Featured Post

Khalid001

31 May 2019

Khalid043


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  43
خالدؓ نے پیش قدمی سے پہلے اپنے دو آدمیوں عکاشہ بن محصن اور ثابت بن اقرم انصاری کو لشکر سے آگے بھیج دیا کہ وہ دشمن کی نقل و حرکت یا کوئی اور بات دیکھیں جو لشکر کی پیش قدمی کے کام آ سکے تو پیچھے اطلاع دیں۔ دونوں چلے گئے اور خالد ؓاپنے دستوں کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔بہت دور جا کر ان دونوں میں سے کوئی بھی واپس آ تا دکھائی نہ دیا۔
کچھ دور گئے تو تین لاشیں پڑیں ملیں جو خون میں نہائی ہوئی تھیں۔ دو لاشیں انہی دو آدمیوں عکاشہ اور ثابت کی تھیں جنہیں خالد ؓنے آگے بھیجا تھا۔تیسری لاش کسی اجنبی کی تھی ۔بعد میں جو انکشاف ہوا (طبری اور قاموس کے مطابق) کہ یہ دونوں آگے جا رہے تھے ۔راستے میں انہیں ایک شخص حبال مل گیا۔ایک مؤرخ کامل ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حبال طلیحہ کا بھائی تھا لیکن طبری اور قاموس اسے طلیحہ کا بھتیجا لکھتے ہیں،عکاشہ اور ثابت نے اسے للکار کر قتل کر دیا۔
اس کی اطلاع طلیحہ کو مل گئی۔وہ اپنے بھائی سلمہ کو اپنے ساتھ لے کر آ گیا۔عکاشہ اور ثابت ابھی اور آگے جا رہے تھے ۔طلیحہ اور سلمہ نے گھات لگائی اور دونوں کو مقابلے کی مہلت دیئے بغیر ہی قتل کر دیا۔
خالدؓ آگ بگولہ ہو گئے اور طلیحہ کی بستی پر جا دھمکے۔ عیینہ، طلیحہ کی فوج کی کمان کر رہا تھا اور طلیحہ ایک خیمہ میں نبی بنا بیٹھا تھا۔ عیینہ نے مسلمانوں کا قہر اور غضب دیکھا تو وہ اپنے لشکر کو لڑتا چھوڑ کر عیینہ کے پاس گیا، وہ طلیحہ کو سچا نبی مانتا تھا۔
’’یا نبی! ‘‘عینیہ نے طلیحہ سے پوچھا۔’’مشکل کا وقت آن پڑا ہے، جبریل کوئی وحی لائے ہیں؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘ طلیحہ نے کہا۔ ’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘
عیینہ دوڑتا گیا اور لڑائی میں شامل ہو گیا ۔مسلمانوں کا قہر اور بڑھ گیا تھا۔ خالدؓ کی چالیں جھوٹے نبی کے لشکر کے پاؤں اکھاڑ رہی تھیں۔ عیینہ ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا۔
’’یا نبی!‘‘اس نے طلیحہ سے پوچھا۔’’کوئی وحی نازل ہوئی؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘ طلیحہ نے کہا۔ ’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘
’’وحی کب نازل ہو گی؟‘‘ عیینہ نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ’’تم کہا کرتے ہو کہ مشکل کے وقت وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘
’’خدا تک میری دعا پہنچ گئی ہے۔‘‘ طلیحہ نے کہا۔ ’’وحی کا انتظا رہے۔‘‘
عیینہ اپنے لشکر میں چلا گیا مگر اب اس کا لشکر خالد ؓکے گھیرے میں آ گیا تھا۔ عیینہ گھبراہٹ کے عالم میں ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا اور اسے اپنے لشکر کی کیفیت بتا کر پوچھا کہ وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں؟
’’ہاں!‘‘ طلیحہ نے جواب دیا۔’’وحی نازل ہو چکی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہ کہ…‘‘ طلیحہ نے جواب دیا۔ ’’مسلمان بھی جنگ لڑ رہے ہیں تم بھی جنگ لڑ رہے ہو ۔تم اس وقت کو کبھی نہ بھول سکو گے۔‘‘
عیینہ کوکچھ اور توقع تھی۔ لیکن طلیحہ نے اسے مایو س کر دیا ۔اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ طلیحہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ’’لا ریب ایسا ہی ہو گا۔‘‘ عیینہ نے غصے سے کہا۔ ’’وہ وقت جلد ہی آ رہا ہے جسے تم ساری عمر نہیں بھول سکو گے۔‘‘
عیینہ دوڑتا باہر گیا اور چلا چلا کر اپنے قبیلے سے کہنے لگا: ’’اے بنو فرازہ! طلیحہ کذاب ہے ۔جھوٹے نبی کے پیچھے جانیں مت گنواؤ ۔بھاگو، اپنی جانیں بچاؤ۔‘‘
بنو فرازہ تو بھاگ اٹھے۔ طلیحہ کے اپنے قبیلے کے لڑنے والے لوگ طلیحہ کے خیمہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ خالدؓ تماشہ دیکھنے لگے۔طلیحہ کے خیمے کے ساتھ ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تیار کھڑے تھے۔قبیلہ طلیحہ سے پوچھ رہا تھا کہ پھر اب کیا حکم ہے؟طلیحہ کی بیوی جس کا نام نوار تھا، اس کے ساتھ تھی۔طلیحہ گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اس کی بیوی اونٹ پر چڑھ بیٹھی۔
’’لوگو!‘‘ طلیحہ نے اپنے قبیلے سے کہا۔ ’’میری طرح جس کے پاس بھاگنے کا انتظام ہے۔وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر بھاگ جائے۔‘‘
اس طرح اس کذاب کا فتنہ ختم ہو گیا ۔عمرؓ کے دورِ خلافت میں طلیحہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہو گیا تھا۔
…………bnb…………

خالدؓ نے اور کئی قبیلوں کو مطیع کیا اور انہیں ارتداد کی کڑی سزا دی۔ان پر اپنی شرائط عائد کیں،اسلام سے جو منحرف ہو گئے تھے انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام کیا۔طلیحہ کی نبوت کو بھی خالدؓ نے ختم کر دیا اور عیینہ جو یہودیوں سے بڑھ کر مسلمانوں کا دشمن تھا،ایسا بھاگا کہ اس نے عراق جا دم لیا،مگر اس کا زہر ابھی پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ زہر ایک عورت کی شکل میں تھا جو سلمیٰ کہلاتی تھی۔ اس کا پورا نام امِ زمل سلمیٰ بنت مالک تھا۔
سلمیٰ بنو فزارہ کے سرداروں کے خاندان کی ایک مشہور عورت ام قرفہ کی بیٹی تھی۔ رسولِ کریمﷺ کی زندگی کا واقعہ ہے کہ زید بن حارثہؓ (اسامہؓ کے والد) بنی فزارہ کے علاقے میں جا نکلے۔ یہ قبیلہ مسلمانوں کا جانی دشمن تھا۔ وادی القراء میں زید ؓکا سامنا بنی فزارہ کے چند آدمیوں سے ہو گیا۔ زیدؓ کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔ بنی فزارہ کے ان آدمیوں نے ان سب کو قتل کر دیا اور زیدؓ کو گہرے زخم آئے۔ وہ گرتے پڑتے مدینہ پہنچ گئے۔ جب ان کے زخم ٹھیک ہو گئے تو رسولِ اکرمﷺ نے انہیں باقاعدہ فوجی دستے دے کر بنو فزارہ پر حملہ کیلئے بھیجا تھا۔
مسلمانوں نے بنی فزارہ کے بہت سے آدمیوں کو ہلاک اور کچھ کو قید کر لیا۔ جھڑپ بڑی خونریز تھی۔ ان قیدیوں میں ام قرفہ فاطمہ بنت بدر بھی تھی۔ اس عورت کی شہرت یہ تھی کہ اپنے قبیلے کے علاوہ دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی رہتی تھی۔ اسے مدینہ لا کر سزائے موت دے دی گئی۔ اس کے ساتھ اس کی کم سن بیٹی ام زمل سلمیٰ بھی تھی۔ رسولِ کریمﷺ نے یہ لڑکی ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالے کر دی۔ اسے پیار سے رکھا گیا مگر وہ ہر وقت اداس رہتی تھی۔ عائشہ صدیقہؓ نے اس پر رحم کرتے ہوئے اس کو آزاد کر دیا۔
بجائے اس کے کہ سلمیٰ مسلمانوں کی شکر گزار ہوتی کہ اسے لونڈی نہ رہنے دیا گیا اور اسے آزاد کر کے اونچی حیثیت میں واپس بھیج دیا گیا اس نے اپنے دل میں اپنی ماں کے قتل کا انتقام رکھ لیا اور جنگی تربیت حاصل کرنے لگی۔ وہ سرداروں کے خاندان کی لڑکی تھی۔ اس میں قیادت کے جوہر بھی پیدا ہو گئے۔ اس نے مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر تیارکر لیا اور مدینہ پر حملے کیلئے پر تولنے لگی۔ مگر مسلمان ایک جنگی قوت بن چکے تھے اس لیے سلمیٰ مدینہ کے قریب آنے کی جرأت نہ کر سکی۔
اب طلیحہ اور عیینہ کو شکست ہوئی تو سلمیٰ میدان میں آگئی۔ اس کی ماں عینیہ کی چچازاد بہن تھی ،جن قبیلوں نے خالدؓ سے ٹکر لی تھی انہیں یہ لڑائی بڑی مہنگی پڑی تھی۔جو بچ گئے تھے وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے تھے۔ ان میں غطفان، طئی، بنو سلیم اور ہوازن کے بعض سرکردہ لوگ سلمیٰ کے ہاں جا پہنچے اور عہد کیا کہ سلمیٰ اگر ان کا ساتھ دے تو وہ مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے جانیں قربان کر دیں گے۔ سلمیٰ تو موقع کی تلاش میں تھی وہ تیار ہو گئی اور چند دنوں میں اپنا لشکر تیار کرکے روانہ ہو گئی۔
…………bnb…………

اس وقت خالدؓ بزاخہ میں تھے جہاں انہوں نے طلیحہ کو شکست دی تھی۔ اُنہیں اطلاع ملی کہ بنو فزارہ کا لشکر آ رہا ہے۔ خالدؓ نے اپنے دستوں کو تیار کر لیا۔
جس طرح سلمیٰ کی ماں اپنے جنگی اونٹ پر سوار ہو کر لشکر کے آگے آگے چلا کرتی تھی ،اسی طرح سلمیٰ بھی اپنے لشکر کے آگے آگے تھی۔اس کے ارد گرد ایک سو شتر سواروں کا گھیرا تھا جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے۔یہ لشکر جوش و خروش بلکہ قہر اور غضب کے نعرے لگاتا آ رہا تھا۔
خالدؓ نے انتظار نہ کیاکہ دشمن اور قریب آئے۔ ان کے ساتھ نفری تھوڑی تھی، وہ دشمن کواتنی مہلت نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ حملہ کی ترتیب یا قلیل تعداد مسلمانوں کو نفری کی افراط کے بل بوتے پرگھیرے میں لینے کی پوزیشن میں آئے۔ خالدؓنے ہلہ بولنے کے انداز سے حملہ کر دیا، انہیں معلوم تھا کہ دشمن کا لشکر سفر کا تھکا ہوا ہے۔ خالدؓ نے دشمن کی اس جسمانی کیفیت سے بھی فائدہ اٹھایا۔
سلمیٰ جو ایک سو جانباز شتر سواروں کے حفاظتی نرغے میں تھی ۔اشتعال انگیز الفاظ سے اپنے لشکر کے جوش و خروش میں جان ڈال رہی تھی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ بنو فزارہ نے خالدؓ کو بڑا ہی سخت مقابلہ دیا۔ نفری تھوڑی ہونے کی وجہ سے خالدؓ مجبور ہوتے جا رہے تھے اور دشمن کے حوصلے بڑھتے جا رہے تھے۔ سلمیٰ کی للکار اور الفاظ جلتی پر تیل کا کام کر رہے تھے۔
خالدؓ نے سوچا کہ صرف یہ عورت ماری جائے تو بنو فزارہ کے قدم اُکھڑ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے چند ایک منتخب جانبازوں سے کہا کہ وہ سلمیٰ کا حفاظتی حصار توڑ کر اسے اونٹ سے گرا دیں۔ سلمیٰ کے محافظ بھی جانباز ہی تھے، وہ خالدؓ کے جانبازوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ ان جانبازوں نے یہ طریقہ اختیار کیاکہ ایک ایک محافظ شتر سواروں کو دوسروں سے الگ کر کے مارنا شروع کر دیا۔ اس طرح جانبازوں نے گھیرا توڑ دیا لیکن کوئی جانباز سلمیٰ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ زخمی ہو کر پیچھے آ جاتا تھا۔
آخر پورے ایک سو محافظ مارے گئے ۔خالدؓ کو اس کی بہت قیمت دینی پڑی ۔جانبازوں نے تلواروں سے سلمیٰ کے کچاوے کی رسیاں کاٹ دیں۔ کچاوہ سلمیٰ سمیت نیچے آ پڑا۔ جانبازوں نے خالدؓ کی طرف دیکھا کہ کیا حکم ہے، قیدی بنانا ہے یا قتل کرنا ہے؟ خالدؓ نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ ایک جانباز نے تلوار کے ایک ہی وار سے سلمیٰ کا سر تن سے جدا کر دیا۔
بنو فزارہ نے یہ منظر دیکھا تو ان میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنی لاشوں اور زخمیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
…………bnb…………

مدینہ سے تقریباً دو سو پچھتر میل شمال مشرق میں بطاح نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں بدؤوں کے چند ایک کنبے آباد ہیں ۔اس گاؤں کو کوئی اہمیت کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ اگر وہاں اِدھر اُدھر غور سے دیکھیں تو ایسے آثار ملتے ہیں جیسے یہاں کبھی شہر آباد رہا ہو۔
چودہ صدیاں گزریں، یہاں ایک شہر آباد تھا ،اس کا نام بطاح تھا۔ جو آج تک زندہ ہے مگر شہر سکڑ سمٹ کر چھوٹا سا گاؤں رہ گیا ہے۔ اس شہر میں خوبصورت لوگ آباد تھے، وہ بہادر تھے نڈر تھے اور باتیں ایسے انداز سے کرتے تھے جیسے کوئی نظم سنا رہے ہوں۔ عورتیں حسین تھیں اور مرد وجیہ تھے۔ یہ ایک طاقت ور قبیلہ تھا جسے ’’بنی تمیم ‘‘کہتے تھے۔
بنو یربوع بھی ایک قبیلہ تھا لیکن الگ تھلگ نہیں بلکہ بنی تمیم کا سب سے بڑا حصہ تھا۔ اس کا سردار ’’مالک بن نویرہ‘‘ تھا۔ بنی تمیم کا مذہب مشترک نہیں تھا۔ ان میں آتش پرست بھی تھے، قبر پرست بھی لیکن اکثریت بت پرست تھی۔ بعض عیسائی ہو گئے تھے، یہ لوگ سخاوت، مہمان نوازی اور شجاعت میں مشہور تھے۔ رسولِ اکرمﷺ نے ہر طرف قبولِ اسلام کے پیغام جن قبیلوں کو بھیجے تھے ان میں بنو تمیم خاص طور پر شامل تھے۔ اسلام کے فروغ اور استحکام کیلئے بنو تمیم جیسے طاقتور اور با اثر قبیلے کو ساتھ ملانا ضروری تھا۔
یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اس قبیلے نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا، مختصر یہ کہ بنی تمیم کی غالب اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ مالک بن نویرہ منفرد شخصیت اور حیثیت کا حامل تھا۔ وہ آسانی سے اپنے عقیدے بدلنے والا آدمی نہیں تھا۔ لیکن اس نے دیکھا کہ بنو تمیم کے بیشتر قبائل مسلمان ہو گئے ہیں تو اس نے اپنی مقبولیت اور اپنی سرداری کو قائم رکھنے کیلئے اسلام قبول کرلیا۔ چونکہ یہی شخص زیادہ با رعب اور اثر و رسوخ والا تھا اس لئے رسولِ کریمﷺ نے اسے بطاح کا امیر مقرر کر دیا تھا۔ زکوٰۃ، عشر دیگر محصول اور واجبات وصول کرکے مدینہ بھجوانا اس کی ذمہ داری تھی۔
مشہور مؤرخ بلاذری اور محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ مالک بن نویرہ بڑا وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھا۔ اس کے قد کاٹھ میں عجیب سی کشش تھی۔ اس کے سر کے بال لمبے اور خوبصورت تھے۔ شہسوار ایسا کہ کوئی اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ اچھا خاصا شاعر تھا۔ آواز میں مٹھاس اور ترنم تھا اور اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہنس مکھ تھا۔ غم کے مارے ہوؤں کو ہنسا دیتا تھا۔ اس میں خرابی یہ تھی کہ اس میں غرور اور تکبر بہت تھا۔ اس کی ایک وجہ تو اس کی وہ حیثیت تھی جو اسے بنو تمیم میں اور خصوصاً اپنے قبیلے میں حاصل تھی دوسری وجہ اس کا مردانہ حسن اور دیگر مردانہ اوصاف تھے۔ جو ایک طلسم کی طرح دوسروں پر حاوی ہو جاتے تھے۔
اس کا تعلق متعدد عورتوں کے ساتھ تھا۔ قبیلے کی جوان لڑکیاں اس کا قرب حاصل کرنے کی خواہاں اور کوشاں رہتی تھیں ۔لیکن وہ وقتی تعلق رکھتا اور کسی کو بیوی نہیں بناتا تھا۔ کہتا تھا کہ اس طرح ایک عورت اس کے ہم پلہ ہو جائے گی حالانکہ اس وقت بیویوں کو یہ مقام حاصل نہیں تھا۔ وہ قبیلے کی عورتوں کے دلوں میں بستا تھا۔
المنہال بنو تمیم کا معمولی سا ایک آدمی تھا جسے لوگ صرف نام سے جانتے تھے۔ اسے کوئی رتبہ اور کوئی اونچا مقام حاصل نہیں تھا۔ اس کی بیٹی لیلیٰ جوان ہوئی تو لوگ المنہال کا نام اس طرح لینے لگے جیسے اسے اونچا رتبہ مل گیا ہو۔ جوانی کی دہلیز پر اس کی بیٹی لیلیٰ کا حسن نکھر آیا تو قبیلے کے جوان آدمی اسے رک رک کر دیکھنے لگے اور اسے قریب سے دیکھنے کے لیے اس کے راستے میں کھڑے دکھائی دینے لگے۔
اصفہانی نے مختلف مؤرخوں اور اس  دور کی د یگر تحریروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ لیلیٰ کو خدا نے بڑی فیاضی سے حسن دیا تھا لیکن اس کی آنکھیں اتنی دلفریب تھیں کہ وہ جس کی طرف دیکھتی تھی وہ مسحور ہو جاتا تھا۔ وہ لباس ایسا پہنتی تھی کہ گھٹنوں تک اس کی ٹانگیں عریاں رہتی تھیں۔
مؤرخ کہتے ہیں کہ اس کی ٹانگوں کی ساخت میں غیر معمولی طور پر جاذبیت تھی۔ ایسے ہی اس کے بازو تھے۔ گول اور لمبے۔ وہ اپنے بالوں کو کھلا رکھتی تھی۔ بالوں کا رنگ اور ان کی چمک ایسی کہ ان میں طلسماتی تاثر تھا۔
اسے اگر کوئی توجہ سے نہیں دیکھتا تھا تو وہ مالک بن نویرہ تھا۔ کئی بار ایسے ہوا کہ وہ مالک کے قریب سے گزری نہ مالک نے اس کی طرف نہ لیلیٰ نے مالک کی طرف دیکھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages