شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 65
خالدؓ فجر کی نماز
سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کے خیمے کے قریب دو گھوڑے آ رکے۔ سوار کود کر اترے۔ خالدؓ
نماز با جماعت پڑھ کر آ رہے تھے ان سواروں کو دیکھ کران کے قریب جا رکے ۔گھوڑوں کا
پسینہ اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے دریا میں سے گزر کر آئے ہوں۔ان کی سانسیں پھونکنی
کی طرح چل رہی تھیں۔سواروں کی حالت گھوڑوں سے بھی بری تھی۔
’’اشعر!‘‘ … خالد ؓنے کہا۔ … ’’بن آصف ،کیا خبر لائے ہو؟‘‘ … ’’اندر
چلو، ذرا دم لے لو۔‘‘
’’دم لینے کا وقت نہیں سالار!‘‘ … بن آصف نے خالدؓ کے پیچھے ان کے
خیمے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ … ’’آتش پرستوں کا سیلاب آ رہا ہے۔ ہم نے یہ خبرعیسائیوں
کی ایک بستی سے لی ہے۔ بکر بن وائل کی الگ فوج تیار ہو گئی ہے۔ یہ مدائن کی فوج کے
ساتھ اندرزغر نام کے ایک سالار کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔ دوسری فوج بہمن جاذویہ کی زیرِ
کمان دوسری طرف سے آ رہی ہے۔‘‘
’’کیا یہ فوجیں ہم پر مختلف سمتوں سے حملہ کریں گی؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ … اشعر نے جواب دیا۔ … ’’دونوں فوجیں ولجہ میں اکھٹا ہوں
گی۔‘‘
’’اور تم کہتے ہو کہ سیلاب کی طرح آگے بڑھیں گی۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔
’’کماندار نے یہی بتایا ہے۔‘‘ … بن آصف بولا۔
ان دونوں کی رپورٹ ابھی مکمل ہوئی تھی کہ ایک شتر سوار خیمے
کے باہر آ رکا اور اونٹ سے اتر کر بغیر اطلاع خیمے میں آ گیا ۔اس نے خالد ؓکو بتایا
کہ فلاں سمت سے ایرانیوں کی ایک فوج بہمن جاذویہ کی قیادت میں آ رہی ہے۔یہ بھی ایک
جاسوس تھا جو کسی بھیس میں اس طرف نکل گیا تھا۔جِدھر سے بہمن کی فوج آ رہی تھی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اندرزغر اور بہمن جاذویہ کو اس طرح کوچ کرنا
تھا کہ دونوں کی فوجیں بیک وقت یا تھوڑے سے وقفے کے دلجہ پہنچتیں۔ مگر ہوا یوں کے اندرزغر
پہلے روانہ ہوگیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کسریٰ اردشیر کے قریب تھا۔ اس لئے اردشیر
اس کے سر پر سوار تھا۔ بہمن دور تھا۔ اسے کوچ کا حکم قاصد کی زبانی پہنچا تھا وہ دو
دن بعد روانہ ہوا۔
کسی بھی مؤرخ نے اس فوج کی تعداد نہیں لکھی جو اندرزغر کے ساتھ
تھی۔ بہمن کی فوج کی تعدادبھی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف یہ ایک بڑا واضح اشارہ ملتا
ہے کہ آتش پرستوں کی فوج جو مسلمانوں کے خلاف آ رہی تھی وہ واقعی سیلاب کی مانند
تھی۔ اردشیر نے کہا تھا کہ ’’وہ ایک اور شکست کا خطرہ نہیں مول لے گا۔‘‘ چنانچہ اس
نے اتنی زیادہ فوج بھیجی تھی جتنی اکھٹی ہو سکتی تھی۔
اندرزغر کی فوج کا تو شمار ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنی باقاعدہ
فوج کے علاوہ اس نے بکر بن وائل کے معلوم نہیں کتنے ہزار عیسائی اپنی فوج میں شامل
کر لیے تھے۔ ان میں پیادہ بھی تھے اور سوار بھی۔ اس فوج میں مزید اضافہ کوچ کے دوران
اس طرح ہوا کہ جنگِ دریا میں آتش پرستوں کے جو فوجی مسلمانوں سے شکست کھاکر بھاگے
تھے وہ ابھی تک قدم گھسیٹتے مدائن کو جا رہے تھے۔ وہ صرف تھکن کے مارے ہوئے نہیں تھے
ان پر مسلمانوں کی دہشت بھی طاری تھی۔ پسپائی کے وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی فوج
کا قتلِ عام ہوا تھا۔ انہوں نے کشتیوں میں سوار ہوکر بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے
وہ خالدؓ کے مجاہدین کیلئے بڑا آسان شکار ہوئے تھے۔
اس بھگدڑ میں جو کشتیوں میں سوار ہو گئے تھے ان پر مجاہدین نے
تیروں کا مینہ برسا دیا تھا ۔ایسی کشتیوں میں جو سپاہی زندہ رہے تھے، ان کی ذہنی حالت
بہت بری تھی۔ ان کی کشتیوں میں ان کے ساتھی جسموں میں تیر لیے تڑپ تڑپ کر مر ہے تھے۔
اس طرح زندہ سپاہیوں نے لاشوں اور تڑپ تڑپ کر مرتے ساتھیوں کے ساتھ سفر کیا تھا، کشتیاں
خون سے بھر گئی تھیں۔ زندہ سپاہیوں کو کشتیاں کھینے کی بھی ہوش نہیں تھی، کشتیاں دریا
کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ خود ہی بہتی کہیں سے کہیں جا پہنچی تھیں، اور دور دور کنارے
سے لگی تھیں اور زرتشت کے یہ پجاری بہت بری جسمانی اور ذہنی حالت میں مدائن کی طرف
چل پڑے تھے۔
وہ دو دو چار چار اور اس سے بھی زیادہ کی ٹولیوں میں جا رہے
تھے۔ پرانی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ ان میں کئی ایک نے جب اندرزغر کی فوج کو آتے
دیکھا تو بھاگ اٹھے۔ وہ تیز دوڑ نہیں سکتے تھے۔ انہیں پکڑ لیا گیا اور فوج میں شامل
کر لیا گیا۔ کچھ تعداد ایسے سپاہیوں کی ملی جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے ان میں کچھ
ایسے تھے جو بولتے ہی نہیں تھے۔ ان سے بات کرتے تھے تو وہ خالی خالی نگاہوں اور بے
تاثر چہروں سے ہر کسی کو دیکھتے تھے ۔بعض بولنے کے بجائے چیخیں مارتے اور دوڑ پڑتے
تھے۔
’’پیشتر اس کے کہ یہ ساری فوج کیلئے خوف و ہراس کا سبب بن جائیں ۔انہیں
فوج سے دور لے جا کر ختم کر دو۔‘‘ان کے سالار اندرزغر نے حکم دیا۔
اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔
مدائن کی یہ فوج تازہ دم تھی۔ اس نے ابھی مسلمانوں کے ہاتھ نہیں
دیکھے تھے لیکن دریا کے معرکے سے بچے ہوئے سپاہی جب راستے میں اس تازہ دم فوج میں شامل
ہوئے تو ہلکے سے خوف کی ایک لہر ساری فوج میں پھیل گئی۔ شکست خوردہ سپاہیوں نے اپنے
آپ کو بے قصور ثابت کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ بے جگری سے لڑے ہیں، مسلمانوں
کے متعلق اپنی فوج کو ایسی باتیں سنائیں جیسے مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت
ہو اور وہ جن بھوت ہوں۔
خالدؓ کی جنگی قیادت کی یہ خوبی تھی کہ وہ دشمن کو جسمانی شکست
ایسی دیتے تھے کہ دشمن پر نفسیاتی اثر بھی پڑتا تھا جوایک عرصے تک دشمن کے سپاہیوں
پر باقی رہتا اور اسی دشمن کے ساتھ جب ایک اور معرکہ لڑاجاتا تو وہ نفسیاتی اثر خالد
ؓکو بہت فائدہ دیتا تھا۔ یہ اثر پیدا کرنے کیلئے خالدؓ دشمن کو پسپا کرنے پر ہی مطمئن
نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دشمن کا تعاقب کرتے اور اسے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچاتے
تھے۔
…………bnb…………
خالدؓ کے جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی انہیں دی کہ پچھلے معرکے کے
بھاگے ہوئے سپاہی بھی مدائن سے آنے والی فوج میں شامل ہورہے ہیں۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں
کو بلایا اور انہیں نئی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
’’میرے عزیرساتھیو!‘‘ … خالدؓ نے انہیں کہا۔ … ’’ ہم یہاں صرف اﷲکے
بھروسے پر لڑنے کیلئے آئے ہیں۔ جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے توہم فارس کی فوج سے
ٹکر لینے کے قابل نہیں۔ اپنے وطن سے ہم بہت دور نکل آئے ہیں ہمیں کمک نہیں مل سکتی۔
ہم واپس بھی نہیں جائیں گے۔ ہم فارسیوں کو اور کسریٰ کو نہیں آگ کے خداؤں کو شکست
دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ …‘‘
’’میں تم سب کے چہروں پر تھکن کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری آنکھیں
بھی تھکی تھکی سی ہیں اور تمہاری باتوں میں بھی تھکن ہے لیکن ربِ کعبہ کی قسم !ہماری
روحیں تھکی ہوئی نہیں۔ ہمیں اب روح کی طاقت سے لڑناہے۔‘‘
’’ایسی باتیں زبان پر نہ لا ابنِ ولید!‘‘… ایک سالار عاصم بن عمرو نے
کہا۔ … ’’ہمارے چہروں پر تھکن کے آثار ہیں مایوسی کے نہیں۔‘‘
’’ہمارے ارادوں میں کوئی تھکن نہیں ابنِ ولید۔‘‘ … دوسرے سالار عدی
بن حاتم نے کہا۔ … ’’ہم نے آرام کر لیا ہے۔ سپاہ نے بھی آرام کر لیا ہے۔‘‘
’’میں اسی لیے یہاں خیمہ زن ہوگیاتھا کہ اﷲکے سپاہی آرام کر لیں۔‘‘
… خالدؓ نے کہا۔ … ’’تمہارے ارادے تھکے ہوئے نہیں تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
میں دوسری باتیں کرنا چاہتا ہوں جو زیادہ ضروری ہیں۔ … تم نے دیکھا ہے کہ ہم نے فارسیوں
کو پہلے معرکے میں شکست دی تو وہ پھر ہمارے سامنے آ گئے۔ ان کے ساتھ ان کے وہ سپاہی
بھی آ گئے جو پہلے معرکے سے بھاگے تھے۔ اب مجھے پھر اطلاع ملی ہے کہ دوسرے معرکے سے
بھاگے ہوئے سپاہی مدائن سے آنے والی فوج کے سا تھ راستے میں ملتے آرہے ہیں۔ اب تمہیں
یہ کوشش کرنی ہے کہ اگلے معرکے میں آتش پرستوں کا کوئی سپاہی زندہ نہ جا سکے۔ ہلاک
کرو یا پکڑ لو۔ کسریٰ کی فوج کا نام و نشان مٹا دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہمارا اﷲ یونہی کرے گا۔‘‘ … تین چار آوازیں سنائی دیں۔
’’سب اﷲکے اختیار میں ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ہم اسی کی خوشنودی
کیلئے گھروں سے اتنی دور آگئے ہیں۔ اب جو صورت ہمارے سامنے ہے اس پر سنجیدگی سے غور
کرو۔ یہ فیصلے جذبات سے نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے
کہ فارسیوں کی جنگی طاقت اور تعداد جواب آ رہی ہے ،ہم اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔
لیکن پسپائی کو دل سے نکال دو۔ تازہ اطلاعوں کے مطابق مدائن کی فوج دجلہ عبور کر آئی
ہے۔ آج رات فرات کو بھی عبورکر لے گی، پھر وہ ولجہ پہنچ جائے گی۔ ان کی دوسری فوج
بھی آ رہی ہے۔ ہمارے جاسوس اس کا کوچ دیکھ رہے ہیں اور مجھے اطلاعیں دے رہے ہیں…‘‘
’’خدائے ذوالجلال ہماری مدد کر رہا ہے۔ یہ اسی کی ذاتِ باری کا کرم
ہے کہ فارس کی یہ دوسری فوج جو اک سالار بہمن جاذویہ کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔ اس کی
رفتار تیز نہیں۔ وہ پڑاؤ زیادہ کر رہی ہے۔ ہم اپنی قلیل نفری سے دونوں فوجوں سے ٹکر
لے سکتے ہیں۔ میری عقل اگر صحیح کام کر رہی ہے تو میں یہی ایک بہتر طریقہ سمجھتا ہوں
کہ مدائن کی فوج جو سالار اندرزغر کے ساتھ آ رہی ہے وہ ولجہ تک جلدی پہنچ جائے گی۔
پیشتر اس کے کہ بہمن کی فوج بھی اس سے آ ملے، ہم اندرزغر پر حملہ کر دیں گے، کیا میں
نے بہتر سوچا ہے؟‘‘
’’اس سے بہتر اورکوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ … سالار عاصم نے کہا۔
… ’’مجھے مدائن کی اس فوج میں ایک کمزوری نظر آرہی ہے۔اس فوج میں عیسائیوں کی فوج
کے قبیلوں کے لوگ بھی ہیں جو لڑنا تو جانتے ہوں گے لیکن انہیں جنگ اور باقاعدہ معرکے
کا تجربہ نہیں۔ میں انہیں ایک مسلح ہجوم کہوں گا۔ دشمن کی دوسری کمزوری وہ سپاہی ہیں
جو پچھلے معرکے سے بھاگے ہوئے مدائن کی فوج کو راستے میں ملے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ
وہ ڈرے ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے اپنے ہزاروں ساتھیوں کو تلواروں تیروں اور برچھیوں کا
شکار ہوتے دیکھا ہے،پسپائی کی صورت میں وہ سب سے پہلے بھاگیں گے۔‘‘
’’خدا کی قسم عمرو!‘‘ … خالدؓ نے پرجوش آواز میں کہا۔ … ’’تجھ میں
وہ عقل ہے جو ہر بات سمجھ لیتی ہے۔‘‘ … خالدؓ نے ان سب پر نگاہ دوڑائی جو وہاں موجود
تھے۔ انہوں نے کہا۔ … ’’تم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس بات کو نہ سمجھ سکاہو۔لیکن
دشمن کے اس پہلو کو نہ بھولنا کہ اس کے پاس سازوسامان اور رسد اور کمک کی کمی نہیں۔
صرف اندرزغر کی فوج ہماری فوج سے چھ گنا زیادہ ہے۔ میں نے جو طریقہ سوچا ہے وہ موزوں
اور مؤثر ضرور ہوگا لیکن آسان نہیں۔ لڑنا سپاہ نے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں
آئے ہیں۔ پھر بھی انہیں اچھی طرح سے سمجھا دوکہ ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے اور
ہم مدائن میں ہوں گے یا خدائے بزرگ و برتر کے حضور پہنچ جائیں گے۔‘‘
…………bnb…………
دومؤرخوں طبری اور یاقوت نے لکھا ہے کہ یہ فہم و فراست کی جنگ
تھی۔ اگر تعداد اور سازوسامان اور دیگر جنگی احوال وکوائف کو دیکھا جاتا تو آتش پرستوں
اور مسلمانوں کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ خالدؓ کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔ ان کی راتیں
گہری سوچ میں گذر رہی تھیں۔ خیمہ گاہ میں وہ چلتے چلتے رک جاتے اور گہری سوچ میں کھو
جاتے۔ انہیں زمین پر بیٹھ کر انگلی سے مٹی پر لکیریں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ خالدؓ
کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ آتش پرستوں سے فیصلہ کن معرکہ لڑے بغیر واپس
نہ آنے کا عہدکر چکے تھے۔
انہوں نے حسبِ معمول اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔پہلے
کی طرح دائیں اور بائیں پہلوؤں پر سالارعاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو رکھا۔
اپنے ساتھ انہوں نے صرف ڈیڑھ ہزار نفری رکھی جن میں پیدل تھے اور گھڑ سوار بھی۔ اس
تقسیم کے بعد انہوں نے کوچ کاحکم دیا۔ یہ حکم انہوں نے جاسوس کی اس اطلاع کے مطابق
دیا کہ اندرزغر کی فوج دریائے فرات عبور کر رہی ہے۔ خالد ؓنے اپنی رفتار ایسی رکھی
کہ آتش پرست ولجہ میں جونہی پہنچیں، وہ اس کے سامنے ہوں۔ یہ جنگی فہم وفراست کا غیر
معمولی مظاہرہ تھا۔
اللہ کی مدد سے ایسے ہی ہوا، جیسا انہوں نے سوچا تھا۔ اندرزغرکی
فوج ولجہ پہنچی تو اسے خیمے گاڑنے کا حکم ملا کیونکہ اسے بہمن کی فوج کا انتظار کرنا
تھا۔ فوج اتنے لمبے سفر کی تھکی ہوئی خیمے گاڑنے لگی اور اس کے ساتھ ہی شور بپا ہو
گیا کہ بہمن جاذویہ کی فوج آ رہی ہے۔ تمام سپاہ اس کے استقبال میں خوشی کا شوروغل
مچانے لگی لیکن یہ شور اچانک خاموش ہو گیا۔
’’یہ مدینہ کی فوج ہے۔‘‘ … کسی نے بلند آواز سے کہااور اس کے ساتھ
یہ کئی آوازیں سنائی دیں۔ … ’’دشمن آگیا ہے …تیار …ہوشیار۔‘‘
اندرزغر گھوڑے پر سوار آگے گیااور اچھی طرح دیکھا۔ یہ خالدؓ
کی فوج تھی اور جنگی ترتیب میں رہ کر پڑاؤ ڈال رہی تھی، یہ فوج خیمے نہیں گاڑ رہی
تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان لڑائی کیلئے تیار ہیں۔
’’سالارِ اعلیٰ!‘‘ … اندرزغر کو ایک سالار نے کہا۔ … ’’ہماری دوسری
فوج نہیں پہنچی۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ ابھی دور ہے۔ ورنہ ہم ان مسلمانوں کو ابھی کچل
ڈالتے۔ یہ تیار ہیں اور ہماری سپاہ تھکی ہوئی ہے۔‘‘
’’کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ ان کی تعداد کتنی تھوڑی ہے۔‘‘ … اندرزغر
نے کہا۔ … ’’بمشکل دس ہزار ہوں گے۔ میں انہیں چیونٹیوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ ان
کے گھوڑ سوار دستے کہاں ہیں؟‘‘
’’کہاں ہو سکتے ہیں؟‘‘ … اس کے سالار نے کہا۔ … ’’کھلا میدان ہے، جو
کچھ ہے صاف نظر آ رہا ہے۔‘‘
’’معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سالاروں کو اور کمانداروں کو ایک ایک کے چھ
چھ نظر آتے رہے ہیں۔‘‘ … اندرزغر نے کہا۔ … ’’شکست کھا کر بھاگنے والوں نے مدائن میں
بتایا تھا کہ مسلمانوں کا رسالہ بڑا زبردست ہے اور اس کے سوار لڑنے کے اتنے ماہر ہیں
کہ کسی کے ہاتھ نہیں آتے … مجھے تو ان کارسالہ کہیں نظر نہیں آرہا۔‘‘
’’ہمیں جھوٹی اطلاعیں دی گئی ہیں۔‘‘ … سالار نے کہا۔ … ’’ہم بہمن کا
انتظارنہیں کریں گے،اس کے آنے تک ہم ان مسلمانوں کو ختم کر چکے ہوں گے۔‘‘
…………bnb…………
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار وہاں نہیں تھے۔
وہی تھوڑے سے سوار تھے جو پیادوں کے ساتھ تھے یا خالد ؓکے ساتھ کچھ گھوڑ سوار محافظ
تھے۔ آتش پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ اندرزغر کیلئے یہ فتح بڑی آسان تھی۔ خالد ؓنے
اتنی تھوڑی سی نفری کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کے سامنے آکر غلطی کی تھی۔
جس میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں وہ ہموار میدان
تھا۔ اس کے دائیں اور بائیں دو بلند ٹیکریاں تھیں۔ ایک ٹیکری آگے جا کر مڑ گئی تھی۔
اس کے پیچھے ایک اور ٹیکری تھی۔ خالدؓ نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کر رکھا تھا۔
ادھر آتش پرست بھی جنگی ترتیب میں ہو گئے اور دونوں فوجوں کے سالار ایک دوسرے کا جائزہ
لینے لگے۔
خالدؓ نے دیکھا کہ آتش پرستوں کے پیچھے دریا تھا لیکن اندرزغرنے
اپنی فوج کو دریا سے تقریباً ایک میل دور رکھا تھا۔آتش پرستوں کے پہلے سالاروں نے
اپنا عقب دریا کے بہت قریب رکھا تھا تاکہ عقب محفوظ رہے۔ لیکن اندرزغر نے اپنے عقب
کی اتنی احتیاط نہ کی۔ اسے یقین تھا کہ یہ مٹھی بھر مسلمان اس کے عقب میں آنے کی جرأت
نہیں کریں گے۔
’’زرتشت کے پجاریو!‘‘ … اندرزغر نے اپنی سپاہ سے خطاب کیا۔ … ’’یہ ہیں
وہ مسلمان جن سے ہمارے ساتھیوں نے شکست کھائی ہے۔انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، کیا
ان سے شکست کھا کر تم ڈوب نہیں مرو گے۔ کیا تم انہیں فوج کہو گے؟ یہ ڈاکوؤں اور لٹیروں
کا گروہ ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ جائے۔‘‘
وہ دن یونہی گزر گیا۔ سالار ایک دووسرے کی فوج کو دیکھتے اور
اپنی اپنی فوج کی ترتیب سیدھی کرتے رہے۔ اگلے روز خالدؓ نے اپنی فوج کو حملے کا حکم
دے دیا۔ فارس کی فوج تہہ در تہہ کھڑی تھی۔ مسلمانوں کا حملہ تیز اور شدید تھا لیکن
دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مسلمانوں کوپیچھے ہٹنا پڑا۔ دشمن نے اپنی اگلی صف
کو پیچھے کرکے تازہ دم سپاہیوں کو آگے کر دیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment