Featured Post

Khalid001

15 September 2019

Khalid081


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  81
دومۃ الجندل بہت بڑا تجارتی شہر تھا،دور دراز ممالک کے تاجر یہاں آیاکرتے تھے،تجارت کے علاوہ یا تجارت کی بدولت ،اس شہر کو دولت اور زروجواہرات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔رسولِ اکرمﷺ نے اس شہر اور اس سے ملنے والی شاہراہوں کی جغرافیائی پوزیشن دیکھ کر اس پر فوج کشی کی تھی۔یہ مہم غزوہ تبوک کے نام سے مشہور ہوئی،اس وقت دومۃ الجندل کا حاکم اور قلعہ دار اُکیدر بن عبدالملک تھا۔ اس نے مسلمانوں کا مقابلہ بے جگری سے کیا تھا۔خالدؓبھی اس معرکے میں شریک تھے۔انہوں نے اُکیدر کو غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندہ پکڑ لیا تھا اور اس کی سپاہ نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔اُکیدر بن عبدالملک نے رسولِ کریم ﷺ کی اطاعت قبول کرلی اور وفاداری کا حلف اٹھایا۔اس نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا،اس طرح یہ اتنا بڑا شہر مسلمانوں کے زیرِ نگیں آگیا تھا۔
رسول اﷲﷺ کی وفات کے ساتھ ہی ارتداد کا فتنہ طوفان کی طرح اٹھاتھا۔ اُکیدر بھی مدینہ سے منحرف ہو گیااور اس نے اطاعت اور وفاداری کے معاہدے کو الگ پھینک دیا۔اس نے دومۃ الجندل کو ایک ریاست بنالیا جس کے باشندے بھی عیسائی تھے اور بت پرست بھی۔عیسائیوں کا سب سے بڑا اور طاقتور قبیلہ کلب تھا۔
امیرالمومنینؓ نے اُکیدر بن عبدالملک کی سرکوبی کیلئے اور اسے اپنی اطاعت میں لانے کیلئے عیاضؓ بن غنم کو ایک لشکر دے کر بھیجا تھا۔وہاں جا کر عیاضؓ نے دیکھا کہ ان کا لشکر تو بہت تھوڑا ہے،اور دشمن کئی گنا طاقتور ہے لیکن مدینہ سے تقریباًتین سو میل دور آکر واپس چل پڑنا تو مناسب نہ تھا۔دومۃ الجندل کی دیوار اونچی اور مضبوط تھی۔پورا شہر بڑا مضبوط قلعہ تھا۔
عیاضؓ نے شہر کا محاصرہ کیا جو مکمل نہ تھا۔ایک طرف راستہ کھلا تھا،اکیدر کی سپاہ کی کچھ نفری خالی طرف سے باہر آتی اور مسلمانوں پر حملہ کرتی،کچھ دیر لڑائی ہوتی ،اور یہ نفری بھاگ کر قلعے میں چلی جاتی،ان حملوں کے علاوہ قلعے کی دیواروں سے مسلمانوں پر تیروں کا مینہ برستا رہتا اور اس کے جواب میں مسلمان تیر اندازدیواروں پر تیر پھینکتے رہتے۔انہوں نے قلعے کے دروازوں پربھی ہلّے بولے مگر قلعے کا دفاع توقع سے زیادہ مضبوط تھا۔
مسلمانوں کے خلاف جنگ کا پانسہ اس طرح پلٹ گیا کہ قبیلہ کلب کے عیسائیوں نے عقب سے آکر مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا۔ وہ مسلمانوں پر بڑھ بڑھ کر حملے کرتے تھے اور مسلمان جان کی بازی لگا کر حملوں کو روکتے اور پسپا کرتے تھے،مسلمانوں کی اس بے خوفی کو دیکھ کر عیسائیوں نے حملے کم کر دیئے۔مگر مسلمانوں کو گھیرے میں رکھا تاکہ وہ پسپا نہ ہو سکیں،اور رسد وغیرہ کی کمی سے پریشان ہوکر ہتھیار ڈال دیں۔ عیاضؓ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ ایک جگہ راستہ کھلا رکھا اور اس کی حفاظت کیلئے آدمی مقرر کر دیئے تھے۔
یہ صورتِحال مسلمانوں کیلئے بڑی خطرناک تھی۔ان کا جانی نقصان خاصہ ہو چکا تھا۔زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔مسلمان زندہ رہنے کیلئے لڑ رہے تھے ،صاف نظر آرہاتھا کہ شکست انہی کی ہوگی۔دن پہ دن گزرتے جا رہے تھے۔
…………bnb…………

خالدؓعین التمرکو اپنے انتظام میں لانے کے کام سے فارغ ہو چکے تھے ۔انہوں نے عمال مقرر کر دیئے تھے۔دوچار دنوں میں ہی وہاں کے شہریوں کو یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان نہ انہیں زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں نہ ان کے حقوق پامال کر رہے ہیں،نہ ان کی عورتوں پر بُری نظر رکھتے ہیں اور ان کے گھر اور اموال بھی محفوظ ہیں۔اس لیے وہ اسلامی حکومت کے وفادار بن گئے۔
خالدؓکے پاس عیاضؓ بن غنم کا قاصد پہنچااور ان کا تحریری پیغام دیا۔عیاضؓ جس مصیبت میں پھنس گئے تھے وہ لکھی تھی۔تفصیل قاصد نے بیان کی۔دوسرے ہی دن ولید بن عقبہ پہنچ گئے۔انہوں نے خالدؓ سے کہا کہ ایک گھڑی جو گزرتی ہے وہ عیاض اور اس کے مجاہدین کو شکست اور موت کے قریب دھکیل جاتی ہے۔
’’شکست؟‘‘ … خالدؓ نے پُر جوش لہجے میں کہا۔ … ’’خدا کی قسم!اسلام کی تاریخ میں شکست کا لفظ نہیں آنا چاہیے … کیا اُکیدر بن عبدالملک مجھے بھول گیا ہے؟ کیا وہ ہمارے رسولﷺ کو بھول گیا ہے جنہوں نے اسے اطاعت پر مجبور کیا تھا؟ کیا وہ ہمارے اﷲکو بھول گیا ہے جس نے ہمیں اس پر فتح عطا کی تھی؟‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ بدلے ہیں تو انسان بدلے ہیں۔اﷲنہیں بدلا۔اﷲنے فتوحات کو شکستوں میں اس وقت بدلا تھا جب مسلمان بدل گئے تھے اور خدا کے بندوں کے ’’خدا‘‘بن گئے تھے۔
خالدؓ نے عیاضؓ بن غنم کو پیغام کا تحریری جواب دیا۔اُس دور میں عربوں کی تحریروں کاانداز شاعرانہ ہوا کرتا تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓکا جواب منظوم انداز کا تھا۔انہوں نے لکھا:
’’منجانب خالد بن ولیدبنام عیاض بن غنم۔میں تیرے پاس بہت تیز پہنچ رہا ہوں۔تیرے پاس اونٹنیاں آ رہی ہیں جن پر کالے اور زہریلے ناگ سوارہیں۔فوج کے دستے ہیں جن کے پیچھے بھی دستے آگے بھی دستے ہیں۔ذرا صبر کرو۔گھوڑے ہوا کی رفتار سے آرہے ہیں۔ان پر تلواریں لہرانے والے شیر سوار ہیں۔دستوں کے پیچھے دستے آرہے ہیں۔‘‘
پیغام کا جواب قاصد کو دے کر خالدؓنے اسے کہا کہ وہ جتنی تیزی سے آیا تھا اس سے زیادہ تیز دومۃ الجندل پہنچے اور عیاض ؓکو تسلی دے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ایک نائب سالار عویم بن کاہل اسلمی کو بلایا۔
’’ابنِ کاہل اسلمی!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کیا تو جانتا ہے کہ میں تجھے کتنی بڑی ذمہ داری سونپ رہا ہوں؟‘‘
’’اﷲمجھے ہر اس ذمہ داری کو نبھانے کی ہمت و عقل عطافرمائے جو مجھے سونپی جائے۔‘‘ … عویم نے کہا۔ … ’’میری ذمہ داری کیا ہوگی ابنِ ولید؟‘‘
’’عین التمر!‘‘ …  خالدؓنے کہا۔ … ’’اس کا انتظام اوراس کی حفاظت۔اندر سے بغاوت اٹھ سکتی ہے،باہر سے حملہ ہو سکتا ہے۔میں تجھے اپنا نائب بنا کر دومۃ الجندل جا رہا ہوں۔ عیاض بن غنم مشکل میں ہے۔‘‘
’’اﷲتجھے سلامتی عطا کرے۔‘‘ … عویم نے کہا۔ … ’’عین التمر کو اﷲکی امان میں سمجھ۔‘‘
خالدؓ کے ساتھ ابتداء میں جو سپاہ تھی وہ جانی نقصان کے علاوہ اس وجہ سے بھی کم ہو گئی کہ ہر مفتوحہ جگہ ایک دو دستے چھوڑ دیئے گئے تھے۔عین التمر تک پہنچتے نفری اور کم ہو گئی تھی۔اس علاقے کے مسلمان باشندوں سے نفری بڑھانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔کچھ نو مسلم بھی سپاہ میں شامل ہو گئے تھے لیکن ابھی ان پر پوری طرح اعتماد نہیں کیاجا سکتا تھا۔
خالدؓنےکچھ دستے عین التمر میں چھوڑے ،چھ ہزار سوار اپنے ساتھ لیے اور دومۃ الجندل کو روانہ ہو گئے ۔فاصلہ تین سو میل تھا۔
…………bnb…………

خالدؓنے تین سو میل کی یہ صحرائی مسافت صرف دس دنوں میں طَے کرلی۔وہ ابھی رستے میں تھے کہ جب اُکیدر کے آدمیوں نے اس لشکر کو دیکھ لیا۔وہ مسافر ہوں گے۔انہوں نے خالدؓکے پہنچنے سے پہلے دومۃ الجندل میں اطلاع دے دی کہ مسلمانوں کا ایک لشکر آرہا ہے۔ بعض مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ دومۃ الجندل والوں کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس اسلامی لشکر کے سالارِ اعلیٰ خالدؓ ہیں۔
اس وقت تک عیسائیوں کے تین بڑے قبیلے (بنو کلب، بنو بہراء اور بنو غسان) جنگ میں شریک تھے۔اُکیدر بن عبدالملک کو اطلاع ملی تو اس نے بڑی عجلت سے عیسائیوں اور بت پرستوں کے چھوٹے چھوٹے قبیلوں کو بھی جنگ میں شریک ہونے کیلئے بلاوا بھیج دیا۔ خالدؓکے پہنچنے تک ان چھوٹے قبیلوں نے اپنے آدمی بھیجنے شروع کردیئے تھے۔
خالدؓ طوفان کی مانند پہنچے۔مجاہدین نے خالدؓکے کہنے پر جوش و خروش سے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔عیاضؓ بن غنم کے لشکرنے یہ نعرے سنے تو سارے لشکر نے نعرے لگائے۔ان کے ہارے ہوئے حوصلے تروتازہ ہو گئے۔خالدذؓ نے میدانِ جنگ کا جائزہ لیا پھر قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑا کر قلعے کی دیواروں کا جائزہ لیا اور قلعے کی دیوارون پر کھڑے دشمن کو دیکھا۔
دشمن کی فوج کے دو حصے تھے۔ایک کا سالارِ اعلیٰ اُکیدر بن عبدالملک اور دوسرے کا جودی بن ربیعہ تھا جوقلعے کے باہر تھا۔ قلعے کے باہر ان چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے آدمی بھی جمع ہو گئے تھے جو اُکیدر کے بلاوے پر ابھی ابھی آئے تھے۔ان کیلئے قلعے کاکوئی دروازہ نہ کھلا کیونکہ خالدؓ کی آمد قلعے کیلئے بڑی خطرناک تھی۔
…………bnb…………

خالدؓ ایک دہشت کا دوسرا نام تھا۔ خالدؓ دشمن پر جو نفسیاتی وار کرتے تھے اس کا اثر مستقل ہوتا تھا۔ ایسا ہی ایک زخم اُکیدر بن عبدالملک پہلے ہی خالدؓ کے ہاتھوں کھا چکا تھا۔ خالدؓ تو سوچ رہے تھے کہ وہ قلعے میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں لیکن ان کی دہشت قلعے کئے اندر پہنچ چکی تھی۔ اُکیدر نے عیسائی سرداروں کو بلا رکھا تھا اور انہیں کہہ رہا تھا کہ وہ خالدؓسے ٹکر نہ لیں اور صلح کر لیں۔ عیسائی سردار اس کامشورہ نہیں مان رہے تھے۔
’’میرے دوستو!‘‘ … تقریباً تمام مؤرخوں نے اس کے یہ الفاظ لکھے ہیں۔ … ’’خالد سے جتنا میں واقف ہوں اتنا تم نہیں ہو۔میں نہیں بتا سکتا کہ اس میں کیسی طاقت ہے۔میں اتنا جانتا ہوں کہ قسمت ہر میدان میں اس کے ساتھ ہوتی ہے۔میدانِ جنگ کا اور قلعوں کی تسخیر کا جو کمال اس میں ہے وہ کسی اور میں نہیں۔تم سوچ رہے ہوگے اور وہ تمہارے سر پر کھڑا ہوگا۔خالد کے مقابلے میں جوقوم آتی ہے ،خواہ طاقتور خواہ کمزور، وہ خالد کے ہاتھوں پِٹ جاتی ہے۔ میرا مشورہ تسلیم کرو اور خالد سے صلح کرلو۔‘‘
عیسائیوں نے خالدؓسے شکستیں کھائی تھیں ۔وہ انتقام لینا چاہتے تھے۔
’’تم اس سے لڑو گے تو ہار جاؤ گے۔‘‘ … اُکیدر نے کہا۔ … ’’پھر وہ تم پر رحم نہیں کرے گا۔اگر لڑے بغیر صلح کرلو گے تو وہ تمہاری جان، تمہاری عورتوں اور تمہارے اموال کی حفاظت کرے گا مگر تم اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے کیونکہ تم اس کی چالیں نہیں سمجھتے۔
’’ہم لڑے بغیر شکست تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘عیسائی سرداروں نے متفقہ فیصلہ دے دیا۔’’پھر تم میرے بغیر لڑو گے۔‘‘اُکیدر نے کہا۔’’میں اتنا بڑا شہر تباہ نہیں کراؤں گا۔‘‘
…………bnb…………

عیسائی سردار لڑنے کے ارادے سے چلے گئے۔انہیں اُکیدر کے ارادوں کا اس کے سوا کچھ علم نہیں تھا کہ وہ لڑنا نہیں چاہتا۔
رات کا پہلا پہر تھا۔ خالدؓکا سالار عاصم بن عمرو قلعے کے اس طرف گشت پر پھر رہا تھا،جدھر علاقہ خالی تھا۔اسے چار پانچ آدمی قلعے سے نکل کر اس کھُلے علاقے میں آتے دکھائی دیئے۔وہ سائے سے لگتے تھے ۔عاصم بن عمرو کے ساتھ چند ایک محافظ تھے انہیں عاصم نے کہا کہ ان آدمیوں کو گھیرے میں لے کر روک لیں۔
محافظوں کو معلوم تھا کہ کس طرح بکھر کر گھیرا ڈالا جاتا ہے،وہ آدمی خود ہی رک گئے۔سالار عاصم ان تک پہنچے۔
’’میں دومۃ الجندل کا حاکم اُکیدر بن عبدالملک ہوں۔‘‘ … ان میں سے ایک نے کہا۔
’’اپنے اور اپنے آدمیوں کے ہتھیار میرے آدمیوں کے حوالے کردو۔‘‘ … عاصم نے کہا۔
’’مجھے خالد کے پاس لے چلو۔‘‘ … اُکیدر نے اپنی تلوار ایک محافظ کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ … ’’میں نہیں لڑوں گا۔ خالدکے ساتھ صلح کی بات کروں گا۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages