Featured Post

Khalid001

31 May 2019

Khalid040


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  40
رسول اﷲﷺ کے وفات کی خبر جوں جوں پھیلتی گئی، یہ جنگل کی آگ ہی ثابت ہوئی۔ جہاں پہنچی وہاں شعلے اٹھنے لگے۔یہ شعلے بغاوت کے تھے۔ایک تو اسلام کے دشمن تھے جنہوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ دوسرے وہ قبائل تھے جنہوں نے صرف اس لئے اسلام قبول کیا تھا کہ ان کے سردار مسلمان ہو گئے تھے۔ ایسے قبیلے اتنے زیادہ نہیں تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کر لیا تھا۔ باقی تمام قبیلے اسلام سے نہ صرف منحرف ہو گئے بلکہ انہوں نے مدینہ کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کر دیا اور مدینہ پر حملہ کی باتیں کرنے لگے۔
خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے باغی قبیلوں کو پیغام بھیجے کہ وہ اسلام کو نہ چھوڑیں۔ قاصد جہاں بھی گئے وہاں سے انہیں جواب ملا کہ ہمارا قبولِ اسلام صرف ایک شخص (رسولِ کریمﷺ) کے ساتھ معاہدہ تھا۔ وہ شخص نہیں رہا تو معاہدہ بھی نہیں رہا۔ اب ہم آزاد ہیں اور ہم اپنا راستہ اختیار کریں گے۔
تیسرا اور سب سے خطرناک فتنہ جھوٹے مدعیان نبوت کا تھا۔ رسولِ کریمﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ان کی پشت پناہی رومی، ایرانی اور یہودی کر رہے تھے۔ ان جھوٹے نبیوں میں ایک خوبی مشترک تھی۔ وہ شعبدے باز اور جادوگر تھے۔ شعبدے بازی اور جادو گری میں یہودی ماہر تھے۔ اَسوَد عنسی کا ذکر ہو چکا ہے۔ وہ بھی شعبدہ باز تھا۔
نبوت کے دوسرے دو دعویدار طلیحہ اور مسیلمہ تھے۔مسیلمہ خاص طور پر شعبدے بازی میں مہارت رکھتا تھا۔ ایسے شعبدے پہلے کوئی نہ دکھا سکا تھا۔ مثلاًوہ پرندے کے پر اس کے جسم سے الگ کر کے دکھاتا پھر پرندے اور پروں کو اکھٹے ہاتھوں میں لے کر اوپر پھینکتا تو پر پرندے کے ساتھ ہوتے اور وہ پرندہ اڑ جاتا۔
مسیلمہ بد صورت انسان تھا۔اس کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے یہ انسان کا نہیں حیوان کا چہرہ ہو۔ خدوخال بھی حیوانوں جیسے تھے۔ اس کا قد چھوٹا تھا۔ چہرے کا رنگ زرد تھا لیکن اس کے جسم میں غیر معمولی طاقت تھی۔ اس کی آنکھیں غیر قدرتی طور پر چھوٹی اور ناک چپٹی تھی۔ یہ ایک بھدے آدمی کی تصویر ہے جسے کوئی بد صورت انسان بھی پسند نہیں کر سکتا۔ مگر جو عورت خواہ وہ کتنی ہی حسین اور سرکش کیوں نہ ہوتی، اس کے قریب جاتی تو اس کی گرویدہ ہو جاتی اور اس کے اشاروں پر ناچنے لگتی تھی۔
مسیلمہ نے رسول اﷲﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کیا تھا،اور دو قاصدوں کے ہاتھ ایک خط ان الفاظ میں لکھا تھا:
’’مسیلمہ رسول اﷲ کی جانب سے،محمدرسول اﷲ کے نام! آپ پر سلامتی ہو۔ بعدہٗ واضح ہو کہ میں رسالت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہوں۔ لہٰذہ نصف زمین میری ہے اور نصف قریش کی۔ مگر قریش انصاف نہیں کر رہے۔‘‘
رسول اکرمﷺ نے خط پڑھا اور قاصدوں سے پوچھا کہ ’’مسیلمہ کے اس عجیب و غریب پیغام کے متعلق ان کی کیا رائے ہے؟‘‘
’’ہم وہی کہتے ہیں جو خط میں لکھا ہے۔‘‘ ایک قاصد نے جواب دیا۔
’’خداکی قسم!‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔ ’’اگر قاصدوں کے قتل کو میں روا سمجھتا تو تم دونوں کے سر تن سے جدا کر دیتا۔‘‘
آپﷺ نے مسیلمہ کو اس خط کے جواب میں لکھوایا:
’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم!محمد رسول اﷲﷺ کی جانب سے ،مسیلمہ کذاب کے نام۔ زمین اﷲ کی ہے، وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔‘‘
اس کے بعد مسیلمہ کو سب ’’کذاب‘‘ کہنے لگے اور اسلام کی تاریخ نے بھی اسے ’’مسیلمہ کذاب‘‘ ہی کہا ہے۔
رسولِ خداﷺ ان دنوں بسترِ علالت پہ تھے۔آپﷺ نے ضروری سمجھا کہ جس شخص نے یہ جسارت کی ہے کہ رسولِ کریمﷺ سے زمین کا مطالبہ کر دیا ہے، اس کی سرگرمیوں اور لوگوں پراس کے اثرات کو فوراً ختم کیا جائے۔ آپﷺ کی نگاہ ایک شخص نہاراً الرّجال پر پڑی۔اس شخص نے اسلام قبول کرکے دین کی تعلیم حاصل کی تھی۔ قرآن کی آیات پر اسے عبور حاصل تھااور وہ عالم و فاضل کہلانے کے قابل تھا۔
رسولِ مقبولﷺ نے اسے بلا کر ہدایات دیں کہ وہ یمامہ جائے اور لوگوں کو اسلامی تعلیم دے۔ آپﷺ نے الرّجال کو اچھی طرح سمجھایا کہ مسیلمہ کے اثرات زائل کرنے ہیں تاکہ خون خرابے کے بغیر ہی یہ شخص گمنام اور اس کا دعویٰ بے اثر ہو جائے۔رسول اﷲﷺ کے حکم کی تعمیل میں الرّجال روانہ ہو گیا۔
…………bnb…………

مسیلمہ بن حبیب جو مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہوا تھا۔رات کو اپنے دربار میں بیٹھاتھا۔شراب کا دور چل رہا تھا۔دربار میں اس کے قبیلے کے سرکردہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب اسے اﷲ کا رسول مانتے تھے۔ اس نے اپنے مذہب کو اسلام ہی کہا تھا۔ لیکن کچھ پابندیاں ہٹا دی تھیں مثلاً اس نے اپنی ایک آیت گھڑ کر اپنے پیروکاروں کو سنائی کہ اس پر وحی نازل ہو ئی ہے کہ شراب حلال ہے۔ دیگر عیش و عشرت کو بھی اس نے حلال قرار دے دیا ہے۔
اس کا دربار جنت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ نہایت حسین اور جوان لڑکیاں اس کے دائیں بائیں بیٹھی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں۔ مسیلمہ کسی لڑکی کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اور کسی کے گالوں کو تھپک کر اور کسی کے زانو پر ہاتھ رکھ کر بات کرتا تھا۔
ایک آدمی دربار میں آیا ،وہ بیٹھا نہیں کھڑا رہا۔ سب نے اس کی طرف دیکھا۔ مسیلمہ نے جیسے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھی ہو۔ اسے معلوم تھا کہ وہ کسی کے کہے بغیر بیٹھ جائے گا مگر وہ کھڑا رہا۔
’’کیاتو ہم پر پہرہ دینے آیا ہے؟‘‘ مسیلمہ نے اسے کہا۔ ’’یا تو اﷲ کے رسول کے حکم کے بغیربیٹھ جانا بد تہذیبی سمجھتا ہے؟‘‘
’’اﷲ کے رسول!‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ایک خبر لایا ہوں … مدینہ سے ایک آدمی آیا ہے۔ وہ بہت دنوں سے یہاں ہے اور وہ ان لوگوں کو جنہوں نے کبھی اسلام قبول کیا تھا، بتاتا پھر رہا ہے کہ سچا رسول محمدﷺ ہے اور باقی سب کذاب ہیں۔ میں نے خود اس کی باتیں سنی ہیں ۔اس کا نام نہاراً الرّجال ہے۔‘‘
’’نہاراً الرّجال؟‘‘ دربارمیں بیٹھے ہوئے دو آدمی بیک وقت بولے پھر ایک نے کہا۔ ’’وہ مسلمانوں کے رسولﷺ کا منظورِ نظر ہے ۔میں اسے جانتا ہوں۔ اس کے پاس علم ہے۔‘‘
’’ایسے شخص کو زندہ نہ چھوڑیں۔‘‘ دربار میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے گرج کر کہا۔
’’اے خدا کے رسول! ‘‘ایک اور آدمی نے اٹھ کر کہا۔’’کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ میں اس بد بخت کا سر کاٹ کر تیرے قدموں میں رکھ دوں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ مسیلمہ کذاب نے کہا۔ ’’اگروہ عالم ہے اور اس نے محمد (ﷺ) کے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہے تو میں اسے کہوں گا کہ میرے دربار میں آئے اور مجھے جھوٹا ثابت کرے۔ میں اسے قتل نہیں ہونے دوں گا … اسے کل رات میرے پاس لے آنا۔اسے یقین دلانا کہ اسے قتل نہیں کی جائے گا۔‘‘
…………bnb…………

الرّجال کو مسیلمہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اسے اﷲ کے رسول مسیلمہ بن حبیب نے اپنے ہاں مدعو کیا ہے۔
’’کیا وہ میرے قتل کا انتظام یہیں نہیں کر سکتا تھا؟‘‘الرّجال نے کہا۔’’میں اسے اﷲ کا رسول نہیں مانتا ۔مجھ پہ یہ لازم نہیں کہ میں اس کا حکم مانوں۔‘‘
’’وہ جہاں چاہے تمہیں قتل کرا سکتا ہے۔‘‘مسیلمہ کے ایلچی نے کہا۔’’اس میں یہ طاقت بھی ہے کہ پھونک مار دے تو تیرا جسم مردہ ہو جائے ۔وہ تجھے زندہ دیکھنا اور رخصت کرنا چاہتا ہے۔‘‘
مسلمانوں نے الرجال سے کہا کہ وہ اس کذاب کے ہاں نہ جائے۔
’’یہ میری زندگی اور موت کا سوال نہیں۔‘‘ الرجال نے کہا۔ ’’یہ صداقت اور کذاب کا سوال ہے۔اگر ایک کذاب کو صدق سے بہرہ ور کرنے میں میری جان چلی جاتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔‘‘
’’میں آؤں گا۔‘‘الرجال نے کہا۔ ’’آج ہی رات آؤں گا۔مسیلمہ سے کہنا کہ تواگر سچا نبی ہے تو اپنے وعدے سے پھر نہ جانا۔‘‘
ایلچی نے مسیلمہ کذاب کو الرجال کا جواب بتایا۔الرجال یمامہ کے قلعے میں رہتا تھا۔ مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ مسیلمہ اپنے خاص مہمانوں کیلئے بڑا خوشنما خیمہ نصب کرایا کرتا تھا۔ جس کی ساخت مکان جیسی ہوتی تھی۔ یہ خیمہ اندر سے بڑے دلفریب طریقوں اور کپڑوں سے سجایا جاتا تھا۔صحرا کی راتیں سرد ہوتی تھیں۔ اس لیے مسیلمہ خیمہ میں بڑا خوبصورت آتشدان رکھوادیا کرتا تھا۔ اس آتشدان میں وہ کوئی چیز یا ایسی جڑی بوٹی رکھ دیا کرتا تھا، جس کی خوشبو عطر کی طرح کی ہوتی تھی،لیکن یہ خوشبو اس پر ایسا اثر کرتی تھی جیسے اس خیمے میں سونے والے کو ہپناٹائز کر لیا گیا ہو۔مسیلمہ کا شکار بے ہوش یا بے خبر نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ مسیلمہ کے اشاروں پر ناچنے لگتا تھا۔ خود مسیلمہ پر اس کا یہ اثر نہیں ہوتا تھا۔
مسیلمہ کذاب کو جب یہ اطلاع ملی کہ الرجال آ رہا ہے تو اس نے اپنا مخصوص خیمہ نصب کرایا اور اس میں وہ تمام انتظامات کرا دیئے جو وہ کرایا کرتا تھا۔اس نے رات کیلئے آتش دان بھی رکھوادیا۔
الرجال آیا تومسیلمہ نے باہر آ کر اس کا استقبال کیا۔ ’’تم ایک رسول کے بھیجے ہوئے آدمی ہو۔‘‘ مسیلمہ نے کہا۔ ’’اور میں بھی رسول ہوں۔اس لیے تمہارا احترام میرا فرض ہے۔‘‘
’’میں صرف اسے رسول مانتا ہوں جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔‘‘ الرجال نے کہا۔ ’’اور میں تمہیں یہ کہتے ہوے نہیں ڈروں گا کہ تم کذاب ہو۔‘‘
مسیلمہ مسکرایا اور الرجال کو خیمے میں لے گیا۔
تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ خیمے میں مسیلمہ اور الرجال کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔کیسی سودے بازی یا کیسا شعبدہ یا جادو تھا کہ اگلی صبح جب الرجال خیمے سے نکلا تو تو اس کے منہ سے پہلی بات یہ نکلی کہ’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیلمہ اﷲ کا سچا رسول ہے،اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘ اس نے یہ بھی کہا ’’میں نے محمد (ﷺ) کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسیلمہ سچا نبی ہے۔‘‘
الرجال کی حیثیت صحابی کی سی تھی اس لیے مسلمانوں نے اس پر اعتبار کیا،الرجال بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا ۔الرجال کا اعلان سن کر بنو حنیفہ کے لوگ جوق در جوق مسیلمہ کو اﷲ کارسول مان کر اس کی بیعت کو آگئے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسیلمہ نے یہ سوچ کر الرجال کو قتل نہیں کرایا تھا کہ وہ عالم ہے اور صحابی کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر اسے ہاتھ میں لے لیا جائے تو بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اس شخص کو ہاتھ میں لینے کیلئے آتشدان کا اور اپنی زبان کا جادو چلایا اور الرجال کو اپنا دستِ راست بنا لیا۔
الرجال نے مسیلمہ کی جھوٹی نبوت میں روح پھونک دی۔ اکثر ماں باپ اپنے نوزائیدہ بچوں کو رسولِ کریمﷺ کے پاس لاتے اور آپﷺ بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔ الرجال نے مسیلمہ کذاب کو مشورہ دیا کہ وہ بھی نوزائیدہ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا کرے۔ مسیلمہ کو یہ بات اچھی لگی، اس نے کئی نوزائیدہ بچوں اور بچیوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ بچے جب سنِ بلوغت میں داخل ہوئے تو ان کے سروں کے بال اس طرح جھڑ گئے کہ کسی مرد یا عورت کے سر پر ایک بھی بال نہ رہا۔ اس وقت تک مسیلمہ کو مرے ہوئے زمانہ گزر گیا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages