Featured Post

Khalid001

31 May 2019

Khalid042


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  42
خلیفۂ اول ابو بکر صدیقؓ نے سب سے پہلا حکم یہ دے کر کہ ’’اسامہؓکا لشکر رومیوں کے خلاف جائے گا‘‘، سب کو چونکا دیا۔ یہ موقع کسی اور جنگی مہم کیلئے موزوں نہ تھا۔ رومیوں پر حملہ بہت بڑی جنگ تھی جس میں مسلمانوں کی پوری جنگی طاقت کی ضرورت تھی لیکن دوسری طرف یہ صورت پیداہو گئی تھی کہ بیشتر قبیلوں نے نہ صرف بغاوت کر دی تھی بلکہ بعض نے مدینہ پر حملہ کیلئے متحد ہونا شروع کر دیا تھا۔ یہودی اور نصرانی خاص طور پر مدینہ کے خلاف سرگرم ہو گئے۔ اس کے علادہ جھوٹے پیغمبروں نے الگ محا ذ بنا لیے تھے۔ طلیحہ اور خصوصاً مسیلمہ تو جنگی طاقت بن گئے تھے۔ اسلام بہت بڑے خطرے میں آگیا تھا۔
ابوبکرؓ کے حکم کا پسِ منظر یہ تھاکہ تبوک اور مُوتہ کے معرکوں کے بعد رسولِ اکرمﷺ نے یہ ضروری سمجھاتھاکہ رومیوں پر حملہ کرکے ان کا دم خم توڑا جائے۔ تبوک اور موتہ کے معرکوں میں تو یہ کامیابی حاصل کی گئی تھی کہ ان قبیلوں کو مطیع کر لیا گیا تھا جن کا خطرہ تھا کہ وہ رومیوں کے ساتھ اتحاد کرلیں گے۔ ان رومیوں کو ختم کرناضروری تھا۔ یہ فیصلہ ملک گیری کی خاطر نہیں بلکہ نظریاتی دفاع کیلئے کیا گیا تھا۔ یہودی اور نصرانی اسلام کے خلاف رومیوں کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔
رسول اﷲﷺ نے رومیوں پرحملہ کیلئے ایک لشکر تیار کیا تھا جس میں مہاجرین اور انصار کے سرکردہ افراد بھی شامل تھے۔اس لشکر کے سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے اسامہؓ تھے۔ان کی عمر بمشکل بیس سال تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اسامہؓ کو رسول اﷲﷺ نے اس لئے سپہ سالار مقرر کیا تھا کہ نوجوانوں میں قیادت کا شوق پیدا ہو اور وہ اپنے آپ میں اسامہؓ جیسی صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
اسامہؓ کو رسولِ کریمﷺ ویسے بھی بہت چاہتے تھے۔اسامہؓکے والد زیدؓ بن حارثہ جنگِ موتہ میں شہید ہو گئے تھے۔اسامہؓمیں لڑکپن میں ہی عسکری صلاحیتیں اور شجاعت پیدا ہو گئی تھی۔جنگِ احد کے وقت اسامہؓ بچے تھے اس لیے اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے لیکن اسلامی لشکر مدینہ سے روانہ ہوا تو اسامہ ؓ رستے میں کہیں چھپ کر بیٹھ گئے۔ جب لشکر ان کے قریب سے گزرا تو وہ لشکر میں شامل ہو گئے۔ ان کی مراد پھر بھی پوری نہ ہوئی۔انہیں میدانِ جنگ میں دیکھ لیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا ۔البتہ جنگِ حنین میں انہوں نے سب کو دکھا دیا کہ شجاعت کیا ہو تی ہے۔
جب رسولِ مقبولﷺ نے اسامہؓ کو رومیوں پر حملہ کرنے والے لشکر کی سپہ سالاری سونپی تھی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ جس لشکر میں ابو بکرؓ اور عمرؓ جیسے اعلیٰ حیثیت اور تجربے کے بزرگ شامل ہیں ،اس لشکر کی سپہ سالاری کل کے بچے کو دینا مناسب نہیں۔
یہ اعتراض رسول اﷲﷺ تک اس وقت پہنچا جب آپﷺ زندگی کے آخری بخار میں مبتلا تھے۔ آپﷺ میں بولنے کی بھی سکت نہیں تھی۔آپﷺ نے بخار سے نجات پانے کیلئے اپنی ازواج سے کہا کہ آپﷺ کو غسل کرائیں۔آپﷺ پر پانی کے سات مشکیزے ڈالے گئے ۔اس سے بخار خاصا کم ہو گیا۔نقاہت زیادہ تھی۔پھر بھی آپﷺ مسجد میں چلے گئے جہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔جن میں اعتراض کرنے والے سرکردہ افراد بھی تھے۔
’’اے لوگو!‘‘رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔’’اسامہ کے لشکر کو کوچ کرنے دو۔تم نے اس کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا ہے۔تم نے اس کے باپ کی سپہ سالاری پر بھی اعتراض کیا تھا۔میں اسامہ کو اس منصب کے قابل سمجھتا ہوں۔اس کے باپ کو بھی میں نے اس منصب کے قابل سمجھا تھااور تم نے دیکھا کہ میں نے سپہ سالاری اسے سونپ کر غلطی نہیں کی تھی۔‘‘
اعتراض ختم ہو گیااور رومیوں کے خلاف لشکر کوچ کر گیا۔لیکن جرف کے مقام پر اطلاع ملی کہ رسولِ کریمﷺ کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے۔اسامہؓ میں نوجوانی میں ہی بزرگوں جیسی دوراندیشی پیدا ہو گئی تھی۔انہوں نے لشکر کو جرف کے مقام پر روک لیااور خود رسول اﷲﷺ کو دیکھنے مدینہ آئے۔ایک تحریر میں اسامہؓ کا بیان ان الفاظ میں ملتا ہے:
’’اطلاع ملی کہ رسول اﷲﷺ کی حالت بگڑ گئی ہے تو میں اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ آیا۔ہم سیدھے رسول اﷲﷺ کے حضور گئے۔آپﷺ پرنقاہت طاری تھی ،اتنی کہ بول بھی نہ سکتے تھے۔آپﷺ نے دو تین بارہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف کئے اور ہر بار ہاتھ میرے اوپر رکھ دیئے ،میں سمجھ گیا کہ حضورﷺ میرے لئے دعا کر رہے ہیں۔‘‘
دوسرے روز اسامہؓ پھر آپﷺ کے حضور گئے اور کہا۔’’یا رسول اﷲﷺ!لشکر جرف میں میرا منتظر ہے۔اجازت فرمائیے۔‘‘
رسول اﷲﷺ نے ہاتھ اوپر اٹھائے مگر ہاتھ زیادہ اوپر نہ اٹھ سکے۔ضعف بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔اسامہؓ دل پر غم کا بوجھ ،آنکھوں میں آنسو لے کرروانہ ہو گئے۔تھوڑی ہی دیر بعد رسول اﷲﷺ وفات فرما گئے۔ قاصد اسامہؓ کے پیچھے دوڑا اور راستے میں جا لیا۔ اسامہؓ نے حضورﷺ کے وفات کی خبر سنی۔ گھوڑا سرپٹ دوڑایا اپنے لشکر تک پہنچے۔ وفات کی خبر نے لشکر میں کہرام برپا کر دیا۔ اسامہؓ لشکر کو مدینہ لے آئے۔
…………bnb…………

خلیفۂ اول کی بیعت ہو چکی تھی۔ انہوں نے اسامہؓ کو بلا کر پوچھا کہ ’’رسول اﷲﷺ نے انہیں کیا حکم دیا تھا؟‘‘
’’یہ حکم تو آپ کو بھی معلوم ہے۔‘‘ اسامہؓ نے جواب دیا۔ ’’مجھ سے ہی سننا ہے تو سن لیں۔ رسول اﷲﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں فلسطین میں بلقاء اور دوام کی سرحد سے آگے جاکر رومیوں پر حملہ کروں لیکن وہاں تک لشکر اس طرح پہنچے کہ دشمن کو حملے تک لشکر کی آمد کی خبر تک نہ ہو سکے۔‘‘
’’جاؤ اسامہ!‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔ ’’اپنالشکر لے جاؤ اور رسول اﷲﷺ کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘
لشکر کو جب یہ حکم ملا تو ابو بکرؓ پر اعتراض ہونے لگے۔سب کہتے تھے کہ جب ہر طرف سے خطروں کے طوفان نے گھیر لیا ہے ،اتنی بڑی جنگ اور وہ بھی اتنی دور ،شروع نہیں کرنی چاہیے۔اس لشکر کی ان فتنوں کی سرکوبی کیلئے ضرورت ہے جو بڑی تیزی سے اٹھ رہے ہیں۔
’’قسم ہے اس اﷲ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’اگر مجھے جنگل کے درندے چیرنے پھاڑنے کیلئے آ جائیں تو بھی میں اسامہ کے لشکر کو نہیں روکوں گا۔ میں اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول اﷲﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا؟میں اگر مدینہ میں اکیلا رہ گیا تو بھی اس لشکر کو نہیں روکوں گا۔‘‘
’’تم پر سلامتی ہوابو بکر!‘‘عمرؓ نے کہا۔ ’’اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرلشکر کو بھیجنا ہی ہے توسپہ سالاری اسامہ کے بجائے کسی تجربے کار آدمی کو دیں۔‘‘
’’اے ابنِ خطاب!‘‘ ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ اسامہ کو رسول اﷲﷺ نے سپہ سالار مقرر کیا تھا ؟کیا تم جرات کرو گے کہ رسول اﷲﷺ کے حکم کو منسوخ کر دو؟‘‘
’’میں ایسی جرات نہیں کروں گا۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’مجھ میں اتنی جرات نہیں۔‘‘
’’میری سن ابنِ خطاب!‘‘ ابو بکر ؓ نے کہا۔’’اپنی قوم کو دیکھ۔پوری قوم غم سے نڈھال ہے۔غم کے ساتھ ساتھ ایک خوف ہے جو ہر کسی کے دل میں اترتا جا رہا ہے۔یہ خوف ان بغاوتوں کا ہے جو ہمارے اردگرد اٹھ رہی ہیں،ہر روز ایک خبر آتی ہے کہ آج فلاں قبیلہ باغی ہو گیا ہے ۔بعض قبیلے اسلام سے منحرف ہو گئے ہیں ۔اسلام بھی خطرے میں آگیاہے اور مدینہ بھی۔یہودیوں اور نصرانیوں نے بڑی خوفناک افواہیں پھیلانی شروع کر دی ہیں۔ ان سے اور زیادہ خوف پھیل رہا ہے۔اگر ہم نے رومیوں پر حملہ روک لیا تو دو نقصان ہوں گے۔ ایک یہ کہ قوم سمجھے گی کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں۔ دوسری یہ کہ رومی اور مجوسی ہم کو کمزور سمجھ کر ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔ میں قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کمزور نہیں ہو گئے۔ ہمارااﷲ ہمارے ساتھ ہے۔میں قوم کے حوصلے اور جذبے پہلے کی طرح مضبوط رکھنا چاہتا ہوں۔ رسول اﷲﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا میرا فرض ہے۔‘‘
عمرؓ کو اس استدلا ل نے مطمئن کر دیا ۔ابو بکرؓ نے کوچ کاحکم دے دیا۔
…………bnb…………

اسامہؓ کا لشکر روانہ ہوا تو ابوبکرؓ کچھ دور تک پیدل ہی ساتھ چل پڑے۔اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک سپہ سالار اور وہ بھی نوجوان، گھوڑے پر سوارتھااور خلیفہ اس کے ساتھ ساتھ پیدل جا رہے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ ؓہر کسی کو دِکھانا چاہتے تھے کہ سپہ سالار اسامہؓ تعظیم و تکریم کے قابل ہے۔
’’اے خلیفۂ رسولﷺ !‘‘اسامہؓ نے کہا۔’’آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں یا میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔‘‘
’’نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم پیدل چلو گے۔‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔ ’’میں روحانی تسکین محسوس کر رہا ہوں کہ اﷲ کی راہ کی گَرد میرے پاؤں پر بھی پڑ رہی ہے۔‘‘
عمرؓ بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ابو بکرؓ کو محسوس ہوا کہ مدینہ میں انہیں عمرؓ کی ضرورت ہو گی۔
’’اسامہ!‘‘خلیفہ نے سپہ سالار سے کہا۔ ’’اگر تم اجازت دو تو میں عمر ؓکو مدینہ میں رکھ لوں۔مجھے اس کی مددکی ضرورت ہو گی۔‘‘ اسامہؓ نے عمرؓ کو لشکر میں سے نکل کر واپس جانے کی اجازت دے دی۔ ابو بکرؓ بہت بوڑھے تھے۔ ایک جگہ رک گئے۔ اسامہؓ نے لشکر کو روک لیا۔ ابو بکرؓ نے ذرا بلند جگہ پر کھڑے ہو کر لشکر سے خطاب کیا:
’’اسلام کے مجاہدو!میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں۔انہیں یاد رکھنا۔خیانت نہ کرنا،چوری نہ کرنا،دشمن کے لاشوں کے اعضاء نہ کاٹنا،بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،کھجوروں اور پھلوں کے درخت نہ کاٹنا،کھانے کی غرض کے سوا کسی جانور کو ذبح نہ کرنا،تمہیں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں نظر آئیں گی جن مین تارک الدنیا لوگ بیٹھے ہوں گے انہیں پریشان نہ کرنا،کسی بستی کے لوگ برتنوں میں تمہارے لیے کھانا لائیں گے یہ کھانا اﷲ کا نام لے کر کھانا،تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے اپنے سروں میں شیطان کے گھونسلے بنا رکھے ہیں ۔ان کے سروں کے درمیان کا حصہ منڈھا ہوا ہو گااور باقی بال بہت لمبے لمبے ہوں گے،انہیں قتل کر دینا۔اپنی حفاظت اﷲکے نام سے کرنا،خدا حافظ مجاہدو!اﷲتمہیں شکست اور وبا سے دور رکھے۔‘‘لشکر کی مدینہ سے روانگی کی تاریخ 24 جون 632ء (یکم ربیع الثانی 11ہجری) تھی۔
…………bnb…………

یہ کہانی چونکہ شمشیرِ بے نیام کی ہے اس لئے ہم وہ واقعات بیان کریں گے جن کا تعلق خالدؓ بن ولید سے ہے۔ رسول اﷲﷺ نے خالدؓ کو اﷲ کی تلوار کہا تھا۔
اسامہؓ کے لشکر کے متعلق اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ انہوں نے صرف چالیس دنوں میں ہی رومیوں کے خلاف وہ کامیابی حاصل کرلی جورسول ِکریمﷺ حاصل کرنا چاہتے تھے۔اسامہؓ سالاری کے ہر پہلو پر پورے اترے اور جب وہ فتح یاب ہو کر مدینہ میں آئے تو ان سب نے انہیں گلے لگایا جنہوں نے ان کی سپہ سالاری پر اعتراض کیے تھے۔
دوسری بڑی جنگ مرتدین کے خلاف تھی۔ ابو بکرؓنے اپنی فوج کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے سالار مقرر کیے اور ان کیلئے محاذ مقرر کر دیئے۔یعنی ہر سالار کو ایک ایک علاقہ بتا دیا گیا جہاں انہیں حملہ کرنا تھا۔اس تقسیم میں ابو بکرؓ نے خاص طور پر یہ خیال رکھا تھاکہ ہر دشمن کی طاقت اور لڑنے والی نفری دیکھ کر اس کے مطابق سالار مقرر کیے جائیں۔سب سے زیادہ طاقتور اور مکار دو مُرتد تھے۔ایک طلیحہ اور دوسرا مسیلمہ،ان دونوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے ہزار ہا پیروکار پیدا کر لیے تھے۔خالدؓ بن ولید کو ابو بکرؓ نے حکم دیا کہ وہ طلیحہ کی بستیوں پر حملہ کریں اوراس سے فارغ ہوکر بطا ح کا رخ کریں۔جہاں بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ نے بغاوت کر دی تھی۔
تمام سالار اپنے اپنے محاذوں اور مہموں کو روانہ ہو گئے۔خالدؓ اپنی مہم کے علاقے میں حسبِ عادت اتنی تیزی سے پہنچے کہ دشمن کو خبر تک نہ ہوئی۔انہوں نے کچھ بستیوں کو گھیرے میں لے لیا تو خالد ؓکے پاس کچھ آدمی آئے اور انہیں بتایا کہ بعض قبیلے طلیحہ کے فریب کا شکار ہیں۔ ان کی خونریزی مناسب نہیں ہو گی۔ اگر خالد ؓذرا انتظار کریں تو قبیلہ طئی کے کم و بیش پانچ سو آدمی خالد ؓکے دستے میں شامل ہو جائیں گے۔
خالدؓ نے انتظار کیا اور یہ آدمی قبیلہ طئی کے پانچ سو آدمی لے آئے جو طلیحہ کے قبیلے اور اس کے زیرِ اثر قبیلوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ تھے۔وہ مسلح ہو کر آئے تھے۔اسی طرح قبیلہ جدیلہ بھی خالدؓ کے ساتھ مل گیا۔طلیحہ کو پتا چلا تو وہ بہت گھبرایا لیکن ایک شخص عُیَینہ اس کے ساتھ تھا۔وہ بنی فرازہ کا سردار تھا۔اس کے دل میں مدینہ والوں کے خلاف اتنا عناد بھرا ہوا تھا کہ اس نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ مدینہ والوں کی حکومت کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کر سکتا۔ غزوۂ احزاب میں جن تین لشکروں نے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، ان میں سے ایک لشکر کا سالار یہی شخص عُیَینہ بن حصن تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے اس اصول کے مطابق کہ دشمن کو تیاری کی حالت میں پکڑو، مدینہ سے نکل کر ان تینوں لشکروں پر حملہ کر دیا تھا۔ سب سے زیادہ نقصان عیینہ کے لشکر کو اٹھانا پڑا۔ اس نے مجبور ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اسلام کے خلاف سر گرم رہا۔
خالدؓ کو پتا چلا کہ طلیحہ کے ساتھ عیینہ ہے تو انہوں نے عہد کیا کہ ان دونوں کو نہیں بخشیں گے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages