Featured Post

Khalid001

01 June 2019

Khalid046


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  46
نومبر 632ء(شعبان 11ہجری) کے پہلے ہفتے میں خالدؓ بطاح پہنچ گئے۔
انہوں نے اپنے لشکر کو محاصرے کی ترتیب میں کیا۔ مگر ایسے لگتا تھا جیسے بطاح اجڑ گیا ہو۔ شہر کا دفاع کرنے والے تو نظر ہی نہیں آتے تھے۔ کوئی دوسرا بھی دکھائی نہ دیا۔ کسی مکان کی چھت پر ایک بھی سر نظر نہیں آتا تھا۔
’’کیا مالک بن نویرہ اپنے آپ کو اتنا چالاک سمجھتا ہے کہ مجھے گھیرے میں لے لے گا؟‘‘خالدؓ نے اپنے نائب سالاروں سے کہا۔’’محاصرے کی ترتیب بدل دواور اپنے عقب کا خیال رکھو۔میں اس بستی کو آگ لگادوں گا۔وہ یہاں سے نکل گئے ہیں ۔عقب سے حملہ کریں گے۔‘‘
خالدؓ بن ولید زندہ دل، بے خوف اور مہم جو تھے۔ان کے احکام بہت سخت ہوا کرتے تھے۔انہوں نے اپنے دستوں کو اس ترتیب میں کر دیاکہ عقب سے حملہ ہو تو روک لیں اور اگر اس کے ساتھ ہی شہر سے بھی حملہ ہو جائے تو دونوں طرف لڑا جائے۔مسلمانوں کو اس دشواری کا سامنا تھا کہ ان کی نفری تھوڑی تھی اور وہ اپنے مستقر (مدینہ) سے بہت دور تھے۔ انہوں نے جن قبیلوں کو مطیع کیا تھا ،ان کی بستیوں کو اڈے بنا لیا تھا لیکن ابھی وہاں کے لوگوں پر پوری طرح سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ خالدؓ کی پرجوش اور ماہرانہ قیادت تھی جو مجاہدین کی قلیل تعداد میں بجلیوں جیسا قہر پیدا کئے رکھتی تھی۔
خالدؓ نے بستی میں ایک دستہ داخل کیا تو اس پر ایک بھی تیر نہ آیا۔ہر مکان کا دروازہ بند تھا۔ خالدؓ نے یہ خاموشی دیکھی تو وہ خود بستی میں داخل ہوئے۔
’’مالک بن نویرہ!‘‘خالدؓ نے کئی بار مالک کوپکارا اورکہا۔’’باہر آ جاؤ۔نہیں آؤ گے تو ہم بستی کو آگ لگا دیں گے۔‘‘
’’تجھ پر خدا کی سلامتی ہو۔‘‘ایک چھت سے ایک آدمی کی آواز آئی۔’’مت جلا ہمارے گھروں کو ۔وہ جسے تو بلا رہا ہے،یہاں نہیں ہے ۔یہاں کوئی نہیں لڑے گا۔‘‘
’’الولید کے بیٹے!‘‘ایک اور چھت سے آواز آئی۔’’کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ہم اپنے مکانوں کے بند دروازوں کے پیچھے بیٹھے ہیں۔کیا مدینہ میں یہ رواج نہیں کہ بند دروازہ ایک اشارہ ہے کہ آجاؤ،ہم تمہارے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔‘‘
’’بے شک میں یہ اشارہ سمجھتا ہوں!‘‘خالد نے کہا۔’’مکانوں کے دروازے کھول دو اور باہر آجاؤ۔عورتوں اور بچوں پر جبر نہیں۔ان کی مرضی ہے،باہر آئیں یا نہ آئیں۔‘‘
لوگوں کو رسم و رواج معلوم تھا۔وہ ہتھیاروں کے بغیر باہر آ گئے۔عورتیں اور بچے بھی نکل آئے۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو حکم دیا کہ ہر گھر کے اندر جا کر دیکھیں۔کوئی آدمی اندر نہ رہے۔خالدؓ نے خاص طور پر حکم دیاکہ کسی گھر میں کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا جائے نہ کسی پر ہلکا سا بھی تشدد کیا جائے۔
مالک بن نویرہ کے قلعہ نمامکان میں خالد ؓخود گئے۔وہاں سامان پڑا تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے یہاں کے رہنے والے کچھ ہی دیر پہلے یہاں سے نکلے ہوں۔بستی سے خالد ؓکو اتنا ہی پتا چلا کہ مالک بن نویرہ اپنے قبیلے کو یہ کہہ کر کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائیں۔لیلیٰ کو ساتھ لے کربستی سے نکل گیا تھا۔جنہوں نے اسے جاتے دیکھا تھا، انہوں نے سمت بتائی جدھر وہ گیا تھا۔ مالک گھوڑے پر اور لیلیٰ اونٹ پر سوار تھی۔
خالدؓ نے اردگرد کی بستیوں کو اپنے آدمی بھیج دیئے اور کچھ آدمی اس سمت روانہ کیے جدھر بتایا گیا تھا کہ مالک گیاہے۔وہ صحرا تھا اونٹ اور گھوڑے کے قدموں کے نشان بڑے صاف تھے۔یہ خالدؓکے آدمیوں کو ایک بستی میں لے گئے۔یہ بنو تمیم کی ایک بستی تھی۔
’’اے بنو تمیم!‘‘خالدؓ کے آدمیوں میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا۔’’مالک بن نویرہ کو اور بطاح کاکوئی اور آدمی جو یہاں چھپا ہوا ہو،اسے ہمارے حوالے کر دیں۔اگر وہ ہماری تلاشی پرملے تو اس بستی کو آگ لگا دی جائے گی۔‘‘
ذرا ہی دیر بعد مالک بن نویرہ لیلیٰ کے ساتھ باہر آیااور اپنے آپ کو خالدؓ بن ولید کے آدمیوں کے حوالے کر دیا۔بنو یربوع کے چند اور سرکردہ افراد بھی جو یہاں آکر چھپ گئے تھے۔باہر آگئے۔ان سب کومالک بن نویرہ کے ساتھ بطاح لے آئے۔لیلیٰ بھی ساتھ تھی۔
…………bnb…………

’’مالک بن نویرہ!‘‘خالدؓ نے مالک کو اپنے سامنے بلا کر پوچھا۔’’کیایہ غلط ہے کہ تم نے زکوٰۃ اورمحصول مدینہ کو بھیجنے کے بجائے لوگوں کو واپس کر دیئے تھے؟‘‘
’’میں اپنے قبیلے کو یہ کہہ کر نکلا تھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرنا۔‘‘مالک بن نویرہ نے جواب دیا۔’’اور میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان ہو جاؤ اور زکوٰ ۃ ادا کرو۔‘‘
’’اور تم خود اس لئے روپوش ہو گئے تھے کہ تم اسلام سے منحرف ہو گئے تھے؟‘‘خالد نے کہا۔’’اور تم منحرف ہی رہنا چاہتے ہو……تم نے اپنے شعروں میں لوگوں سے کہا تھا کہ وہ زکوٰۃ اور محصول ادا نہ کریں اور تم نے انہیں کہا تھا کہ اسلامی حکومت کے احکام کی تم خلاف ورزی کرو گے جو تم نے کی۔‘‘
’’ہاں ولید کے بیٹے!‘‘مالک نے کہا۔’’میں نے خلاف ورزی کی لیکن میں اپنے قبیلے سے کہہ رہا ہوں کہ اب وہ خلاف ورزی نہ کریں۔‘‘
’’اور تم نے سجاع کی جھوٹی نبوت کو تسلیم کیا۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’اور اس کے ساتھ مل کر لوگوں کو قتل کیا اور انہیں لوٹااور تم نے ان لوگوں کا قتل عام کیا جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔‘‘
مالک نے سر ہلاکر اس جرم کااقرار کیا۔
’’کیا تو مجھے بتا سکتا ہے کہ میں تجھے قتل کیوں نہ کروں؟‘‘ خالدؓ نے کہا۔
’’میں جانتا ہوں کہ تمہارے خلیفہ نے تمہیں میرے قتل کا حکم نہیں دیا۔‘‘مالک بن نویرہ نے کہا۔
’’خداکی قسم!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’میں تجھے زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔‘‘
خالدؓ نے وہ اجڑی ہوئی بستیاں دیکھی تھیں،جو مالک بن نویرہ اور سجاع نے اجاڑی تھیں۔خالد ؓنے مالک بن نویرہ کی بستی بطاح پر بلاوجہ چڑھائی نہیں کی تھی۔انہیں تمام رپورٹیں ملتی رہی تھیں کہ اس شخص نے اس علاقے میں مسلمانوں کو کس طرح تباہ و برباد کیا تھا۔
’’لے جاؤ اسے اور اس کے ساتھیوں کو جو اس کے ساتھ روپوش تھے اور انہیں قتل کردو۔‘‘خالدؓ بن ولید نے حکم دیا۔
انہیں جب لے گئے تو خالد ؓبن ولید کو اطلاع دی گئی کہ ایک بڑی ہی حسین عورت جس کا نام لیلیٰ ہے اور جو مالک بن نویرہ کی بیوی ہے۔اپنے خاوند کی زندگی کی التجا لے کر آئی ہے۔خالد ؓنے کہا کہ اسے آنے دو۔
خالد ؓایک سردار کے فرزند تھے۔انہوں نے امیر گھرانے میں پرورش پائی تھی۔اس لئے ان کے دل و دماغ میں وسعت تھی۔وہ خوش ذوق،خوش طبع اور زندہ مزاج تھے۔
لیلیٰ جب ان کے سامنے آئی تو خالد ؓنے پوچھا ’’کیا تواپنے خاوند کو موت سے بچانے آئی ہے؟‘‘
’’اس کے سوا میرا اور مقصد ہو ہی کیا سکتا ہے؟‘‘لیلیٰ نے کہا۔
’’اگر تو اس وقت اسے ان جرائم سے روک دیتی جب وہ سمجھتا تھاکہ ہر بستی پر اس کی حکمرانی ہے تو آج تو بیوہ نہ ہوتی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا اس نے تجھے بتایانہیں تھا کہ اس کی تلوار نے کتنی عورتوں کو بیوہ کیا ہے؟اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں ایک دن انصاف کا بھی آئے گا۔‘‘
’’میں اس کا ہاتھ نہیں روک سکی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔
’’اور تومیرا ہاتھ بھی نہیں روک سکتی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ میرا نہیں میرے اﷲ کا حکم ہے۔‘‘
خالدؓ نے لیلیٰ کی التجا قبول نہ کی ۔لیلیٰ ابھی خالدؓ کے پاس ہی تھی کہ اطلاع آئی کہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔
…………bnb…………

پھر ایک ایساواقعہ ہو گیا جس نے خالدؓ کے دستوں میں اور مدینہ میں ہلچل مچا دی۔ہوایوں کہ بطاح میں ہی خالد ؓنے لیلیٰ کے ساتھ شادی کرلی۔
انصارِمدینہ اس شادی پر بہت برہم ہوئے۔ابو قتادہ انصاریؓ نے قسم کھائی کہ وہ آئندہ خالد ؓکی قیادت میں کبھی کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوں گے۔اعتراض کرنے والے یہ کہتے تھے کہ خالدؓ نے لیلیٰ کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اس کے خاوند مالک بن نویرہ کو قتل کیا ہے کہ لیلیٰ کے ساتھ خود شادی کرلیں۔
لیکن خالد ؓوہ شخصیت تھی جس نے بسترِ مرگ پر کہا تھا کہ’’ میرے جسم پر کوئی جگہ ایسی ہے جس پر جہاد کا زخم نہ آیا ہو؟‘‘ان کاکردار اتنا کمزور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایک عورت کی خاطر اپنے رتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے۔
خالدؓ کے حق میں بات کرنے والوں نے کہا ہے کہ خالدؓ نے مالک بن نویرہ اور اسکے ساتھیوں کو قید میں ڈال دیا تھااور انہیں مدینہ بھیجنا تھا۔رات بہت سرد تھی۔خالدؓ کو خیال آیا کہ قیدی سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں گے۔انہوں نے حکم دیا۔ [دافؤ اسراکم۔] اس کا ترجمہ ہے۔ ’’قیدیوں کو گرمی پہنچاؤ۔‘‘ کنانہ کی زبان میں مدافاۃ کا لفظ قتل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ قیدی جن آدمیوں کے پہرے میں تھے وہ کنانہ کے رہنے والے تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کے جرائم کتنے سنگین ہیں۔چنانچہ انہوں نے ’’گرمی پہنچاؤ‘‘ کو قتل کے معنوں میں لیا اور مالک اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا۔ خالدؓ کو پتا چلا تو انہوں نے کہا۔’’اﷲ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ ہو کے رہتا ہے۔
ان دو کے علاوہ اور بھی روایات مختلف تاریخوں میں آئی ہیں۔جو ایک دوسرے کی تردید کرتی ہیں۔ان میں بعض خالد ؓکے حق میں جاتی ہیں بعض خلاف۔ مخالفانہ روایات کے مصنفوں کے مذہبی فرقوں کو دیکھو تو صاف پتا چلتا ہے کہ ان کے ایک ایک لفظ میں تعصب بھرا ہوا ہے اور وہ خالدؓ بن ولید کو رُسوا کر رہے ہیں۔
تاریخ میں متضاد کہانیاں ملتی ہیں لیکن کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا ہے کہ اس شادی پر لیلیٰ کا کیا ردِ عمل تھا۔کیا لیلیٰ نے خالدؓ کو مجبور ہو کر قبول کیا تھا؟یا وہ خوش تھی کہ ایک عظیم سپہ سالارکی بیوی بن گئی ہے جس کی فتوحات کے چرچے سرزمینِ عرب کے گوشے گوشے تک پہنچ گئے ہیں۔
اس وقت کے جنگی رواج کے مطابق لیلیٰ مالِ غنیمت تھی۔خالد ؓاسے لونڈی بنا کر اپنے پاس رکھ سکتے تھے ۔تاریخ میں ایک ایسا اشارہ ملتا ہے جو خالدؓ کے حق میں جاتاہے۔وہ یوں ہے کہ خالدؓ نے اسے کسی کی یا اپنی لونڈی بننے سے بچا لیا تھا ۔وہ اتنی حسین تھی کہ شہزادی لگتی تھی۔خالد ؓجانتے تھے کہ لونڈیوں کی زندگی کیا ہوتی ہے؟خالدؓ نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ لیلیٰ جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی ذہین اور دانا ہے۔انہوں نے اس عورت کی صلاحیتوں کو تباہی سے بچا لیا تھا۔
یہ خبر مدینہ بھی پہنچ گئی کہ خالدؓ نے مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی بیوی کے ساتھ شادی کرلی ہے ۔خبر پہنچی بھی سیدھی خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کے پاس،اور خبر پہنچانے والے ابو قتادہ انصاریؓ تھے۔جو اس شادی پر ناراض ہوکر مدینہ چلے گئے تھے۔ابو بکرؓ نے اس خبر کو زیادہ اہمیت نہ دی ۔انہوں نے کہا کہ خالدؓ کو رسول اﷲﷺ نے سیف اﷲ کا خطاب دیا تھا ۔ان کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔خالد ؓنے کسی زندہ آدمی کی بیوی کو ورغلا کر اپنی بیوی نہیں بنایا۔
ابو قتادہ انصاریؓ ،خلیفۃ المسلمینؓ کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے۔وہ عمرؓ کے پاس چلے گئے اور انہیں ایسے انداز سے لیلیٰ کی خالد ؓکے ساتھ شادی کی خبر سنائی جیسے خالدؓ عیاش انسان ہوں اور ان کی عیش پرستی ان کے فرائض پر اثر انداز ہو رہی ہو۔عمرؓ غصے میں آگئے اور ابو قتادہؓ کو ساتھ لے کر ابو بکرؓ کے پاس گئے۔
’’خلیفۃ المسلمین!‘‘عمرؓنے ابو بکرؓ سے کہا۔’’خالد کا جرم معمولی نہیں۔وہ کیسے ثابت کرسکتا ہے کہ بنو یربوع کے سردار مالک بن نویرہ کا قتل جائز تھا؟‘‘
’’مگر تم چاہتے کیا ہو عمر؟‘‘ابو بکرؓ نے پوچھا۔
’’خالد کی معزولی!‘‘ عمرؓ نے کہا۔’’صرف معزولی نہیں۔خالد کو گرفتار کرکے یہاں لایا جائے اور اسے سزا دی جائے۔‘‘
’’عمر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں اتنا مان لیتا ہوں کہ خالد سے غلطی ہوئی ہے لیکن یہ غلطی اتنی سنگین نہیں کہ اسے معزول بھی کیا جائے اور سزا بھی دی جائے۔‘‘
عمرؓ ابو بکرؓ کے پیچھے پڑے رہے۔دراصل عمرؓ انتہا درجے کے انصاف پسند اور ڈسپلن کی پابندی میں بہت سخت تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سالاروں میں کوئی غلط حرکت رواج پا جائے۔
’’نہیں عمر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں اس شمشیر کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اﷲ نے کافروں پر مسلط کیا ہو۔‘‘
عمرؓ مطمئن نہ ہوئے۔ابو بکرؓ عمرؓ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے خالدؓ کو مدینہ بلوا لیا۔
خالدؓ بڑی ہی مسافت طے کر کے بہت دنوں بعد مدینہ پہنچے اور سب سے پہلے مسجدِ نبویﷺ میں گئے۔انہوں نے اپنے عمامے میں ایک تیر اُڑس رکھا تھا۔عمرؓ مسجد میں موجود تھے۔ خالد ؓکو دیکھ کر عمرؓ طیش میں آگئے۔وہ اٹھے۔خالدؓ کے عمامے سے تیر کھینچ کر نکالا اور اسے توڑکر پھینک دیا۔
’’تم نے ایک مسلمان کو قتل کیا ہے۔‘‘ عمرؓ نے غصے سے کہا۔ ’’اور اس کی بیوہ کو اپنی بیوی بنا لیاہے۔تم سنگسار کر دینے کے قابل ہو۔‘‘
خالدؓ ڈسپلن کے پابند تھے۔وہ چپ رہے۔انہوں نے عمرؓ کے غصے کو قبول کرلیا۔سوہ خاموشی سے مسجد سے نکل آئے اور خلیفۃ المسلمین ابوبکرؓ کے ہاں چلے گئے۔انہیں ابو بکرؓ نے ہی جواب طلبی کیلئے بلایا تھا۔ابو بکرؓ کے کہنے پر خالد ؓنے مالک بن نویرہ کے تمام جرائم سنائے اور ثابت کیا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا دشمن تھا۔
ابو بکرؓ خالد ؓسے بہت خفا ہوئے اور انہیں تنبیہ کی کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہ کریں۔جو دوسرے سالاروں میں غلط رواج کا باعث بنے۔ابو بکرؓ نے (طبری اور ہیکل کے مطابق) فیصلہ سنایا کہ مفتوحہ قبیلے کی کسی عورت کے ساتھ شادی کرلینا اور عدت کا عرصہ پورا نہ کرنا عربوں کے رواج کے عین مطابق ہے۔اس عورت کو آخر لونڈی بننا تھا۔یہ اس کے آقا کی مرضی ہے کہ اسے لونڈی بنائے رکھے یا اسے نکاح میں لے لے۔
ابو بکرؓ نے اپنے فیصلے میں کہاکہ اس وقت مسلمان ہر طرف سےخطروں میں گھرے ہوئے ہیں ۔قبیلے باغی ہوتے جا رہے ہیں ۔اپنے پاس نفری بہت تھوڑی ہے۔ان حالات میں اگر کوئی سالار دشمن کے کسی سردار کو غلطی سے قتل کرا دیتاہے تو یہ سنگین جرم نہیں۔
عمرؓ کو خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ’’ اسلام کا ایک بڑا دشمن مسیلمہ بن حنیفہ نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔جنگی طاقت بن گیا ہے۔اس کے پاس کم و بیش چالیس ہزار نفری کالشکر ہے اور عکرمہ بن ابو جہل اس سے شکست کھا چکے ہیں۔اب سب کی نظریں خالد کی طرف اٹھ رہی ہیں۔اگر مسیلمہ کو شکست نہ دی گئی تو اسلام مدینہ میں ہی رہ جائے گا۔اس کامیابی کیلئے صرف خالد موزوں ہیں۔‘‘
عمرؓ خاموش رہے۔انہیں بھی ان خطروں کا احساس تھا ۔ابو بکرؓ نے خالد ؓکو حکم دیا کہ فوراً بطاح جائیں اور وہاں سے یمامہ پر چڑھائی کرکے اس فتنے کو ختم کر دیں۔
خالد ؓایک بڑی ہی خطرناک جنگ لڑنے کیلئے روانہ ہو گئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages