Featured Post

Khalid001

09 August 2019

Khalid072


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  72

’’شمیر بے نیام‘‘ جلد دوم کی پہلی قسط

ازادبہ پر مایوسی‘ غم اور رنج وملال کے ساتھ دہشت بھی طاری ہو گئی تھی جیسے آسمان پھٹ گیا ہو اور اُس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ وہ جھکا جھکا سا دیوار پر چل پڑا۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ اس کے دو محافظ اس کے ساتھ ہو گئے۔ اس نے یاس اور نومیدی کے عالم میں دائیں اور بائیں دیکھا اور رک گیا۔ دو محافظوں کو اپنے پہلوؤں میں دیکھ کر اس کا چہرہ خشمگیں ہو گیا۔
’’میں تمہارے سہارے کے بغیر چل سکتا ہوں۔‘‘ … اس نے محافظوں سے کہا۔ … ’’میرے برابر آنے کی جرأت نہ کرو۔‘‘
محافظ کئی قدم پیچھے ہٹ گئے۔ ازادبہ نے اپنے جھکے ہوئے سر کو اوپر اٹھایا اور سیدھا ہو کر چلنے لگا لیکن اس کے کندھے اپنے آپ ہی سکڑ گئے اور آگے کو جھک گئے جیسے اس پر ایسا بوجھ آپڑا ہو جو اس کی برداشت سے باہر ہو۔ بوجھ تو اس پر آہی پڑا تھا۔ یہ ذمہ داریوں کا بوجھ تھا۔ حیرہ اس کی ذمہ داری میں تھا جہاں اس کا بیٹا اس کا دست راست تھا۔ وہ بھی نہ رہا۔
وہ خود ارد شیر کا دست راست نہ ہوا تھا لیکن ارد شیر کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ارد شیر نے اسے بہت بڑی حیثیت دے رکھی تھی۔ وہ حیرہ جیسے شہر اور اس کے مضافاتی علاقے کا حاکم تھا اور بہت حد تک خود مختار حاکم تھا مگر وہ کسریٰ ارد شیر مرگیا تھا جس نے اسے اتنی زیادہ خودمختاری دے رکھے تھی۔ فارس کی شہنشاہی کے تخت پر بیٹھنے والے نئے شہنشاہ سے ازادبہ اتنی مروت اور رتبے کی توقع نہیں رکھ سکتا تھا۔ مدینہ کے مجاہدین نے صحیح معنوں میں اس کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی تھی۔
’’مگر کیوں؟‘‘ … اس کے ایک سالار نے اسے اس وقت کہا جب وہ اپنے شیش محل کے خاص کمرے میں پہنچ چکا تھا۔ سالار نے کہا … ’’معلوم ہوتا ہے آپ نے لڑنے سے پہلے ہی شکست قبول کر لی ہے۔‘‘
’’کیا آپ بیٹے کا خون مدینہ کے بدوؤں کو بخش دیں گے؟‘‘ … اس کے مرنے والے بیٹے کی ماں نے غضب ناک لہجے میں کہا۔
’’مجھے سوچنے دو‘‘ … ازادبہ گرجا۔ مگر اس کی آواز کانپ رہی تھ)ی۔ اس نے کہا … ’’کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے ہو کہ میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال رہا ہوں؟ کیا تم نے سنا نہیں؟‘‘ … اس کی آواز دب گئی۔ بوجھل آواز میں بولا … ’’شہنشاہ ارد شیر مر گیا ہے۔‘‘
کمرے میں سناٹا طاری ہو گیا۔
’’شہنشاہ مر گیا ہے؟‘‘ … ازادبہ کی بیوی نے یوں کہا جیسے وہ سسکیاں لے رہی ہو۔ … ’’ارد شیر مر گیا ہے … میرا بیٹا مر گیا ہے۔‘‘ … اس نے ازادبہ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے بولی … ’’زرتشت ہمیں اپنی توہین کی سزا دے رہا ہے۔ ہمیں اب اس آگ میں جلنا ہے جس کی ہم پوجا کرتے ہیں۔ آپ زرتشت کی قربان گاہ پر اپنے لہو کا‘ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر سکتے ہیں۔ کسی مسلمان کو یہاں سے زندہ نہ جانے دیں۔‘‘
ایک محافظ اندر آیا۔ ایک گھٹنہ فرش پر ٹیک کر اس نے ازادبہ کو سلام کیا اور بتایا کہ قاصد آیا ہے۔
’’بھیج دو‘‘ … ازادبہ کو خاموش دیکھ کر اس کی بیوی نے محافظ سے کہا۔
محافظ کے جاتے ہی ایک سپاہی اندر آیا اور اس نے بھی ایک گھٹنہ فرش پر ٹیک کر سلام کیا۔ ازادبہ نے اداس نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’مدینہ والوں کی کشتیاں بند سے بہت آگے نکل آئی ہیں۔‘‘ … قاصد نے کہا … ’’ان کی رفتار تیز ہے۔‘‘
’’لشکر کی تعداد کتنی ہو گی؟‘‘ … ازادبہ نے پوچھا۔
’’ہم سے آدھی بھی نہیں سالارِ عالی مقام!‘‘ … قاصد نے جواب دیا … ’’میرے انداز کے مطابق بیس ہزار پوری نہیں۔‘‘
’’ہم انہیں اپنے گھوڑوں کے سموں تلے کچل ڈالیں گے۔‘‘ … سالار نے کہا … ’’سالارِ اعلیٰ! حکم دیں۔ ہم فرات میں ان پر تیروں کا مینہ برسا دیں گے۔ ان کی کشتیاں ان کی لاشوں کو واپس لے جائیں گی۔‘‘
’’تیروں کا مینہ برسانے سے پہلے دریا کے کنارے تک پہنچنے کے لیے ایک لڑائی لڑنی پڑے گی۔‘‘ … قاصد نے کہا … ’’ان کے بہت سے سوار دریا کے دونوں کناروں پر کشتیوں کے ساتھ ساتھ آ رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی معلوم کر لیا ہے کہ ان سواروں کا کماندار مثنیٰ بن حارثہ ہے اور زیادہ تر سوار فارس کی شہنشاہی کے مسلمان باشندے ہیں اور جن کشتیوں میں وہ آ رہے ہیں وہ ہماری فوج کی کشتیاں ہیں۔‘‘
’’یہ ان بزدلوں کی کشتیاں ہیں جو مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگے تھے۔‘‘ … ازادبہ نے کہا … ’’انہوں نے ایسے دشمن کے لیے راستہ صاف کر دیا جو بہت کمزور تھا۔ مدینہ کے ان عربوں کو ہم نے کبھی پلے نہیں باندھا تھا۔‘‘
’’ہم آج بھی انہیں کمزور سمجھتے ہیں۔‘‘ …  سالار نے کہا …  ’’سالارِ اعلیٰ! میں حکم کا منتظر ہوں۔ مجھے بتائیں مسلمانوں کو کہاں روکنا ہے‘ یا آپ قلعے میں بند ہو کر لڑنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’اگر میں کہوں کہ میں لڑنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘ …  ازادبہ نے کہا …  ’’تو تم لوگ … ‘‘
’’ہم لوگ تسلیم ہی نہیں کریں گے کہ آپ نے ایسی بات کہی ہے۔‘‘ …  سالار نے کہا …  اس وقت آپ شہنشاہ ارد شیر اور اپنے بیٹے کی موت پر اتنے زیادہ مغموم ہیں کہ آپ اچھی طرح سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘
’’اس غم کے باوجود ہمیں سوچنا پڑے گا۔‘‘ …  ازادبہ کی بیوی نے کہا …  ’’اور بڑی تیزی سے سوچنا پڑے گا۔ ہمارے پاس فوج کی کمی نہیں۔ کسی چیز کی کمی نہیں۔ عیسائی عرب ہمارے ساتھ ہیں۔ ہم نے خود انہیں یہاں اکٹھا کیا ہے کہ مسلمانوں کو حیرہ سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے اور انہیں یہی ختم کر دیا جائے۔‘‘
’’ہاں‘ ہمارے پاس فوج کی کمی نہیں۔‘‘ …  ازادبہ نے کہا …  ’’لیکن کوئی کمی ضرور ہے جس سے ہم ہر میدان میں شکست کھا رہے ہیں۔ میں اپنے پیچھے اپنے نام کے ساتھ شکست کی تہمت چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ میں فتح حاصل کرنے کا کوئی اور طریقہ سوچوں گا۔ میں مدائن جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ وہاں کے حالات کیا ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ شہنشاہ ارد شیر کے مرنے کے بعد ہمیں کوئی مدد دینے والا بھی ہے یا نہیں۔‘‘
’’نہیں سالارِ اعلیٰ!‘‘ …  اس کے سالار نے کہا …  ’’ابھی مدائن نہ جائیں۔ دشمن سر پر آگیا ہے۔‘‘
’’کیا تم مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہو؟‘‘ …  ازادبہ نے غصیلی آواز میں کہا … ’’کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں بھاگ رہا ہوں؟ جو میں سوچ رہا ہوں وہ تم نہیں سوچ سکتے۔ مجھے یہ دیکھنا ہے کہ ہماری فوج میں وہ کون سی کمزوری ہے جو ہر میدان میں ہماری شکست کا باعث بنتی ہے۔ کیا تم اس پر غور نہیں کر رہے کہ ہرمز جیسا جنگجو مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ …  انوشجان اور قباذ معمولی قسم کے سالار نہ تھے۔ اندرزغر کو کیا ہو گیا تھا؟ جابان کدھر گیا؟ …  مجھ سے فیصلہ کن جنگ اور فتح کی کیوں توقع رکھی جا رہی ہے؟ … میں لڑوں گا لیکن سوچ سمجھ کر …  تمام سالاروں اور نائب سالاروں کو بلاؤ۔‘‘
…………bnb…………

خالد کا لشکر دریائے فرات کے سینے پر سوار آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ گھوڑ سوار دریا کے دونوں جانب پھیلے ہوئے ساتھ ساتھ جا رہے تھے۔ ہر لمحہ توقع تھی کہ حیرہ کی فوج کسی مقام پر حملہ کرے گی‘ لیکن اس فوج کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا تھا۔ مثنیٰ بن حارثہ کے گھوڑ سوار کناروں سے ہٹ کر دور تک چلے جاتے اور دشمن کا کھرا کھوج ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تھے۔
خالد کو معلوم تھا کہ حیرہ کی جنگ بڑی خونریز ہو گی۔ مثنیٰ بن حارثہ نے معلوم کر لیا تھا کہ ازادبہ نے حیرہ میں بہت بڑا لشکر جمع کر رکھا ہے۔ خالد کا جذبہ اور عزم تھا کہ وہ دشمن کے ایک بڑے ہی مضبوط فوجی اڈے کی طرف بڑھے جا رہے تھے‘ ورنہ مسلمانوں اور آتش پرستوں کی جنگی طاقت کا تناسب ایسا تھا کہ خالد کو ایک قدم اور آگے بڑھانے کی بجائے واپس آجانا چاہیے تھا مگر خالد ملک گیری کی ہوس سے یہ خطرے مول نہیں لے رہے تھے بلکہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل کر رہے تھے۔ اسلام کے پڑوس میں اتنے بڑے اور بہت ہی طاقتور باطل کی موجودگی اسلام کے لیے ایسا خطرہ تھی کہ اسلام آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہٹتا جاتا پھر غائب ہو جاتا۔
’’ابن ولید!‘‘ …  خالد کو دریا کے کنارے سے مثنیٰ بن حارثہ کی پکار سنائی دی …  ’’منزل قریب آگئی ہے۔‘‘
خالد نے اپنی کشتی رانوں سے کہا کہ کشتی کنارے کے ساتھ لے جائیں اور انہیں اتار کر کشتی آگے لے جائیں۔ مثنیٰ اس علاقے سے واقف تھا پھر بھی اس نے اس علاقے کے دو آدمیوں کو پکڑ کر کچھ انعام دیا اور رہنمائی کے لیے انہیں اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔
خالد جب کنارے پر اترے تو مثنیٰ نے اپنے ایک سوار سے کہا کہ وہ گھوڑا خالد کو دے دے۔ خالد اس گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ مثنیٰ اور خالد کے گھوڑے پہلو بہ پہلو جا رہے تھے اور مثنیٰ کی نظریں خالد کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کی نظریں جب مثنیٰ بن حارثہ پر آئیں تو بھی مثنیٰ کی نظریں ان کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔
’’کیوں ابن حارثہ!‘‘ …  خالد نے مسکراتے ہوئے پوچھا … ’’کیا تو مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے؟‘‘ 
’’ہاں‘ ولید کے بیٹے!‘‘ … مثنیٰ نے سنجیدہ اور ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں کہا … ’’میں تجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تو مجھے انسان نہیں لگتا۔ تیرے چہرے پر گھبراہٹ اور کچھ پریشانی ہونی چاہیے تھے۔‘‘
’’میں اندر ہی اندر پریشان ہوں۔‘‘ … خالد نے کہا … ’’اور میرے دل پر گھبراہٹ بھی ہے۔ یہ اس لیے کہ میں انسان ہوںھ لیکن میں پریشانی اور گھبراہٹ کو چہرے پر نہیں آنے دوں گا۔‘‘
’’یہ چہرہ ایک لشکر کا چہرہ ہے۔‘‘ … مثنیٰ نے کہا … ’’یہ اسلام کا چہرہ ہے … میں سمجھتا ہوں ابن ولید! سالارِ اعلیٰ کا چہرہ بگڑ جائے تو پورے لشکر کا اور ساری قوم کا چہرہ بگڑ جاتا ہے۔‘‘
’’مجھے یہ بتا ابن حارثہ!‘‘ … خالد نے پوچھا … ’’تو نے یہ باتیں کیوں کی ہیں؟ کیا تو مجھے پریشانی اور گھبراہٹ میں دیکھنا چاہتا ہے؟‘‘
’’ہاں ابن ولید!‘‘ … مثنیٰ نے کہا … ’’تجھے شاید احساس نہیں کہ تو کتنے بڑے اور کتنے طاقتور دشمن کے سامنے جا رہا ہے۔‘‘
’’میں اپںے لیے جا رہا ہوتا تو مجھے اپنا غم ہوتا کہ بادشاہ بننے سے پہلے ہی نہ مارا جاؤں۔‘‘ … خالد نے کہا … ’’میں اللہ کے حکم پر جا رہا ہوں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ مجھے اور تجھے گھبرانے کی اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں … مجھے یہ بتاؤ کہ آگے کیا ہے۔‘‘
مثنیٰ نے ان دو آدمیوں کو بلایا جو اس ع لاقے کے رہنے والے تھے اور انہیں کہا کہ وہ بتائیں کہ آگے کیا ہے؟ ان دونوں نے بتایا کہ آگے حیرہ ہے اور وہاں تک زمین کیسی ہے۔ خالد نے ان آدمیوں کو وہاں سے ہٹا دیا اور مثنیٰ کے ساتھ حیرہ پر حملے کی سکیم بنانے لگے۔
…………bnb…………

حیرہ فرات کے نارے پر واقع تھا۔ خالد نے اپنے سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کو کشتیوں سے کنارے پر بلایا۔
’’میں مان نہیں سکتا کہ آتش پرست ہمیں حیرہ کے راستے میں نہیں روکیں گے۔‘‘ … خالد نے کہا … ’’ان کے پاس اتنی فوج ہے جسے وہ اس سارے علاقے میں پھیلا سکتے ہیں۔ تمام عیسائی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اگر ہم حیرہ کے سامنے جا کر کشتیوں سے اتثرے تو دشمن وہیں ہم پر حملہ کر دے گا۔ ہم حیرہ سے دور کشتیاں چھوڑ دیں گے۔‘‘
خالد بیٹھ گئے اور اپنی تلوار نکال کر اس کی نوک سے حیرہ کا محل وقوع اور اپنی پیش قدمی کا نقشہ بنانے لگے۔ انہوں نے اس مقام سے جہاں وہ کھڑے تھے‘ حیرہ تک پہنچنے کے راستے کی لکیر بنائی جو سیدھی نہیں تھی۔ بلکہ یہ نیم دائرہ تھا۔ انہوں نے یہ لکیر ایک مقام پر ختم کی جو ایک قصبہ تھا۔ یہ حیرہ سے تقریبا تین میل دور تھا۔
’’اس قصبے کا نام خورنق ہے۔‘‘ … خالد نے کہا … ’’ہم اس کے قریب سے گزریں گے اور حیرہ کی طرف تیزی سے بڑھیں گے۔ توقع یہی ہے کہ آتش پرست شہر سے کچھ دور ہی ہمارے راستے میں آجائیں گآ۔ میرے بھائیو! یہ لڑائی خوفناک ہو گی۔ زرتشت کے پجاری اب شکست کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ آگے مدائن ہے۔ میں تمہیں بڑے ہی سخت امتحان میں ڈال رہا ہوں لیکن اس امتحان میں پورا اترنا ہے۔ دشمن کی تعداد ہم سے کئی گنا زیادہ ہے … اگر ہمیں حیرہ کو محاصرے میں لینے کا موقع مل گیا تو محاصرہ بہت لمبا ہو گا۔ ہم اتنا انتظار نہیں کر سکتے۔ اپنے دلوں میں اللہ سے عہد کرو کہ حیرہ کو فتح کرنا ہے۔ … اب کشتیاں چھوڑ دو اور تمام لشکر کو کنارے پر لے آؤ۔‘‘
مسلمانوں کی تعداد اٹھارہ ہزار تھی۔ یہ لشکر کشتیوں سے اتر کر کنارے پر آگیا بڑی تیزی سے پیش قدمی کے لیے منظم ہو گیا۔ خالد نے سالار عاصم بن عمرو کو آگے اور عدی بن حاتم کو پیچھے رکھا اور خود درمیان میں رہے۔ مثنیٰ بن حارثہ کا سوار دستہ ہراول کے طور پر لشکر سے کم وبیش ایک میل آکے نکل گیا تھا۔
خالد کے حکم سے مجاہدین کا لشکر خاموشی سے جا رہا تھا۔ نعروں اور جنگی ترانوں کی ممانعت کر دی گئی تھی تا کہ پتہ نہ چلے کہ کوئی لشکر آ رہا ہے۔ خالد نے راستہ ایسا اختیار کیا تھا جو جنگل اور ویران علاقے سے گزرتا تھا اور ادھر مسافروں کی گزرگاہ نہیں تھی۔
مثنیٰ بن حارثہ کے سوار پھیل کر جا رہے تھے تا کہ گھات کا کہیں بھی شک ہو تو لشکر کو پیغام بھیج کر پیچھے ہی روک لیا جائے۔
…………bnb…………

خالد کا لشکر خورنق تک پہنچ گیا۔ دشمن کی فوج کا کہیں بھی نام ونشان تک نہ ملا۔ خالد نے لشکر کو روک لیا اور اپنے ایک جاسوس سے کہا کہ ’’وہ قصبے کے اندر جائے اور دیکھے کہ دشمن کی فوج وہاں تو نہیں!‘‘
خالد کا جاسوسی کا نظام ذہین اور جرأت مند آدمیوں پر مشتمل تھا۔ اس میں ان مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی جو فارس والوں کے غلام تھے۔ وہ دجلہ اور فرات کے سنگھم کے ع لاقے میں رہتے تھے۔ ان میں سے ایک آدمی بھیس بدل کر خورنق چلا گیا اور خبر لایا کہ اس قصبے میں کوئی فوج نہیں اور قصبے میں امن وامان ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قصبے میں متموّل لوگ رہتے تھے۔ آج وہاں خورنق کا نشان بھی نہیں ملتا۔
انسان مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتے ہیں‘ مقام مٹ جاتے ہیں‘ بلند وبالا مکان اور عالیشان محل مٹ جاتے ہیں۔ زندہ صرف تاریخ رہتی ہے … اچھی یا بری … انسانوں کے نام زندہ رہتے ہیں۔ ان کی قائم کی ہوئی روایات زندہ رہتی ہیں۔ آج وہ قصبہ موجود نہیں جہاں تاجر اور دیگر دولت مند لوگ رہتے تھے۔ خالد نے آتش نمرود میں کودنے سے پہلے اس قصبے کے قریب قیام یا تھا۔ قصبہ نہیں رہا۔ خالد زندہ ہے۔ ان کی روایات زندہ ہیں۔ مثنیٰ بن حارثہ کو‘ عاصم اور عدی کو اور ان اٹھارہ ہزار مجاہدین کو تاریخ نے زندہ رکھا ہے۔ ان کے گھوروں کے سموں کی گرد کو سورج کی کرنوں نے چوما ہے۔
کیا مقصد تھا ان اولین مجاہدین کا جو اس دشمن سے ٹکر لینے جا رہے تھے جو اٹھارہ ہزار نفوس کو نگل لینے کی طاقت رکھتا تھا؟ خالد اور ان کے سالاروں کے دلوں میں تخت وتاج کی ہوس نہیں تھی۔ زر وجواہرات کا لالچ نہیں تھا۔ ایک عزم تھا جو ان کے لیے جنون بن گیا تھا۔ وہ اس کفر کو اپنے پڑوس میں زندہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے جو اسلام کی بقاء اور فروغ کے لیے خطرہ تھا۔ ان کے ذہنوں میں کوئی شک نہ تھا‘ کوئی وہم اور کوئی وسوسہ نہ تہا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والی روایت اپنے خون سے لکھنے جا رہے تھے۔
مؤرخ نے اس وقت کے وقائع نگاروں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ خالد پر خاموشی طاری تھی۔ کوئی سپاہی ان کی طرف دیکھتا تھا تو وہ مسکراتے تھے۔ خالد جب خورنق سے آگے نکلے تو ان کے منہ سے کوئی حکم نکلتا تھا یا کوئی ہدایت۔ اس کے سوا وہ کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ مثنیٰ بن حارثہ شب خون اور دن کی چھاپہ مار جنگ کا اور بھاگ دوڑ کر لڑنے والی لڑائی کا ماہر تھا۔ وہ جب خالد کو بتاتا تھا کہ وہ یوں کرے گا اور یوں کرے گا تو خالد کے منہ سے ہر بار یہی الفاظ نکلتے تھے … ’’اللہ تجھے اجر دے گا ابن حارثہ!‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages