شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 73
خالد اپنے لشکر کو خورنق سے پرے پرے آگے لے گئے۔ انہیں ایسی
توقع نہیں تھی کہ وہ دشمن کو بے خبری میں جا لیں گے۔ انہیں معلوم تھا کہ دشمن ضرورت
سے زیادہ بیدار ہو گا۔ خالد نے حکم دیا کہ اس قصبے پر نظر رکھنے کے لیے چند ایک مجاہدین
کو پیچھے رہنے دیا جائے تا کہ اس میں سے نکل کر کوئی آدمی ح یرہ یہ اطلاع نہ دینے
چلا جائے کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے۔
یہ پھندہ تھا جس میں مدینہ کا لشکر جا رہا تھا۔ وہ علاقہ گھات
کے لیے موزوں تھا لیکن گھات کے بھی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ یہی ہو سکتا تھا کہ دشمن
کا لشکر اچانک ہر طرف سے آئے گا اور اٹھارہ ہزار کے اس لشکر کو گھیرے میں لے کر سالاروں
سے سپاہیوں تک کاٹ دے گا۔
کچھ اور آگے گئے تو ایک ٹیکری آگئی۔ خالد نے گھوڑے کو ایڑ
لگائی اور ٹیکری پر چڑھ گئے۔ ان کے ۔حکم سے لشکر رک گیا۔
’’اللہ کے سپاہیو!‘‘ … خالد نے بلند آواز سے کہا … ’’تم پر اللہ کی
رحمت ہو۔ آج خدائے واحد نے تمہیں بڑے سخت امحان میں ڈال دیا ہے۔ آج اللہ کے رسول
کی روح مقدس تمہیں دیکھ رہی ہے۔ آج تم ایک پہاڑ سے ٹکرانے اور اسے ریزہ
ریزہ کرنے جا رہے ہو۔ اب جس لشکر کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو گا وہ پہاڑ سے کم نہیں۔
مجاہدین اسلام! اگر آج تم نے پیٹھ دکھائی تو تمہیں نہ خدا بخشے گا نہ دشمن۔ آج اس
عہد سے آگے بڑھو‘ فتح یا موت۔ ہماری جانیں اللہ کی امانت ہیں۔ یہ امانت اللہ
کو لوٹانی ہے لیکن باوقار طریقے سے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ تعداد اور ہتھیاروں کی کمی
اور افراط کی شکست اور فتح کا باعث نہیں بن سکتی۔ فتح جذبے اور عزم سے حاصل ہوتی
ہے۔ اس یقین کے ساتھ آگے بڑھو کہ رسول اللہ کی روح مقدس تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
خالد نے اپنے لشکر کے جذبے کو اور زیادہ گرما دیا اور لشکر کو
آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
…………bnb…………
وہ حیرہ کے عقب کو جا رہے تھے۔ اس طرح انہیں خاصا بڑا چکر کاٹنا
پڑا۔ جب شہر کے قریب گئے تو بھی دشمن کا کوئی سپاہی نظر نہ آیا۔ دیوار کے اوپر اوبرجوں
میں بھی کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ امنیشیا میں بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ اور خالد نے اسے
دھوکہ سمجھا تھا لیکن یہ دھوکہ نہیں تھا۔ دشمن شہر خالی کر کے چلا گیا تھا۔ حیرہ میں
بھی آتش پرستوں کی فوج کہیں ظر نہیں آتی تھی۔ شہر پناہ کے دروازے کھلے تھے۔
مثنیٰ بن حارثہ اپنے چند ایک سواروں کے ساتھ شہر کے ارد گرد
چکر لگا آیا۔
’’ابن ولید!‘‘ … مثنیٰ نے خالد سے کہا … ’’سامنے والا دروازہ بھی
کھلا ہے اور لوگ گھومتے پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘
’’ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ … خالد نے کہا … ’’امنیشیا خالی تھا۔ تو کہتا
ہے شہر میں لوگ موجود ہیں۔ یہ پھندہ ہے ابن حارثہ! یہ جال ہے … عاصم اور عدی کو بلاؤ۔‘‘
دونوں سالار آئے تو خالد نے انہیں بتایا کہ شہر کی کیفیت کیا
ہے۔ کچھ دیر تبالۂ خیالات اور بحث مباحثہ ہوا اور طے پایا کہ تمام دروازوں سے
لشکر کے دستے طوفان کی طرح اندر جائیں اور شہر میں پھیل جائیں۔
اگر خطرہ تھا تو یہ کوئی معمولی خطرہ نہیں تھا۔ خالد نے اپنے
لشکر کو جس طرح شہر میں داخل ہونے کو کہا تھا اس طرح اکیلے اکیلے مجاہد کے کٹ جانے
یا مکانوں میں چھپے ہوئے تیر اندازوں کے تیروں کا نشانہ بننے کا خطرہ تھا لیکن خالد
نے یہ خطرہ مول لے لیا اور لشکر کو شہر میں داخل کر دیا۔ مجاہدین دوڑتے ہوئے اور گھوڑے
دوڑاتے ہوئے اندر گئے۔
شہر کے لوگ چھپنے یا بھاگنے کی بجائے باہر آگئے۔ عورتیں چھتوں
پر چڑھ گئیں۔ بعض لوگ گھروں میں چھپ گئے تھے اور انہوں نے دروازے بند کر لیے تھے لیکن
قتل وغارت اور لوٹ مار نہ ہوئی تو چھپے ہوئے لوگ بھی باہر آگئے۔
خالد نے سارے شہر میں اعلان کر ایا کہ جس گھر میں آتش پرستوں
کے لشکر کا کوئی آدمی ہو‘ اسے گھر سے نکال دو‘ کسی مکان سے ایک بھی تیر آیا اس مکان
کو آگ لگا دی جائے گی۔
شہر کے معززین اور سرکردہ افراد کا ایک وفد خالد کے پاس آیا
اور بتایا کہ شہر کے کسی بھی گھر میں فوج کا کوئی آدمی نہیں۔
’’فوج کہاگ گئی؟‘‘ … خالد نے پوچھا۔
’’مدائن چلی گئی ہے۔‘‘ … وفد کے سردار نے کہا۔
’’حاکم ازادبہ کہا ہے؟‘‘
’’وہ بھی چلا گیا ہے۔‘‘ … خالد کو جواب ملا۔
’’مجھے کون یقین دلا سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں ہو گا؟‘‘ … خالد
نے پوچھا … ’’کون مان سکتا ہے کہ حاکم بھی چلا جائے‘ فوج بھی چلی جائے اور رعایا اپنے
دشمن کی فوج کو اپنے شہر میں دیکھ کر بھی امن وامان سے رہے اور اسے اپنے دشمن
کا کوئی خوف نہ ہو۔‘‘
’’ہم سالارِ مدینہ کو یہی یقین دلانے آئے ہیں کہ حیرہ کی رعایا امن
وامان سے رہے گی اور امن وامان کی درخواست کرتی ہے۔‘‘ … وفد کے سردار نے ہا …
’’دھوکہ آپ کے ساتھ نہیں ہو گا‘ دھوکہ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ جس رعایا کو اس کا حاکم
اور فوج دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑ جائے وہ رعایا دشمن کو دوست بنانے کی کوشش کرے گی‘
دشمن کو دھوکہ دینے کا خطرہ مول نہیں لے گی۔ ہم اس فوج کا ساتھ نہیں دے سکتے جس نے
کاظمہ میں شکست کھائی‘ الیس سے بھاگی‘ امنیشیا جیسا شہر خالی کر کے بھاگ آئی اور یہ
اتنا بڑا شہر اور اپنی رعایا کو چہوڑ کر بھاگ گئی ہے۔‘‘
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ … خالد نے پوچھا۔
’’امن!‘‘ … وفد کے سردار نے جواب دیا … ’’شہر کے باشندے امن کی اور
اپںے جان ومال اور عزت کے تحفظ کی قیمت دیں گے۔‘‘
’’ہم قیمت نہیں لیا کرتے۔‘‘ … خالد نے کہا … ’’خدا کی قسم! امن کے جواب
میں امن دیں گے … کیا میرے لشکر کے کسی ایک بھی آدمی نے کسی کے گھر سے کوئی چیز اٹھائی
ہے؟ کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘ … وفد کے سردار نے کہا۔
’’ہم صرف اس شہر کے اموال کو مال غنیمت سمجھتے ہیں جس کے باشندے بھاگ
گئے ہوں۔‘‘ … خالد نے کہا … ’’تم اپنے گھروں میں موجود تھے اور تم ہمارے مقابلے
میں بھی نہیں آئے اس لیے یہ میرا فرض ہے کہ میں اس شہر کے باشندوں کو اپنی پناہ میں
لے لوں … اور میں اس کی کوئی قیمت نہیں لوں گا … جاؤ‘ امن سے آئے ہو تو امن سے جاؤ۔‘‘
’’بے شک یہ ہے وہ طاقت جو آپ کو ہر میدان میں فتح دیتی ہے۔‘‘ …
وفد کے سردار نے کہا۔
…………bnb…………
تاریخ میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ خالد نے حیرہ کے باشندوں
کو قبول اسلام کی دعوت دی تھی یا نہیں‘ البتہ یہ شہادت بڑی صاف ملتی ہے کہ حیرہ کے
باشندوں کو یہ توقع تھی کہ مسلمانوں کی فوج ان کے گھر لوٹ لے گی اور ان کی خوبصورت
عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لے گی‘ لیکن مسلمان ان کے گھروں میں گئے بھی تو صرف یہ
دیکھنے کے وہاں فارس کے سپاہی نہ چھپے ہوئے ہوں۔ حیرہ والوں نے جب مسلمانوں کا یہ کردار
دیکھا اور خالد نے انہیں یقین دلا دیا کہ اس شہر کے باشندے مسلمانوں کی پناہ
میں ہیں تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ بعض نے اسلام قبول کر لیا۔
خالد کو حیرہ کے لوگوں سے ایک فائدہ یہ بھی ملا کہ نو مسلموں
نے اور ایک دو سرکردہ افراد نے بھی خالد کو بڑی قیمتی معلومات دیں۔
’’حیرہ آپ کا ہے۔‘‘ … حیرہ کے ایک سردار نے خالد سے کہا … ’’لیکن آپ
اس شہر پر قبضہ کر کے امن سے نہیں رہ سکیں گے۔ آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ حیرہ
کے ارد گرد چار قلعے ہیں جن کے قلعہ دار مختلف قبیلوں کے سردار ہیں اور ہر ایک قلعے
میں عیسائی عربوں کی فوج موجود ہے۔‘‘
’’اگر ہم نے فارس کے نامور سالاروں کو شکست دی ہے تو ان قلعہ داروں
کو شکست دینا مشکل نہیں ہو گا۔‘‘ … خالد نے کہا اور پوچھا … ’’قلعوں کی فوجیں لڑنے
میں کیسی ہیں؟‘‘
’’ہر ایک سپاہی جان لڑا دے گا۔‘‘ … مجوسی سردار نے کہا … ’’ہم ان فوجوں
کو فارس کی فوجوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور جری سمجھتے ہیں۔‘‘
خالد کو ان چار قلعوں کی جو تفصیلات بتائی گئیں وہ یوں تھیں:
ہر قلعے کا اپنا ایک نام تھا۔ ایک قلعے کا نام قصر ابیض تھا۔
اس کا قلعہ دار ایاس بن قبصیہ تھا۔ دوسرے کا نام قصر العدسین تھا۔ عدی بن عدی اس کا
قلعہ دار تھا۔ یسرے قلعے کا نام قصر بنو مازن اور قلعہ دار کا نام ابن اکال تھا۔ چوتھے
قلعے کا نام قلعہ دار کے نام پر تھا۔ قلعے کا نام قصر ابن بقیلہ تھا جب کہ اس کا قلعہ
دار عبدالمسیح بن عمرو بن بقیلہ تھا۔
خالد نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ ان قلعوں
کو فتح کرنا لازمی ہے ورنہ حیرہ پر ہمارا قبضہ نہیں رہ سکے گا۔ اسلام کی عسکری روح
یہی ہے کہ جہاں سے خطرے کی بو آئے وہاں حملہ کر دو۔ دشمن کے چیلنج کو قبول کرنا اور
تیاری کی حالت میں اس پر جا پڑنا اسلامی فن حرب وضرب کی بنیاد ہے۔ اسی اصول کے تحت
خالد نے اپنے سالاروں کو بتایا کہ کون کس قلعے پر حملہ کرے گا۔
قصر ابیض پر حملہ کرنے کے لیے ضرار بن الازور کو حکم دیا گیا۔
ان کے ہم نام ضرار بن خطاب کو قصر العدسین پر حملہ کرنے کا حکم ملا۔ قصر ابن بقیلہ
مثنیٰ کے حصے میں آیا۔ خالد نے حکم دیا کہ ان قلعوں کو فورا محاصرے میں لے لیا جائے۔
خالد نے سب سے پہلے چاروں قلعہ داروں کو پیغام بھیجے کہ وہ اسلام قبول کریں یا جزیہ
دیں۔ اگر دونوں صورتیں انہیں منظور نہیں تو مسلمانوں کی تلواروں سے کٹنے کے لیے
تیار ہو جائیں۔
چاروں قلعوں سے کورا جواب آیا۔ تمام قلعہ داروں نے بڑی دلیری
سے جواب دیا کہ وہ نہ اپنے قلعوں سے دستبردار ہوں گے نہ اپنے مذہب سے۔
چاروں قلعوں پر مسلمانوں نے بیک وقت حملہ کیا اور قلعوں کو محاصرے
میں لے لیا۔ فورا ہی مجاہدین نے قلعوں میں داخل ہونے کی بڑی ہی دلیرانہ کوششیں
شروع کر دیں‘ لیکن ہر قلعے کی فوج مجاہدین کی ہر کوشش کو ناکام کر رہی تھی۔ قصر
ابیض کے دفاع نے سالار ضرار کو بہت پریشان کیا۔ قلعے کی د یواروں سے عیسائیوں نے تیروں
کا مینہ برسا دیا۔ مسلمان دیوار کے قریب جانے سے بے بس ہو گئے۔ قلعے کی دیوار پر ایک
منجنیق تھی جس سے مٹی کے بڑے بڑے گولے مسلمانوں پر پھینکے جا رہے تھے۔
سالار ضرار نے قلعے کے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کر دیکھا۔ کسی بھی
طرف سے قلعے کو سر کرنے کا امکان نظر نہیں آتا تھا۔ منجنیق مٹی کے خشک گولے بڑی تیزی
سے پھینک رہی تھی۔ سالار ضرار نے ایسے تیر اندازوں کو الگ کیا جو جسمانی لحاظ
سے توانا تھا۔ ان سب کو ضرار نے حکم دیا کہ منجنیق کے جس قدر قریب جا سکتے ہیں چلے
جائیں اور بیک وقت منجنیق چلانے والوں پر تیروں کی باڑیں ماریں۔
تیر انداز جوش وخروش سے آگے بڑھے۔ اوپر سے ان پر تیروں کی بوچھاڑیں
آئیں اور اس کے ساتھ ہی منجنیق کے پھینکے ہوئے مٹی کے گولے بھی آنے لگے۔ کئی مجاہدین
تیروں سے شدید زخمی ہو گئے لیکن اتنے زیادہ تیر بھی ان کا حوصلہ نہ توڑ سکے۔ ضرار کے
بعض تیر انداز اس حالت میں آگئے بڑھتے گئے کہ ان کے جسموں میں دو دو تین تین تیر اترے
ہوئے تھے۔ ان سب نے منجنیق چلانے والوں پر تیر چلائے۔ منجنیق بالکل سامنے تھی۔ اس سے
مٹی کے گولے پھینکنے والے تقریبا تمام کے تمام تیر کھا کر گرے اور منجنیق کے گولے بند
ہو گئے۔
مسلمان تیر اندازوں نے اس حکم کی تعمیل کر دی تھی جو انہیں ملا
تھا۔ انہوں نے منجنیق کو بیکار کر دیا تھا‘ پھر بھی وہ واپس نہ آئے۔ انہوں نے قلعے
کے تیر اندازوں پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔ فضا میں اڑتے تیروں کے سوا کچھ اور نظر
نہ آتا تھا۔ ان مجاہدین کی سرفروشی کو دیکھتے ہوئے کئی اور تیر انداز آگے چلے گئے۔
یہ تیروں کی جنگ تھی جس میں دونوں طرف کے آدمی تیروں کا شکار ہو رہے تھے۔
سالار ضرار نے جب اپنے ان تیر اندازوں کی بے خوفی دیکھی تو وہ
قلعے کے ارد گرد گھوم گیا اور اس نے تیر اندازوں سے کہا کہ وہ اور قریب سے تیر چلائیں۔
باقی تین قلعوں کی کیفیت بالکل اسی جیسی تھی‘ عیسائی بے جگری
سے مقابلہ کر رہے تھے۔ مسلمان گھوڑ سوار گھوڑے دوڑاتے ہوئے دیوار کے قریب جاتے اور
دوڑتے گھوڑوں سے تیر چلا کر آگے نکل جاتے۔ اس طرح مسلمان سواروں کو یہ فائدہ حاصل
تھا کہ وہ تیروں کا نشانہ بننے سے بچ جاتے تھے۔ اس کے باوجود سوار تیروں سے زخمی ہوئے۔
بعض مجاہدین نے یہاں تک بے جگری کا مظاہرہ کیا کہ دروازوں تک چلے گئے اور انہوں نے
دروازے توڑنے کی کوشش کی لیکن قلعوں کے دفاع میں لڑنے والوں نے اس سے زیادہ بے جگری
کے مظاہرے کیے۔ دیواروں سے تیر برسانے والے جتنے تیر انداز مسلمانوں کے تیروں سے گرتے
تھے‘ اتنے ہی تازہ دم تیر انداز ان کی جگہ لے لیتے تھے۔
…………bnb…………
خالد ہر قلعے کے ارد گرد گھوڑا دوڑاتے‘ صورت حال کا جائزہ لیتے
اور مجاہدین کو یہی ایک بات کہتے کہ چاروں قلعے شام سے پہلے پہلے سر کرنے ہیں‘ ہم انتظار
نہیں کر سکتے۔ خالد نے پیچھے رہ کر حکم نہیں دیئے بلکہ آگے دیواروں کے قریب وہاں
تک جاتے رہے جہاں اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آ رہی تھیں۔ وہ دو قلعوں کے دروازوں
تک بھی پہنچے اور تیر ان کے ارد گرد اڑتے رہے۔
خالد اس لیے انتظار نہیں کر سکتے تھے کہ انہیں خطرہ نظر
آ رہا تھا کہ ازادبہ اچانک کسی طرف سے فوج کے ساتھ نمودار ہو گا اور عقب سے حملہ
کر دے گا۔ وہ ملک آتش پرستوں کا تھا‘ زمین ان کی‘ فوج ان کی اور وہاں کے باشندے ان
کے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور وہاں ان کے لیے کوئی پناہ نہیں تھی۔ یہ خالد
کی غیر معمولی جنگی فہم وفراست اور ان کی اور ان کے سالاروں کی بے مثال جرأت تھی کہ
وہ خطروں میں گرتے چلے جا رہے تھے اور پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ فارس
کی فوج کے لیے وہ دہشت بن گئے تھے۔
خالد اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے والے سالار نہیں تھے کہ
دشمن جو شکست کھاتا اور پسپا ہوتا چلا جا رہا ہے وہ جوابی وار نہیں کرے گا۔ وہ ان چار
قلعوں کو ہی پھندہ یا جال میں دانہ سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے دیکھ بھال کے لیے دور دور
آدمی بھیج رکھے تھے جو بلند جگہوں یا درختوں پر چڑھ کر ہر طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے
لیے حکم تھا کہ دور سے انہیں فوج آتی نظر آئے تو خالد کو فوراً اطلاع دیں۔
’’وہ آئیں گے … وہ ضرور آئیں گے۔‘‘ … خالد کا یہ پیغام ہر ایک سالار
اور ہر ایک سپاہی تک پہنچ گیا تھا‘ اور یہ بھی … ’’اللہ کے شیرو! ہمت کرو۔ قلعے
لے لو۔ دشمن آئے تو اس پر تمہارے تیر قلعوں کی دیواروں سے برسیں۔‘‘
مسلسل لڑائیوں‘ کوچ اور پیش قدمی کے تھکے ہوئے مجاہدین اپنے
جسموں کو جیسے بھول ہی گئے تھے۔ وہ اب روحانی قوتوں سے لڑ لرہے تھے۔ ایک دوسرے کو پکارتے‘
ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے اور دشمن کو للکارتے تھے۔ ان کے تیر نیچے سے اوپر جا رہے
تہے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment