Featured Post

Khalid001

30 May 2019

Khalid038


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  38
اسلام عقیدے کے لحاظ سے اور عسکری لحاظ سے بھی ایک ایسی طاقت بن چکا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کے بھیجے ہوئے ایلچی کہیں بھی چلے جاتے انہیں شاہی مہمان سمجھا جاتا اور ان کا پیغام احترام سے سنا جاتا۔ رسولِ کریمﷺ نے دور دراز کے قبیلوں اور چھوٹی بڑی حکومتوں کو قبولِ اسلام کے دعوت نامے بھیجنے شروع کر دیئے۔ ان میں بعض سردار سرکش، خود سر اور کم فہم تھے۔ ان کی طرف رسولِ کریمﷺ کا پیغام اس قسم کا ہوتا تھا کہ قبولِ اسلام کے بجائے اگر وہ اپنی جنگی طاقت آزمانا چاہتے ہیں تو آزما لیں، اور یہ سوچ لیں کہ شکست کی صورت میں انہیں مسلمانوں کا مکمل طور پر مطیع ہونا پڑے گا اور ان کی کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی۔
رسولِ کریمﷺ نے ایسی ایک مہم خالدؓ بن ولید کی زیرِکمان یمن کے شمال میں نجران بھیجی۔ وہاں قبیلہ بنو حارثہ بن کعب آباد تھا۔ ان لوگوں نے رسولِ کریمﷺ کے پیغام کا مذاق اڑایا تھا۔ خالدؓ مجاہدین کے ایک سوار دستے کو جس کی تعداد چار سو تھی ساتھ لے کر جولائی 631ء میں یمن کو روانہ ہوئے۔ مشہور مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اﷲﷺ نے خالدؓ سے کہا کہ ’’انہیں حملے کیلئے نہیں بھیجا جا رہا بلکہ وہ پیغام لے کر جا رہے ہیں۔ چونکہ بنو حارثہ سرکش ذہنیت کی وجہ سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں اس لیے خالدؓ انہیں تین بار کہیں کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ اگر وہ سرکشی سے باز نہ آئیں اور خونریزی کو پسند کریں تو انہیں خونریزی کیلئے للکارا جائے۔‘‘
خالدؓ جس جارحانہ انداز سے وہاں پہنچے اور جس اندازسے انہوں نے بنو حارثہ بن کعب کو قبولِ اسلام کی دعوت دی اس نے مطلوبہ اثر دکھایا ۔اس قبیلے نے بلاحیل و حجت اسلام قبول کر لیا۔ خالدؓواپس آنے کے بجائے وہیں رُکے رہے اور انہیں اسلام کے اصول اور ارکان سمجھاتے رہے۔
خالدؓبن ولید جنہیں تاریخ نے فنِ حرب و ضرب کا ماہر اور صفِ اول کا سالار تسلیم کیا ہے ۔نجران میں چھ مہینے مبلغ اور معلم بنے رہے۔ انہوں نے جب دیکھاکہ اسلام ان لوگوں کے دلوں میں اُتر گیا ہے تو جنوری 632ء میں واپس آگئے۔ ان کے ساتھ بنو حارثہ کے چند ایک سرکردہ افراد تھے جنہوں نے رسولِ کریم ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ رسولِ خداﷺ نے ان میں سے ایک کوامیر مقرر کیا۔
…………bnb…………

اسلام کے دشمنوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں رہا اور یہ بھی دیکھا کہ ا سلام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا ہے تو انہوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کا ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ یہ تھا رسالت اور نبوت کا دعویٰ۔ متعدد افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا جن میں بنی اسد کا طلیحہ ،بنی حنیفہ کا مسیلمہ، اور یمن کا اسود عنسی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
اسود کا نام عقیلہ بن کعب تھا۔ کیونکہ اس کا رنگ کالا تھا اس لئے وہ اسود کے نام سے مشہور ہوا۔ اسود عربی میں کالے کو کہتے ہیں۔ وہ یمن کے مغربی علاقے کے ایک قبیلے عنس کا سردار تھا اس لئے اسے اسود العنسی کہتے تھے۔ تاریخ میں اس کا یہی نام آیا ہے۔وہ عبادت گاہ کا کاہن بھی رہ چکا تھا۔ بالکل سیاہ رنگت کے باوجود اس میں ایسی کشش تھی کہ لوگ اس کے ہلکے سے اشارے کا بھی اثر قبول کر لیتے تھے۔ اس میں مقناطیس جیسی قوت تھی کہ عورتیں اس کے کالے چہرے کو نا پسند کرنے کے بجائے اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتی تھیں۔ اس نے یہ پراسراریت عبادت گاہ میں حاصل کی تھی۔ کاہن کو لوگ دیوتاؤں کا منظورِنظر اور ایلچی سمجھتے تھے۔
اس علاقے کے زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اسود کے اپنے قبیلے میں اسلام داخل ہو چکاتھا لیکن اسود نے ان کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔جیسے ان لوگوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ خود بھی مسلمان ہو گیا تھا۔
اس وقت یمن کا حکمران بازان نام کا ایک ایرانی تھا۔ایران کا شہنشاہ خسرو پرویز (کسریٰ) تھا۔رسولِ کریمﷺ نے دور کے ملکوں کے جن بادشاہوں کو قبولِ اسلام کے خطوط لکھے تھے ان میں شہنشاہِ ایران بھی تھا، اسے خط دینے کیلئے رسول اﷲﷺنے عبداﷲؓ بن حذافہ کو بھیجا تھا۔ عبداﷲ ؓنے خسرو پرویز کے دربارمیں اسے خط دیا۔ اس نے خط کسی اور کو دے کر کہاکہ اسے اس کا ترجمہ سنایا جائے۔
اسے جب خط اس کی زبان میں سنایا گیا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے غصے سے باؤلا ہو کر خط کو بری طرح پھاڑ کر اس کے پرزے پھینک دیئے اور عبداﷲ ؓبن حذافہ کو دربار سے نکال دیا۔ عبداﷲ ؓاتنی دور کی مسافت سے آئے اور رسول اﷲﷺ کے حضور بتایا کہ شہنشاہِ ایران نے خط پھاڑ ڈالا ہے۔ خسرو پرویز کا غصہ خط پھاڑنے سے ٹھنڈ انہیں ہوا تھا۔ یمن پر ایران کی حکمرانی تھی اور بازان وہاں کا گورنر تھا۔ شہنشاہ ایران نے اپنے گورنر بازان کو خط بھیجا کہ حجاز میں محمد (ﷺ) نام کاایک آدمی ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اس نے لکھا کہ رسولِ کریمﷺ کو زندہ پکڑ کر یا آپﷺ کا سرکاٹ کر اس کے دربار (ایران)میں پیش کیا جائے۔
بازان نے یہ خط اپنے دو آدمیوں کو دے کر مدینہ بھیج دیا ،مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض لکھتے ہیں کہ بازان نے ان آدمیوں کو رسول اﷲﷺ کو پکڑ لانے یا قتل کرکے آپﷺ کا سر لانے کیلئے بھیجا تھا اور کچھ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بازان نے اسلام تو قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ حضورﷺسے اتنا متاثر تھا کہ آپ ﷺ کو اپنے شہنشاہ کے ارادے سے خبردار کرنا چاہتا تھا، بہرحال مؤرخ اس واقعے پر متفق ہیں کہ بازان کے بھیجے ہوئے دو آدمی رسول اﷲﷺ کے یہاں گئے تھے اور خسرو پرویز نے جو خط بازان کو لکھا تھا وہ آپﷺ کے حضور پیش کیا تھا۔
رسولِ خداﷺ نے خط دیکھااور آپﷺ نے مسکرا کر کہا کہ شہنشاہِ ایران گذشتہ رات اپنے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل ہو گیا ہے اور آج صبح سے ایران کا شہنشاہ شیرویہ ہے۔
’’گذشتہ رات کے قتل کی خبر مدینہ میں اتنی جلدی کیسے پہنچ گئی؟‘‘بازان کے ایک آدمی نے پوچھا اور کہنے لگا ’’کیا یہ ہمارے شہنشاہ کی توہین نہیں کہ یہ غلط خبر پھیلا دی جائے کہ اسے اس کے بیٹے نے قتل کر دیا ہے۔‘‘
’’مجھے میرے اﷲ نے بتایا ہے۔‘‘ رسولِ کریمﷺ نے کہا۔ ’’جاؤ !بازان کو بتا دو کہ اس کا شہنشاہ اب خسرو نہیں شیرویہ ہے۔‘‘رسولِ خداﷺ کو یہ خبر بذریعہ الہام ملی تھی۔
بازان کے آدمی واپس گئے اور اسے بتایا کہ رسول اﷲﷺ نے کیا کہا ہے۔ تین چار دنوں بعد بازان کو اپنے نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط ملا۔ اس میں تحریر تھا کہ خسرو پرویز کو فلاں رات ختم کر دیا گیاہے۔ یہ وہی رات تھی جو حضورﷺ نے بتائی تھی۔ کچھ دنوں بعد بازان کو رسولِ کریمﷺ کا خط ملا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ بازان پہلے ہی آپﷺ سے متاثر تھا۔ الہام نے اسے اور زیادہ متاثر کیا۔ رسول اﷲﷺ نے اسے یہ بھی لکھا تھا کہ اسلام قبول کرلینے کی صورت میں وہ بدستور یمن کا حاکم رہے گا اور اس کی حکمرانی کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔
بازان نے اسلام قبول کرلیا اور وہ حاکم ِ یمن رہا۔تھوڑے ہی عرصے بعد فوت ہو گیا۔ رسولِ اکرمﷺ نے یمن کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا اور ہر حصے کا الگ حاکم مقرر کیا۔ بازان کا بیٹاجس کا نام ’’شہر‘‘ تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اسے صنعاء اور اس کے گردونواح کے علاقے کا حاکم بنایا۔
…………bnb…………

یہ خبر اُڑی تھی کہ اسود عنسی یمن کے علاقہ مذحج میں چلا گیا ہے اور ایک غار میں رہتاہے جس کانام خبان ہے۔ اچانک یہ خبر ہواکی طرح سارے یمن میں پھیل گئی کہ اسود غار سے نکل آیا ہے اور اسے خدا نے نبوت عطا کی ہے اور اب وہ اسود عنسی نہیں، ’’رحمٰن الیمن‘‘ ہے۔خبر سنانے والے کسی شک کاا ظہار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ مصدقہ خبر سناتے تھے کہ اسود کو نبوت مل گئی ہے۔ انہوں نے اسے نبی تسلیم کرلیا تھا۔
’’جاکر دیکھو!‘‘ خبر سنانے والے کہتے پھرتے تھے۔’’ مذحج جا کر دیکھو ،رحمٰن الیمن مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ آگ کے شعلوں کو پھول بنا دیتاہے۔ چلو لوگوں چلو، اپنی روح کی نجات کیلئے چلو۔‘‘
جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا وہ بھی مذحج کو اٹھ دوڑے۔اسود چونکہ کاہن رہ چکا تھا اس لئے لوگ پہلے ہی تسلیم کرتے تھے کہ دیوتاؤں نے اسے کوئی پراسرار طاقت دے رکھی ہے۔اب اس نے نبوت کادعویٰ کیا تو لوگوں نے فوراً اس دعویٰ کو تسلیم کر لیا۔
غارِ خبان کے سامنے ہر لمحہ لوگوں کا ہجوم رہنے لگا۔ وہ اسود کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب رہتے تھے۔ وہ دن کو تھوڑے سے وقت کیلئے باہر نکلتا تھا اور غار کے قریب ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر لوگوں کو قرآن کی آیات کی طرز کے جملے سناتا اورکہتا تھا کہ ’’اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو اسے ہر روز خدا کی طرف سے ایک آیت اور راز کی ایک دو باتیں بتا جاتا ہے ۔‘‘
وہ لوگوں کو اپنے معجزے بھی دِکھایا کرتاتھا مثلاً جلتی ہوئی مشعل اپنے منہ میں ڈال لیا کرتا اور جب مشعل اس کے منہ سے نکلتی تو وہ جل رہی ہوتی تھی۔ اس نے ایک لڑکی کو ہوا میں معلق کرکے بھی دکھایا۔ ایسے ہی چند اور شعبدے تھے جو وہ لوگوں کو دکھاتاتھا اور لوگ انہیں معجزے کہتے تھے۔ ایک تو وہ چرب زبان تھا، دوسرے وہ خوش الحان تھا۔ اس کے بولنے کا انداز پرکشش تھا۔
اس نے یمن والوں کو یہ نعرہ دے کر ’’یمن! یمن والوں کا ہے۔‘‘ ان کے دل موہ لیے تھے۔ یمنی بڑی لمبی مدت سے ایرانیوں کے زیرِ نگیں چلے آ رہے تھے۔ ایرانی تسلط بازان کے قبولِ اسلام کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تو حجاز کے مسلمان آگئے۔ اس کے علاوہ وہاں یہودی ،نصرانی اور مجوسی بھی موجود تھے۔ یہ سب اسلام کی بیخ کنی چاہتے تھے۔ انہوں نے اسود عنسی کی نبوت کے قدم جمانے میں در پردہ بہت کام کیا۔
اسود اپنی نبوت کی صداقت ایک گدھے کے ذریعے ثابت کیا کرتا تھا۔ اس کے سامنے ایک گدھا لایا جاتا وہ گدھے کو کہتا بیٹھ جا۔ گدھا بیٹھ جاتا۔ پھر کہتا میرے آگے سر جھکا، گدھا سجدے کے اندازسے سر جھکا دیتا، گدھے کیلئے اس کا تیسراحکم ہوتا، میرے آگے گھٹنے ٹیک دے۔ گدھا اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا۔
دیکھتے ہی دیکھتے اسود عنسی کو یمن کے لوگوں نے نبی مان لیا، اسود نے ان لوگوں کو ایک فوج کی صورت میں منظم کر لیا، اس نے سب سے پہلے نجران کا رخ کیا۔ وہاں رسول ِکریمﷺ کے مقررکیے ہوئے دو مسلمان حاکم تھے۔ خالد ؓبن سعید اور عمروؓ بن حزم۔ اسود کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا جو نجران میں داخل ہوا تو وہاں کے باشندے بھی اس کے ساتھ مل گئے۔  دونوں مسلمان حاکموں کیلئے پسپائی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے راہِ فرار اختیار کی۔
اسود عنسی اس پہلی فتح سے سرشار ہو گیا اوراس کے لشکر کی تعدا دبھی زیادہ ہو گئی۔ اس نے نجران میں اپنی حکومت قائم کرکے صنعاء کی طرف پیش قدمی کی۔ وہاں بازان کا بیٹا شہر حکمران تھا۔ اس کے پاس فوج تھوڑی تھی پھر بھی وہ مقابلے میں ڈٹ گیا۔ اس کی للکار نے اپنی فوج کے قدم اکھڑنے نہ دیئے۔ لیکن شہر بن بازان چونکہ اپنی فوج کا حوصلہ قائم رکھنے کیلئے سپاہیوں کی طرح لڑ رہا تھا، اس لئے شہید ہو گیا۔ اِس سے اُس کی فوج کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔
اسود کے خلاف لڑنے والے وہ یمنی بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن شکست کی صورت میں جان کا خطرہ مسلمانوں کو تھا۔ انہیں اسود کے لشکر کے ہاتھوں قتل ہونا تھا۔ اسود کسی مسلمان کو نہیں بخشتا تھا چنانچہ مسلمان جانیں بچا کر نکل گئے اور مدینہ جا پہنچے۔
اسود عنسی جو اب’’ رحمٰن الیمن‘‘ کہلاتا تھا، حضرموت، بحرین، احساء اور عدن تک کے تمام علاقوں پر بھی قبضہ کرکے تمام یمن کا بادشاہ بن گیا۔
اسلام کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔شمال کی طرف سے رومیوں کے حملے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا۔ اس خطرے کو ختم کرنے کیلئے رسولِ خداﷺ نے ایک لشکر رومیوں پر حملے کیلئے تیار کیا تھا، جس کے سالارِ اعلیٰ بائیس سالہ نوجوان اسامہؓ تھے۔ جو رسولِ کریمﷺ کے آزادکیے ہوئے غلام زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے تھے۔ زیدؓ بھی سالار تھے اور وہ موتہ کے معرکے میں شہید ہو گئے تھے۔
یمن کو ایک خودساختہ نبی سے نجات دلانے کیلئے بہت بڑے لشکر کی ضرورت تھی۔ لیکن لشکر رومیوں کے خلاف لڑنے کیلئے جا رہا تھا، اگر رومیوں پر حملے ملتوی کرکے اس لشکر کو یمن بھیج دیا جاتا تو رومی یہ فائدہ اٹھاسکتے تھے کہ مدینہ پر حملہ کر دیتے۔ یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔رسولِ اکرمﷺ نے دوسری صورت یہ سوچی کہ یمن میں جو مسلمان مجبوری کے تحت رہ گئے ہیں اور جنہوں نے اسود عنسی کی اطاعت قبول کرلی ہے انہیں اسود کا تختہ الٹنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ اس طریقۂ کار کو حضورﷺ کے تمام سالاروں نے پسند کیا۔ اس مقصد کیلئے چند ذہین قسم کے افراد کو یمن بھیجنا تھا۔
رسولِ اکرمﷺ کی نظر انتخاب ’’قیس بن ہبیرہ‘‘ پر پڑی۔آپﷺ نے انہیں بلا کر یمن جانے کا مقصد سمجھایا اور پوری طرح ذہن نشین کرایا کہ ’’اُنہیں اپنے آپ کو چھپا کر وہاں کے مسلمانوں سے ملنا ملانا ہے اور ایک زمین دوز جماعت تیار کرنی ہے جو اس جھوٹے نبی اور عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے خود ساختہ بادشاہ کا تختہ الٹے۔‘‘ آپﷺ نے قیس بن ہبیرہ سے یہ بھی کہا کہ وہ مدینہ سے اپنی روانگی کو بھی خفیہ رکھیں اور یمن تک اس طرح پہنچیں کہ انہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔
اس پُرخطر مہم کو اور زیادہ مستحکم کرنے کیلئے رسولِ کریمﷺ نے دبر بن یحنس کو یک خط دے کر یہ کہا کہ یمن میں کچھ مسلمان سردار موجود ہیں جنہوں نے مجبوری کے تحت اسود کی اطاعت قبول کرلی ہے ۔یہ خط انہیں پڑھواکر ضائع کر دیناہے اور باقی کام قیس بن ہبیرہ کریں گے۔
…………bnb…………

اسودعنسی نے جب صنعاء پر حملہ کیاتھا تو وہاں کے حاکم ’’شہر بن بازان ‘‘نے مقابلہ کیا۔ لیکن وہ شہید ہو گیا تھا۔ اس کی جواں سال بیوی جس کا نام آزاد تھا، اسود کے ہاتھ چڑھ گئی۔ آزاد غیر معمولی طور پر حسین ایرانی عورت تھی، اس نے اسود کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن اسود نے اسے جبراً اپنی بیوی بنا لیا تھا۔ آزاد اب اس شخص کی اسیر تھی جس سے وہ انتہا درجے کی نفرت کرتی تھی۔ اکیلی عورت کر بھی کیا سکتی تھی، اس کی خوش نصیبی صرف اتنی تھی کہ اسود عورتوں کا دلدادہ تھا، اس نے اپنے حرم میں بیسیوں عورتیں رکھی ہوئی تھیں۔ اسے تحفے میں بھی نوجوان لڑکیاں ملا کرتی تھیں۔ وہ ہر وقت عورت اور شراب کے نشے میں بد مست رہتا تھا۔
رسولِ اکرمﷺ کے بھیجے ہوئے قیس بن ہبیرہ چوری چھپے سفر کرکے اور بھیس بدل کر صنعاء پہنچے۔ اسود نے صنعاء کو اپنا دارالحکومت بنالیا تھا۔ادھر وبر بن یحنس ایک مسلمان سردارکے ہاں خط لے کر پہنچ گئے ۔اس مسلمان سردار نے یہ یقین تو دلا دیا کہ وہ ایسے چند ایک مسلمان سرداروں کو اکھٹا کر لے گا جنہوں نے دل سے اسود کی اطاعت قبول نہیں کی۔ لیکن اسود کا تختہ الٹنا ممکن نظر نہیں آتا تھا کیونکہ وہ صرف بادشاہ ہی نہیں ،یمن کے باشندے اسے اپنا نبی مانتے تھے۔
قیس بن ہبیرہ ایک ایسے ٹھکانے پر پہنچ گئے جہاں رسولِ کریمﷺ کے شیدائی مسلمان موجود تھے۔ ان مسلمانوں نے بھی وہی بات کہی جو مسلمان سردار نے کہی تھی لیکن ان مسلمانوں نے ایسی کوئی بات نہ کہی کہ وہ اس زمین دوز تحریک میں شامل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے پر عزم لہجے میں کہا کہ ’’وہ خفیہ طریقہ سے وفادار مسلمانوں کو اکھٹا کرلیں گے۔‘‘
’’ہم اس جھوٹے نبی کو ختم کرنے کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرسکتے۔‘‘ ایک مسلمان نے کہا۔ ’’جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا تم لوگ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اس شخص کو قتل کر دیا جائے؟‘‘
’’قتل کون کرے گا؟‘‘ ایک اور مسلمان نے پوچھا۔ ’’اور اسے کہاں قتل کیا جائے گا۔وہ محل کے باہر نکلتا ہی نہیں ۔یہ بھی معلوم ہو اہے کہ محل کے اردگرد محافظوں کا بڑا سخت پہرہ ہوتا ہے۔
کیا ہم میں کوئی ایساآدمی نہیں جو اسلام کے نام پر اپنی جان قربان کردے؟‘‘ قتل کا مشورہ دینے والے مسلمان نے پوچھا۔
’’اس طرح جان دینے سے کیا حاصل کہ جسے قتل کرنا ہے اس تک پہنچ ہی نہ سکیں؟‘‘ اس مسلمان نے کہا۔ ’’بہرحال ہمیں خفیہ طریقے سے یہ تحریک چلا نی ہے کہ کم از کم مسلمان بغاوت کیلئے تیار ہو جائیں۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages