Featured Post

Khalid001

01 June 2019

Khalid052


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  52
خالدؓاپنے سالاروں اور کمانداروں کے ساتھ یمامہ شہر کے دروازے تک پہنچے۔ انہوں نے اوپر دیکھا۔ دیواروں پر اب ایک بھی آدمی نہیں کھڑا تھا۔ بُرج بھی خالی تھے۔ خالدؓکو توقع تھی کہ قلعے کے اندر انہیں بنو حنیفہ کا وہ لشکر نظر آئے گا جس کے متعلق مجاعہ نے انہیں بتایا تھا کہ مسلمانوں کو کچل ڈالے گا مگروہاں کسی لشکر کا نام و نشان نہ تھا۔ وہاں عورتیں تھیں، بچے اور بوڑھے تھے۔ جوان آدمی ایک بھی نظر نہیں آتا تھا۔ عورتیں اپنے گھروں کے سامنے کھڑی تھیں، بعض منڈیروں پر بیٹھی تھیں۔ ان مین زیادہ تر عورتیں رو رہی تھیں، ان کے خاوند، باپ بھائی یا بیٹے جنگ میں مارے گئے تھے۔
’’ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے مجاعہ سے پوچھا۔ ’’وہ لشکر کہاں ہے؟‘‘
’’دیکھ نہیں رہے ہو ابنِ ولید!‘‘ مجاعہ نے دروازوں کے سامنے اور چھتوں پر کھڑی عورتوں کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ ’’یہ ہے وہ لشکر جو شہر کی دیوارپر تیروکمان اور برچھیاں اٹھائے کھڑا تھا۔‘‘
’’یہ عورتیں؟‘‘خالدؓنے حیران سا ہو کہ پوچھا۔
’’ہاں ولید کے بیٹے!‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’شہر میں کوئی لشکر نہیں۔ یہاں صرف بوڑھے آدمی ہیں جو لڑنے کے قابل نہیں ۔عورتیں ہیں اور بچے ہیں۔‘‘
’’کیا یہ ہمارے حملے کو روک سکتے تھے؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔’’کیا عورتیں مقابلے میں آئی تھیں؟‘‘
نہیں ابنِ ولید!‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’یہ میری ایک چال تھی۔شہر سے تمام آدمی لڑنے کیلئے چلے گئے ہیں۔ شہر میں کوئی جوان آدمی نہیں رہا تھا۔ میں اپنے قبیلے کو تباہی سے بچانا چاہتا تھا۔ میں نے تمام عورتوں، بوڑھوں اور کمسن لڑکوں کو زرہ اورسروں پر خودیں پہنائیں، اور ان کے ہاتھوں میں تیروکمان اور برچھیاں دے کر دیوارپر کھڑا کر دیا۔ میں نے خود باہر جاکر دیکھا۔ پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ عورتیں، بوڑھے آدمی اور کمسن لڑکے ہیں، میں نے تجھے موقع دیاکہ دیوار پر اک نظر ڈال لے تاکہ تو اس جھانسے میں آجائے کہ یمامہ میں بہت بڑا لشکر موجود ہے … اور تو میرے جھانسے میں آگیا۔‘‘
خالدؓ خشمگیں ہوئے ۔وہ مجاعہ کو اس دھوکے کی سزا دے سکتے تھے۔لیکن اس عہد نامے کی خلاف ورزی انہیں گوارا نہیں تھی جس پر وہ دستخط کر چکے تھے۔
’’خداکی قسم!‘‘ خالدؓنے مجاعہ سے کہا۔ ’’تو نے مجھے دھوکا دیا ہے۔‘‘
’’میں تجھے دھوکا دے سکتا ہوں۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’اپنے قبیلے کی عورتوں اور بچوں سے غداری نہیں کر سکتا ۔میں انہیں تیری تلواروں سے بچانا چاہتا تھا۔ میں نے انہیں بچا لیا ہے۔‘‘
’’تو خوش قسمت ہے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’اسلام معاہدہ توڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میں صلح نامے پر دستخط کر چکا ہوں۔ ورنہ میں تمہاری ان تمام عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتا۔‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ تو ایسا نہیں کرے گا۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔
’’لیکن ایک بات سن لے ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’میں نے معاہدہ صرف یمامہ شہر کیلئے کیا ہے۔ اس میں اردگرد کے علاقے شامل نہیں۔ میں پابند ہوں کہ یمامہ کے اندر کسی جنگی مجرم کو قتل نہ کروں۔ یمامہ کے باہر میں جسے سمجھوں گا کہ اسے قتل ہونا چاہیے۔ اس کے قتل سے میں گریز نہیں کروں گا۔‘‘
…………bnb…………

ارتداد کا سب سے بڑا مرکز یمامہ تھا جو خالدؓ نے اکھاڑ پھینکا اور جھوٹے نبی کو ہلاک کرکے اس کی لاش کی نمائش کی گئی۔اس کے پیروکاروں سے کہا گیا کہ مسیلمہ کے پاس معجزوں کی طاقت ہوتی تو تمہارے چالیس ہزار سے زیادہ لشکر کا یہ حشر تیرہ ہزار آدمیوں کے ہاتھوں نہ ہوتا۔
’’بنو حنیفہ! ‘‘مسلمان یمامہ کی گلیوں میں اعلان کرتے پھر رہے تھے ۔’’عورتیں مت ڈریں۔کسی کو لونڈی نہں بنایا جائے گا۔شہرکے اندر کسی مرد بچے یا عورت پرہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا۔ مسیلمہ فریب کار تھا۔اس نے تم سب کو دھوکا دے کر تمہارے گھر اجاڑ دیئے ہیں۔‘‘
یمامہ پر خوف و ہراس اور موت کی ویرانی تھی۔عورتیں شہر سے باہر نکلنے سے ڈرتی تھیں۔انہیں مسلمانوں سے کوئی ڈر اور خدشہ نہیں رہا تھا۔وہ اپنے آدمیوں کی لاشیں دیکھنے سے ڈرتی تھیں۔ وہ شہر کی دیوار پر جاکر باہر کا منظر دیکھتی تھیں۔ انہیں گِدھوں ،گیدڑوں اور بھیڑیوں کی خوفناک آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ یہ سب لاشیں کھارہے تھے۔
یمامہ اور گردونواح کے لوگوں نے اتنی قتل و غارت کبھی دیکھی نہ سنی تھی۔یہ تو قہر نازل ہوا تھا ۔گھر گھر ماتم ہو رہا تھا۔اس بھیانک صورت حال میں لوگ اس غیبی قوت کے آگے سجدے کرنا چاہتے تھے جس نے ان پر قہر نازل کیا تھا ۔مسلمانوں کی فوج میں قرآن کے حافظ اور قاری بھی تھے۔ انہوں نے لوگوں کو آیاتِ قرآنی سنا کر بتانا شروع کر دیا تھا کہ انہیں تباہ کرنے والی غیبی طاقت کیا ہے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ بنو حنیفہ کے جو آدمی بھاگ گئے تھے۔ان کی تعداد کم و بیش بیس ہزار تھی۔ وہ یوں لا پتا ہوئے کہ ادھر ادھر چھپ گئے تھے۔ مسلمان انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے تھے۔ وہ بھی خوفزدہ تھے، وہ نادم بھی تھے کہ انہوں نے ایک جھوٹے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی جس نے انہیں کہا تھا کہ اسے خدانے ایسی طاقت دی ہے کہ فتح بنو حنیفہ کی ہی ہو گی اور مسلمان تباہ ہو جائیں گے۔ انہیں تبلیغ کی یا اسلام کے تفصیلی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ ان میں سے بیشتر نے ازخود اسلام قبول کر لیا۔
مجاعہ بن مرارہ بنو حنیفہ کی سرداری میں مسیلمہ کذاب کا جانشین تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا قبیلہ دھڑا دھڑ اسلام قبول کرتا جا رہا ہے تو اس سے اسے یہ اطمینان ہوا کہ خالدؓ کے دل میں اس کے خلاف جو خفگی تھی وہ نکل گئی ہے۔
بنو حنیفہ کے لوگ جوق در جوق خالدؓ کے پاس بیعت کیلئے آ رہے تھے۔ خالدؓنے ان میں سے چند ایک سرکردہ افراد کا ایک وفد تیار کیا اور انہیں خلیفۃالمسلمین ؓکے ہاتھ پر بیعت کیلئے مدینہ بھیج دیا۔
…………bnb…………

خالدؓ کو یہ جنگ بہت مہنگی پڑی تھی۔ قدیم تحریروں اور دیگر ذرائع سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ کو اتنے بڑے لشکرپر فتح حاصل کرنے کی توقع کم ہی تھی۔انہوں نے یہ اﷲ کے بھروسے اور اپنی جنگی قابلیت کے بل بوتے پر لڑی تھی۔ان کے اعصاب تھک کر چور ہو چکے تھے۔
اس جنگ کی خونریزی کا اندازہ یہ ہے کہ بنو حنیفہ کے اکیس ہزار آدمی مارے گئے تھے ۔زخمیوں کی تعداد الگ ہے۔اس کے مقابلے میں شہید ہونے ہونے والے مجاہدین کی تعداد ایک ہزار دو سو تھی۔ان میں تین سو شہید قرآن کے حافظ تھے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جب خلیفہ ابو بکرؓ کو اطلاع ملی کہ شہیدوں میں تین سو حافظ قرآن تھے تو انہوں نے یہ سوچ کرکہ جنگوں میں قرآن کے تمام حافظ شہید ہو سکتے ہیں ،حکم دیا کہ قرآن ایک جگہ تحریر میں جمع کر لیا جائے۔چنانچہ پہلی بار قرآن کو اس شکل میں جمع کیا گیا جو آج ہمارے سامنے ہے۔
جنگِ یمامہ کے بعد خالدؓکی کیفیت یہ تھی کہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے شل ہو چکے تھے۔لیلیٰ ان کے تھکے ماندے اعصاب سہلاتی تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتناجانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اب ایک ہی بار ایک ہزار دو سو مجاہدین شہید ہو گئے تو باقی مجاہدین پر جیسے غم کے پہاڑ آ پڑ ے ہوں۔خالدؓ دکھ اور غم کو قبول کرنے والے نہیں تھے۔ اگر وہ مرنے والوں کا ماتم کرنے بیٹھ جاتے یا دل پر غم طاری کر لیتے تو سپہ سالاری نہ کر سکتے۔انہیں آگے چل کر عراق اور شام فتح کرنا تھا۔انہیں ارتداد کو کچل کر اسلام کو دور دور تک پھیلانا تھا۔اس لیے وہ اپنے آپ کو رنج و الم سے آزادرکھتے تھے۔
’’ولید کے بیٹے! ‘‘لیلیٰ نے خالد ؓسے کہا۔’’میں تمہیں اس عظیم فتح پر ایک تحفہ دینا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کیا اﷲ کی خوشنودی کافی نہیں؟‘‘ خالدؓ نے کہا۔
’’وہ تو تمہیں مل ہی گئی ہے۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’تم اﷲ کی تلوار ہو۔ میں اس دنیا کی بات کر رہی ہوں۔تم بہت تھک گئے ہو۔‘‘
’’تحفہ کیا ہے؟‘‘ خالدؓنے پوچھا۔
’’مجاعہ بن مرارہ کی بیٹی!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’تم نے اسے نہیں دیکھا۔میں اس کے گھر گئی تھی۔ بہت خوبصورت لڑکی ہے۔ یمامہ کا ہیرا ہے۔ وہ تمہیں چاہتی بھی ہے۔ کہتی ہے کہ خالدعظیم انسان ہے۔ جس نے ہم پر فتح پاکر بھی اعلان کیا ہے کہ کسی عورت کو لونڈی نہیں بنایا جائے گا۔ حالانکہ اسے یمامہ کی عورتوں نے دھوکا دیا تھا۔‘‘
اس دور میں عربوں کے ہاں سوکن کا تصور نہیں تھا۔ خالدؓ نے مجاعہ بن مرارہ سے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مجاعہ اتنا حیران ہوا جیسے اس نے غلط سنا ہو۔
’’کیا کہاتو نے ولید کے بیٹے!‘‘ مجاعہ نے پوچھا۔
’’میں تمہاری بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ خالدؓ نے اپنی بات دہرائی۔
’’کیا خلیفہ ابو بکر ہم دونوں سے خفا نہ ہوں گے؟‘‘ مجاعہ نے کہا۔ (مجاعہ کے صحیح الفاظ یہ تھے ۔کیا خلیفہ ہم دونوں کی کمر نہ توڑ ڈالیں گے؟)
خالدؓ اسی بات پر اصرار کرتے رہے کہ وہ مجاعہ کی بیٹی کے ساتھ شادی کریں گے۔ آخر انہوں نے اس حسین اور جوان لڑکی کو اپنے عقد میں لے لیا۔یہ خبر مدینہ پہنچی تو خلیفۃ المسلمین ابو بکر صدیقؓ نے خالدؓ کو خط لکھا:
’’او ولید کے بیٹے!تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ شادیاں کرتے پھرتے ہو۔ تمہارے خیمے کے باہر بارہ سو مسلمانوں کا خون بہہ گیا ہے۔ تم نے شہیدوں کا خون بھی خشک نہیں ہونے دیا۔‘‘
’’یہ عمر بن خطاب کی کارستانی ہے۔‘‘ خالدؓ نے یہ خط پڑھ کر زیرِلب کہا۔
یہ معاملہ سرزنش کے خط پر ہی ختم ہو گیا ۔خلیفہ ابو بکرؓ نے خالدؓ کویہ پیغام بھی بھیجا کہ وہ یمامہ کے علاقے میں رہیں اور اگلے حکم کا انتظار کریں۔خالدؓمجاعہکی بیٹی اور لیلیٰ کو ساتھ لے کریمامہ کے قریب وادیٔ وبر میں جاخیمہ زن ہوئے۔ دو ماہ بعد انہیں اگلا حکم ملا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

  1. Great information shared. Thank you for sharing.
    Visit my articles at: https://www.myvisionofhealth.com/
    Thank you .

    ReplyDelete

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages