Featured Post

Khalid001

01 June 2019

Khalid045


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  45
مالک رات بھر واپس نہ آیا۔صبح طلوع ہوئی ۔بطاح جو بارونق بستی تھی ،ایک ایسے مریض کی طرح دکھائی دے رہی تھی جو کبھی خوبرو جوان ہوا کرتا تھا۔اب اس کا چہرہ بے نور اور آنکھوں میں موت کا خوف رچا ہوا تھا۔بطاح کی عورتوں کے چہروں پر مُردنی چھائی ہوئی تھی۔یہ اس مار دھاڑ کا نتیجہ تھا جو بنو تمیم میں ہو رہی تھی۔سورج کی پہلی کرنیں آئیں تو بطاح کی گلیوں میں ڈری ڈری سی داخل ہوئیں۔
اس وقت سورج کچھ اور اوپر اٹھ آیا تھا۔ جب بطاح میں ہڑ بونگ مچ گئی۔ بعض عورتیں بچوں کو اٹھا کر گھروں کو دوڑی گئیں اور اندر سے دروازے بند کر لیے۔ کچھ عورتیں اپنی جوان بیٹیوں کو ساتھ لیے بستی سے نکل گئیں۔ وہ کہیں چھپ جانے کو جا رہی تھیں۔ بوڑھے آدمی کمانیں اور ترکش اٹھائے چھتوں پر چڑھ گئے۔ بوڑھوں کے علاوہ جو آدمی بستی میں تھے۔ انہوں نے برچھیاں اور تلواریں نکال لیں۔ کسی نے بڑی بلند آواز سے کہہ دیا تھا کہ دشمن کا لشکر آ رہا ہے۔
دور زمین سے جو گرد اٹھ رہی تھی وہ کسی لشکر کی ہی ہو سکتی تھی۔بطاح میں جوان آدمی کم ہی رہ گئے تھے۔سب مالک بن نویرہ کے ساتھ دوسرے قبیلوں کی لڑائی میں چلے گئے تھے ۔بطاح میں جو رہ گئے تھے ان پر خوف وہراس طاری ہو گیا تھا۔
لیلیٰ کے گھر میں پلنگ پر تین بچوں کی لاشیں پری تھیں اور وہ اپنے بچے کو سینے سے لگائے اپنے قلعہ نما مکان کی چھت پر کھڑی تھی۔ وہ بار بار اپنے بچے کو دیکھتی اور چومتی تھی۔وہ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ بچوں کے خون کا انتقام اس کے بچے سے لیا جائے گا۔
زمین سے اٹھتی ہوئی گرد بہت قریب آ گئی تھی اور اس میں گھوڑے اور اونٹ ذرا ذرا دکھائی دینے لگے تھے۔
’’ہوشیار بنو یربوع خبردار!‘‘ بطاح میں کسی کی واز سنائی دی۔ ’’جانیں لڑا دو۔ ڈرنا نہیں۔‘‘
لشکر گرد سے نکل آیااور قریب آ گیا۔بستی کے کئی ایک آدمی گھوڑوں پر سوار ،ہاتھوں میں برچھیاں اور تلواریں لیے آگے چلے گئے۔ان کا انجام ظاہر تھا لیکن انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر لشکر کی ترتیب میں کوئی فرق نہ آیا۔آگے جا کر وہ لشکر کا حصہ بن گئے۔
’’اپنے ہیں۔‘‘انہوں نے نعرے لگائے۔’’اپنے ہیں …مالک بن نویرہ ہے …لڑائی ختم ہو گئی ہے۔‘‘
بطاح میں سے بھی نعرے گرجنے لگے۔لوگوں نے آگے بڑھ کر اپنے لشکر کااستقبال کیا۔
مالک بن نویرہ کہیں بھی نہ رکا۔ وہ سیدھا اپنے گھر کے دروازے پر آیااور گھوڑے سے کود کر اندر چلا گیا۔ اسے لیلیٰ صحن میں کھڑی ملی۔ اس کے دلکش چہرے پہ اداسی تھی اور اس کی وہ آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں جن پر قبیلے کے جوان جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔
’’میں نے تیرا حکم مانا ہے لیلیٰ!‘‘ ’’لڑائی ختم کردی ہے۔ہم ایک دوسرے کے قیدی واپس کردیں گے۔میں نے سجاح سے تعلق توڑ لیا ہے۔اس پھول سے چہرے سے اداسی دھوڈالو۔‘‘
لیلیٰ کا جسم بے ج ان سا تھا۔ اس میں وہ تپش پیدا نہ ہوئی جو مالک کو دیکھ کر پیدا ہوا کرتی تھی۔ مالک نے اسے بہلانے کی بہت کوشش کی لیکن لیلیٰ کا چہرہ بجھا ہی رہا۔
’’میرے دل پر ایک خوف بیٹھ گیا ہے۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔
’’کیسا خوف؟‘‘ مالک نے پوچھا۔ ’’کس کا خوف؟‘‘
’’سزا کا۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’انتقام کا۔‘‘
…………bnb…………

سجاح اکیلی رہ گئی۔ وکیع بن مالک نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ مالک بن نویرہ نے وکیع سے کہا تھا کہ وہ ایک عورت کے جھانسے میں آکر اپنے قبیلے پر ٹوٹ پڑے تھے۔ سجاح اپنے لشکر کو ساتھ لیے نباج کی طرف چلی گئی۔پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ یمامہ پر حملہ کرنے گئی تھی لیکن مسیلمہ کے جال میں آگئی اور مسیلمہ نے اسے اپنی بیوی بنا لیا۔
مالک بن نویرہ کے گناہوں کی سزا شروع ہو چکی تھی۔ وکیع بن مالک جو اس کا دستِ راست تھا اس کا ساتھ چھوڑ گیا اور مسلمانوں سے جا ملا۔ مالک بن نویرہ نے اسے روکا تھا۔
’’اگر ہم دونوں الگ ہو گئے تو مسلمان ہمیں کچل کہ رکھ دیں گے۔‘‘ مالک نے وکیع سے کہا تھا۔ ’’ہم دونوں مل کر ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ہمیں زندہ رہنا ہے مالک!‘‘ وکیع نے کہا تھا۔ ’’مدینہ کی فوج کا مقابلہ کس نے کیا ہے؟ غطفان ہار گئے، طئی ہار گئے، بنو سلیم، بنو اسد، ہوازن۔ کوئی بھی مسلمانوں کے آگے ٹھہر نہ سکا۔ پھر سب اکھٹے ہوئے اور ام زمل سلمیٰ کو بھی ساتھ ملا لیا۔‘‘
’’کیا تم نہیں جانتے مالک! الولید کے بیٹے خالد نے انہیں کس طرح بھگا دیا ہے؟ سلمیٰ قتل کر دی گئی ہے۔ مسلمان ہمیں مسلمانوں کا خون معاف نہیں کریں گے۔ تمام قبیلوں کو شکست دینے والا خالد واپس مدینہ نہیں چلا گیا۔ وہ بزاخہ میں ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کامانا ہوا سپہ سالار اسامہ ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت یہاں کارخ کر سکتا ہے۔ ان سے خون معاف کرانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں ان کی اطاعت قبول کرکے انہیں اپنے قبیلے کی زکوٰۃ اور محصول ادا کرتا رہوں۔‘‘
مالک بن نویرہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔
خالد ؓبن ولید تک اطلاع پہنچ چکی تھی کہ مالک بن نویرہ کو رسول اﷲﷺنے امیر مقررکیا تھا مگر اس نے زکوٰۃ وغیرہ وصول کرکے مدینہ نہ بھیجی اور لوگوں کو واپس کر دی ہے۔ جاسوسوں نے خالدؓ کو مالک کا ایک شعر بھی سنایا۔ اس میں اس نے رسولِ کریمﷺ کے وفات کے بعد اپنے قبیلے سے کہا تھا کہ’’ اپنے مال کو اپنے پاس رکھو اور مت ڈرو کہ نہ جانے کیا ہو جائے۔ اگر اسلامی حکومت کی طرف سے ہم پر کوئی مصیبت آئے گی تو ہم کہیں گے کہ ہم نے محمد (ﷺ) کے دین کو قبول کیاتھا، ابو بکر کے دین کو نہیں۔‘‘
مالک بن نویرہ نے سجاع کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا جو قتلِ عام کیا تھا، اس کی بھی اطلاع خالدؓ کو مل گئی تھی۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو بطاح کی طرف تیز کوچ کا حکم دیا۔ ان کے دستوں میں انصارِ مدینہ بھی تھے۔ انہوں نے بطاح کی طرف پیش قدمی کی مخالفت کی۔
’’خدا کی قسم!‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’میں اپنی سپاہ میں پہلے آدمی دیکھ رہا ہوں جو اپنے امیر اور سالار کی حکم عدولی کر رہے ہیں۔‘‘
’’اسے حکم عدولی سمجھیں یا جو کچھ بھی سمجھیں۔‘‘انصار کی نمائندگی کرنے والے نے کہا۔ ’’خلیفۃ المسلمین کا حکم یہ تھا کہ طلیحہ کو مطیع کر کے اس علاقے میں رسول اﷲﷺ کی قائم کی ہوئی عملداری کو بحال کریں اور جو جنگ پہ اتر آئے اس سے جنگ کریں اور بزاخہ میں اگلے حکم کا انتظار کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ مدینہ سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا کہ ہم بطاح پر حملہ کیلئے جائیں۔‘‘
’’کیا تم میں کوئی ہے جسے یہ معلوم نہ ہو کہ میں تمہارا امیر اورسپہ سالار ہوں؟‘‘ خالد ؓبن ولید نے پوچھا اور سب کی طرف دیکھنے لگے۔ انہیں کوئی جواب نہ ملا تو انہوں نے کہا۔ ’’میں نہیں جانتا کہ خلیفۃ المسلمین کے ساتھ تم کیا معاہدہ کرکے آئے ہو۔ میں یہ جانتا ہوں کہ خلیفہ نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ جہاں بھی اسلام سے انحراف کی خبر ملے اور جہاں بھی مدینہ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کی خلاف ورزی نظر آئے، وہاں تک جاؤ اور اسلام کا تحفظ کرو۔ میں سپہ سالار ہوں۔ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے اگر مجھے کوئی ایسی کارروائی کرنی پڑے گی جوخلیفہ کے احکام میں شامل نہیں ہو گی تومیں وہ کارروائی ضرور کروں گا … خلافت کے احکام میرے پاس آتے ہیں، تمہارے پاس نہیں۔‘‘
’’ہم نے کوئی قاصد آتا نہیں دیکھا۔‘‘انصار میں سے کسی نے کہا۔
’’میں اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔‘‘ خالد ؓنے جھنجھلا کر کہا۔ ’’اور میں کسی ایسے آدمی کو اپنی سپاہ میں نہیں دیکھنا چاہتا جس کے دل میں ذرا سا بھی شک و شبہ ہو۔ مجھے اﷲ کی خوشنودی چاہیے۔ اگر تمہیں اپنی ذات کی خوشنودی چاہیے تو جاؤ۔ اپنے آپ کو خوش کرو۔ میرے لیے مہاجرین کافی ہیں اور میرے ساتھ جو نو مسلم ہیں، میں انہیں بھی کافی سمجھتا ہوں۔‘‘
مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ ابو بکرؓ نے اپنے احکام میں یہ شامل کیا تھا کہ بنو اسد کے سردار طلیحہ کی سرکوبی کے بعد خالد ؓکے دستے بطاح تک جائیں گے جہاں کے امیر مالک بن نویرہ نے زکوٰ ۃ اور محصولات کی ادائیگی نہیں کی اور وہ اسلام سے منحرف ہو کر اسلام کادشمن بن گیا ہے۔
طبری اور دیگر مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ انصار بزاخہ میں رہ گئے اور خالدؓ اپنے مجاہدین کو ان کے بغیر بطاح لے گئے۔ جب یہ لشکر بزاخہ سے چلا تو انصار نے باہم صلاح مشورہ کیا۔ وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اتنی دور سے اکھٹے آئے تھے۔ اکھٹے لڑائیاں لڑیں اور اب ہم میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا۔
’’اور اس لئے بھی ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا ۔‘‘انصار میں سے ایک نے کہا۔ ’’کہ مہاجرین اور نو مسلموں نے فتح حاصل کرلی تو اس میں ہمارا نام نہیں ہوگا۔ہمیں مدینہ جا کر شرمساری ہو گی۔‘‘
’’اور اس لئے بھی۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’کہ خالد بن ولید کو اگر کہیں شکست ہوئی تو مدینہ میں لوگ ہم پر لعنت بھیجیں گے کہ ہم نے مدینہ سے اتنی دور محاذ پر جا کر خالد کو اور اپنے ساتھیوں کو دھوکا دیا۔ہم ملعون کہلائیں گے۔‘‘
خالدؓ کے دستے بزاخہ سے دور نکل گئے۔ایک تیز رفتار گھوڑسوار پیچھے سے آن ملا اور خالدؓ کے پاس جا گھوڑا روکا۔
’’کیا تم انصار میں سے نہیں ہو جو پیچھے رہ گئے ہیں؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔
’’ہاں امیر لشکر!‘‘ سوار نے کہا۔ ’’میں اُنہی میں سے ہوں۔انہوں نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ ان کا انتظار کریں ۔وہ آ رہے ہیں۔‘‘
خالدؓ بن ولید نے اپنے دستوں کو روک لیا۔کچھ دیر بعد تمام انصار آ گئے اور دستے بطاح کی طرف روانہ ہو گئے۔
…………bnb…………

’’لیلیٰ !‘‘بطاح میں مالک بن نویرہ اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا۔’’تو نے مجھے محبت دی ہے ۔تیری ذات میرے شعروں میں نئی روح ڈالی ہے۔اب مجھے حوصلہ دو لیلیٰ!میرے دل میں خوف نے آشیانہ بنا لیا ہے۔‘‘
’’میں نے تجھے پہلے دن کہا تھا غرور اور تکبر چھوڑ دے مالک!‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’لیکن تم اتنی دور نکل گئے کہ انسانوں کو چیونٹیاں سمجھ کر مسل ڈالا۔‘‘
’’مت یاد دلا مجھے میرے گناہ لیلیٰ!‘‘مالک بن نویرہ نے کہا۔’’گناہوں نے میری بہادری کو ڈس لیا ہے۔‘‘
’’آج کیا بات ہو گئی ہے کہ تم پر اتنا خوف طاری ہو گیا ہے؟‘‘
’’بات پوچھتی ہو لیلیٰ؟‘‘ مالک بن نویرہ نے کہا۔ ’’یہ موت کی بات ہے۔ میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ میرا تیرا ساتھ ختم ہو رہا ہے … میں نے اپنے جاسوس بڑی دور دورتک بھیج رکھے ہیں۔ آج ایک جاسوس آیا ہے۔اس نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر بڑی تیزی سے ادھر آ رہا ہے۔اگر لشکر کی یہی رفتار رہی تو پرسوں شام تک یہاں پہنچ جائے گا۔‘‘
’’پھر تیاری کرو۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’قبیلوں کو اکھٹا کرو۔‘‘ ’’کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا۔‘‘ مالک نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’میں نے وکیع اور سجاح کے ساتھ مل کر اپنے قبیلوں کا جو خون بہایا ہے وہ کوئی نہیں بخشے گا۔ ان سے مصالحت تو کرلی تھی لیکن دل پھٹے ہوئے ہیں۔ میرے قبیلے کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔‘‘
’’پھر آگے بڑھواور مسلمانوں کے سپہ سالار سے کہو کہ تم نے اسلام ترک نہیں کیا۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’شاید وہ تمہیں بخش دیں۔‘‘
’’نہیں بخشیں گے۔‘‘ مالک نے کہا۔ ’’نہیں بخشیں گے۔انہوں نے کسی کو نہیں بخشا۔‘‘
مالک بن نویرہ پر خوف طاری ہوتا چلا گیا۔اسے خبریں مل رہی تھیں کہ خالدؓ کا لشکر قریب آ رہا ہے ۔اس نے اپنے قبیلے کو اکھٹا کیا۔
’’اے بنو یربوع!‘‘اس نے قبیلے سے کہا۔ ’’ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے مدینہ کی حکمرانی کو تسلیم کیا اور ان سے منحرف ہو گئے۔ انہوں نے ہمیں اپنا مذہب دیا جو ہم نے قبو ل کیا پھر نا فرمان ہو گئے۔ وہ آ رہے ہیں۔ سب اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ اور دروازے بند کر لو۔ یہ نشانی ہے کہ تم ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاؤ گے۔ ان کے بلانے پر ان کے سامنے نہتے جاؤ۔ کچھ فائدہ نہ ہوگا مقابلے میں …جاؤ، اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔‘‘
لوگ سر جھکائے ہوئے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages