Featured Post

Khalid001

31 May 2019

Khalid039


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  39
اسود عنسی نے یمن پر قبضہ کر کے پہلا کام یہ کیا تھا کہ ایران کے شاہی اور دیگر اعلیٰ خاندانوں کے جو ایرانی اس کے ہاتھ چڑھ گئے تھے انہیں اس نے مختلف طریقوں سے ذلیل وخوار کر کے رکھ دیا تھا۔ ان کی حالت زر خرید غلاموں سے بدتر کر دی گئی تھی۔ لیکن اسود کی حکومت میں سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ اس کے پاس نہ کوئی تجربہ کار سالار تھا نہ کوئی کاروبارِ حکومت چلانے والا قابل آدمی تھا۔ یہ خطرہ تو وہ ہر لمحہ محسوس کرتا تھا کہ مسلمان اس پر حملہ کریں گے۔ وہ خود عسکری ذہن نہیں رکھتا تھا اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اسے ایرانیوں کا ہی تعاون حاصل کرنا پڑا۔
اس کے سامنے تین نام آئے۔ ان میں ایک ایرانی کا نام ’’قیس بن عبدیغوث‘‘ جو بازان کے وقتوں کا مانا ہوا سالار تھا۔ دوسرے دو حکومت چلانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ایک تھا فیروز اور دوسرا داذویہ۔ فیروز نے اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ صحیح معنوں میں اور سچے دل سے مسلمان تھا۔ اسود نے قیس بن عبدیغوث کو سالارِاعلیٰ بنا دیا اورفیروز اور داذویہ کو وزیر مقرر کیا۔ تینوں نے اسود کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور اسے یقین دلایا کہ وہ ہر حالت میں اس کے وفا دار ہوں گے۔
ایک روز فیروز باہر کہیں گھوم پھر رہاتھا کہ ایک گداگر نے اس کا راستہ روک لیا اور ہاتھ پھیلایا۔ ’’تو مجھے معذور نظر نہیں آتا۔‘‘ فیروز نےاسے کہا۔ ’’اگر تو معذور ہے تو تیری معذوری یہی ہے کہ تجھ میں غیرت اور خودداری نہیں۔‘‘
’’تو نے ٹھیک پہچانا ہے۔‘‘ گداگر نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔ ’’میری معذوری یہی ہے کہ میری غیرت مجھ سے چھن گئی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تیری بھی یہی معذوری ہے۔ میں نے بھیک کیلئے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ میں اپنی غیرت واپس مانگ رہاہوں۔‘‘
’’اگر تو پاگل نہیں ہو گیا تو مجھے بتا کہ تیرے دل میں کیا ہے؟‘‘ فیروز نے گداگر سے پوچھا۔
’’میرے دل میں اﷲ کے اس رسول کا نام ہے جس کا تو شیدائی ہے۔‘‘ گداگر نے فیروز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’اگر اسود عنسی کی شراب تیری رگوں میں چلی نہیں گئی تومیں جھوٹ نہیں کہہ رہا کہ تو نے دل پر پتھر رکھ کر اسود کی وزارت قبول کی ہے۔‘‘
فیروز نے اِدھر اُدھردیکھا ۔وہ سمجھ گیا کہ یہ مدینہ کا مسلمان ہے لیکن اسے یہ بھی خطرہ محسوس ہوا کہ یہ اسود کاکوئی مخبر بھی ہو سکتا ہے۔
’’مت گھبرا فیروز۔‘‘ گداگر نے کہا۔ ’’میں تجھ پر اعتبار کرتا ہوں تو مجھ پر اعتبار کر۔ میں تجھ کو اپنا نام بتا دیتا ہوں قیس بن ہبیرہ۔ مجھے رسول اﷲﷺ نے بھیجا ہے۔‘‘
’’کیا تو سچ کہتاہے کہ رسول اﷲﷺ نے تجھے میرے پاس بھیجا ہے؟‘‘ فیروز نے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’نہیں!‘‘ قیس نے کہا۔ ’’رسول اﷲﷺ نے یہ کہا تھا کہ وہاں چلے جاؤ ۔اﷲ کے سچے بندے مل جائیں گے۔‘‘
’’تجھے کس نے بتایا ہے کہ میں سچا مسلمان ہوں۔‘‘ فیروز نے پوچھا۔
’’اپنے رسول ﷺ کا نام سن کر رسالت کے شیدائیوں کی آنکھوں میں جو چمک پیدا ہو جاتی ہے وہ میں نے تیری آنکھوں میں دیکھی ہے۔‘‘قیس نے کہا ۔’’تیری آنکھوں میں چمک کچھ زیادہ ہی آگئی ہے۔‘‘
فیروز نے قیس سے کہا کہ وہ چلا جائے۔ اس نے قیس کو ایک اور جگہ بتا کر کہا کہ کل سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے وہ وہاں بیٹھا گداگری کی صداس لگاتا رہے۔
…………bnb…………

اگلی شام فیروز اس جگہ سے گزرا جو اس نے قیس بن ہبیرہ کو بتائی تھی۔ فیروزکے اشارے پر قیس گداگروں کے انداز سے اٹھ کر فیروز کے پیچھے پیچھے ہاتھ پھیلا کر چل پڑا۔
’’رسولِ خداﷺ تک پیغام پہنچا دینا کہ آپﷺ کے نام پر جان قربان کرنے والا ایک آدمی اسود عنسی کے سائے میں بیٹھا ہے۔‘‘ فیروز نے چلتے چلتے ادھر ادھر دیکھے بغیر دھیمی سی آوا زمیں کہا۔ ’’اور میں حیران ہوں کہ اتنی جنگی طاقت کے باوجود رسول اﷲﷺ نے یمن پرحملہ کیوں نہیں کیا۔‘‘
’’ہرقل کا لشکر ارد ن میں ہمارے سر پر کھڑا ہے۔‘‘ قیس نے کہا۔ ’’ہمارا لشکر رومیوں پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔ کیا ہم دو آدمی پورے لشکر کا کام نہیں کر سکیں گے؟‘‘
’’کیا تو نے یہ سوچاہے کہ دو آدمی کیاکر سکتے ہیں؟‘‘ فیروز نے پوچھا۔
’’قتل!‘‘ قیس نے جواب دیا اور کہنے لگا۔ ’’مجھ سے یہ نہ پوچھناکہ اسود کو کس طرح قتل کیا جا سکتا ہے ؟کیا تو نے اپنے چچاکی بیٹی آزاد کو دل سے اتار دیا ہے؟‘‘
فیروز چلتے چلتے رک گیا۔ اس کے چہرے پر کچھ اور ہی طرح کی رونق آ گئی جیسے خون اچانک ابل پڑا ہو۔
’’تو نے مجھے روشنی دِکھا دی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’قتل کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ،میری چچا زاد بہن کا نام لے کر تو نے میرا کام آسان کردیا ہے۔یہ کام میں کروں گا۔تو اپناکام کرتا رہ۔ جا قیس !زندہ رہے تو ملیں گے۔‘‘
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فیروز کے دل میں اسود کی جو نفرت دبی ہوئی تھی وہ ابھر کر سامنے آگئی۔ اس نے اسود عنسی کے ایرانی سالار قیس بن عبدیغوث اور داذویہ کو اپنا ہم راز بنا لیا،اسود کا قتل ایک وزیر کیلئے بھی آسان نہیں تھا جو اس کے ساتھ رہتا تھا۔ اسود کے محافظ اسے ہر وقت اپنے نرغے میں رکھتے تھے۔ سوچ سوچ کران تینوں ایرانیوں نے یہ فیصلہ کیاکہ آزاد کو اس کام میں شریک کیا جائے۔ لیکن قتل آزاد کے ہاتھوں نہ کرایا جائے۔
آزاد تک رسائی آسان نہیں تھی۔اسود کو شک ہو گیا تھا کہ تینوں ایرانی اسے دل سے پسند نہیں کرتے۔ اُس نے اِن پر بھروسہ کم کر دیا تھا۔آزاد اور فیروز کی ویسے بھی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آزاد تک پیغام پہنچانے کیلئے عورت کی ہی ضرورت تھی۔ ایک وزیر کیلئے ایسی عورت کا حصول مشکل نہ تھا۔ فیروز نے محل کی ایک ادھیڑ عمر عورت کو اپنے پاس بلایا۔ وہ بھی مسلمان تھی۔ فیروز نے اسے کہا کہ وہ اسے اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ پسند کرے تو وہ اسے اپنے ہاں لا سکتا ہے۔ فیروز نے اسے کچھ لالچ دیا۔ ایک یہ تھا کہ اس سے اتنا زیادہ کام نہیں لیا جائے گا، جتنا اب لیا جاتا ہے۔ وہ عورت مان گئی۔فیروز نے اسی روز اسے اپنے ہاں بلا لیا۔
…………bnb…………

ایک روز آزاد اکیلی بیٹھی تھی۔ وہ ہر وقت جلتی اور کڑھتی رہتی تھی ۔اسے کوئی راہِ فرار نظر نہیں آتی تھی،اس کیفیت میں فیروز کی وہی خادمہ اس کے پاس آئی۔
’’میں کسی کام کے بہانے آئی ہوں۔‘‘ خادمہ نے کہا۔ ’’لیکن میں آئی دراصل تیرے پاس ہوں، کیا تو اپنے چچا زاد بھائی سے کبھی ملی ہے۔ جو رحمٰن الیمن کا وزیر ہے؟‘‘
’’کیا تو جاسوسی کرنے آئی ہے؟‘‘ آزاد نے غصیلی آواز میں کہا۔
’’نہیں۔‘‘ خادمہ نے کہا۔ ’’مجھ پر یہ شک نہ کر کہ میں اس جھوٹے نبی کی مخبر ہوں۔میرے دل میں بھی اسود کی اتنی ہی نفرت ہے جتنی تیرے دل میں ہے۔‘‘
’’میں نہیں سمجھ سکتی کہ تو میرے پاس کیوں آئی ہے۔‘‘ آزاد نے کہا۔
’’فیروز وزیر نے بھیجا ہے۔‘‘ خادمہ نے کہا۔
’’میں فیروز کا نام بھی نہیں سننا چاہتی۔‘‘ آزاد نے کہا۔ ’’اگر ا س میں غیرت ہوتی تو وہ اس شخص کا وزیر نہ بنتا جس نے اس کی چچا زاد بہن کو بیوہ کیا اور اسے جبراً اپنی بیوی بنا لیا۔‘‘
آزاد شاہی خاندان کی عورت تھی۔ وہ اِن لونڈیوں اورباندیوں کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اس نے اندازہ کرلیا کہ یہ عورت مخبری کرنے نہیں آئی۔ اس نے خادمہ سے پوچھا کہ فیروز نے اس کیلئے کیا پیغام بھیجا ہے۔ خادمہ نے بتایا کہ وہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ آزاد نے اسے ایک جگہ بتا کر کہا کہ فیروز وہیں رات کو آجائے۔
لیکن ہمارے درمیان ایک دیوار حائل ہو گی۔ آزاد نے کہا۔’’ اس میں ایک جگہ ایک دریچہ ہے جس میں سلاخیں لگی ہوئی ہیں۔ فیروز سلاخوں کے دوسری طرف کھڑا ہوکر بات کر سکتا ہے۔‘‘
خادمہ نے آزادکا پیغام فیروز کو دے دیا۔
اسی رات فیروز محل کے اردگرد کھڑی دیوار کے اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سلاخوں والا چھوٹا سا دریچہ تھا۔آزاد اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔
’’تیری خادمہ پہ مجھے اعتبار آگیا ہے۔‘‘ آزاد نے کہا۔ ’’تجھ پر میں کیسے اعتبار کروں ؟میں نہیں مانوں گی کہ تو مجھے اس وحشی سے آزاد کرانے کی سوچ رہا ہے۔‘‘
’’کیا تو اس وحشی کے ساتھ خوش ہے؟‘‘ فیروز نے پوچھا۔
’’اس سے زیادہ قابلِ نفرت آدمی میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔‘‘ آزاد نے کہا۔’’تیرا یہاں زیادہ دیر کھڑے رہنا ٹھیک نہیں۔ فوراً بتا تجھے اتنے عرصے بعد میرا کیوں خیال آیا ہے؟‘‘
’’کیااس وقت اسود کے ادھر نکل آنے کا خطرہ ہے؟‘‘فیروز نے پوچھا۔’’یا ابھی وہ تمہیں…‘‘
’’نہیں!‘‘ آزاد نے کہا ۔’’پہرہ داروں کاخطرہ ہے۔ اسود اس وقت شراب کے نشے میں بے سدھ پڑا ہے۔ اس کے پاس عورتو ں کی کمی نہیں ہے۔‘‘
’’میں صرف تجھے نہیں پورے یمن کو آزاد کراؤں گا۔‘‘ فیروز نے کہا ۔’’لیکن تیری مدد کے بغیر میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’مجھے بتا فیروز!‘‘ آزاد نے پوچھا۔ ’’میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘
’’کسی رات مجھے اسود تک پہنچا دے۔‘‘ فیروزنے کہا۔ ’’اگلے روز وہاں سے اس کی لاش اٹھائی جائے گی۔کیا تو یہ کام کر سکتی ہے؟‘‘
’’کل رات اس وقت کے کچھ بعد اس دیوار کے باہر اس جگہ آ جانا جو میں تمہیں بتاؤں گی۔‘‘
آزاد نے کہا۔ ’’میرا کمرہ اس دیوارکے بالکل ساتھ ہے۔ تم دیوار کسی اور طریقے سے پھلانگ نہیں سکو گے۔ کمند پھینکنی پڑے گی۔ رسّا لیتے آنا۔ اسے دیوار کے اوپر سے اندر کو پھینکنا۔ میں اسے کہیں باندھ دوں گی۔ تم رسّے سے اوپر آجانا۔‘‘
اگلی رات فیروز اس طرح چھپتا چھپاتا اس دیوار کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا کہ اسے پہرہ دار کے گزر جانے تک چھپنا پڑتا تھا۔وہ اس جگہ پہنچ گیا جو اسے آزاد نے بتائی تھی۔ اس نے دیوار پر رسّا پھینکا جس کا اگلا سرا دوسری طرف نیچے تک چلا گیا۔ آزاد موجود تھی، اس نے رسّا پکڑ لیااور کہیں باندھ دیا۔ فیروز رسّے کوپکڑ کر اور پاؤں دیوار کے ساتھ جماتا دیوار پر چڑھ گیا۔ اس نے رسّا دیوار پر باندھ دیااور اس کی مددسے نیچے اتر گیا۔
آزاد اسے اپنے کمرے میں لے گئی اور آدھی رات کے بعد تک اسے کمرے میں ہی رکھا کیونکہ اسود کے بیدار ہونے کا خطرہ تھا۔
’’آدھی رات کے بعد وہ بے ہوش اور بے سدھ ہو جاتا تھا۔‘‘ آزاد نے کہا۔ ’’یہ شخص انسانوں کے روپ میں دیو ہے،ایسا دیو جو شراب پیتا او رعورتوں کو کھاتا ہے۔ تم نے اس کی جسامت دیکھی ہے؟ اتنا لمبا اور چوڑا جسم تلوار کے ایک دو وار کو شراب کی طرح پی جائے گا۔ اسے ہلاک کرناآسان نہیں ہو گا۔‘‘
’’اسے ہلاک کرنا ہے خواہ میں خود ہلاک ہو جاؤں۔‘‘فیروز نے کہا۔
آزاد نے کمرے کا دروازہ ذرا کھولا اور باہر دیکھا ۔اس غلام گردش کے اگلے سرے پرایک پہرہ دار کھڑا رہتا تھا۔ وہ سائے کی طرح کھڑا نظر آ رہا تھا۔صاف پتا چلتا تھا کہ اس طرف اس کی پیٹھ ہے۔ آزاد اپنے کمرے سے نکلی اور دبے پاؤں اسود کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ ہلکی روشنی والا ایک فانوس جل رہا تھا۔ اسود پیٹھ کے بل بستر پر پڑا خراٹے لے رہا تھا۔ مؤرخ بلاذری نے اس دور کی تحریروں کے دو حوالے دے کر لکھا ہے کہ جب آزاد اسود کو دیکھ کر واپس آئی تو اس کاانداز ایسا تھا،جیسے ایک شعلہ آیا ہو۔ یہ انتقام اور نفرت کا شعلہ تھا۔
’’آؤ فیروز !‘‘اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’وہ بے ہوش پڑا ہے۔‘‘
فیروز آزاد کے ساتھ کمرے سے نکل گیا اور دبے پاؤں آزاد کے پیچھے اسود کے کمرے میں داخل ہوا۔ اسود جنگلی سانڈ جیسا انسان تھا۔ کمرے میں شراب اور گناہوں کا تعفن تھا۔ جانے ایسے کیوں ہوا، اسود بیدار ہو گیا۔ اپنے وزیر اور اپنی حسین ایرانی بیوی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ آزاد کو وہ قابلِ اعتماد سمجھتا تھا۔ فیروز کو دیکھ کر اسے کچھ شک ہوا ہو گا۔
’’اس وقت کیا مصیبت آ گئی ہے؟‘‘ اسود نے نشے سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ فیروز نے ایک لمحہ ضائع نہ کیا۔تلوار کھینچی اور پوری طاقت سے اسود کی گردن پر وار کیا۔ اسود نے گردن بچا لی اور تلوار ا اس کے ننگے سر پر لگی۔ اسود کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلیں اور بستر سے لڑھک کر دوسری طرف گرا۔غلام گردش میں دوڑتے قدموں کی دھمک سنائی دی۔ آزاد تیزی سے باہر نکلی اور دروازہ بند کر لیا۔ پہرہ دار دوڑا آ رہا تھا۔ آزاد نے تیزی سے آگے بڑھ کرپہر دار کو روک لیا۔ کمرے سے اسود کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔
’’واپس اپنی جگہ چلے جاؤ۔‘‘ آزاد نے پہرہ دار کو تحکمانہ لہجے میں کہا۔’’رحمٰن الیمن کے پاس فرشتہ آیا ہوا ہے۔وحی نازل ہو رہی ہے ۔جاؤ ادھر نہ آنا۔‘‘
مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ پہرہ دار نے احترام سے سر جھکا لیا اور چلا گیا۔
آزاد اندر آئی تو دیکھا کہ اسود فرش سے اٹھ کر بستر پر گر رہا ہے، اور فیروز دوسرے وار کیلئے آگے بڑھ رہا ہے۔ اسود بستر پرگر پڑا ۔اس کا سر پلنگ کے بازوپر تھااور سانڈوں کی طرح ڈکار رہا تھا۔
’’تم اسے مار نہیں سکو گے فیروز۔‘‘ آزاد نے آگے بڑھ کر کہااور اسود کے بال جو لمبے تھے۔ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کو کھینچے اور وہ خود فرش پر بیٹھ گئی۔’’ اب فیروز، گردن کاٹ دو۔‘‘
فیروز نے ایک ہی وار سے اسود کی گردن صاف کاٹ کر سر جسم سے الگ کر دیا۔ فیروز کے ساتھیوں قیس عبدیغوث اور داذویہ کو معلوم تھا کہ آج رات کیا ہونے والا ہے۔ فیروز نے اسود کا سر اٹھایا اور ان دونوں کے ہاں جا پہنچا۔ محافظوں اور پہرہ داروں کو رحمٰن الیمن کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے محل کو محاصرے میں لے لیا۔ آزاد فیروز کے ساتھ رہی۔ محل میں بھگدڑ مچ گئی۔ حرم کی عورتوں کا ہجوم چیختا چلاتا باہر کو بھاگا۔
ادھر رسول اﷲﷺ کے بھیجے ہوئے قیس بن ہبیرہ اور دبر بن یحنس سرکردہ مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ کر چکے تھے اور دن رات زمین دوز سرگرمیوں سے مسلمانوں کے حوصلے بحال کر چکے تھے۔
اگلی صبح صادق میں کچھ وقت باقی تھا۔ محل کی چھت سے اذا ن کی آواز بلند ہوئی۔ لوگ حیران ہوئے کہ محل میں اذان؟ لوگ محل کی طرف دوڑے۔ اسود کی فوج حکم کی منتظر تھی لیکن حکم دینے والا قیس عبدیغوث تھا۔ وہی سپہ سالار تھا۔ اس نے فوج کو باہر نہ آنے دیا۔
اسود کا سر محل کے باہر لٹکا دیا گیا۔ محل کی چھتوں سے للکار بلند ہو رہی تھی ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں اوراسود عنسی کذاب ہے۔‘‘
اسود کے پیروکاروں پر خوف طاری ہو گیا اور مسلمان مسلح ہو کر نکل آئے اور انہوں نے یمنیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔
مصر کے مشہور صحافی اور سابق وزیرِ معارف محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب’’ ابو بکرؓ۔ صدیق اکبرؓ‘‘ میں فیروز کی زبانی ایک روایت پیش کی ہے۔ فیروز نے کہا تھا۔ ’’اسود کو قتل کر کے ہم نے وہاں کا انتظام پہلے کی طرح رہنے دیا۔ یعنی جس طرح اسود کے تسلط سے پہلے تھا۔ ہم نے قتل کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ معاذؓ بن جبل کو بلایا کہ وہ ہمیں با جماعت نما زپڑھائیں۔ ہم بے انتہا خوش تھے کہ ہم نے اسلام کے اتنے بڑے دشمن کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن اچانک اطلاع ملی کہ رسولِ خداﷺ وفات فرما گئے ہیں۔ اس خبر سے یمن میں ابتری سی پھیل گئی۔‘‘
فیروز کو مسلمانوں نے صنعاء کا حاکم مقررکردیا۔
یہ واقعہ مئی 632ء کا ہے۔قیس بن ہبیرہ اور دبر بن یحنس جون 632ء کے دوسرے ہفتے میں یہ خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے کہ جھوٹا نبی اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور یمن پر اسلامی پرچم لہرا دیا گیا ہے لیکن مدینہ سوگوار تھا۔ 5 جون 632ء (12 ربیع الاول 11 ہجری) رسولِ خداﷺ وفات  فرما گئے تھے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages