Featured Post

Khalid001

31 May 2019

Khalid041


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  41
اس دوران ایک عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔اس کا نام سجاّح تھا۔ وہ الحارث کی بیٹی تھی۔ اسے اُمِ سادرہ بھی کہا جاتا تھا۔اس کی ماں عراق کے ایک قبیلے سے تھی اور باپ بنو یربوع سے تعلق رکھتا تھا۔ الحارث اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ سجاح بچپن سے خودسر اورآزاد خیال تھی۔ وہ چونکہ سرداروں کے خاندان میں جنی پلی تھی اس لئے دوسروں پر حکم چلانا اس کی سرشت میں شامل تھا۔ وہ غیر معمولی طور پر ذہین اور عقلمند نکلی۔ایک دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ غیب دان بھی تھی اور وہ آنے والے وقت کو قبل از وقت جان لیتی تھی۔ اس کے متعلق اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات سب نے متفقہ طور پر کہی ہے کہ سجاع قدرتی طور پر شاعرہ تھی ہر بات منظوم کرتی تھی۔ اس کی زبان میں چاشنی تھی۔ اس کی ماں کا قبیلہ عیسائی تھا اس لئے سجاح نے بھی عیسائیت کو ہی پسند کیا۔
سجاح کے کانوں میں یہ خبریں پڑیں کہ طلیحہ اور مسیلمہ نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگ ان کی بیعت کر رہے ہیں تو اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ وہ جوان ہو چکی تھی۔ خدا نے اسے دیگر اوصاف کے علاوہ حسن بھی دیا تھا۔ اس کے سراپا اور چہرے پر ایسا تاثر تھا کہ لوگ اس سے مسحور ہو کر اسے نبی مان لیتے تھے۔بہت سے لوگ اس کی شاعری سے متاثر ہوئے۔
وہ صرف نبی بن کے کہیں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے اپنے پیروکاروں کی ایک فوج تیار کرلی،اور بنی تمیم کے ہاں جا پہنچی، ان قبائل کے جو سردار تھے،وہ رسولِ اکرمﷺ کے مقرر کیے ہوئے تھے۔یہ تھے زبرقان بن بدر، قیس بن عاصم، وکیع بن مالک اور مالک بن نویرہ۔سجاح نے مالک بن نویرہ کو اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ وہ مدینہ کو تہہ تیغ کرنے آئی ہے اور بنی تمیم اس کا ساتھ دیں۔
مالک بن نویرہ نے اسے بتایا کہ کئی قبیلے اسے پسند نہیں کرتے۔ پہلے انہیں زیر کرنا ضروری ہے۔ سجاح زیرکرنے کا مطلب کچھ اور سمجھتی تھی۔اس کے پاس اچھا خاصا لشکر تھا۔ مالک نے اس میں اپنی فوج شامل کردی اور قبیلوں کی بستیوں پر حملہ آور ہوئے۔قبیلے ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے گئے لیکن سجاح نے انہیں یہ کہنے کے بجائے کہ اسے نبی مانیں ان کے گھر لوٹ لیے اور ان کے مویشی چھین لیے۔ اس مالِ غنیمت سے اس کا لشکر بہت خوش ہوا۔
اس کی لوٹ مار کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔سجاع ایک مقام نباج پہنچی اور اس علاقے کی بستیوں میں لوٹ مار شروع کر دی۔لیکن یہ قبیلے متحد ہو گئے اور سجاع کو شکست ہوئی۔وہ ایک اور حملہ کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ایک مجبوری کا سامنا تھا۔ اس کے لشکر کے کئی سرداروں کو نباج کے قبیلوں نے پکڑ کر قید میں ڈال دیا تھا۔سجاع نے اپنا ایلچی ان قیدیوں کی رہائی کیلئے بھیجا۔
’’پہلے اس علاقے سے کوچ کرو۔‘‘قبیلوں کے سرداروں نے ایلچی سے کہا۔’’تمہیں تمہارے قیدی مل جائیں گے۔‘‘
سجاح نے یہ شرط قبول کرلی اور اپنے سرداروں کو آزاد کراکے اس علاقے سے نکل گئی۔اس کے سرداروں نے اس سے پوچھا کہ اب کدھر کا ارادہ ہے؟
’’یمامہ۔‘‘ سجاح نے کہا۔’’وہاں مسیلمہ بن حبیب کوئی شخص ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کررکھا ہے۔ اسے تلوار کی نوک پر رکھنا ضروری ہے۔‘‘
’’لیکن یمامہ کے لوگ جنگ و جدل میں بہت سخت ہیں۔‘‘ایک سردار نے اسے کہا۔’’اور مسیلمہ بڑا طاقتور ہے۔‘‘
سجاح نے کچھ اشعار پڑھے جن میں اس نے اپنے لشکر سے کہا تھا کہ ہماری منزل یمامہ ہے۔ مسیلمہ کذاب نے اپنے جاسوسوں کو دور دور تک پھیلایا ہوا تھا۔اسے یہ اطلاع دی گئی کہ ایک لشکر یمامہ کی طرف بڑھاآ رہا ہے۔مسیلمہ نے یہ معلوم کرا لیا کہ یہ سجاح کا لشکر ہے۔اس نے الرجا ل کو بلایا۔
’’کیاتم نے سنا کہ سجاح کا لشکر آ رہا ہے الرجال؟‘‘ مسیلمہ نے کہا۔’’لیکن میں ان سے لڑنا نہیں چاہتا۔تم جانتے ہو کہ اس علاقے میں مسلمانوں کی فوج موجود ہے جس کا سالار عکرمہ ہے۔ کیا ہمارے لیے یہ بہتر نہیں ہو گا کہ سجاع اور عکرمہ کی لڑائی ہو جائے اور جب دونوں لشکر آپس میں الجھے ہوئے ہوں ،اس وقت ہم اُس پر حملہ کر دیں؟‘‘
’’اگر ان کی ٹکر نہ ہوئی تو تم کیا کرو گے؟‘‘ الرجال نے کہا۔
’’پھر میں سجاح کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کروں گا۔‘‘ مسیلمہ نے کہا۔
صورت وہی پیدا ہو گئی۔ سجاح اور عکرمہ ؓکی فوجیں ایک دوسرے سے بے خبر رہیں اور سجاع یمامہ کے بالکل قریب آگئی۔ مسیلمہ نے اپنا ایک ایلچی سجاح کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ سجاح اس سے ملنے اس کے پاس آئے تاکہ دوستی کا معاہدہ کیا جا سکے۔ سجاح نے جواب بھیجا کہ وہ آ رہی ہے۔لیکن مسیلمہ کو قبل از وقت اطلاع مل گئی کہ سجاح اپنے لشکر کو ساتھ لا رہی ہے۔ اس نے سجاح کو پیغام بھیجا کہ کہ لشکر کو ساتھ لانے سے میں یہ سمجھوں گا کہ تم دوستی کی نیت سے نہیں آ رہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہو کہ اپنے چند ایک محافظوں کوساتھ لے آؤ۔
’’یا رسول!‘‘ مسیلمہ کے ایک درباری نے اسے کہا۔ ’’سنا ہے کہ سجاح کا لشکر اتنا بڑا ہے کہ یمامہ کی وہ اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔‘‘
’’اور یہ بھی سنا ہے۔‘‘اک اور نے کہا۔’’ وہ قتل و غارت کرکے اور لوٹ مار کرکے آگے چلی جاتی ہے۔اس سے وہی محفوظ رہتا ہے جو اس کی نبوت کو تسلیم کرلیتا ہے۔‘‘
’’کیا تم مجھے ڈرا رہے ہو؟‘‘ مسیلمہ نے پوچھا۔ ’’کیا تم یہ مشورہ دینا چاہتے ہو کہ میں اپنی نبوت سے دستبردار ہو کر اس کی نبوت کو تسلیم کرلوں؟‘‘
’’نہیں اﷲ کے رسول۔‘‘ اسے جواب ملا۔ ’’ہمارا مطلب احتیاط سے ہے۔ وہ کوئی اپنا ہاتھ نہ دکھا جائے۔‘‘
مسیلمہ نے قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’تم شاید میری صورت دیکھ کر مشورہ دے رہے ہو۔کیا تم مجھے کوئی ایسی عورت دکھا سکتے ہو جو میرے پاس آئی ہو اور میری گرویدہ نہ ہو گئی ہو … سجاح کو آنے دو۔ وہ آئے گی۔ جائے گی نہیں … اور وہ زندہ بھی رہے گی۔‘‘
…………bnb…………

وہ آ گئی اور وہ لشکر کے بغیر آئی۔یمامہ کے لوگوں نے اسے دیکھا اور آوازیں سنائی دیں۔ ’’اتنی خوبصورت اور طرح دار عورت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی … اگر نبوت حسن پر ملتی ہے تو اس عورت کو نبوت مل سکتی ہے۔‘‘
اس کے ساتھ چالیس محافظ تھے ۔جو اعلیٰ نسل کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ایک سے ایک خوبصورت جوان تھا۔ کمر سے تلواریں لٹک رہی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔
سجاح جب قلعے کے دروازے پر پہنچی تودروازہ بند تھا۔ اسے دیکھ کر بھی کسی نے دروازہ نہ کھولا۔
’’کیا ایسا آدمی خدا کا رسول ہو سکتاہے جو مہمان کو بلا کر دروازہ بند رکھتا ہے؟‘‘ سجاح نے بلند آواز سے کہا۔ ’’کیا وہ نہیں جانتا کہ وہ اس عورت کی توہین کر رہا ہے جسے خدا نے نبوت عطا کی ہے؟‘‘
’’معزز مہمان!‘‘ قلعے کے اوپر سے آواز آئی۔ ’’تم پر سلامتی ہو۔ہمارے رسول نے کہا ہے کہ محافظ باہر رہیں اور مہمان اندر آ جائے۔‘‘
’’دروازہکھول دو۔‘‘ سجاح نے دلیری سے کہااور اپنے محافظوں سے کہا۔ ’’تم سب قلعے سے دور چلے جاؤ۔‘‘
’’لیکن ہم ایک اجنبی پر کیسے اعتبار کر سکتے ہیں؟‘‘ محافظ دستے کے سردار نے کہا۔
’’اگر سورج غروب ہونے تک میں واپس نہ آئی تو اس قلعہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دینا۔‘‘ سجاح نے کہا۔’’اور اس شہر کے ایک بچے کو بھی زندہ نہ چھوڑنا۔میری لاش کو مسیلمہ اور اس کے خاندان کے خون سے نہلاکہ یہیں دفن کر دینا … لیکن مجھے یقین ہے کہ میں قلعہ سے کچھ لے کر نکلوں گی۔‘‘
محافظ چلے گئے اور دروازہ کھل گیا۔ مگر اس کے استقبال کیلئے مسیلمہ موجود نہیں تھا۔ اس کے حکم پر دروازے پر کھڑے دو گھوڑ سوار اسے قلعے کے صحن میں لے گئے۔ جہاں ایک چوکور خیمہ نصب تھا۔ اس کے اردگرد درخت اور پودے تھے اور نیچے گھاس تھی۔ سجاح کو خیمے میں داخل کر دیا گیا۔ اندر کی سجاوٹ نے اسے مسحور کر دیا مگر مسیلمہ وہاں نہیں تھا۔ وہ بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد مسیلمہ خیمہ میں داخل ہوا ۔ سجاح نے اسے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس مسکراہٹ میں تمسخر تھا۔ سجاع نے اتنا بد صورت آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اتنے چھوٹے قد کا آدمی شاذونادر ہی کبھی نظر آتا تھا۔
’’کیا تم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘سجاح نے اس سے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
’’دعویٰ کرنا کچھ اور بات ہے۔‘‘ مسیلمہ نے سجاح کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’یہ سچ ہے کہ میں خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔میں محمد (ﷺ) کو رسول نہیں مانتا۔ لیکن اس نے اپنی رسالت منوالی ہے۔ لوگ اس لیے مان گئے ہیں کہ قبیلہ قریش کی تعداداور طاقت زیادہ ہے۔ انہوں نے اب دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
…………bnb…………

طبری نے چند ایک حوالوں سے لکھا ہے کہ مسیلمہ نے سجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ اس کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ تھی۔ بہت عرصہ بعد سجاح نے کسی موقع پر کہا تھا کہ ’’اس نے اتنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈالیں تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ٹھگنا سا یہ بد صورت آدمی پُراسرار سا ایک اثر بن کر آنکھوں کے راستے میرے وجود میں اتر رہا ہے۔ مجھے اطمینان سا ہونے لگا کہ یہ شخص مجھے قتل نہیں کرے گا۔ کچھ اور وقت گزرا تو اس احساس نے جیسے مجھے بے بس کر دیا کہ میں اس کے وجود میں سما جاؤں گی اور میرا وجود ختم ہو جائے گا۔‘‘
’’اگر تم نبی ہو تو کوئی الہامی بات کرو۔‘‘ سجاح نے اسے کہا۔
’’تم نے کبھی سوچا ہے کہ تم کس طرح پیدا ہوئی تھیں؟‘‘ مسیلمہ نے ایسے انداز سے کہاجیسے شعر پڑھ رہا ہو۔ ’’تم نے شاید یہ بھی نہیں سوچا کہ جس طرح تم پیدا ہوئی تھیں اس طرح تم بھی انسانوں کو پیدا کرو گی مگر تنہا نہیں … مجھے خدا نے بتایا ہے۔ اس نے قرآن کی آیات کی طرز کے الفاظ بولے۔ وہ ایک زندہ وجود سے زندہ وجود پیدا کرتا ہے۔ پیٹ سے۔ انتڑیوں سے۔ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ عورت مانند ظرف کے ہے جس میں کچھ ڈال کر نکالا جاتا ہے ورنہ ظرف بیکار ہے۔‘‘
سجاح مسحور ہوتی چلی گئی۔ مسیلمہ شاعروں کے لب و لہجے میں باتیں کرتا رہا۔ سجاح نے محسوس ہی نہ کیا کہ مسیلمہ اس کے جذبات کو مشتعل کر رہا ہے اور وہ یہ بھی محسوس نہ کر سکی کہ سورج غروب ہو چکا ہے۔
’’مجھے یقین ہے کہ تم آج رات یہیں رہنا چاہو گی۔‘‘ مسیلمہ نے کہا۔ ’’اگر چہرے دیکھنے ہیں تو تم دن ہو میں رات ہوں، مگر تم نے اس پر بھی غور نہیں کیاہو گا کہ دن پر رات کیوں غالب آ جاتی ہے اور دن اپنا سورج رات کی تاریک گود میں کیوں ڈال دیتا ہے؟ یہ ہر روز ہوتا ہے۔ اس کا وقت مقررہے۔رات سورج کی چمک دمک کو کھا نہیں جاتی۔ بڑ ے پیار سے اسے جگا کر دوسرے افق پر رکھ دیتی ہے۔‘‘
’’ہاں مسیلمہ!‘‘ سجاح نے کہا۔ ’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں مان لوں کہ تم سچے نبی ہو۔ اتنا بد صورت آدمی اتنی خوبصورت باتیں نہیں کر سکتا۔ کوئی غیبی طاقت ہے جو تم سے اتنی اچھی باتیں کرا رہی ہے۔‘‘ وہ چونک پڑی اور بولی۔ ’’سورج غروب ہو گیا ہے، اگر میں نے قلعے کی دیوار پر کھڑے ہو کر اپنے محافظوں کو یہ نہ بتایا کہ میں زندہ ہوں تو تمہاری بستیوں کی گلیوں میں خون بہنے لگے گا۔‘‘
مسیلمہ نے اسے اپنے دو محافظوں کے ساتھ قلعے کی دیوار پر بھیج دیا اور خیمے میں رکھا ہوا آتش دان جلانے کا حکم دیا۔ فانوس بھی روشن ہو گئے۔ مسیلمہ نے آتش دان میں چھوٹی سی کوئی چیز رکھ دی۔کمرے میں خوشبو پھیلنے لگی۔
سجاح واپس خیمہ میں آئی تو اس پر خمار سا طاری ہونے کیا۔ وہ عام سی عورتوں کی طرح رومان انگیز باتیں کرنے لگی۔ ’’کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم میاں بیوی بن جائیں؟‘‘ مسیلمہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
’’اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔‘‘ سجاع نے مخمور سی آواز میں جواب دیا۔
صبح طلوع ہوئی تو سجاح اس انداز سے باہر نکلی جیسے دلہن اپنی پسند کے دولہا کے ساتھ ازدواجی زندگی کی پہلی رات گزار کر نکلی ہو۔ قلعے میں شادیانے بجنے لگے۔ سجاح کے لشکر تک یہ خبر پہنچی کہ سجاح نے مسیلمہ کے ساتھ شادی کرلی ہے۔
یہ شادی اسلام کیلئے بہت بڑا خطرہ بن گئی۔ارتداد کے دو لشکر متحد ہو گئے لیکن یہ اتحاد جلدی بکھر گیا کیونکہ مسیلمہ نے سجاح کو دھوکا دیا اور وہ دل برداشتہ ہو کر عراق اپنے قبیلے چلی گئی۔ مسیلمہ نے اپنے لیے ایک بہت بڑے خطرے کو ختم کر دیا تھا۔ سجاح کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ نبوت کے دعویٰ سے دستبردار ہو گئی۔ بعد میں وہ مسلمان ہو گئی اور کوفہ چلی گئی تھی۔ اس نے بڑی لمبی عمر پائی اور متقی اور پارسا مسلمان کی حیثیت سے مشہور رہی۔
…………bnb…………

رسولِ کریمﷺ کے وفات کے ساتھ ہی ہر طرف بغاوت اور عہد شکنی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ایک طوفان صحابہ ؓکے اپنے ہاں اٹھا۔یہ خلیفۂ اول کے انتخاب کا مسئلہ تھا۔انصا او ر مہاجرین کے درمیان کھچاؤ سا بھی پیدا ہو گیا۔ابو بکرؓ نے آخر یہ فیصلہ عمرؓ اور ابو عبیدہؓ پر چھوڑا اور کہا کہ یہ دونوں جسے پسند کریں اسے سب خلیفہ مان لیں۔
’’آپ مہاجرین میں سب سے افضل ہیں۔‘‘ عمرؓ نے فیصلہ ابو بکرؓ کے حق میں دیا اور ان سے کہا۔ ’’غار میں آپ رسول اﷲﷺکے رفیق اور نماز پڑھانے میں ان کے قائم مقام رہے ہیں۔ دین کے احکام میں نماز سب سے افضل ہے۔ ہمیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتاجو آپ سے برتر ہو ۔بلا شک آپ خلافت کے حقدار ہیں۔‘‘
سب سے پہلے عمرؓ نے آگے بڑھ کر ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔اس کے بعد ابو عبیدہؓ اور بشیرؓ بن سعد نے بیعت کی۔جب اعلانِ عام ہوا کہ ابو بکرؓ خلیفہ رسولﷺ ہوں گے تو لوگ بیعت کیلئے دوڑے آئے۔
مسجدِ نبویﷺ میں بیعت عام ہوئی۔ ابو بکرؓ نے پہلا خطبۂ خلافت دیا:
’’لوگو! خدا کی قسم‘میں نے خلافت کی خواہش کبھی نہیں کی تھی۔نہ کبھی دل میں نہ کبھی ظاہری طور پر اس کیلئے اﷲ سے دعا کی تھی۔لیکن اس ڈر سے یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا کہ اختلاف جھگڑے کی صورت اختیار نہ کر جائے۔ورنہ خلافت اور امارت میں مجھے کوئی راحت نظر نہیں آئی۔ایک بوجھ مجھ پر ڈال دیا گیا ہے جسے اٹھانے کی طاقت مجھ میں کم ہے ۔اﷲ کی مدد کے بغیر میں اس بوجھ کواٹھا نہیں سکوں گا۔مجھے تم نے اپنا امیر بنایا ہے، میں تم سے بہتر اور برتر تو نہ تھا۔ اگر میں کوئی اچھا کام کروں تو میری مدد کرو۔ کوئی غلطی کر گزروں تو مجھے روک دو۔ تم میں سے جو کمزور ہے ،میں اسے طاقتور سمجھتا ہوں، میں اسے اس کا حق دلاؤں گا۔ تم میں سے جو طاقتور ہے اسے میں کمزور سمجھوں گااور اسے اس حق سے محروم کردوں گا جس کا وہ حقدار نہیں۔ میں جب تک اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو۔ اگرمیں انحراف کروں تو میرا ساتھ چھوڑ دینا۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages