Featured Post

Khalid001

14 June 2019

Khalid066


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  66
خالدؓ نے ایک اور حملے کیلئے اپنے چند ایک دستوں کو آگے بھیجا۔ گھمسان کا معرکہ رہا لیکن مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ آتش پرستوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور وہ نیم زرہ پوش بھی تھے۔ مسلمانوں کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس آ گئے ہوں ۔
خالدؓ نے کچھ دیر اور حملے جاری رکھے مگر مجاہدین تھکن محسوس کرنے لگے۔ متعدد مجاہدین زخمی ہو کر بیکار ہو گئے۔ خالدؓ نے اس خیال سے کہ ان کی فوج حوصلہ نہ ہار بیٹھے خود حملے کیلئے سپاہیوں کے ساتھ جانے لگے۔اس سے مسلمانوں کا جذبہ تو قائم رہا لیکن ان کے جسم شل ہو گئے۔ آتش پرست ان پر قہقہے لگا رہے تھے۔
اس وقت تک مسلمانوں نے خالدؓ کی زیرِ کمان جتنی لڑائیاں لڑی تھیں ان میں یہ پہلی لڑائی تھی جس میں مسلمانوں میں اپنے سالارکے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج دبا دبا ساتھا لیکن فوج میں بے اطمینانی صاف نظر آنے لگی۔ خالدؓ جیسے عظیم سالار کے خلاف سپاہیوں کی بے اطمینانی عجیب سی بات تھی۔وہ پوچھتے تھے کہ اپنا سوار دستہ کہاں ہے؟ وہ محسوس کر رہے تھے کہ خالدؓ اپنے مخصوص انداز سے نہیں لڑ رہے۔ خالدؓ سپاہیوں کی طرح ہر حملے میں آگے جاتے تھے پھر بھی ان کے سپاہیوں کو کسی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔ دشمن کی اتنی زیادہ نفری دیکھ کر بھی مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ انہیں شکست نظر آنے لگی تھی۔
آتش پرستوں نے ابھی ایک بھی ہلہ نہیں بولا تھا۔ اندرزغر مسلمانوں کو تھکا کر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ مسلمان تھک چکے تھے۔ خالدؓاپنی فوج کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے اسی لیے انہوں نے حملے روک دیئے تھے، وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب کیا چال چلیں کہ آتش پرستوں کی طرف سے ایک دیو ہیکل آدمی سامنے آیا اور اس نے مسلمانوں کو للکار کر کہاکہ جس میں میرے مقابلے کی ہمت ہے آگے آ جائے۔
یہ ہزار مرد پہلوان اور تیغ زن تھا۔ فارس میں ’’ہزار مرد‘‘ کا لقب اس جنگجو پہلوان کو دیا جاتا تھا جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا۔ ہزار مردکا مطلب تھا کہ یہ ایک آدمی ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔
اندرزغر اس دیو کو آگے کرکے مسلمانوں کا تماشہ دیکھنا چاہتا تھا۔ مسلمانوں میں اس کے مقابلے میں اترنے والا کوئی نہ تھا۔ خالدؓ گھوڑے سے کود کر اترے تلوار نکالی اور ہزار مرد کے سامنے جا پہنچے۔ کچھ دیردونوں کی تلواریں ٹکراتی رہیں اور دونوں پینترے بدلتے رہے۔ آتش پرست پہلوان مست بھینسالگتا تھا۔ اس میں اتنی طاقت تھی کہ اس کا ایک وار انسان کو دو حصوں میں کاٹ دیتا۔ خالد ؓنے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وار کم کر دیئے اسے وار کرنے کا موقع دیتے رہے تاکہ وہ تھک جائے اس پر انہوں نے یہ ظاہر کیا جیسے وہ خود تھک کر چور ہو گئے ہوں۔
ایرانی پہلوان خالدؓ کو کمزور اور تھکا ہوا آدمی سمجھ کر ان کے ساتھ کھیلنے لگا۔ کبھی تلوار گھماکر کبھی اوپر سے نیچے کو وار کرتا اور کبھی وار کرتا اور ہاتھ روک لیتا۔ وہ طنزیہ کلامی بھی کر رہا تھا۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں لاپرواہ سا ہو گیا۔ ایک بار اس نے تلوار یوں گھمائی جیسے خالدؓ کی گردن کاٹ دے گا۔ خالد ؓیہ وار اپنی تلوار پر روکنے کے بجائے تیزی سے پیچھے ہٹ گئے۔ پہلوان کا وار خالی گیا تو وہ گھوم گیا۔ اس کا پہلو خالدؓ کے آگے ہو گیا۔ خالدؓ اسی کے انتظا رمیں تھے انہوں نے نوک کی طرف سے پہلوان کے پہلو میں تلوار کا اس طرح وار کیا کہ برچھی کی طرح تلوار اس کے پہلو میں اتار دی۔ وہ گرنے لگا تو خالدؓ نے اس کے پہلو سے تلوار کھینچ کر ایسا ہی ایک اور وار کیا، اور تلوار اس کے پہلو میں دور اندر تک لے گئے۔
طبری اور ابو یوسف نے لکھا ہے کہ پہلوان گرا اور مر گیا۔ خالدؓ اس کے سینے پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ انہیں کھانا دیا جائے۔ انہیں کھانا دیا گیا جو انہوں نے ہزار مرد کی لاش پر بیٹھ کر کھایا۔ اس انفرادی معرکے نے مسلمانوں کے حوصلے میں جان ڈال دی۔
…………bnb…………

آتش پرست سالار اندرزغر نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمان تھک گئے ہیں چنانچہ اس نے حملے کا حکم دے دیا۔ اسے بجا طور پراپنی فتح کی پوری امید تھی۔ یہ آتش پرست سمندر کی موجوں کی طرح آئے، مسلمانوں کو اب کچلے جانا تھا۔ انہوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے بے جگری سے مقابلہ کیا۔ ایک ایک مسلمان کا مقابلہ دس دس بارہ بارہ آتش پرستوں سے تھا۔ اب ہر مسلمان ذاتی جنگ لڑ رہا تھا اس کے باوجود انہوں نے ڈسپلن کا دامن نہ چھوڑا اور بھگدڑ نہ مچنے دی۔
اس موقع پر بھی سپاہیوں کو خیال آیا کہ خالدؓ اپنے پہلوؤں کو اس طریقے سے کیوں نہیں استعمال کرتے جو ان کا مخصوص طریقہ تھا۔خالد ؓخود سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے اور ان کے کپڑوں پر خون تھا۔جو ان کے کسی زخم سے نکل رہا تھا۔
چونکہ ایرانیوں کی نفری زیادہ تھی اس لئے جانی نقصان انہی کا زیادہ ہو رہا تھا۔ اندرزغر نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹالیا اور تازہ دم دستوں سے دوسرا حملہ کیا۔ یہ حملہ زیادہ نفری کا تھا۔ مسلمان ان میں نظر ہی نہیں آتے تھے اندرزغر کا یہ عہد پورا ہو رہا تھا کہ ایک بھی مسلمان کو زندہ نہیں جانے دیں گے۔ اندرزغر نے مسلمانوں کا کام جلدی تمام کرنے کیلئے مزید دستوں کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔ اب تو مسلمانوں کیلئے بھاگ نکلنا بھی ممکن نہ رہا۔ وہ اب زخمی شیروں کی طرح لڑ رہے تھے۔
خالدؓ اس معرکے سے آگے نکل گئے تھے، ان کا علمبردار ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے علم اپنے ہاتھ میں لے کر اوپر کیا اور ایک بار دائیں اور ایک بار بائیں کیا پھر علم علمبردار کو دے دیا، یہ ایک اشارہ تھا ۔اس کے ساتھ ہی میدانِ جنگ کے پہلوؤں میں جو ٹیکریاں تھیں ان میں سے دو ہزار گھوڑ سوار نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جو انہوں نے آگے کر لیں، گھوڑے سر پڑ دوڑے آ رہے تھے۔ وہ ایک ترتیب میں ہو کر آتش پرستوں کے عقب میں آ گئے۔ جنگ کے شوروغل میں آتش پرستوں کو اس وقت پتا چلا کہ ان پر عقب سے حملہ ہو گیا ہے جب مسلمانوں کے گھوڑ سوار ان کے سر پر آ گئے۔
یہ تھے مسلمانوں کے وہ سوار دستے جنہیں اندرزغر ڈھونڈ رہا تھا۔ خود خالدؓ کی سپاہ پوچھ رہی تھی کہ اپنے سواار دستے کہاں ہیں۔ خالد ؓنے اپنی نفری کی کمی اور دشمن کی نفری کی افراط دیکھ کر یہ طریقہ اختیار کیا کہ رات کو تمام گھوڑ سواروں کو ٹیکری کے عقب میں اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ اپنی فوج کو بھی پتا نہ چل سکے۔ ان کے علم کے دائیں بائیں ہلنے کا اشارہ مقرر کیا تھا گھوڑوں کو ایسی جگہ چھپایا گیا تھا جو دشمن سے ڈیڑھ میل کے لگ بھگ دور تھیں۔ وہاں سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز دشمن تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ رات کو گھوڑوں کے منہ باندھ دیئے گئے تھے ان دو ہزار گھوڑ سواروں کے کماندار بُسر بن ابی رہم اور سعید بن مرّہ تھے۔ جب صبح لڑائی شروع ہوئی تھی تو ان دونوں کے کمانداروں نے گھوڑ سوار وں کو پابرکاب کر دیا تھا اور خود ایک ٹیکری پر کھڑے ہوکر اشارے کا انتظار کرتے رہے تھے۔
آتش پرستوں پر عقب سے قیامت ٹوٹی، توخالد ؓ نے اگلی چال چلی جو پہلے سے طے کی ہوئی تھی۔ پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم نے لڑتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بچا کررکھا ہوا تھا انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ جب گھوڑ سواروں نے دشمن پر عقب سے ہلہ بولا تو پہلوؤں کے ان دونوں سالاروں نے اپنے اپنے پہلو پھیلا کر آتش پرستوں کو گھیرے میں لے لیا۔ دشمن کو دھوکا دینے کیلئے خالدؓنے اپنا محفوظ دستے (ریزرو) بھی معرکے میں پہلے ہی جھونک دیے تھے۔
آتش پرستوں کے فتح کے نعرے آ ہ وبکا میں تبدیل ہو گئے۔ مسلمان گھوڑ سواروں کی برچھیاں انہیں کاٹتی اور گراتی جا رہی تھیں۔ دشمن میں بھگدڑ تو ان ہزاروں عیسائیوں نے مچائی جنہیں جنگ کا تجربہ نہیں تھا اور اس بھگدڑ میں اضافہ دشمن کے ان سپاہیوں نے کیا جو پہلے معرکوں سے بھاگے ہوئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
اب مسلمانوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔جنگ کا پانسہ ایسا پلٹا کہ زرتشت کی آگ سرد ہو گئی۔ بعض مؤرخوں نے ولجہ کے معرکے کو ولجہ کا جہنم لکھا ہے۔ آتش پرستوں کیلئے یہ معرکہ جہنم سے کم نہ تھا۔ اتنا بڑا لشکر ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ بھاگ رہے تھے کٹ رہے تھے۔ گھوڑ ے تلے روندے جا رہے تھے۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اندرزغر زندہ بھاگ گیا لیکن مدائن کی طرف جانے کے بجائے اس نے صحرا کا رخ کیا، اسے معلوم تھا کہ اگر وہ واپس گیا تو اردشیر اسے جلاد کے حوالے کر دے گا۔ وہ صحرا میں بھٹکتا رہا اور بھٹک بھٹک کر مر گیا۔
دوسرے آتش پرست سالار بہمن جاذویہ کی فوج ابھی تک ولجہ نہیں پہنچی تھی۔ مسلمانوں کو ایسا ہی ایک اور معرکہ لڑنا تھا۔
…………bnb…………

آتش پرستوں کے دوسرے سالار بہمن جاذویہ کو بھی ولجہ پہنچنا تھا اور کسریٰ اُردشیر کے مطابق اس کے لشکر کو اپنے ساتھی سالار اندرزغر کے لشکر کے ساتھ مل کر خالدؓ کے لشکر پر حملہ کرنا تھا مگر وہ ولجہ سے کئی میل دور تھااور اسے یقین تھا کہ وہ اور اندرزغر مسلمانوں کو تو کچل ہی دیں گے، جلدی کیا ہے۔ اس کا لشکر آخری پڑاؤ سے چلنے لگا تو چار پانچ سپاہی پڑاؤ میں داخل ہوئے۔ ان میں دو زخمی تھے اور جو زخمی نہیں تھے ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ تھکن اتنی کہ وہ قدم گھسیٹ رہے تھے۔ چہروں پر خوف اور شب بیداری کے تاثرات تھے اور ان تاثرات پر دھول کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔
’’کون ہو تم؟‘‘ … ان سے پوچھا گیا۔ … ’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
’’ہم سالار اندرزغر کے لشکر کے سپاہی ہیں۔‘‘ … ان میں سے ایک نے تھکن اور خوف سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’سب مارے گئے ہیں۔‘‘ … دوسرے نے کہا۔
’’وہ انسان نہیں ہیں۔‘‘ … ایک اور کراہتے ہوئے بولا۔’’ تم نہیں مانو گے …تم یقین نہیں کرو گے دوستو!‘‘
 ’’یہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘ … جاذویہ کے لشکر کے ایک کماندار نے کہا۔ … ’’یہ بھگوڑے ہیں اور سب کو ڈرا کر بے قصور بن رہے ہیں۔ انہیں سالار کے پاس لے چلو۔ ہم ان کے سر قلم کر دیں گے۔ یہ بزدل ہیں۔‘‘
انہیں سالار بہمن جاذویہ کے سامنے لے گئے۔
’’تم کون سی لڑائی لڑ کر آرہے ہو؟‘‘ … جاذویہ نے کہا۔ … ’’لڑائی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہے ۔میرا لشکر تو ابھی…‘‘
’’محترم سالار!‘‘ … ایک نے کہا۔ … ’’جس لڑائی میں آپ نے شامل ہونا تھا وہ ختم ہو چکی ہے۔ سالار اندرزغر لاپتا ہیں، ہمارے تیغ زن پہلوان ہزار مرد مسلمانوں کے سالارکے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ ہم جیت رہے تھے، مسلمانوں کے پاس گھوڑ سوار دستے تھے ہی نہیں تھے۔ ہمیں حکم ملا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کاٹ دو۔ ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی، ہم ان کے جسموں کی بوٹیاں بکھیرنے کیلئے نعرے لگاتے اور خوشی کی چیخیں بلند کرتے آگے بڑھے۔ جب ہم ان سے الجھ گئے تو ہمارے پیچھے سے نا جانے کتنے ہزار گھوڑ سوار ہم پر آ پڑے۔ پھر ہم میں سے کسی کو اپنا ہوش نہ رہا۔‘‘
’’سالاراعلی مقام!‘‘ … زخمی سپاہی نے ہانپتے ہوئے کہا۔ … ’’سب سے پہلے ہمارا جھنڈا گرا۔ کوئی حکم دینے والا نہ رہا۔ ہر طرف نفسا نفسی اور بھگدڑ تھی۔ مجھے اپنوں کی صرف لاشیں نظر آتی تھیں۔‘‘
’’میں کس طرح یقین کر لوں کہ اتنے بڑے لشکر کو اتنے چھوٹے لشکر نے شکست دی ہے؟‘‘ … جاذویہ نے کہا۔ اتنے میں اسے اطلاع دی گئی کہ چند اور سپاہی آ ئے ہیں۔ انہیں بھی اس کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ یہ تیرہ چودہ سپاہی تھے۔ ان کی حالت اتنی بری تھی کہ تین چار گر پڑنے کے انداز سے بیٹھ گئے۔
’’تم مجھے ان میں سب سے زیادہ پرانے سپاہی نظر آتے ہو۔‘‘ … جاذویہ نے ایک ادھیڑ عمر سپاہی سے جس کا جسم توانا تھا‘ کہا۔ … ’’کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں نے جو سنا ہے یہ کہاں تک سچ ہے؟ … تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ بزدلی کی، میدانِ جنگ سے بھاگ آنے کی اور جھوٹ بولنے کی سزا کیا ہے؟‘‘
’’اگر آپ نے یہ سنا ہے کہ سالار اندرزغر کی فوج مدینہ کی فوج کے ہاتھوں کٹ گئی ہے تو ایسا ہی سچ ہے جیسا آپ سالار ہیں اور میں سپاہی ہوں۔‘‘ … اس پرانے سپاہی نے کہا۔ … ’’اور یہ ایسے ہی سچ ہے جیسے وہ آسمان پر سورج ہے اور ہم سب زمین پر کھڑے ہیں۔ میں نے مسلمانوں کے خلاف یہ تیسری لڑائی لڑی ہے۔ ان کی نفری تینوں لڑائیوں میں کم تھی۔ بہت کم تھی۔ زرتشت کی قسم! میں جھوٹ بولوں تو یہ آگ مجھے جلا دے جس کی میں پوجا کرتا ہوں۔ ان کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے جو نظر نہیں آتی ‘ان کی یہ طاقت اس وقت ہم پر حملہ کرتی ہے جب انہیں شکست ہونے لگتی ہے۔‘‘
’’مجھے اس لڑائی کا بتاؤ۔‘‘ … سالار بہمن جاذویہ نے کہا۔ … ’’تمہارے لشکر کو شکست کس طرح ہوئی؟‘‘
اس سپاہی نے پوری تفصیل سے سنایا کہ کس طرح مسلمان اچانک سامنے آگئے اور انہوں نے حملہ کر دیا اور اس کے بعد یہ معرکہ کس طرح لڑا گیا۔
’’ان کی وہ جو طاقت ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔‘‘ … سپاہی نے کہا۔ … ’’ وہ گھوڑ سوار دستے کی صورت میں سامنے آئی۔ اس دستے میں ہزاروںگھوڑے تھے ان کے حملے سے پہلے یہ گھوڑے کہیں نظر نہیں آئے تھے۔ اتنے ہزار گھوڑوں کو کہیں چھپایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے پیچھے دریا تھا‘ گھوڑے دریا کی طرف سے آئے اور ہمیں اس وقت پتا چلا جب مسلمان سواروں نے ہمیں کاٹنا اور گھوڑوں تلے روندنا شروع کر دیا تھا۔ … عالی مقام! یہ ہے وہ طاقت جس کی میں بات کر رہا ہوں۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages