Featured Post

Khalid001

08 June 2019

Khalid053


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  53
فروری 633ء کے پہلے ہفتے (ذیقعد 11ہجری کے آخری ہفتے) کے ایک دن خلیفہ ابو بکر صدیقؓ سے ملنے ایک شخص آیا۔ جس نے اپنا نام مثنیٰ بن حارثہ شیبانی بتایا۔ خلیفہؓ کیلئے اور اہلِ مدینہ کیلئے وہ ایک غیر اہم بلکہ گمنام آدمی تھا۔اگر ایسا شخص کسی بادشاہ کے دربار میں جاتا تو اسے وہاں سے نکال دیا جاتا لیکن ابو بکرؓ کسی اقلیم کے بادشاہ نہیں بلکہ شہنشاہِ دوجہاں کے خلیفہ تھے جن کے دروازے ہر کسی کیلئے کھلے رہتے تھے۔
یہ شخص جب خلیفہ ابو بکر صدیقؓ کے پاس آیا ،اس وقت اس کے چہرے پر تھکن اور شب بیداری کی گہری پرچھائیاں تھیں۔کپڑوں پر گَرد تھی اور وہ قدرتی روانی سے بول بھی نہیں سکتا تھا۔
’’کیا مجھے کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ یہ اجنبی مہمان کون ہے؟‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ نے پوچھا۔
’’یہ شخص جس نے اپنا نام مثنیٰ بن حارثہ بتایا ہے ،یہ معمولی آدمی نہیں ۔‘‘قیس بن عاصم المنقری نے جواب دیا۔’’امیرالمومنین ! اس کے یہاں آنے میں کوئی فریب نہیں۔شہرت اور عزت جو اس نے پائی ہے وہ اﷲ ہر کسی کو عطا کرے۔ہرمز جو عراق میں فارس کا سالار ہے اور جس کی فوج کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے ،مثنیٰ بن حارثہ کا نام سن کے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔‘‘
’’امیر المومنین!‘‘ کسی اور نے کہا۔ ’’آپ کا اجنبی مہمان بحرین کے قبیلہ بکر بن وائل کا معزز فرد ہے ۔یہ اسلام قبول کرنے والے ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے کفر اور ارتداد کی آندھیوں میں اسلام کی شمع روشن رکھی ہے اور اس نے ہمارے سالار علاء بن حضرمی کے ساتھ مل کر عراق کی سرحد کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف لڑائیاں لڑی ہیں۔‘‘
امیر المومنین ؓ کاچہرہ چمک اٹھا۔اب انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو بدلی ہوئی نگاہوں سے دیکھا۔ان کے ذہن میں عربی مسلمانوں کے وہ قبائل آگئے جو ایرانیوں کے محکوم تھے۔یہ عراق کے علاقے میں آباد تھے۔یہ تھے بنو لخم ،تغلب،ایاد،نمبراور بنو شیبان۔ایک روایت کے مطابق یہ وہ عربی باشندے تھے جنہیں پہلی جنگوں میں ایرانی جنگی قیدی بنا کر لے گئے اور انہیں دجلہ اور فرات کے ڈیلٹا کے دلدلی علاقے میں آباد کر دیا تھا۔
ان قبائل نے ایرانیوں کا غلام ہوتے ہوئے بھی اپنے عقیدوں کو اپنے وطن کے ساتھ وابستہ رکھا۔ عرب میں اسلام کو فروغ ملا تو انہوں نے بھی اسلام کو قبول کرلیا۔عراق سے سجاع جیسے چند افراد نے نبوت کے دعوے کیے تو ان محکوم عربوں نے اس ارتداد کے خلاف محاذ بنا لیا۔
ادھر مسلمان ایک ایسی جنگی طاقت بن چکے تھے جن کے سامنے مرتدین اور کفار کے متحدہ لشکر بھی نہ جم سکے۔میدانِ جنگ سے ہٹ کر مسلمان جو عقیدہ پیش کرتے تھے وہ دلوں میں اتر جاتا تھا۔اس طرح سے مسلمان عسکری اور نظریاتی لحاظ سے چھاتے جا رہے تھے۔لیکن ابھی وہ آتش پرست ایرانیوں کے خلاف ٹکر لینے کے قابل نہیں ہوئے تھے۔ ایران اس وقت کی بڑی طاقتور بادشاہی تھی جس کے طول و عرض کا حساب نہ تھا۔اس بادشاہی کی فوج تعداد اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بہت طاقتور تھی۔صرف رومی تھے جنہوں نے ان سے جنگیں لڑیں اور انہیں کچھ کمزور کردیا تھا۔
اس کے باوجود خلیفہ ابو بکرؓ ایران کی بادشاہی میں رسول اﷲﷺ کا پیغام پہنچانے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ایرانی نہ صرف یہ کہ اسلام کو قبول کرنے پر تیارنہ تھے بلکہ وہ اسلام کامذاق اڑاتے تھے۔اگر مسلمانوں کا کوئی ایلچی ان کے کسی علاقے کے امیر کے دربار میں چلاجاتا تو وہ اس کی بے عزتی کرتے اور بعض کو قیدمیں ڈال دیا کرتے تھے۔
حکومتوں اور حکمرانوں کے انداز اور خیالات اپنے ہی ہوتے ہیں ان کے سوچنے کے انداز بھی مصلحت اور حالات کے تابع ہوتے ہیں لیکن عوام کی سوچیں ان کے جذبوں کے زیرِاثر ہوتی ہیں اور ملک و ملت کی خاطر عوام آگ اگلتے پہاڑوں کے خلاف بھی سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔
…………bnb…………

اُس دور میں عراق ایران کی بادشاہی کا ایک صوبہ تھا۔ اس کا امیر یا حاکم ہرمز تھا جو اس دور میں مانا ہوا جنگجو اورنڈر جنگی قائد تھا۔ظالم اوربدطینت اتنا کہ اس کے علاقے کے لوگ کسی کے خلاف بات کرتے تو کہتے تھے :’’وہ تو ہرمز سے بڑھ کر کمینہ اور بد فطرت ہے۔‘‘
اس کے ظلم و ستم کا زیادہ تر شکار مسلمان تھے۔جو دجلہ اور فرات کے سنگم کے علاقے میں رہتے تھے۔ان کے خلاف ہرمز کو یہی ایک دشمنی تھی کہ وہ اسلام کے پیروکار ہیں۔کسی ایرانی کے ہاتھوں کسی مسلمان کا قتل ہوجانا اور کسی مسلمان عورت کا اغواء کوئی جرم نہیں تھا۔ہندوؤں کی طرح ایرانی مسلمانوں کو تکلیف پہنچا کر،کسی بہانے ان کے گھروں کو لوٹ کر اور جلا کر خوشی محسوس کرتے تھے۔مسلمان خوف و ہرا س میں زندگی گزار رہے تھے۔
مسلمان جس علاقے میں آباد تھے۔اس کی زمین سونا اگلتی تھی۔اناج اور پھلوں کی پیداوار کیلئے وہ علاقہ بڑا ہی زرخیز تھا۔یہ علاقہ جو کم و بیش تین سو میل لمبا تھا۔زرخیزی اور شادابی کے علاوہ قدرتی مناظر کی وجہ سے حسین خطہ تھا۔حاکم عیش و عشرت کیلئے اسی علاقے میں آتے اور کچھ دن گزارکر جاتے تھے۔اس زرخیز اور شاداب علاقے میں مسلمانوں کو آباد کرنے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ کھیتی باڑی کریں اور خوشحال رہیں بلکہ انہیں یہاں مزارعوں کی حیثیت سے رکھا گیا تھا۔وہ زمین کا سینہ چیر کر شبانہ روز محنت اور مشقت سے اناج اور پھل اگاتے مگر اس میں سے انہیں اتنا ہی حصہ ملتا جو انہیں محض زندہ رکھنے کیلئے کافی ہوتا تھا۔ زمین کی اگلی ہوئی تمام دولت حاکموں کے گھروں میں اور ایرانی فوج کے پاس چلی جاتی تھی۔مسلمان مزارعوں کیلئے غربت اور ایرانیوں کی نفرت رہ جاتی تھی۔
مسلمان اپنی جوان بیٹیوں کو کو گھروں میں چھپا کر رکھتے تھے۔کسی ایرانی فوجی کو کوئی مسلمان لڑکی اچھی لگتی تووہ کسی نہ کسی بہانے یا اس کے گھر والوں پر کوئی الزام عائد کرکے اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ایرانی فوجی کسی بہانے کے بغیر بھی مسلمان لڑکیوں کو اپنے ساتھ زبردستی لے جاسکتے تھے لیکن غلامی اور مظلومیت کے باوجود مسلمانوں میں غیرت کاجذبہ موجود تھا۔پہلے پہل زبردستی اغواء کی وارداتیں ہوئیں تو مسلمانوں نے دو تین فوجیوں کو قتل کردیا تھا۔مسلمانوں کواس کی سزا تو بڑی ظالمانہ ملی تھی اورانہیں اپنی لڑکیوں کو بچانے کی قیمت بھی بہت دینی پڑی تھی لیکن زبردستی اغواء کا سلسلہ رک گیا تھا۔
آتش پرست ایرانی اپنے فوجیوں کو سانڈوں کی طرح پالتے تھے۔ہر سپاہی اس قسم کی زِرہ پہنتا تھاکہ سر پر آہنی زنجیروں کی خود اور بازوؤں پر دھات کے خول اس طرح چڑھے ہوئے تھے کہ بازوؤں کی حرکت میں رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ان کی ٹانگوں کو بھی بڑے سخت چمڑے یا کسی دھات سے محفوظ کیا ہوتا تھا۔
اسلحہ اتنا کہ ہر سپاہی کے پاس ایک تلوار ایک برچھی اور ایک گُرز ہوتا تھا۔گُرزپر ایرانی سپاہی خاص طور پر فخر کیاکرتے تھے ۔ان ہتھیاروں کے علاوہ ہر سپاہی کے پاس ایک کمان اور ترکش میں تیس تیر ہوتے تھے انہیں عیش و عشرت کھانے پینے اور لوٹ مار کی کھلی اجازت تھی۔وہ ہ جرات اور عسکری مہارت میں قابلِ تعریف تھے۔ان کی کمزوری صرف یہ تھی کہ وہ صرف آمنے سامنے کی لڑائی لڑ سکتے تھے اور لڑتے بھی بے جگری سے تھے لیکن اتنا اسلحہ اٹھا کر وہ پھرتی سے نقل و حرکت نہیں کر سکتے تھے۔کسی دستے یا جَیش کو فوراً ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا تو وہ مطلوبہ وقت میں نہیں پہنچ سکتے تھے۔اتنے زیادہ ہتھیاروں کا بوجھ انہیں جلدی تھکا دیتا تھا البتہ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کی سست رفتاری کی کمزوری کو چھپا لیتی تھی۔
…………bnb…………

دجلہ اور فرات کے سنگم کے علاقے کے جنوب میں اُبلہ ایک مقام تھا جو عراق اور عرب کی سرحد پر تھا۔اس زمانے میں ابلہ ایک شہر تھا۔اس کے اردگرد کا علاقہ شاداب اور سرسبز تھا۔وہاں بڑے خوبصورت جنگل اور ہری بھری پہاڑیاں تھیں۔یا تاریخی اہمیت کا علاقہ تھا۔آج بھی وہاں کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں جو بزبان ِخاموشی تاریخی کہانیاں سناتے ہیں۔ ہر کہانی عبرت ناک ہے۔
اس خطے میں ان قوموں کی تباہی اور بربادی کے آثار بھی موجود ہیں جنہوں نے عیش و عشرت کو زندگی کا مقصد بنا لیا تھا اور رعایا کو وہ انسانیت کا درجہ نہیں دیتے تھے ۔خدا نے انہیں راہِ مستقیم دکھانے کیلئے پیغمبر بھیجے او ران لوگوں نے پیغمبروں کامذاق اڑایا اور کہا کہ تم تو ہم میں سے ہو اور دنیا میں تمہاری حیثیت اور تمہارا رتبہ بھی کوئی نہیں،پھر تم خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کس طرح ہو سکتے ہو؟
آخر خدا نے انہیں ایسا تباہ و برباد کیا کہ ان کے محلّات اور ان کی بستیوں کو کھنڈر بنا دیا۔خدا نے ان کا تفصیلی ذکر قرآن میں کیا اور فرمایا۔کیا تم نے زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ جو اپنی بادشاہی پر اتراتے اور خدا کی سرکشی کرتے تھے اور جو اونچے پہاڑوں پر اپنی یادگاریں بناتے تھے کہ ان کے نام ہمیشہ زندہ رہیں،وہ اب کہاں ہیں؟اب زمین کے نیچے سے ان کے محلات اور ان کی یادگاروں کے کھنڈرات نکل رہے ہیں۔
ان کے بعد بھی پر شکوہ شہنشاہ آئے اور ایک کے بعد ایک اپنے کھنڈرات چھوڑتا گیا ۔بابل کے کھنڈربھی آج تک موجود ہیں۔اس خطے میں اشوری آئے،ساسانی آئے، اور اب جب مدینہ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ امیر المومنین تھے۔دجلہ اور فرات کے اس حسین اور عبرت انگیز خطے میں ایرانیوں کا طوطی بول رہا تھا اور یہ آتش پرست قوم پہلی قوموں کی طرح یہی سمجھتی رہی کہ اسے تو زوال آہی نہیں سکتا۔وہ محکوموں کے خدا بنے ہوئے تھے۔
…………bnb…………

’’بنتِ سعود!‘‘ ایک نوجوان مسلمان لڑکی اپنی سہیلی سے پوچھ رہی تھی۔’’خداّم نہیں آیا؟‘‘زہرہ بنتِ سعود کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے آہ بھر کر منہ پھیر لیا۔
’’تم کہتی تھیں کہ وہ تمہیں دھوکا نہیں دے گا۔‘‘سہیلی نے زہرہ سے کہا۔’’خدا نہ کرے،وہ اس بدبخت ایرانی کے ہاتھ چڑھ گیا ہو۔‘‘
’’خدا نہ کرے۔‘‘زہرہ بنتِ سعود نے کہا۔’’وہ آئے گا……چار دن گزر گئے ہیں……میں اس ایرانی کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔موت قبول کرلوں گی اسے قبول نہیں کروں گی۔ خدام مجھے دھوکانہیں دے گا۔‘‘
’’زہرہ! ‘‘سہیلی نے اسے کہا۔’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ تم اس ایرانی کماندار کو قبول کرلو؟تمہارے خاندان کیلئے بھی یہی بہتر ہو گا۔یہی ہے نہ کہ تمہیں اپنا عقیدہ بدلنا پڑے گا۔ساری عمر عیش توکرو گی ناں!‘‘
’’میں نے جس خدا کو دیکھ لیا ہے اسی کی عبادت کروں گی۔‘‘زہرہ نے کہا۔’’آگ خدا نے پیدا کی ہے ،آگ خدا نہیں ہو سکتی۔میں خداکی موجودگی میں کسی اورکی پرستش کیوں کروں؟‘‘
’’سوچ لو زہرہ!‘‘ سہیلی نے کہا۔’’تم اسے قبول نہیں کرو گی تو وہ زبردستی تمہیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے۔اسے کون روک سکتا ہے؟وہ شاہی فوج کا کماندار ہے۔وہ تمہارے خاندان کے بچے بچے کو قید خانے میں بند کرا سکتا ہے۔ہوں تو میں بھی مسلمان کی بیٹی۔میں اﷲ کی عبادت کرتی اور اﷲ کی ہی قسم کھاتی ہوں۔لیکن اﷲ نے ہماری کیا مدد کی ہے؟کیا تمہیں یقین ہے کہ اﷲ تمہاری مدد کرے گا؟‘‘
’’اگر اﷲ نے میری مدد نہ کی تو میں اپنی جان لے لوں گی۔‘‘زہرہ نے کہا۔’’اور اﷲ سے کہوں گی کہ یہ لے۔اگر میرے وجود میں جان تو نے ڈالی تھی تو واپس لے لے۔‘‘اور اس کے آنسو بہنے لگے۔
زہرہ اپنے جیسے ایک خوبصورت جوان خدام بن اسد کو چاہتی تھی اور خدام اس پر جان نثا ر کرتا تھا۔ان کی شادی ہو سکتی تھی لیکن شِمر ایرانی فوج کا ایک کماندار تھا جس کی نظر زہرہ بنتِ سعود پر پڑ گئی تھی۔اس نے اس لڑکی کے باپ سے کہا تھا کہ وہ اس کی بیٹی کو بڑی آسانی سے گھر سے لے جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرے گا۔
’’میں تمہاری بیٹی کو مالِ غنیمت سمجھ کر نہیں لے جاؤں گا۔‘‘شمر نے کہاتھا ۔’’اسے دوگھوڑوں والی اس بگھی پر لے جاؤں گا جس پر دولہے اپنی دلہنوں کو لے جایا کرتے ہیں۔تم لوگوں کو فخر سے بتایا کرو گے کہ تمہاری بیوی ایک ایرانی کماندار کی بیوی ہے۔‘‘
’’لیکن ایرانی کماندار! ‘‘زہرہ کے باپ نے کہا تھا۔’’تمہارا احترام ہم پر لازم ہے۔اگر لڑکی تمہاری دلہن بنناچاہے گی تو ہم اسے نہیں روکیں گے۔‘‘
’’تم غلیظ عربی! ‘‘ایرانی کماندار نے اس نفرت سے جس سے وہ ہر مسلمان سے بات کیا کرتا تھا ،کہا۔’’تو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے والی قوم میں سے ہے اور کہتا ہے کہ اپنی شادی کا فیصلہ تیری بیٹی خود کرے گی۔زرتشت کی قسم! اگر تیری بیٹی نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں نہ دیا تو تجھے اور تیری بیٹی کو ان کوٹھڑیوں میں بند کروں گا جن میں کوڑھی بند ہیں …بہت تھوڑی مہلت دوں گا بوڑھے۔‘‘
اس کے ساتھ اس کے تین گھوڑ سوار سپاہی تھے ۔انہوں نے بڑی زور کا قہقہہ لگایاتھا۔’’ مدینہ بہت دور ہے بدبخت بوڑھے!‘‘ ایک سپاہی نے اسے دھکادے کر کہاتھا۔’’تیرا امیر المومنین تیری مدد کو نہیں آئے گا۔‘‘
زہرہ کے باپ کو اور اس کے بھائیوں کو معلوم تھا کہ وہ ایران کے ایک سپاہی کی بھی حکم عدولی نہیں کر سکتے۔یہ تو کماندار تھا۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شِمر ان کی بیٹی کو اٹھوا بھی سکتا ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے لیکن اس خطے کے مسلمانوں کے دلوں میں آگ کے پجاریوں کی جو نفرت تھی وہ انہیں مجبور کر رہی تھی کہ وہ ان کے غلام ہوتے ہوئے بھی ان کی غلامی قبول نہ کریں،اور اس کا انجام کتنا ہی بھیانک کیوں نہ ہو ،اسے برداشت کریں ۔انہیں اپنے اﷲ پر بھروسہ تھا۔
زہرہ اور خدام کو ملنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔وہ پھلوں کے باغات میں کام کرتے تھے۔جس روز شِمر زہرہ کے گھر آیا تھا اس کے اگلے روز زہرہ خدام سے ملی اور خوفزدہ لہجے میں خدام کو بتایا کہ ایرانی کماندار کیا دھمکی دے گیا ہے۔
’’ہم یہاں سے بھاگ نہ چلیں؟‘‘ زہرہ نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ خدام نے جواب دیا۔ ’’اگر ہم بھاگ گئے تو یہ بد بخت تمہارے اور میرے خاندان کے بچے بچے کو قتل کردیں گے۔‘‘
’’پھر کیا ہو گا؟‘‘ زہرہ نے پوچھا۔
’’جو خدا کو منظور ہو گا۔‘‘ خدام نے کہا۔
’’خدا …خدا …خدا۔‘‘ زہرہ نے جھنجھلاتے ہوئے لہجے میں کہا۔’’جو خدا ہماری مدد نہیں کر سکتا…‘‘
’’زہرہ!‘‘ خدام نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔’’خدا اپنے بندوں کو امتحان میں ڈالا کرتا ہے۔بندے خدا کا امتحان نہیں لے سکتے۔‘‘خدام گہری سوچ میں کھو گیا۔
’’یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تم اس آتش پرست شِمر کا مقابلہ کرو گے۔‘‘زہرہ نے کہا۔
خدام گہری سوچ میں کھویا رہا۔
’’سوچتے کیا ہو؟‘‘زہرہ نے کہا۔’’تم اس شخص کو قتل تو نہیں کر سکتے۔ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے۔‘‘
’’خدا نجات کا راستہ بھی دِکھا دے گا۔‘‘ خدام نے کہا۔
’’تمہیں ایک اور راستہ میں بھی دکھا سکتی ہوں۔‘‘زہرہ نے کہا۔’’مجھے اپنی تلوار سے قتل کر دو اور تم زندہ رہو۔‘‘
’’تھوڑی سی قربانی دو۔‘‘ خدام نے کہا۔’’میں اس نفرت کا اندازہ کر سکتا ہوں جو شِمر کے خلاف تمہارے دل میں بھری ہوئی ہے۔لیکن اس پر یہ ظاہر کرو کہ تم اسے پسند کرتی ہو اسے دھوکے میں رکھو ،میں کچھ دنوں کیلئے غائب ہوجاؤں گا۔‘‘
’’کہاں جاؤ گے؟‘‘ زہرہ نے پوچھا۔ ’’کیا کرنے جاؤ گے؟‘‘
’’مجھ سے ہر بات نہ پوچھو زہرہ!‘‘ خدام نے کہا۔ ’’میں خدائی مدد حاصل کرنے جا رہا ہوں۔‘‘
’’خدا کی قسم خدام!‘‘ زہرہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’اگر تم نے مجھے دھوکا دیا تو میری روح تمہیں چین سے نہیں جینے دے گی ۔میں ایک دن کیلئے بھی اس کافر کی بیوی بن کے نہیں رہ سکوں گی۔اس کی بیوی بننے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے تم ہی نہیں میرا مذہب بھی چھن جائے گا۔‘‘
’’اگر تم مذہب کی اتنی پکی ہو تو خدا ہماری مدد کو آئے گا۔‘‘خدا م نے کہا۔
’’خدام!‘‘زہرہ نے مایوسی کے لہجے میں کہا۔’’میں مذہب کی تو پکی ہوں لیکن خدا پر میرا عقیدہ متزلزل ہوتا جا رہا ہے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

2 comments:

  1. Great information shared. Thank you for sharing.
    Visit my articles at: https://www.myvisionofhealth.com/
    Thank you .

    ReplyDelete

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages