Featured Post

Khalid001

29 May 2019

Khalid032


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  32
اس زمانے میں جب اسلام کی کرنیں مکہ سے پھیل رہی تھیں،عرب میں بت پرستی عام تھی۔وہ خدا کو بھی مانتے تھے لیکن خدا تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وہ بتوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔انکاعقیدہ تھا کہ بتوں کو راضی کیے بغیر خدا کو راضی نہیں کیا جا سکتا۔بتوں کی خوشنودی کیلئے وہ کچھ رسمیں ادا کرتے تھے۔طائف کے علاقے میں جس بت کوپوجا جاتا تھا ،اس کا نام لات تھا جو انسانی یا حیوانی شکل کا نہیں تھا۔وہ بہت بڑا پتھر تھا جسے چٹان کہا جا سکتاہے۔یہ چٹا ن باقاعدہ مربع شکل کی تھی۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ مربع شکل کا قدری طور پر بنا ہوا چبوترا تھا ،جس پر شاید کسی زمانے میں کوئی بت رکھا گیا ہو لیکن طلوعِ اسلام کے دور میں یہ صرف چبوترہ تھا اور اردگرد کے قبائل اسی کو پوجتے تھے۔
جنوری 630ء کی اس رات جب قبیلۂ ہوازن کے سردار قبیلہ ثقیف کی دعوت پر طائف آئے اور مالک بن عوف اور دُرید بن الصّمہ انہیں مکہ پر حملے کیلئے اکسا رہے تھے۔ ہوازن کے ایک سردار نے مشورہ دیا کہ کاہن کو بلا کر فال نکلوائی جائے کہ ہمارا حملہ کامیاب ہو گا کہ نہیں۔ یہ فال تیروں کے ذریعے نکالی جاتی تھی جسے ازلام کہتے تھے۔ بہت سے تیر اکھٹے رکھے ہوتے تھے۔کسی پر ہاں لکھا ہوتا تھا۔کسی پر نہیں۔ بت کا کوئی مجاور یا کاہن مذہبی پیشوا اس ترکش سے ایک تیر نکالتا اور دیکھتا تھا کہ اس پر ہاں لکھا ہے یا نہیں۔ یہ فال کا جواب ہوتا تھا۔
مجاور کی نسبت کاہن کو بہتر سمجھاجاتا تھا۔کاہن دانشمند ہوتے تھے۔ان کے پاس پُر اثر اور دل میں اتر جانے والے الفاظ کا ذخیرہ ہوتا تھا اور ان کے بولنے کا انداز تو ہر کسی کو متاثر کرلیتا تھا۔کاہن فال نکالے بغیرغیب کی خبریں دیا کرتے اور لوگ انہیں سچ ماناکرتے تھے۔
اگلی صبح ہوازن اور ثقیف کے سردار ایک کاہن کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ان میں سے کسی نے ابھی بات بھی نہیں کی تھی کہ کاہن بول پڑا!
’’اگر میں غیب کی خبر دے سکتا ہوں اور آنیوالے وقت میں بھی جھانک کر بتا سکتا ہوں کہ کیسا ہوگا اور کیاہو گا تو کیا میں یہ نہیں بتا سکوں گا کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے؟‘‘ … اس نے کہا۔’’تم اپنی زبانوں کو ساکن رکھو اور میری زبان سے سنو کہ تم کیا کہنے آئے ہو …تم جس دشمن پر حملہ کرنے جا رہے ہو وہ یوں سمجھو کہ سویا ہوا ہے۔اس نے مکہ پر قبضہ کیا ہے اور وہاں کے انتظامات سیدھے کررہا ہے۔ وہ اپنی بادشاہی کی بنیادیں پکی کررہا ہے۔مکہ میں اس کے دشمن بھی موجود ہیں ۔ہر کسی نے محمد (ﷺ) کا مذہب قبول نہیں کیا۔‘‘
’’مقدس کاہن!‘‘ دُرید بن الصّمہ نے کہا۔’’ہمیں یہ بتا کہ ہم محمد)ﷺ( کو خبر ہونے سے پہلے اس کو دبوچ سکتے ہیں ؟کیاہمارا اچانک حملہ مکہ کے مسلمانوں کو گھٹنوں بٹھا سکے گا؟‘‘
کاہن نے آسمان کی طرف دیکھا۔کچھ بڑبڑایا اور بولا۔ ’’آنے والے وقت کے پردوں کو چاک کرکے دیکھا ہے … تمہارا حملہ اچانک ہوگا۔مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔ کون ہے جو برستی تلواروں میں سنبھل کر اپنے آپ کو بچانے کی ترکیب کر سکتا ہے؟ … یہی وقت ہے۔یہی موقع ہے۔مسلمان اگر سنبھل گئے تو تم اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ پھر مسلمان تمہارے گھروں تک تمہارا پیچھا کریں گے اور تمہارے خزانوں کوا ور تمہاری عورتوں کو تمہاری لاشوں کے اوپر سے گزار کر اپنے ساتھ لے جائیں گے …ازلام کی ضرورت نہیں۔ لات نے اشارہ دے دیا ہے اور پوچھا ہے کہ مجھے پوجنے والوں کی تلواریں ابھی تک نیاموں میں کیوں ہیں؟‘‘
’’کوئی قربانی؟‘‘ ایک سردار نے پوچھا۔
’’حام۔‘‘ کاہن نے کہا۔ ’’ایک حام۔ اگر ہے تو دے دو۔ نہیں ہے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ پیٹھ نہ دکھائیں۔ اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں … حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں… جاؤ، میں نے تمہیں خبر دے دی ہے۔ مکہ میں مسلمان دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔وہ لڑنے کیلئے تیار نہیں۔یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔‘‘
حام اس اونٹ کو کہتے تھے جس کی چوتھی نسل پیدا ہو جاتی تھی۔ اسے یہ لوگ اپنے بت کے نام پر کھلا چھوڑ دیتے تھے۔ اس اونٹ کو متبرک سمجھ کر اس پر نہ کوئی سواری کر سکتا تھا نہ اس سے کوئی اور کام لیا جاتا تھا۔ اس پر خاص نشان لگا دیا جاتا تھا۔ اسے جو کوئی دیکھتا تھا، اس کا احترام کرتا اور اسے اپنے کھانے کی چیزیں کھلا دیتا تھا۔
جب ہوازن اور ثقیف کے سردار کاہن کی اشیرباد لے کر چلے گئے توکاہن اندرونی کمرے میں چلا گیا۔ وہاں وہ بوڑھا یہودی بیٹھا تھا جسے گذشتہ رات ضیافت کے دوران مالک بن عوف نے اشارے سے کہا تھا کہ وہ سب کو بتائے کہ محکومی اور غلامی کیا ہوتی ہے۔
’’میں نے تمہارا کام کردیا ہے۔‘‘ کاہن نے اسے کہا۔ ’’اب یہ لوگ مکہ کی طرف کوچ میں تاخیر نہیں کریں گے۔‘‘
’’کیا انہیں کامیابی حاصل ہوگی؟‘‘بوڑھے یہودی نے پوچھا۔
’’کامیابی کا انحصار ان کے لڑنے کے جذبے اور عقل پر ہے۔‘‘ کاہن نے کہا۔ ’’اگر انہوں نے صرف جوش اور جذبے سے کام لیا اور عقل کو استعمال نہ کیا تو محمد (ﷺ) کی عسکری قابلیت انہیں بہت بری شکست دے گی … میرا انعام؟‘‘
’’تمہارا انعام ساتھ لایا ہوں۔‘‘ بوڑھے نے کہا اور آواز دی۔
دوسرے کمرے سے ایک حسین لڑکی آئی۔ بوڑھے یہودی نے اپنے چغے کے اندر ہاتھ ڈال کر سو نے دو ٹکڑے نکالے اور کاہن کو دے دیئے۔
’’میں کل صبح اس لڑکی کو لے جاؤں گا۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔
’’میں تمہیں ایک بات بتا دینا چاہتا ہوں۔‘‘ کاہن نے کہا۔ ’’میں نے تمہارے کہنے پر ان لوگوں کو کہا ہے کہ فوراً حملہ کریں لیکن ان سرداروں میں سمجھ بوجھ ہے۔ حالات کو سمجھ لیتے ہیں۔ انکا بوڑھا سردار دُرید بن الصّمہ پہلے سے جانتا تھا کہ مسلمان مکہ میں ابھی جم کے نہیں بیٹھ سکے۔ ان کے سامنے اور بہت سے مسئلے ہیں۔ ان پر حملے کیلئے یہی وقت موزوں ہے۔ ہوازن اور ثقیف کے سردار اپنے ارادے کی تصدیق کیلئے میرے پاس آئے تھے۔ اچھا ہوا کہ ان سے پہلے تم چوری چھپے میرے پاس آ گئے تھے۔‘‘
’’میرا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو ختم کیا جائے۔‘‘ بوڑھے یہودی نے کہا۔
…………bnb…………

مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہوازن اور ثقیف دو طاقتور قبیلے تھے۔مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا تو ان دونوں قبیلوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ دونوں کے لوگ الگ الگ بستیوں میں رہتے ہیں اور بستیوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہ ایک دوسرے سے دور دور بھی ہیں۔مسلمان ہر بستی پر قابض ہوکر دونوں قبیلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔انہوں نے سوچا کہ قبیلوں کو متحد کرکے مسلمانوں پر ہلّہ بول دیا جائے۔
دونوں قبیلے لڑنے والے آدمیوں کو ساتھ لے کر حنین کے قریب اوطاس کے مقام پر لے گئے۔ ان کے سرداروں نے چھوٹے چھوٹے کئی اور قبائل کو اس قسم کے پیغام بھیج کرکہ مسلمان ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کرنے کیلئے آ رہے ہیں، اپنے اتحادی بنا لیا تھا۔ اس متحدہ لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہو گئی تھی۔ اس کا سپہ سالار مالک بن عوف تھا۔ اس نے لشکر کے ہر آدمی کو اجازت دے دی تھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو ساتھ لے آئے۔ اس نے اس اجازت کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ مکہ کا محاصرہ بہت لمبا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو ا تو لشکریوں کو اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کا غم نہ ہوگا کہ معلوم نہیں کیسے ہوں گے۔ اس اجازت سے تقریباً سب نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اس طرح جتنا لشکر لڑنے والوں کا تھا، اس سے کہیں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ اونٹ بھی بے شمار تھے۔
دُرید بن الصّمہ بہت بوڑھا تھا۔وہ میدانِ جنگ میں جانے کے قابل نہیں تھا لیکن لڑنے اور لڑانے کا جو تجربہ اسے تھا وہ اور کسی کو نہیں تھا۔ سپہ سالار مالک بن عوف کو بنایا گیا تھا لیکن اس میں خوبی صرف یہ تھی کہ وہ بہت جوشیلا تھا۔ دُرید کو اس کے تجربے کی وجہ سے بلایاگیا تھا۔ دُرید بن الصّمہ اس وقت اس لشکر میں شامل ہوا جب لشکر اوطاس کے مقام پر خیمہ زن تھا۔ وہ شام کے وقت پہنچا،اسے بچوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے بکریوں اور گدھوں کی آوازیں بھی سنیں۔ اس نے کسی سے پوچھا کہ لشکر کے ساتھ بچے، بکریاں اور گدھے کون لایا ہے؟ اسے بتایا گیا کہ سپہ سالار نے بال بچے اور مویشی ساتھ لے جاے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ انہیں ساتھ لانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
’’مالک!‘‘ دُرید بن الصّمہ نے مالک بن عوف کے خیمے میں جاکر پوچھا۔ ’’یہ تو نے کیا کیا ہے؟ میں نے ایسا لشکر پہلی بار دیکھا ہے جو لڑنے والے لشکر کی بجائے نقل مکانی کرنے والوں کا قافلہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے تمہاری جنگی فہم و فراست پر ذرا سا بھی شک نہیں میرے بزرگ!‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔ ’’لیکن میں نے جو سوچا ہے ،وہ تم ساری عمر نہیں سوچ سکے۔میں نے لشکریوں سے کہا تو یہ ہے کہ محاصرہ لمبا ہو جانے کی صورت میں انہیں اپنے اہل و عیال اور مال مویشی کے متعلق پریشانی پیدا ہو جائے گی۔لیکن میں نے سوچا کچھ اور ہے۔میں مکہ کو محاصرے میں نہیں لوں گا بلکہ یلغار کردوں گا۔مسلمانوں کو ہم بے خبری میں جا لیں گے۔تمہیں معلوم ہے کہ مسلمان لڑنے میں کتنے تیز اور عقل مند ہیں۔وہ پینترے بدل بدل کر لڑیں گے۔ ہو سکتا ہے ہمارے آدمی ان کی بے جگری کے آگے ٹھہر نہ سکیں۔ وہ جب دیکھیں گے کہ ان کی عورتیں اور جوان بیٹیاں اور بچے اور دودھ دینے والے مویشی بھی ساتھ ہیں تو وہ انہیں بچانے کیلئے جان کی بازی لگاکر لڑیں گے اور زیادہ بہادری سے لڑیں گے۔بھاگیں گے نہیں۔‘‘
’’تجربہ عمر سے حاصل ہوتا ہے مالک!‘‘ دُرید نے کہا۔ ’’تیرے پاس جذبہ ہے، غیرت ہے، جرات ہے لیکن عقل تیری ابھی خام ہے۔ لڑائی میں اُن لوگوں کا دھیان آگے نہیں پیچھے ہوگا۔ یہ یہی دیکھتے رہیں گے کہ دشمن پہلو سے یا عقب سے ان کے بال بچوں تک تو نہیں آگیا۔ دشمن جب ان پر جوابی حملہ کرے گا تو یہ تیزی سے اپنے بیوی بچوں تک پہنچیں گے کہ یہ دشمن سے محفوظ رہیں… تو بہت بڑی کمزوری اپنے ساتھ لے آیا ہے۔ محمد (ﷺ) کی جنگی قیادت کو تو نہیں جانتا میں جانتا ہوں۔ اس کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک قابل سالار ہے۔ وہ تیری اس کمزور رگ پر وار کریں گے۔وہ کوشش کریں گے کہ تیرے لشکر کی عورتوں اور بچوں کو یرغمال میں لے لیں۔ انہیں دور پیچھے رہنے دو اور مکہ کو کوچ کرو۔‘‘
’’احترام کے قابل بزرگ!‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔ ’’تم بہت پرانی باتیں کر رہے ہو۔ تم نے محسوس نہیں کیا کہ اتنی لمبی عمر نے تمہیں تجربوں سے تو مالا مال کر دیاہے لیکن عمر نے تمہاری عقل کمزور کر دی ہے۔اگر میں سپہ سالار ہوں تو میرا حکم چلے گا۔ میں جہاں ضرورت سمجھوں گاتم سے مشورہ لے لوں گا۔‘‘
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ دُرید بن الصّمہ یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ یہ موقع آپس میں الجھنے کا نہیں تھا۔ ’’تم لشکر سے کچھ اور کہنا چاہتے ہو تو کہہ دو۔‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔
’’جو کام مجھے کرنا ہے وہ میں تمہیں بتائے بغیر کروں گا۔‘‘ دُرید نے کہا۔’’مجھ میں لڑنے کی طاقت نہیں رہی۔لڑا سکتا ہوں۔‘‘
اس نے اپنے خیمے میں جا کر قبیلے کے سرداروں کو بلایا اور اتنا ہی کہا۔’’جب حملہ کرو گے تو تمہارا اتحاد نہ ٹوٹے۔ تمام لشکر سے کہہ دو کہ حملہ سے پہلے تلواروں کی نیامیں توڑ کر پھینک دیں۔‘‘
عربوں میں یہ رسم تھی کہ لڑائی میں جب کوئی اپنی نیام توڑ دیتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ شخص لڑتا ہوا جان دے دے گا ،پیچھے نہیں ہٹے گا اور شکست نہیں کھائے گا۔نیام توڑنے کو وہ فتح یا موت کا اعلان سمجھتے تھے۔
کسی بھی تاریخ میں ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ دُرید بن الصّمہ نے قبیلوں کے سراروں سے کہا ہو کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اوطاس میں ہی رہنے دیں لیکن دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ لڑائی کے وقت صرف ہوازن قبیلہ تھا جس نے اپنی عورتوں، بچوں اور بکریوں وغیرہ کو اپنے ساتھ رکھا تھا۔
…………bnb…………

یہ دوسرا موقع تھا کہ اتنے زیادہ قبیلوں کی متحد ہ فوج مسلمانوں کو تہس نہس کرنے آرہی تھی۔اس سے پہلے جنگِ خندق میں اتنے زیادہ قبیلے مسلمانوں کے خلاف متحد ہوئے تھے۔ اب مالک بن عوف اس امید پر متحدہ فوج کو لے کر جا رہا تھا کہ وہ مکہ پر اچانک ٹوٹ پڑے گا۔ اس لشکر کو اب اوطاس سے مکہ کو کوچ کرنا تھااور اس کوچ کی رفتار بہت تیز رکھنی تھی۔ اوطاس میں لشکر کاقیام اس لیے زیادہ ہو گیا تھا کہ دوسرے قبیلوں کو وہاں اکھٹے ہونا تھا۔
اگر اس لشکر میں صرف لڑنے والے ہوتے تو لشکر فوراً مکہ کی طرف پیش قدمی کر جاتا۔ اس میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور ان کا سامان بھی تھا۔اس لیے وہاں سے کوچ میں خاصی تاخیر ہو گئی ۔اس دوران مکہ کی گلیوں میں ایک للکارسنائی دی۔
’’مسلمانو!ہوشیار……تیار ہو جاؤ……وہ ایک شتر سوار تھا۔‘‘ جو رسول اکرمﷺ کے گھر کی طرف جاتے ہوئے اعلان کرتا جا رہا تھا  ۔’’خدا کی قسم! میں جو دیکھ کہ آیا ہوں وہ تم میں سے کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘
’’کیاشور مچاتے جا رہے ہو؟‘‘کسی نے اسے کہا ۔’’رکو اور بتاؤ کیا دیکھ کہ آئے ہو؟‘‘
’’رسول اﷲﷺ کو بتاؤں گا۔‘‘وہ کہتا جا رہا تھا۔ ’’تیار ہو جاؤ… ہوازن اور ثقیف کا لشکر…‘‘
’’رسول ِکریمﷺ کو اطلاع مل گئی کہ ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کے ساتھ دوسرے قبیلوں کے ہزاروں لوگ اوطاس کے قریب خیمہ زن ہیں اور انکا ارادہ مکہ پر حملہ کرنے کا ہے اور وہ کوچ کرنے والے ہیں۔ تاریخوں میں اس شخص کا نام نہیں ملتا۔ جس نے اوطاس میں اس متحدہ لشکر کو دیکھا اور یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ لشکر کا ارادہ کیا ہے۔ مؤرخوں نے اتنا ہی لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کو قبل از وقت غیر مسلم قبیلوں کے اجتماع کی خبر مل گئی۔
 ان مؤرخوں کے مطابق (اور بعد کے مبصروں کی تحریروں کے مطابق) رسولِ اکرمﷺ کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ جنگ و جدل سے گریز کیا جائے اور ان غیر مسلموں کو جو آپﷺ کو اور مسلمانوں کو دشمن سمجھتے اور آپﷺ کے خلاف سازشیں تیار کرتے رہتے تھے ،انہیں خیر سگالی اور بھائی چارے کے پیغام دیئے جائیں۔
اس خواہش اور کوشش کے علاوہ جنوری ۶۳۰ء میں حضورﷺ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔کیونکہ آپﷺ نے مکہ کو چند ہی دن پہلے اپنی تحویل میں لیا تھا اور شہر کے انتظامات میں مصروف تھے۔حضورﷺ کو مشورے دیئے گئے کہ شہری انتظامات کو ملتوی کرکے دفاعی انتظامات کی طرف فوری توجہ دی جائے۔اور دشمن کے حملے یا محاصرے کا انتظار کیا جائے۔
رسول اﷲﷺ نے مشورہ دینے والوں سے یہ کہہ کہ ان کا مشورہ مسترد کردیا کہ’’ ہم یہاں دفاعی مورچے بنا کر ان میں بیٹھ جائیں اور جب دشمن کو یہ خبر ملے کہ ہم بیدار ہیں اور قلعہ بند ہو کہ بیٹھ گئے ہیں تو دشمن مکہ سے کچھ دور خیمہ زن ہو کر اس انتظار میں تیار بیٹھ جائے کہ ہم دفاع میں ذرا سی کوتاہی کریں اور وہ شہر کو محاصرے میں لے لے ،یا سیدھی یلغار کردے۔ تو یہ دشمن کو دعوت دینے والی بات ہو گی کہ مسلسل خطرہ بن کر ہمارے سروں پر بیٹھا رہے۔‘‘
اس دور کی مختلف تحریروں سے صاف پتا چلتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے یہ اصول وضع کیا اور مسلمانوں کو ذہن نشین کرایا تھا کہ دشمن اگر اپنے گھر بیٹھ کر ہی للکارے تو اس کی للکار کا جواب ٹھوس طریقے یعنی عملی طریقے سے دو۔ دوسرایہ کہ دشمن کی نیت اورا سکے عزائم کا علم ہو جائے تو اپنی سرحدوں کے اندر بیٹھ کر اس کا انتظا رنہ کرتے رہو، اس پر حملہ کردو اور حضورﷺ نے اپنی امت کو تیسرا اصول یہ دیا کہ ہر وقت تیاری کی حالت میں رہو اور دشمن کو احساس دلا دو کہ وہ تمہیں للکارے گا یا تمہارے لیے خطرہ بننے کی کوشش کرے گا تو تم بجلی کی طرح اس پر کوندو گے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages