Featured Post

Khalid001

26 May 2019

Khalid030


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  30
20 رمضان المبارک 8ہجری بمطابق 11جنوری 630 عیسوی کا دن تھا۔ اسلامی لشکر کے تین حصے اپنے راستوں سے گزر کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ کسی طرف سے ان پر ایک تیر بھی نہ آیا۔ شہر کاکوئی دفاع نہ تھا۔ قریش کی کوئی تلوار نیام سے باہر نہ نکلی، لوگ گھروں میں بند رہے، کسی کسی مکان کی چھت پر کوئی عورت یا بچے کھڑے نظر آتے تھے۔ مسلمان چوکنّے تھے، شہر کا سکوت مشکوک اور ڈراؤنا تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے اس سکوت سے کوئی طوفان اٹھنے والا ہو۔
شہر سے کوئی طوفان نہ اٹھا،طوفان اٹھانے والے دو آدمی تھے ایک عکرمہ اور دوسرا صفوان۔دونوںشہر میں نہیں تھے، کئی اور آدمی شہر میں نہیں تھے۔وہ قریب ہی کہیں چھپے ہوئے تھے۔
وہ رات کو باہر نکل گئے تھے۔ ان کے ساتھ تیر انداز بھی تھے ۔یہ ایک جیش تھا جو اس پہاڑی راستے کے قریب جا پہنچا تھا جو خالد کے دستے کی پیش قدمی کا رستہ تھا۔ عکرمہ اور صفوان کو معلوم نہیں تھا کہ اس اسلامی دستے کے قائد خالدؓ ہیں۔ عکرمہ اور صفوان کا ایک آدمی کہیں بلندی پر تھا۔ اس نے خالدؓ کو پہچان لیا اور اوپر سے دوڑتا نیچے گیا۔
’’اے صفوان! ‘‘اس آدمی نے صفوان سے کہا۔ ’’کیا تو ہمیں اجازت دے گا کہ تیری بیوی کے بھائی کو ہم قتل کر دیں؟ … میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔ میں نے خالدکو دیکھا ہے۔‘‘
’’اپنے قبیلے کی عزت اور غیرت سے بڑھ کر مجھے کوئی اور عزیز نہیں ہے ۔‘‘صفوان نے کہا۔’’اگر خالد میری بہن کا خاوند ہوتا تو آج میں اپنی بہن کو بیوہ کر دیتا۔‘‘
’’مت دیکھو کون کس کا بھائی ،کس کا باپ اور کس کا خاوند ہے۔‘‘ عکرمہ نے کہا۔ ’’خالد میرا بھی کچھ لگتا ہے لیکن آج وہ میرا دشمن ہے۔‘‘
خالدؓ کا دستہ اور آگے آیا تو اس پر تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔خالد ؓنے اپنے دستے کو روک لیا۔
’’اے اہلِ قریش! ‘‘خالدؓ نے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’ہمیں راستہ دے دو گے تو محفوظ رہو گے۔ہمارے رسولﷺ کا حکم ہے کہ اس پر ہاتھ نہ اٹھانا جو تم پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ کیا تمہیں اپنی جانیں عزیز نہیں؟ میں تمہیں صرف ایک موقع دوں گا۔‘‘
تیروں کی ایک اور بوچھا ڑ آئی۔
’’ہم تیرے رسول (ﷺ) کے حکم کے پابند نہیں خالد۔‘‘ …عکرمہ نے للکار کر کہا۔ ’’ہمت کر اور آگے آ۔ ہم ہیں تمہارے پرانے دوست صفوان اور عکرمہ، تو مکہ میں زندہ داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘ خالدؓنے تیروں کی دوسری بوچھاڑ سے معلوم کر لیا تھا کہ دشمن کہاں ہے۔ خالدؓ نے اپنے دستے کو روک کر پیچھے ہٹا لیا اور اپنے کچھ آدمیوں کو پہاڑیوں کے اوپر سے آگے بڑھنے اور تیر اندازوں پر حملہ کرنے کیلئے بھیج دیا۔ عکرمہ اور صفوان خالدؓ کے ان آدمیوں کو نہ دیکھ سکے۔
تھوڑی سی دیر میں یہ آدمی دشمن کے سر پر جا پہنچے۔ وادی سے خالد ؓنے ہلّہ بول دیا جو اس قدر تیز اورشدید تھا کہ قریش کے پاؤں اکھڑ گئے۔ خالدؓ نے اوپر سے بھی حملہ کرایا تھا اور نیچے سے بھی۔
’’کہاں ہو عکرمہ؟‘‘ …خالدؓللکار رہے تھے۔ …’’کہاں ہو صفوان؟‘‘
وہ دونوں کہیں بھی نہیں تھے۔وہ خالد ؓکے ہلّے کی تاب نہ لا سکے اور خالدؓکو نظر آئے بغیر کہیں بھاگ گئے۔ ان کا جیش بھی لاپتا ہو گیا۔ پیچھے قریش کی بارہ لاشیں رہ گئیں۔ مختصر سی اس جھڑپ میں دو مسلمان حبیشؓ بن اشعر اور کوز بن جابر فہریؓ شہید ہوئے۔
…………bnb…………

اسلامی فوج کے تین حصے مکہ میں داخل ہو چکے تھے ۔خالدؓ کادستہ ابھی نہیں پہنچا تھا۔ سب حیران تھے کہ اہل ِمکہ نے مزاحمت نہیں کی پھر خالدؓ کے نہ آنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ایک قاصد کو دوڑایا گیا۔ وہ خبر لایا کہ خالدؓ دو مسلمانوں کی لاشیں لے کرآ رہا ہے اور اس کے دستے نے قریش کے بارہ آدمی مار ڈالے ہیں۔ رسولِ کریمﷺ نے سنا تو آپﷺ بہت برہم ہوئے۔ آپﷺ اچھی طرح جانتے تھے کہ خالدؓ جنگ و جدل کا دلدادہ ہے۔ اس نے بغیر اشتعال کے لڑائی مول لے لی ہو گی۔
خالد ؓ کے مکہ میں آنے کی اطلاع ملی تو رسول اﷲﷺ نے انہیں بلا کر پوچھا کہ اس حکم کے باوجود کہ لڑائی سے گریز کیا جائے انہوں نے قریش کے بارہ آدمیوں کو کیوں مار ڈالا؟
خالدؓ نے حضورﷺ کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان کے ساتھ قریش کے متعدد آدمی تھے جنہوں نے ان پر تیر برسائے۔ خالدؓ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے عکرمہ اور صفوان کو ایک موقع دیا تھا لیکن انہوں نے تیروں کی ایک اور بوچھاڑ پھینک دی۔
رسولِ خداﷺ نے ابو سفیانؓ سے پوچھا کہ عکرمہ اورصفوان کہاں ہیں؟ ابو سفیانؓ نے بتایا کہ وہ مکہ کے دفاع میں لڑنے کیلئے چلے گئے تھے۔رسولِ خداﷺ کو یقین ہو گیا کہ لڑائی خالدؓ نے شروع نہیں کی تھی۔
مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔
رسولِ اکرمﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ کے ہمراہ اسامہؓ بن زیدؓ، بلالؓ اور عثمان بن طلحہؓ تھے۔ رسولِ کریمﷺ کو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو گئے سات سال گزر چکے تھے۔ آپﷺ نے مکہ کے درودیوار کو دیکھا۔ وہاں کے لوگوں کو دیکھا، دروازوں اور چھتوں پر کھڑی عورتوں کودیکھا۔ بہت سے چہرے شناسا تھے۔ آپﷺ گزرتے چلے گئے اور کعبہ میں داخل ہو گئے۔ سات مرتبہ بیت اﷲکا طواف کیا اور اﷲ کا شکر ادا کیا۔ اب مکہ میں کسی کو اتنی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ آپﷺ کو جادوگر کہے یا آپﷺ پر پھبتی کسے۔
اہلِ قریش چہروں پر خوف و ہراس کے تاثرات لیے اپنے انجام کے منتظر کھڑے تھے۔عربوں کے ہاں اپنی بے عزتی اور قتل کے انتقام کا رواج بڑا بھیانک تھا۔ رسول اﷲﷺ نے حکم دے دیا تھا کہ جو امن قائم رکھیں گے ان کے ساتھ پر امن سلوک کیا جائے گا۔ اس کے باوجود قریش ڈرے سہمے ہوئے تھے۔
’’اہلِ قریش!‘‘ حضورﷺ نے لوگوں کے سامنے رک کر پوچھا۔’’خود بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو؟‘‘
لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ خیر اور بخشش کے طلبگار تھے۔
’’اپنے گھروں کو جاؤ ۔‘‘حضورﷺ نے کہا ۔’’ہم نے تمہیں بخش دیا۔‘‘
رسول اﷲﷺ کی حیات ِ مقدسہ کی عظیم گھڑی تو وہ تھی جب آپﷺ نے کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کی طرف توجہ دی۔ بتوں کی تعداد تین سو ساٹھ تھی۔ ان میں ایک بت حضرت ابراہیمؑ کا بھی تھا۔ اس بت کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ ان تیروں سے بت خانے کے پیشوا فال نکالا کرتے تھے۔
حضورﷺ کے ہاتھ میں ایک موٹی اور مضبوط لاٹھی تھی۔آپﷺ نے اس لاٹھی سے بت توڑنے شروع کر دیئے۔آپﷺ اپنے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی سنت کو زندہ کر رہے تھے۔ آپﷺ بت توڑتے جاتے اور بلند آواز سے کہتے جاتے:’’ حق آیا … باطل چلا گیا … بے شک باطل کو چلے جانا تھا …‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ایسے لگتا تھا جیسے یہ صدائیں حضورﷺ کی لاٹھی کی ہر ضرب سے کعبہ کی دیواروں سے اٹھ رہی ہوں ۔کعبہ سے بتوں کے ٹکڑے اٹھا کر باہر پھینک دیئے گئے اور کعبہ عالمِ اسلام کی عبادت گاہ بن گیا۔
اس کے بعد آپﷺ نے مکہ کے انتظامی امور کی طرف توجہ دی۔قریش اور دیگر قبائل کے لوگ قبولِ اسلام کیلئے آتے رہے۔
بت صرف کعبہ میں ہی نہیں تھے۔مکہ کے گردونوح کی بستیوں میں مندر تھے ۔وہاں بھی بت رکھے تھے۔ سب سے اہم بت عزیٰ کا تھا جو چند میل دور نخلہ کے مندر میں رکھا گیا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے عزیٰ کا بت توڑنے کا کام خالدؓ کے سپرد کیا ۔خالدؓ نے اپنے ساتھ تیس سوار لیے اور اس مہم پر روانہ ہو گئے۔ دوسرے مندروں کے بت توڑنے کیلئے مختلف جیش روانہ کیے گئے۔
عزیٰ کا بت اکیلانہیں تھا۔ چونکہ یہ دیوی تھی اس لیے اس کے ساتھ چھوٹی دیویوں کے بت بھی تھے۔خالدؓ وہاں پہنچے تومندر کا پروہت ان کے سامنے آگیا ۔اس نے التجا کی کہ ان کے بت نہ توڑے جائیں۔
’’مجھے عزیٰ کا بت دکھاؤ۔‘‘خالدؓ نے نیام سے تلوار نکال کر پروہت سے پوچھا۔
پروہت موت کے خوف سے مندر کے ایک بغلی دروازے میں داخل ہو گیا۔ خالدؓ اس کے پیچھے گئے۔ ایک کمرے سے گزر کر اگلے کمرے میں گئے تو وہاں ایک دیوی کا بڑا ہی خوبصورت بت چبوترے پر رکھاتھا۔پروہت نے بت کی طرف اشارہ کیا اور بت کے آگے فرش پرلیٹ گیا۔ مندر کی داسیاں بھی آ گئیں۔ خالدؓ نے تلوار سے اس حسین دیوی کا بت توڑ ڈالااور اپنے سواروں سے کہا کہ بت کے ٹکڑے باہر بکھیر دیں۔
پروہت دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور داسیاں بَین کر رہی تھیں۔
خالدؓ نے دیویوں کے بت بھی توڑ ڈالے اور گرج کر پروہت سے کہا۔’’کیا اب بھی تم اسے دیوی مانتے ہو جو اپنے آپ کو ایک انسان سے نہیں بچا سکی۔‘‘
پروہت دھاڑیں مارتا رہا ۔خالدؓ فاتحانہ انداز سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اوراپنے سواروں کوواپسی کا حکم دیا ۔جب خالدؓ اپنے تیس سواروں کے ساتھ مندر سے دور چلے گئے تو پروہت نے جو دھاڑیں مار رہا تھا بڑی زور سے قہقہہ لگایا۔ پجارنیں جو بَین کر رہی تھیں وہ بھی ہنسنے لگیں۔’’ عزیٰ کی توہین کوئی نہیں کر سکتا ۔‘‘پروہت نے کہا۔’’خالد جو خود عزیٰ کا پجاری ہوا کرتا تھا بہت خوش ہو کے گیا ہے کہ اس نے عزیٰ کا بت توڑ ڈالا ہے۔ عزیٰ زندہ ہے … زندہ رہے گی۔‘‘
…………bnb…………

’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے حضور ﷺ کو اطلاع۔’’ دی میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں۔‘‘
’’کہاں تھا یہ بت؟‘‘حضورﷺ نے پوچھا۔
خالدؓ نے وہ مندر اور اس کا وہ کمرہ بتایا جہاں انہوں نے وہ بت دیکھا اور توڑا تھا۔
’’تم نے عزیٰ کا بت نہیں توڑا خالد!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے کہا۔’’واپس جاؤ اور اصلی بت توڑکر آؤ۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ عزیٰ کے دو بت تھے ایک اصلی جس کی پوجا ہوتی تھی دوسرا نقلی تھا۔ یہ غالباً مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے بنایا گیا تھا۔
خالدؓکا خون کھولنے لگا،انہوں نے اپنے سواروں کو ساتھ لیااور نخلہ کو روانہ ہو گئے۔مندر کے پروہت نے دور سے گھڑ سواروں کو آتے دیکھا تو اس نے مندر کے محافظوں کو بلایا۔
’’وہ پھر آ رہے ہیں ۔‘‘پروہت نے کہا۔’’انہیں کسی نے بتادیا ہو گا کہ اصلی بت ابھی مندر میں موجود ہے۔ کیا تم عزیٰ کی عزت کی حفاظت کرو گے؟اگر کرو گے تو عزیٰ دیوی تمہیں مالا مال کر دے گی۔‘‘
’’کچھ سوچ کر بات کر مقدس پیشوا!‘‘ ایک محافظ نے کہا۔’’کیا ہم دو تین آدمی اتنے زیادہ گھوڑ سواروں کامقابلہ کر سکتے ہیں؟‘‘
’’اگر عزیٰ دیوی ہے تو یہ اپنے آپ کو ضرور بچا لے گی۔‘‘ ایک اور محافظ نے کہا۔اس کے لہجے میں طنز تھی۔ کہنے لگا۔ ’’دیوی دیوتا انسانوں کی حفاظت کیاکرتے ہیں، انسان دیوتاؤں کی حفاظت نہیں کیا کرتے۔‘‘
’’پھر عزیٰ اپنی حفاظت خود کرے گی۔‘‘ پروہت نے کہا۔
خالدؓ کے گھوڑے قریب آ گئے تھے ۔محافظ مندر کی پجارنوں کو ساتھ لے کر بھاگ گئے ۔پروہت کو یقین تھا کہ اس کی دیوی اپنے آپ کو مسلمانوں سے بچا لے گی۔اس نے ایک تلوار لی اور اسے عزیٰ کے گلے میں لٹکا دیا۔ پروہت مندر کے پچھلے دروازے سے نکلا اور بھاگ گیا۔
خالدؓمندر میں آن پہنچے اور تمام کمروں میں عزیٰ کا بت ڈھونڈنے لگے ۔انہیں ایک بڑا ہی خوشنما کمرہ نظر آیا ۔اس کے دروازے میں کھڑے ہو کر دیکھا ،عزیٰ کا بت سامنے چبوترے پر رکھا تھا۔اس کے گلے میں تلوار لٹک رہی تھی ۔یہ بت ویسا ہی تھا جیسا خالدؓ پہلے توڑ گئے تھے۔ا س بت کے قدموں میں لوبان جل رہا تھا۔ کمرے کی سجاوٹ اورخوشبو سے پتا چلتاتھاکہ یہ عبادت کا کمرہ ہے۔
خالدؓ نے دہلیز سے آگے قدم رکھا تو ایک سانولے رنگ کی ایک جوان عورت جو بالکل برہنہ تھی خالدؓ کے سامنے آگئی ۔وہ رو رہی تھی اور فریادیں کر رہی تھی کہ بت کو نہ توڑا جائے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ عورت خالدؓ کے ارادے کو متزلزل کرنے کیلئے برہنہ ہوکہ آئی تھی اور اس کے رونے کا مقصد خالدؓ کے جذبات پر اثر ڈالنے کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔ خالدؓ آگے بڑھے تو اس عورت نے بازو پھیلا کر خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓ نے نیام سے تلوار نکالی اور اس عورت پر ایسا زور دار وار کیاکہ اس کا ننگا جسم دو حصوں میں کٹ گیا۔ خالدؓ غصے سے بپھرے ہوئے بت تک گئے اور اس کے کئی ٹکڑے کر دیئے۔طاقت اور خوشحالی کی دیوی اپنے آپ کو ایک انسا ن سے نہ بچا سکی۔
خالدؓ مندر سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایڑ لگائی۔ ان کے سوار ان کے پیچھے جارہے تھے ۔مکہ پہنچ کر خالدؓ رسولِ اکرمﷺ کے حضور پہنچے۔
’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’ہاں خالد ! ‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’اب تم نے عزیٰ کا اصلی بت توڑا ہے۔ اب اس خطے میں بت پرستی نہیں ہوگی۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages