صفوان اور ہند کا ساتھ دے رہے تھے۔
…………bnb…………

شام کے بعد صفوان اپنے گہر گیا۔ اس کی بیوی جس کا نام فاختہ تھا‘ خالدؓ بن ولید کی بہن تھی۔ وہ بھی ابوسفیان کی باتیں سن چکی تھی۔
’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ تم اپنے قبیلے کے سردار کی نافرمانی کر رہے ہو؟‘‘ … فاختہ نے صفوان سے پوچھا۔
’’اگر فرمانبرداری کرتا ہوں تو پورے قبیلے کا وقار تباہ ہوتا ہے۔‘‘ … صفوان نے کہا … ’’قبیلے کا سردار بزدل ہو جائے تو قبیلے والوں کو بزدل نہیں ہونا چاہیے۔ سردار اپںے قبیلے کے دشمن کو دوست بنا لے تو وہ قبیلے کا دوست نہیں ہو سکتا۔‘‘
کیا تم مسلمانوں کا مقابلہ کرو گے؟‘‘ … فاختہ نے پوچھا۔
’’تو کیا تم یہ پسند کرو گی کہ تمہارا شوہر اپنے گھر کے دروازے بند کر کے اپنی بیوی کے پاس بیٹھ جائے اور دشمن اس کے دروازے کے سامنے دندناتا پھرے؟ کیا میرے بازو ٹوٹ گئے ہیں؟ کیا میری ت لوار ٹوٹ گئی ہے؟ کیا تم اس لاش کو پسند نہیں کرو گی جو تمہارے گھر میں لائی جائے گی اور سارا قبیلہ کہے گا کہ یہ ہے تمہارے خاوند کی لاش جو بڑی بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا ہے؟ یا تم اس شوہر کو پسند کرو گی جو تمہارے پاس بیٹھا رہے گا اور لوگ تمہیں کہیں گے کہ یہ ہے ایک بزدل اور بے وقار آدمی کی بیوی جس نے اپنی بستی اور عبادت گاہ اپنے دشمن کے ح والے کر دی ہے … تم مجھے کس حال میں دیکھنا پسند کرو گی؟‘‘
’’میں نے تم پر ہمیشہ فخر کیا ہے صفوان!‘‘ … فاختہ نے کہا … ’’عورتیں مجھے کہتی ہیں کہ تمہارا خاوند قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے۔ لیکن اب حالات کچھ اور ہیں۔ تمہارا ساتھ دینے والے بہت تھوڑے ہیں۔ سنا ہے مدینہ والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اب میرا بھائی خالدؓ بھی ان کے ساتھ ہے۔ تم جانتے ہو وہ لڑنے مرنے والا آدمی ہے۔‘‘
’’کیا تم مجھے اپنے بھائی سے ڈرا رہی ہو فاختہ؟‘‘
’’نہیں‘‘ … فاختہ نے کہا … ’’مجھے خالدؓ مل جاتا تو میں اسے بھی یہی کہتی جو میں تمہیں کہہ رہی ہوں … وہ میرا بھائی ہے۔ وہ تمہارے ہاتھ سے مارا جا سکتا ہے۔ تم اس کے ہاتھ سے مارے جا سکتے ہو۔ تم ایک دوسرے کے مقابلے میں نہ آؤ۔ میں اس کی بہن اور تمہاری بیوی ہوں۔ لاش تمہاری ہوئی یا خالدؓ کی میرا غم ایک جیسا ہو گا۔‘‘
’’یہ کوئی عجیب بات نہیں فاختہ!‘‘ … صفوان نے کہا … دشمنی ایسی پیدا ہو گئی ہےک ہ باپ بیٹے کا اور بھائی بھائی کا د شمن ہو گیا ہے۔ اگر میں تمہارے رشتے کا خیال رکھو تو …‘‘
’’تم میرے رشتے کا خ یال نہ رکھو۔‘‘ … فاختہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا … ’’قبیلے کا سردار تمہیں کہہ رہا ہے کہ لڑائی نہیں ہو گی۔ محمدؐ کی اطاعت قبول کر لیں گے۔ پھر تم لڑائی کا ارادہ ترک کیوں نہیں کر دیتے؟ تمہارے ساتھ بہت تھوڑآ آدمی ہوں گے۔‘‘
’’میں اطاعت قبول کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ … صفوان نے کہا۔
’’پھر میری ایک بات مان لو۔‘‘ … فاختہ نے کہا … ’’خالدؓ کے آمنے سامنے نہ آنا۔ اسے میری ماں نے جنم دیا ہے۔ ہم دونوں نے ایک ماں کا دودھ پیا ہے۔ وہ جہاں کہیں بھی ہے بہن یہی سننا چاہتی ہے کہ اس کا بھائی زندہ ہے۔ … میں بیوہ بھی نہیں ہونا چاہتی صفوان!‘‘
’’پھر اپنے بھائی سے جا کر کہو کہ مکہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ … صفوان نے کہا … ’’وہ میرے سامنے آئے گا تو ہمارے رشتے ختم ہو جائیں گے۔‘‘
فاختہ کے آنسو صفوان کے ارادوں کو ذرا سا بھی متزلزل نہ کر سکے۔
…………bnb…………

رسولِ اکرمﷺ نے ایک اور انتظام کیا۔ انہوں نے چند ایک آدمی مختلف بہروپوں میں مکہ کے ارد گرد چھوڑ رکھے تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ مکہ سے کوئی آدمی باہر نکل کر کہیں جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ لیں۔ جاسوسی کا یہ اہتمام اس لیے کیا گیا تھا کہ قریش اپںے دوست قبیلوں کو مدد کے لیے نہ بلا سکیں۔
دوسرے ہی دن دو شتر سواروں کو پکڑا گیا جو عام سے مسافر معلوم ہوتے تھے۔ انہیں مسلمانوں کے پڑاؤ میں لے جایا گیا۔ ایک دو دھمکیوں سے ڈر کر انہوں نے اپنی اصلیت ظاہرکر دی۔ ان میں سے ایک یہودی تھا اور دوسرا قریش قبیلے کا۔ وہ مکہ سے چند میل دور رہنے والے قبیلہ بنو بکر کے ہاں یہ اطلاع لے کر جا رہے تھے کہ مسلمان مر الظہراء میں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔ بنو بکر کو پیغام بھیجا جا رہا تھا کہ وہ مسلمانوں پر شب خون ماریں اور دو اَور قبیلوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں۔ پیغام میں یہ بھی تھا کہ مسلمان مکہ کو محاصرے میں لیں تو بنوبکر اور دوسرے قبیلے عقب سے ان پر حملہ کر دیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ مکہ میں لڑائی کی تیاریاں کس پیمانے پر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابو سفیان لڑائی نہیں چاہتا اور مکہ والوں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ صرف عکرمہ اور صفوان لڑیں گے لیکن ان کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہیں۔ان دونوں آدمیوں کو ابو سفیان نے نہیں عکرمہ اور صفوان نے بھیجا تھا۔
رسولِ کریمﷺ نے اپنے سالاروں وغیرہ سے کہا کہ مکہ میں یہ فرض کرکے داخل ہو اجائے گا کہ قریش شہر کے دفاع میں لڑیں گے۔ آپﷺ نے اپنی فوج کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ اس زمانے میں مکہ کی طرف چار راستے جاتے تھے جو مکہ کے اردگرد کھڑی پہاڑیوں میں سے گزرتے تھے۔فوج کے ہر حصے کو ایک ایک راستہ دے دیا گیا۔ انہیں اپنے اپنے راستے سے مکہ شہر کی طرف پیش قدمی کرنی تھی۔
فوج کے ان حصوں میں ایک کی نفری سب سے زیادہ رکھی گئی۔ اس کی کمان ابو عبیدہؓ کو دی گئی۔ حضورﷺ کو اس دستے کے ساتھ رہنا تھا۔ ایک حصے کی کمان علیؓ کے پاس تھی۔ ایک کے کماندار زبیرؓ تھے اور چوتھے حصے کی کمان خالدؓ کے پاس تھی۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس اسکیم میں غیر معمولی دانش کار فرما تھی۔چار سمتوں سے پیش قدمی کا مقصد یہ تھا کہ مکہ کے دفاعی دستوں کو چار حصوں میں بکھیر دیا جائے۔ اگر وہ مسلمانوں کی پیش قدمی کو کسی ایک یا دو راستوں پر روک بھی لیں تو دوسرے دستے آگے بڑھ کر شہر میں داخل ہو سکیں ۔اس کے علاوہ فوج کی اس تقسیم کا مقصد یہ بھی تھا کہ قریش اگر دفاع میں نہ لڑیں تو وہ کسی راستے سے بھاگ بھی نہ سکیں۔
رسولِ اکرمﷺ نے اس اسکیم کے علاوہ جو احکام دیئے وہ یہ تھے۔ ’’قریش دفاع میں نہ لڑیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ امن کا جواب پرامن طریقے سے دیا جائے۔ اگر کہیں جھڑپ ہو جائے تو زخمیوں کو قتل نہ کیا جائے بلکہ ان کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کی جائے۔ لڑنے والوں میں جو پکڑا جائے اس پر تشدد نہ کیا جائے نہ اسے قتل کیا جائے اور اسے جنگی قیدی بھی نہ سمجھا جائے، اور ان میں سے کوئی بھاگ نکلے تو اسے بھاگ جانے دیا جائے۔‘‘
اسلامی لشکر کے چاروں حصوں کو پیش قدمی کا حکم دے دیا گیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages