Featured Post

Khalid001

29 May 2019

Khalid031


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  31
قریش کا مشہور اور جوشیلا سالار عکرمہ مکہ کے راستے میں خالدؓ کے خلاف آخری معرکہ لڑ کر روپوش ہو گیا تھا۔ اس نےاورصفوان نے اپنے قبیلے کے سردارکی حکم عدولی کی تھی۔ اسے اپنا انجام بہت برا نظر آرہا تھا۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ رسولِ کریمﷺ بھی اس کی یہ خطا نہیں بخشیں گے کہ اس نے اسلامی فوج کے ایک دستے پر حملہ کیا اور اس دستے کے دو آدمی شہید کر دیئے تھے۔ عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی۔
تاریخوں میں واضح اشارہ ملتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فتحِ مکہ کے بعد قریش کی چار عورتوں اور چھ آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کی تھیں۔ انہیں مرتد کہاگیا تھا۔ ان میں ہند اور عکرمہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ابو سفیان کی بیوی ہند ہر اس انسان کے خون کی پیاسی ہو جاتی تھی جو اسلام قبول کرلیتا تھا۔
عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی۔فتح مکہ کے دو تین روز بعد ایک آدمی عکرمہ کے گھر آیا۔
’’میں تمہارے لیے اجنبی ہوں بہن! ‘‘اس شخص نے عکرمہ کی بیوی سے کہا۔’’عکرمہ میرا دوست ہے ۔میں قبیلہ بنو بکر کا آدمی ہوں …تمہیں معلوم ہو گا کہ عکرمہ اور صفوان نے مسلمانوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔ اس کا مقابلہ خالد سے تھا جو تجربہ کار جنگجو ہے اور اس کیساتھ آدمی بھی زیادہ تھے۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔ ’’میں پہلے سن چکی ہوں میرے اجنبی بھائی ۔مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے؟ہ زندہ تو ہے؟‘‘
’’وہ مجھے بتا گیا تھا کہ یمن جا رہا ہے۔‘‘ اجنبی نے کہا۔’’وہ کہہ گیا ہے کہ تجھے وہاں بلا لے گا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کس کے پاس گیا ہے ۔تجھے یہی بتانے آیا تھا۔وہ واپس نہیں آئے گا۔‘‘
’’اسے یہاں آنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’ وہ آ گیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
’’تم تیار رہنا۔‘‘ اجنبی نے کہا۔ ’’اس کا پیغام آئے گا تو میں تمہیں اس کے پاس پہنچا دوں گا۔تم اس کے پاس پہنچ جاؤ گی تو وہ تمہیں اپنے ساتھ لے کر حبشہ کو چلا جائے گا۔‘‘
اجنبی اسے اپنی بستی کا اور اپنانام بتا کر چلا گیا۔
دوروز بعد عکرمہ کی بیوی بنو بکر کی بستی میں گئی اور اس آدمی سے ملی جس نے اسے عکرمہ کا پیغام دیا تھا۔
’’کیا تو عکرمہ کے پاس جانے کو آئی ہے؟‘‘عکرمہ کے دوست نے پوچھا۔
’’میں اسے واپس لانے کیلئے جا رہی ہوں۔‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔
’’کیا تو نہیں جانتی کہ وہ آیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا؟‘‘
’’اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور رسول اﷲﷺ نے میری فریاد پر میرے شوہر کو معاف کردیا ہے۔‘‘
’’کیا تو نے محمد (ﷺ) کواﷲ کا رسول مان لیا ہے؟‘‘
’’مان لیا ہے۔‘‘
’’محمد (ﷺ) نے تمہارے ساتھ سودا کیا ہو گا۔‘‘ عکرمہ کے دوست نے کہا۔ ’’اس نے تمہارے آگے یہ شرط رکھی ہو گی کہ تم اور عکرمہ اسلام قبول کرلو تو…‘‘
’’نہیں!‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’محمدﷺ نے ،جو اﷲ کے بھیجے ہوئے رسولﷺ ہیں، میرے ساتھ ایسا کوئی سودا نہیں کیااور محمدﷺ ان میں سے نہیں جو سودا کرکے اپنی بات منوایا کرتے ہیں۔ میں وہاں اپنے شوہر کی جان بخشی کی فریاد لے کر گئی تھی۔ یہ وہی محمدﷺ ہیں جنہیں میں بڑی اچھی طرح جانتی تھی لیکن اب میں نے آپﷺ کو دیکھا تو میں نے دل سے کہا کہ یہ وہ محمدﷺ نہیں جو کبھی ہم میں سے تھے۔ یہ محمدﷺ جن کے پاس میں اب فریاد لے کر گئی۔ آپﷺ کی آنکھوں میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر آئی جو کسی اور انسان میں نہیں ہوتی۔ مجھے ڈر تھا کہ محمدﷺ جواﷲ کے رسول ہیں کہیں گے کہ یہ عکرمہ کی بیوی ہے، اسے یرغمال بنا کر رکھو۔ تاکہ عکرمہ آجائے اور اسے قتل کر دیا جائے۔ لیکن آپﷺ نے مجھے ایک مجبور عورت جان کر عزت سے بٹھایا۔ میں نے فریاد کی کہ فتح آپ کی ہے، میرے بچوں کو یتیم نہ کریں، میرے شوہر کی بدعہدی کی سزا مجھے اور میرے بچوں کو نہ دیں۔ آپﷺ نے کہا ’’میں نے عکرمہ کو معاف کیا۔‘‘ اور معلوم نہیں وہ کون سی طاقت تھی جس نے مجھ سے کہلوایاکہ میں نے تسلیم کیا کہ محمدﷺ اﷲکا رسول ہے۔ اب میں اس خدا کو مانتی ہوں جس نے محمدﷺ کو رسالت دی ہے۔‘‘
’’اور تو مسلمان ہو گئی؟‘‘عکرمہ کے دوست نے کہا۔
’’ہاں!‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔ ’’میں مسلمان ہو گئی، مجھے اس کے پاس لے چل میرے شوہر کے دوست۔میں اسے واپس لاؤں گی۔‘‘
’’میں دوستی کا حق ادا کروں گا!‘‘ عکرمہ کے دوست نے کہا۔’’چل میں تیرے ساتھ یمن چلتاہوں ۔‘‘
کافی دنوں بعد عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا۔ اپنے گھر جانے کے بجائے حضورﷺ کے پاس گیا اور اس نے اپنے کیے کی معافی مانگ کر اسلام قبول کر لیا۔
اسی روزصفوان بھی واپس آ گیا، وہ بھاگ کر جدہ چلا گیا تھا ۔ایک دوست اس کے پیچھے گیا اور اسے کہا کہ وہ سالاری رتبے کا جنگجو ہے اور اس کی قدر رسولِ کریمﷺ ہی جان سکتے ہیں۔ اسے یہ بھی کہاگیا کہ قبیلہ قریش ختم ہو چکا ہے۔ صفوان تلوار کا دھنی اور نام ور سالار تھا وہ اپنے دوست کے ساتھ مکہ آ گیا اور اس نے رسول ِ کریمﷺ کے حضور پیش ہو کر اسلام قبول کرلیا۔
ابو سفیانؓ کی بیوی ہند ایسی عورت تھی جس کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ اسلام قبول کرلے گی۔ رسولِ کریمﷺ نے اس کے قتل کا حکم دے رکھا تھااور وہ روپوش تھی۔ ابو سفیانؓ اسلام قبول کر چکے تھے۔ ہند کو جب پتا چلا کہ عکرمہؓ اور صفوانؓ نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ سامنے آگئی ،یہ جانتے ہوئے کہ اسے قتل کر دیاجائے گا۔ وہ رسولِ اکرمﷺ کے حضور جا پہنچی۔ آپﷺ نے اسے معاف کر دیا اور وہ مسلمان ہو گئی۔
مکہ کے اردگرد‘ دور اور نزدیک کچھ قبائل تھے ۔ان میں بعض بت پرست تھے اور بعض توہمات کو عقیدہ بنائے ہوئے تھے ۔رسولِ کریمﷺ نے ان کی طرف پیغام بھیجے کہ وہ اﷲکا سچا دین قبول کرلیں ۔پیغام لے جانے والے فوجی تھے لیکن آپﷺ نے حکم دیا تھاکہ کسی پر تشدد نہ کیا جائے اور جنگی کارروائی سے گریز کیا جائے۔
مکہ کے جنوب میں تہامہ کا علاقہ ہے جہاں جنگجو قبائل بکھرے ہوئے تھے۔ان کے متعلق خدشہ تھا کہ لڑنے پر اتر آئیں گے ۔اس لیے اس علاقے میں فوج کا ایک دستہ بھیجا گیا اور اس کی کمان خالدؓ کو دی گئی۔ تمام کا تمام دستہ گھڑ سوار تھا۔ اس میں بنو سلیم کے آدمی بھی تھے مدینہ کے بھی۔ خالدؓ کو مکہ سے تقریباً پچاس میل دور یلملم کے مقام تک جانا تھا۔
خالدؓ اپنے سوار دستے کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ ان کی منزل پچاس میل دور تھی ۔بمشکل پندر ہ میل دور گئے ہوں گے کہ ایک مشہور جنگجو قبیلے بنو جزیمہ کے آدمیوں نے خالدؓ کے دستے کا راستہ روک لیا۔ خالدؓنے اپنے دستے کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا۔بنو جزیمہ باقائدہ لڑائی کیلئے نکل آئے۔
’’ہم لڑنے نہیں آئے‘‘ ۔خالدؓنے اعلان کیا۔ ’’ہم دعوت دینے آئے ہیں کہ اسلام قبول کرلو۔‘‘
’’ہم اسلام قبول کر چکے ہیں۔‘‘ بنو جزیمہ کی طرف سے جواب آیا۔ ’’ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔‘‘
’’ہم دھوکا کھانے نہیں آئے‘‘۔ خالدؓنے بلند آواز سے کہا۔ ’’اگر تم مسلمان ہو چکے ہو تو تلواریں اوربرچھیاں پھینک دو۔‘‘
خبردار بنو جزیمہ!‘‘ بنو جزیمہ کی طرف سے کسی نے للکار کر کہا۔’’اسے میں جانتا ہوں‘ یہ مکہ کے الولید کابیٹا خالد ہے ۔اس پر اعتبار نہ کرنا۔ہتھیار ڈال دو گے تو یہ ہم سب کو قتل کرا دے گا ۔ہتھیار نہ ڈالنا۔‘‘
’’خدا کی قسم! مجھے رسول اﷲﷺ کا حکم نہ ملا ہوتا کہ جنگ نہ کرنا تومیں دیکھتا کہ تم ہتھیار ڈالتے ہو یا نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم دوست بن کر آئے ہیں ۔ہم تم پر اﷲکادین زبردستی ٹھونسنے نہیں آئے۔ہمیں دوست سمجھو اور ہمارے ساتھ آجاؤ۔‘‘
’’اہلِ قریش کی کیا خبر ہے ؟‘‘بنو جزیمہ کی طرف سے آواز آئی۔
’’مکہ چل کر دیکھو۔‘‘ …خالدؓ نے کہا ۔ …’’ابو سفیان، عکرمہ اور صفوان اسلام قبول کر چکے ہیں۔‘‘
بنو جزیمہ نے ہتھیار ڈال دیئے ۔خالدؓ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھے اور بنو جزیمہ کے سردار سے گلے ملے ۔پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا۔
مسلمانوں کو مکہ ایک مرکز کی حیثیت سے مل گیا ۔یہ سورج کی مانند تھا ۔جس کی کرنیں دور دور تک پھیلنے لگیں لیکن اسلام کی دشمن قوتیں یکجا ہو رہی تھیں۔
…………bnb…………

طائف ایک مقام ہے جو مکہ معظمہ سے چند میل دور ہے۔ جنوری 630ء (شوال 8 ہجری) کی ایک رات وہاں جشن کا سماں تھا۔فضاء شراب کی بو سے بوجھل اور رات مخمور تھی۔ رقص کے لیے طائف کے اردگرد کے علاقے کی چنی ہوئی ناچنے والیاں آئی ہوئی تھیں۔ ان کے رقص اور حسن نے مہمانوں کو مدہوش کر دیا تھا۔
مہمان مکہ کے شمال مشرقی علاقے کے مشہور جنگجو قبیلے ہوازن کے سرکردہ افراد تھے۔ان کے میزبان طائف اور گردونواح میں پھیلے ہوئے قبیلہ ثقیف کے سردار تھے۔جنہوں نے اپنے مہمانوں پر اپنی امارت اور فیاضی اور کشادہ ظرفی کا رعب جمانے کیلئے اتنی شاہانہ ضیافت اور اتنے شاندار جشن کا اہتمام کیا تھا۔
دو لڑکیاں رقص کے کمال دکھا رہی تھیں کہ میزبان قبیلے کا سردار ’’مالک بن عوف ‘‘اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے تالی بجائی۔ساز خاموش ہو گئے ۔ناچنے والیاں بت بن گئیں اور ان کی نظریں مالک بن عوف پر جم گئیں۔ مہمانوں پر سناٹا طاری ہو گیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے رات کے گزرتے لمحوں کا قافلہ رک گیا ہو۔ ہر کوئی مالک بن عوف کی طرف دیکھ رہا تھا۔
مالک بن عوف کی عمر تیس سال تھی۔ رقص اور مے نوشی کی محفلوں میں وہ عیاش شہزادہ تھا۔ لیکن میدانِ جنگ میں وہ آگ کا بگولہ تھا۔ وہ صرف تیغ زنی، تیر اندازی اور گھوڑ سواری میں ہی مہارت نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ فنِ حرب و ضرب کا بھی ماہر تھا۔ انہی اوصاف کی بدولت وہ قبیلے کا سالار تھا۔ جنگ کے معاملے میں وہ انتہا پسند تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ٹھنڈے دل سے سوچنا اسے آتا ہی نہیں۔ اس کی جنگی چالیں اس کے دشمن کیلئے بڑی خطرناک ہوتی تھیں۔ قبیلۂ قریش میں جو حیثیت کبھی خالدؓ بن ولید کو حاصل تھی ویسا ہی دبدبہ مالک بن عوف کا اپنے قبیلے پر تھا۔
’’ہم نے بہت کھالیا ہے۔‘‘ مالک بن عوف نے رقص رکوا کر میزبانوں اور مہمانوں سے خطاب کیا۔ ’’ہم شراب کے مٹکے خالی کر چکے ہیں۔ ہم تھرکتی ہوئی جوانیوں سے لطف اندوز ہو چکے ہیں۔ کیا ہمارے مہمانوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس ضیافت اور جشن کی تقریب کیا ہے؟ … میں نے تمہیں کوئی خوشی منانے کیلئے اکھٹا نہیں کیا۔ اے اہلِ ہوازن! میں نے تمہاری غیرت کو جگانے کیلئے تمہیں اپنے ہاں بلایا ہے۔‘‘
’’ہوازن کی غیرت سوئی کب تھی مالک بن عوف؟‘‘ قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا۔ ’’بتا ہماری غیرت کو کس نے للکارا ہے؟‘‘
’’مسلمانوں نے!‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔ ’’محمد (ﷺ) نے …کیا تم محمد (ﷺ) کونہیں جانتے؟کیا تم بھول گئے ہو اس محمد (ﷺ) کو جو اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے بھاگ کر یثرب (مدینہ) چلا گیا تھا؟‘‘
’’جانتے ہیں!‘‘دو تین آوازیں اٹھیں۔’’اچھی طرح جانتے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے۔‘‘
’’ہم اسے نبی نہیں مانتے۔‘‘ایک اور آواز اٹھی۔’’کوئی نبی ہوتا تو ہم میں سے ہوتا۔جو اہلِ ثقیف ہیں۔ ہوازن کے قبیلے سے ہوتا۔‘‘
’’وہ نبی ہے یا نہیں۔‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔ ’’میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس مکہ سے محمد (ﷺ) بھاگا  تھا۔اس مکہ کا اب وہ حاکم ہے۔ مکہ میں اس کاحکم چلتا ہے اور اس کی جنگی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔ قبیلۂ قریش اس کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہے اور اس کے مذہب کو قبول کرتا چلا جا رہا ہے۔ ابو سفیان ،عکرمہ اور صفوان جیسے جابر جنگجو محمد (ﷺ) کا مذہب قبول کر چکے ہیں۔ خالدؓ بن ولید نے پہلے ہی یہ نیا مذہب قبول کرلیا تھا … مسلمانوں نے مکہ میں تمام بت توڑ ڈالے ہیں۔‘‘
’’اہلِ قریش کو اپنی غیرت اور اپنے مذہب کا پاس ہوتا تو وہ اپنی تلواریں اپنے پیٹوں میں گھونپ لیتے۔‘‘ کسی اور نے کہا۔
’’اب ستاروں سے دھرا یہ آسمان دیکھے گا کہ ہوازن اور ثقیف کو اپنی غیرت کا کتنا پاس ہے۔‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔
’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ ہم میں سے کوئی محمد (ﷺ) کو قتل کر دے؟‘‘ قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا ۔’’اگرتو یہی کہنا چاہتا ہے تو یہ کام میرے سپرد کر۔‘‘
’’اب محمد (ﷺ) کو قتل کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔ ’’اسے قتل کر دو گے تو اس کے پیروکار اسے اپنے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اب وہ ایک آدمی کے قتل سے وہ اس راستے سے نہیں ہٹیں گے جس پر انہیں ڈال دیا گیا ہے۔‘‘
’’کہتے ہیں محمد (ﷺ) کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے۔‘‘ ہوازن کے ایک سردار نے کہا۔ ’’وہ جس پر نگاہ ڈالتا ہے وہ اس کا مطیع ہو جاتا ہے۔‘‘
’’جہاں تلوار چلتی ہے وہاں کوئی جادو نہیں چل سکتا۔‘‘ہوازن قبیلے کے ایک اور سردار نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔ ’’مالک … آگے بول … تو کیا کہتا ہے؟ ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘
 ’’میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم نے محمد (ﷺ) کے اسلام کو نہ روکا تو یہ سیلاب کی طرح بڑھتا ہوا ہم سب کو بہا لے جائے گا۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’نہ ہوازن رہیں گے نہ ثقیف کا وجود ہو گا۔قبیلہ قریش کو محکوم بنانے والوں کو ہم مکہ کے اندر ہی ختم کریں گے۔ کیا تم محکوم بن جانے کا مطلب سمجھتے ہو؟‘‘ مالک بن عوف نے سب کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’اگر نہیں سمجھتے تو میں تمہیں بتاتا ہوں۔‘‘ اس نے اپنے پیچھے دیکھا۔
مالک بن عوف کے پیچھے مہمانوں میں ایک معمر سفید ریش بیٹھا تھا۔ اس کارنگ دوسروں کی نسبت صاف اور سفیدی مائل تھا۔وہ ضعیف اتنا تھا کہ اس کاسر ہلتا تھا اورکمر میں ہلکا سا خم تھا۔ اس کے ہاتھ میں اپنے قد جتنا لمبا عصا تھا۔ کندھوں سے ٹخنوں تک چغہ بتاتا تھا کہ وہ کوئی عالم یا مذہبی پیشوا ہے۔ مالک بن عوف کے اشارے پر وہ اٹھا اور مالک کے پاس آگیا۔
’’تم پر اس کی رحمت ہو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔‘‘بوڑھے نے کہا۔ ’’اور وہ دیوتا تمہارے بچوں کے محافظ ہوں جن کی تم پوجا کرتے ہو۔ تم محکومی اور غلامی کا مطلب نہیں سمجھتے تو مجھ سے پوچھو۔ میری چار جوان بچیاں مسلمانوں کی لونڈیاں ہیں اور میرے دو جوان بیٹے مسلمانوں کے غلام ہیں۔ وہ تیغ زن اور شہ سوا رتھے۔لیکن اب انہیں تلوار ہاتھ میں لینے کی اور گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت نہیں،ہمیں گھروں سے نکال دیا گیا ہے… ‘‘
کیا تمہیں یاد نہیں کہ قریش نے مدینہ کا محاصرہ کیا تھاتو مسلمانوں نے اردگرد خندق کھودلی تھی۔ قریش اس خندق کو پھلانگ نہیں سکے تھے، پھر اس قدر تندوتیز طوفان آیا کہ قریش جو پہلے ہی بددل ہو چکے تھے۔ بکھر گئے اور مکہ کو واپس چلے گئے تھے۔ جب مسلمانوں کے سر سے خطرہ ٹل گیا تو انہوں نے ان یہودیوں پر ہلہ بول دیا جو ان کے ساتھ مدینہ میں امن سے رہتے تھے۔ ان یہودیوں کو انہوں نے قتل کر دیا اور ان کی عورتوں کو اور ان کے بچوں کو آپس میں بانٹ کر انہیں لونڈیاں اور غلام بنا لیا۔‘‘
’’اے بزرگ!‘‘قبیلہ ثقیف کے ایک سرکردہ آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’اگر تو یہودی ہے تو کیا ہم نے غلط سنا تھا کہ تیرے قبیلے نے مسلمانوں کو دھوکا دیا تھا؟‘‘
’’تم نے جو سنا درست سنا تھا۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔’’ہمارا دھوکا کامیاب نہیں ہو اتھا۔ہم مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر اتارنا چاہتے تھے لیکن قریش پیٹھ دِکھا گئے۔مسلمانوں کو دھوکا دے کر کمزور کرناہمارا فرض تھا لیکن مسلمانوں کی تلواروں نے ہمیں کمزور کر دیا۔‘‘
’’تو جو بنی اسرائیل سے ہے … کیا ہمیں اُکسانے آیا ہے کہ ہم مسلمانوں سے تیرے قبیلے کے خون کا انتقام لیں؟‘‘ ثقیف کے قبیلے ایک سردار نے کہا۔
ایک اور ضعیف العمر شخص اُٹھ کھڑاہوا ۔اس کا نام’’ درید بن الصّمہ‘‘ تھا۔اس کا نام تاریخ میں تو ملتا ہے لیکن یہ پتا نہیں ملتا کہ وہ قبیلہ ہوازن سے تھا یا قبیلہ ثقیف سے۔
’’خاموش رہو۔‘‘درید بن الصّمہ نے گرج کر کہا ۔’’ہم بنی اسرائیل کے خون کا انتقام نہیں لیں گے۔ کیا تم ابھی تک شک میں ہو؟ کیا تم ابھی تک نہیں سمجھے کہ ہم نے مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کا خون اپنی تلواروں کو نہ پلایا اور ان کے زخمیوں کو گھوڑوں تلے نہ روندا، تو وہ ہمیں بھی قتل کرکے تمہاری بیٹیوں کو،تمہاری بہنوں کو اور تمہاری بیویوں کو اپنی لونڈیاں اور ہمارے بچوں کواپنا غلام بنالیں گے؟‘‘
’’اس سے پہلے کے ان کے گھوڑے طائف کی گلیوں میں ہنہنائیں، کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہمارے گھوڑے ان کی لاشوں کو مکہ کی گلیوں میں کچلتے پھریں۔‘‘مالک بن عوف نے جوش سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’بنی اسرائیل کا یہ بزرگ ہماری پناہ میں آیاہے۔اس نے اپنے قبیلے کا جوانجام بتایا ہے میں تمہیں اس کا انجام سے بچانا چاہتاہوں … اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمد (ﷺ) اور اس کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں، ختم کرکے اپنی عورتوں کو اپنے منہ دکھائیں گے۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages