Featured Post

Khalid001

31 May 2019

Khalid044


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  44
ایک روز لیلیٰ اپنی اونٹنی کو پانی پلا کر لا رہی تھی۔ راستے میں اسے ایک عورت مل گئی۔ لیلیٰ اسے جانتی تھی۔ وہ مالک بن نویرہ کی خاص ملازمہ تھی۔ اس نے لیلیٰ کو روک لیا۔
’’لیلیٰ!‘‘ ملازمہ نے اسے کہا ’’تو اس سے زیادہ غرور کر سکتی ہے۔ قبیلے میں کون ہے جو تیرے پاؤں کے ناخنوں کو چومنے کے لیے تیار نہ ہو۔‘‘
’’کیا تیرے آقا نے تجھے کوئی شعر یاد کرا کے نہیں بھیجا؟‘‘ لیلیٰ نے مسکرا کر کہا۔ ’’مالک بن نویرہ شاعر ہے نا! کیا میں جھوٹ کہہ رہی ہوں کہ تجھے تیرے آقا نے ملیے لیے کوئی پیغام دے کر بھیجا ہے؟ میں مردوں کی آنکھوں میں ان کے دلوں کے پیغام پڑھ لیا کرتی ہوں۔‘‘
’’خدا کی قسم!‘‘ ادھیڑ عمر ملازمہ نے کہا۔ ’’تو اسی عمر میں دانائی کی باتیں کرنے لگی ہے۔ اگر تو نے میری آنکھوں میں میرے آقا کا پیغام پڑھ لیا ہے تو تیرا کیا جواب ہو گا؟ وہ تیرے لیے بے قرار ہے۔‘‘
’’اس بستی میں مجھے کوئی ایسا آدمی دکھا سکتی ہو جو میرے لیے بے قرار نہیں؟‘‘ لیلیٰ نے باوقار لہجے میں کہا۔
’’لیکن میرے آقا کی بات کچھ اور ہے۔‘‘ ملازمہ نے کہا۔
’’صرف اتنی سی بات اور ہے کہ وہ دوسرے آدمیوں کی طرح میری طرف دیکھتا نہیں۔‘‘ لیلیٰ نے کہا ’’اور میں جانتی ہوں کہ وہ میری طرف کیوں نہیں دیکھتا۔ وہ چاہتا ہے کہ میں اس کی طرف دیکھوں۔ وہ سردار ہے نا! اپنے آپ کو بہت خوبصورت سمجھتا ہے۔ اسے کہنا لیلیٰ تمہاری طرف کبھی نہیں دیکھے گی۔‘‘
’’کیا وہ اس جواب سے مایوس نہیں ہو گا؟‘‘ ملازمہ نے کہا۔ ’’اور کیا تو خوش نصیب نہیں کہ مالک بن نویرہ جیسا مرد تجھے چاہتا ہے؟ وہ تیرے قدموں میں سونے کے ٹکڑے رکھ دے گا۔‘‘
’’اسے کہو میرے قدموں میں سر رکھے۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’کیا تو جانتی نہیں کہ اس نے اتنی دلیری سے مجھے یہ پیغام کیوں بھیجا ہے؟ کیونکہ وہ سردار ہے۔ میرا باپ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اس نے میری توہین کی ہے۔‘‘
’’تو کیا تو کسی اور کو چاہتی ہے؟‘‘ ملازمہ نے پوچھا۔
لیلیٰ نے قہقہہ لگایا اور جواب میں کچھ بھی نہ کہا۔
’’پھر میں اسے کیا کہوں؟‘‘ ملازمہ نے پوچھا۔
’’میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’اور اسے کہنا کہ میں صرف ایک رات جلنے والی شمع نہیں ہوں۔ میں اس کے پاس جاؤں گی جو مجھے عمر بھر کی روشنی سمجھے گا۔‘‘
جب مالک بن نویرہ کو یہ جواب ملا تو اس کے تکبر اور غرور کا بت ٹوٹ گیا۔
’’آقا!‘‘ ملازمہ نے کہا ’’لیلیٰ کیا ہے؟ قبیلے کی ایک لڑکی ہے۔ شہزادی نہیں۔ اس کی شادی کا فیصلہ اس کا باپ کرے گا۔ اس کے باپ کو کہیں...۔‘‘
’’مجھے جسم نہیں لیلیٰ کا دل چاہیے۔‘‘ مالک بن نویرہ نے کہا۔
اور ایک روز مالک لیلیٰ سے محبت کی بھیک مانگ رہا تھا۔
’’میں نے تمہیں دھتکارا نہیں تھا۔‘‘ لیلیٰ نے اسے کہا ’’میں نے یہ بتایا تھا کہ میں وہ نہیں ہوں جو تم سمجھے تھے۔‘‘
لیلیٰ نے مالک بن نویرہ کا تکبر اور غرور اپنے پاؤں تلے مسل ڈالا اور ان کی شادی ہو گئی۔ بنو تمیم نے لیلیٰ کو ام تمیم کا خطاب دے دیا۔
…………bnb…………

رسولِ کریمﷺ کے وفات کی خبر ملتے ہی مالک بن نویرہ نے مدینہ والوں سے نظریں پھیر لیں اور ظاہر کر دیا کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا ایمان نہیں۔ اس نے زکوٰ ۃ اور محصولات وصول کرکے اپنے گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ چند دنوں تک اس نے یہ مال مدینہ کو بھیجنا تھا۔ اس نے قبیلے کے لوگوں کو اکھٹا کرکے انہیں زکوٰ ۃ اور محصولات واپس کردیئے۔
’’اب تم آزاد ہو۔‘‘ مالک نے کہا۔ ’’میں نے مدینہ کی زنجیر توڑ ڈالی ہے۔ اب جو کچھ تم کماؤ گے وہ سب تمہارا ہو گا۔‘‘
لوگوں نے دادوتحسین کے نعرے بلندکیے۔
مالک بہت خوش تھا کہ مدینہ سے تعلق توڑ کر وہ اپنے قبیلے کا پھر خود مختار سردار بن گیا ہے مگر اس کی خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ دو تین قبیلوں کے سرکردہ آدمیوں نے مالک سے کہا کہ اس نے مدینہ سے تعلق توڑ کر اچھا نہیں کیا۔
مالک نے انہیں مدینہ کے خلاف کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی زبان کا جادو نا چل سکا۔
زکوٰۃ اور محصولات کی ادائیگی کے مسئلے پر بنو تمیم تین حصوں میں بٹ گئے۔ ایک وہ تھے جو زکوٰۃ وغیر ہ کی ادائیگی کرنا چاہتے تھے ۔دوسرے وہ جو مدینہ والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے اور تیسرے وہ تھے جن کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ وہ کیا کریں۔
ان سب کے اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ قبیلوں کی آپس میں خونریز لڑائیاں شروع ہو گئیں۔اتنے میں سجاح اپنا لشکر لے کر آگئی۔ سجاح کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ الحارث کی بیٹی سجاح اپنے لشکر کے ساتھ مالک بن نویرہ کے قبیلے بنو یربوع کے علاقے میں جا خیمہ زن ہوئی۔ اس نے مالک بن نویرہ کو بلاکر کہا کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔
’’اگر تم اپنے قبیلے کو میرے لشکر میں شامل کر دو توہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں۔‘‘ سجاح نے کہا۔ ’’تمہیں معلوم ہو گا کہ میں بنو یربوع میں سے ہوں۔‘‘
’’خدا کی قسم!‘‘ مالک بن نویرہ نے کہا۔ ’’میں تمہارا دستِ راست بن جاؤں گا لیکن ایک شرط ہے جو دراصل ہماری ضرورت ہے۔ تم دیکھ رہی ہوکہ بنو تمیم کے قبیلوں میں دشمنی پیدا ہو چکی ہے۔ ان سب کو مصالحت کی دعوت دے کر انہیں مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کریں گے۔ اگر یہ مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم انہیں تباہ و بربادکر دیں گے۔ اگر تم نے انہیں ختم نہ کیا تو یہ سب مل کر تمہارے خلاف ہو جائیں گے۔ ان میں مدینہ کے وفادار بھی ہیں، انہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کرلیا ہے۔‘‘
مالک بن نویرہ کی خواہش یہ تھی کہ سجاع کے لشکر کو ساتھ ملا کر بنی تمیم کے مسلمانوں کو اور اپنے دیگر مخالفین کو ختم کیاجائے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ سجاع ،مالک بن نویرہ کے مردانہ حسن و جلال سے متاثر ہو گئی تھی۔ اس نے مالک کی بات فوراً مان لی۔ دونوں نے تمام قبیلوں کے سرداروں کو مصالحت کے پیغامات بھیجے۔ پیغام میں یہ بھی شامل تھا کہ مدینہ پر حملہ کیا جائے گا۔
صرف ایک قبیلے کا سردار’’ وکیع بن مالک‘‘ تھا جس نے ان سے مصالحت قبول کرلی۔ باقی تمام قبیلوں نے انکار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں سجاح ،مالک اور وکیع کے متحدہ لشکر نے دوسرے قبیلوں پر حملہ کر دیا۔ بڑی خونریز لڑائیاں لڑی جانے لگیں۔ بنو تمیم جو سخاوت، مہمان نوازی اور زبان کی چاشنی کیلئے مشہور تھے۔ ایک دوسرے کیلئے وحشی اور درندے بن گئے۔ بستیاں اجڑ گئیں، خون بہہ گیا، لاشیں بکھر گئیں۔
لیلیٰ کو اپنے دروازے پر عورتوں کی آہ و بکا سنائی دی۔کچھ عورتیں بَین کر رہی تھیں۔
’’کیا میں بیوہ ہو گئی ہوں ؟‘‘لیلیٰ ننگے پاؤں باہر کو دوڑی ۔وہ کہہ رہی تھی۔’’ مالک بن نویرہ کی لاش لائے ہیں۔‘‘
اس نے دروازہ کھولا تو باہر دس بارہ عورتیں کھڑی بَین کر رہی تھیں۔لیلیٰ کو دیکھ کر ان کی آہ و زاری اور زیادہ بلند ہو گئی ۔تین عورتوں نے اپنے بازوؤں پر ننھے ننھے بچوں کی لاشیں اٹھا رکھی تھیں۔ لاشوں پر جو کپڑے تھے وہ خون سے لال تھے۔
’’لیلیٰ کیا تو عورت ہے؟‘‘ ایک عورت اپنے بچے کی خون آلود لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے چلائی ۔’’تو عورت ہوتی تو اپنے خاوند کا ہاتھ روکتی کہ بچوں کا خون نہ کر۔‘‘
’’یہ دیکھ۔‘‘ ایک اور عورت نے اپنے بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ بھی دیکھ۔‘‘ ایک اور بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے آگئی۔
’’یہ دیکھ میرے بچے۔‘‘ ایک عورت نے اپنے دو بچے لیلیٰ کے سامنے کھڑے کرکے کہا۔ ’’یہ یتیم ہو گئے ہیں۔‘‘
لیلیٰ کو چکر آنے لگا۔عورتوں نے اسے گھیر لیا اور چیخنے چلانے لگیں۔
’’تو ڈائن ہے۔‘‘
’’تیرا خاوند جلاد ہے۔‘‘
’’سجاح کو نبوت کس نے دی ہے؟‘‘
’’سجاح تیرے خاوند کی داشتہ ہے۔‘‘
’’سجاع تیری سوکن ہے۔‘‘
’’تیرے گھر میں ہمارے گھروں کا لوٹا ہوا مال آ رہا ہے۔‘‘
’’مالک بن نویرہ تجھے ہمارے بچوں کا خون پلا رہا ہے۔‘‘
’’ہمارے تمام بچوں کو کاٹ کر پھینک دے ،ہم سجاع کی نبوت نہیں مانیں گی۔‘‘
’’ہمارے نبی محمدﷺ ہیں ۔محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘
بستی کے لوگ اکھٹے ہوگئے ۔ان میں عورتیں زیادہ تھیں۔ لیلیٰ نے اپنا حسین چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔اس کا جسم ڈولنے لگا۔دو عورتوں نے اسے تھام لیا۔اس نے اپنے سر کو زور زور سے جھٹکا اور وہ سنبھل گئی۔ اس نے عورتوں کی طرف دیکھا۔
’’میں تمہارے بچوں کے خون کی قیمت نہیں دے سکتی۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’میرا بچہ لے جاؤ اور اسے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔‘‘
’’ہم چڑیلیں نہیں۔‘‘ ایک شور اٹھا۔ ’’ہم ڈائنیں نہیں۔ لڑائی بند کراؤ۔لوٹ مار اور قتل و غارت بند کراؤ۔تمہارا خاوند وکیع بن مالک اور سجاح کے ساتھ مل کر لوٹ مار کر رہا ہے۔‘‘
’’لڑائی بند ہو جائے گی۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’بچوں کی لاشیں اندر لے آؤ۔‘‘ مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اندر لے گئیں۔ لیلیٰ نے تینوں لاشیں اس پلنگ پر رکھ دیں جس پر وہ اور مالک بن نویرہ سویا کرتے تھے۔
…………bnb…………

مالک بن نویرہ لیلیٰ کا پجاری تھا۔اس پر لیلیٰ کا حسن جادو کی طرح سوار تھا۔اس زمانے میں سردار اپنی بیویوں کو لڑائیوں میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔لیکن یہ لڑائی اس قسم کی تھی کہ مالک لیلیٰ کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا۔ لیلیٰ سے وہ زیادہ دیرتک دور بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ اگر کہیں قریب ہوتا تو رات کو لیلیٰ کے پاس آجایا کرتا تھا۔ وہ اس رات آگیا۔ کیا اس پلنگ پر کوئی سویا ہوا ہے؟‘‘
مالک بن نویرہ نے پوچھا۔ ’’نہیں۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’تمہارے لیے ایک تحفہ ڈھانپ کر رکھا ہوا ہے … تین پھول ہیں لیکن مرجھا گئے ہیں۔‘‘
مالک نے لپک کر چادر ہٹائی اور یوں پیچھے ہٹ گیا جیسے پلنگ پہ سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہو۔ اس نے لیلیٰ کی طرف دیکھا۔
’’خون پینے والے درندے کیلئے اس سے اچھا تحفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘ لیلیٰ نے کہا اور اسے سنایا کہ ان کی مائیں کس طرح آئی تھیں اور کیا کچھ کہہ گئی ہیں۔ اس نے اپنا دودھ پیتا بچہ مالک کے آگے کر کے کہا۔ ’’جا! لے جا اسے اور اس کا بھی خون پی لے۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’کیا تو وہ مالک بن نویرہ ہے جسے لوگ ہنس مکھ کہتے ہیں؟ کیایہ ہے تیری سخاوت اور شجاعت کہ تو ایک عورت کے جال میں آکر لوٹ مار کرتا پھر رہا ہے؟ اگر تو بہادر ہے تو مدینہ پر چڑھائی کر۔ یہاں نہتے مسلمانوں کو قتل کرتا پھر رہا ہے۔‘‘
مالک بن نویرہ معمولی آدمی نہیں تھا۔اس کی شخصیت میں انفرادیت تھی جودوسروں پر تاثر پیدا کرتی تھی۔اس نے طعنے کبھی نہیں سنے تھے۔اس کا سر کبھی جھکا نہیں تھا۔
’’کیایہ ہے تیرا غرور؟‘‘ لیلیٰ نے اسے خاموش کھڑا دیکھ کر کہا۔ ’’کیا تو ان معصوم بچوں کی لاشوں پر تکبر کرے گا؟ … ایک عورت کی خاطر …ایک عورت نے تیرا غرور اور تکبر توڑ کر تجھے قاتل اور ڈاکو بنا دیا ہے۔ میں اپنے بچے کو تیرے پاس چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ پیچھے سے ایک تیر میری پیٹھ میں بھی اتار دینا۔‘‘
’’لیلیٰ!‘‘ مالک بن نویرہ گرج کربولا مگر بجھ کہ رہ گیااور مجرم سی آواز میں کہنے لگا۔ ’’میں کسی عورت کے جال میں نہیں آیا۔‘‘
’’جھوٹ نہ بول مالک!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’میں جا رہی ہوں۔سجاح کو لے آ یہاں … یہ یاد رکھ لے۔ تیری سرداری ،تیری خوبصورتی ،تیری شاعری اور تیری خونخواری تجھے ان مرے ہوئے بچوں کی ماؤں کی آہوں اور فریادوں سے بچا نہیں سکیں گی۔ یہ تو صرف تین لاشیں ہیں۔ بستیوں کولوٹتے معلوم نہیں کتنے بچے تیرے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے گئے ہوں گے۔ تو سزا سے نہیں بچ سکے گا ۔تیرا بھی خون بہے گا اور میں کسی اور کی بیوی ہوں گی۔‘‘
مالک بن نویرہ نے یوں چونک کر لیلیٰ کی طرف دیکھا جیسے اس نے اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہو۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا باہر نکل گیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages