شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 82
’’میں تمہیں معاف نہیں کرسکتا ابنِ عبدالملک!‘‘ … خالدؓ نے اپنے
خیمے میں اس کی بات کو سن کر کہا۔ … ’’تو میرا مجرم نہیں میرے رسولﷺ کا مجرم ہے۔تو
نے اﷲکے رسول ﷺسے بد عہدی کی تھی۔تو نے اسلام قبول کیا پھر ارتداد کے سرداروں کے ساتھ
جا ملا۔‘‘
اُکیدر نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا۔بہت کچھ پیش کیا۔ عیسائی
قبیلوں سے لا تعلق ہو جانے کا عہد کیا۔
’’اگر یہ لڑائی میری اور تیری ہوتی، یہ دشمنی میری اور تیری ہوتی،توتجھے
بخش دینے سے کوئی نہ روک سکتا۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’مگر تو میرے رسولﷺ کا، میرے مذہب
کا دشمن تھا۔ خدا کی قسم!میں تجھے بخش نہیں سکتا۔ تجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں دے
سکتا۔‘‘ … خالدؓ نے حکم دیا۔ … ’’لے جاؤ اسے،کل کا سورج اسے زندہ نہ دیکھے۔‘‘
رات کو ہی اُکیدر بن عبدالملک کا سر قلم کر دیا گیا۔
صبح طلوع ہوتے ہی خالدؓ نے عیاضؓ بن غنم کو بلایااور اسے بتایا
کہ اب وہ اپنی سپاہ کا خود مختار سالار نہیں،اس حکم کے ساتھ ہی خالدؓ نے عیاضؓ کی سپاہ
اپنی کمان میں لے لی۔
’’اب لڑائی قلعے کے باہر ہوگی۔‘‘ … خالدؓنے اپنے سالاروں سے کہا۔ …
’’اتنے مضبوط قلعے پر وقت اور طاقت خرچ کرنا محض بیکار ہوگا۔پہلے اس دشمن کو ختم کرنا
ہے جو قلعے کے باہر ہے۔‘‘
خالدؓنے اپنی تمام سپاہ کو ترتیب میں کیا۔عیاض کی سپاہ میں جو
مجاہدین نوجوان اور جوان تھے، انہیں الگ کرکے اس طرف بھیج دیاجدھر ایک راستہ عرب کی
سمت جاتا تھا۔ خالدؓ نے ان جوانوں سے کہا کہ دشمن اِدھر سے بھاگنے کی کوشش کرے گا ،اُسے
زندہ نہ نکلنے دیا جائے۔
خالدؓ نے کچھ دستے اپنی زیرِ کمان لے کر ایک عیسائی سردار جودی
بن ربیعہ کے مقابل رکھے اور عیاضؓ کو کچھ دستے دے کر دشمن کے دو سرداروں ابنِ حدر جان
اور الایہم کے دستوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔اپنے دونوں سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی
بن حاتم کو حسبِ معمول پہلوؤں پررکھا۔
عیسائی اور بت پرست سالار قلعے کے اندر سے بھی فوج کی خاصی نفری
باہر لے آئے۔اس طرح ان کی تعداد مسلمانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہو گئی۔
خالدؓنے ایک ایسی چال چلی جس سے دشمن پریشان ہو گیا۔چال یہ چلی
کہ ذرا بھی حرکت نہ کی۔دشمن اس انتظار میں تھا کہ مسلمان حملے میں پہل کریں گے لیکن
مسلمان تو جیسے بت بن گئے تھے۔عیسائی سردار لڑائی کیلئے بے تاب ہو رہے تھے۔جب بہت سا
وقت گزر گیا اور مسلمانوں نے دشمن کی للکار کا بھی کوئی جواب نہ دیا تو دشمن نے عیاضؓ
کے دستوں پر ہلّہ بول دیا،اس کے ساتھ ہی جودی نے خالدؓ کے دستوں پر حملہ کردیا۔
خالدؓنے اپنے سالاروں کو جو ہدایات دے رکھی تھیں ان کے مطابق
مجاہدین کے دستوں میں دشمن کو اپنی طرف آتا دیکھ کر بھی کوئی حرکت نہ ہوئی۔دشمن اور
زیادہ جوش میں آگیا۔ جب دشمن کے سپاہی مسلمانوں کی صفوں میں آئے تو مسلمانوں نے انہیں
رستہ دے دیا۔یہ ایسے ہی تھا جیسے گھونسا کسی کو مارو اور وہ آگے سے ہٹ جائے۔
فوراً ہی عیسائیوں اور بت پرستوں کو احساس ہو گیا کہ وہ تو مسلمانوں
کے پھندے میں آگئے ہیں۔خالدؓ نے اپنے محافظوں کے ساتھ عیسائیوں اور بت پرستوں کے سب
سے بڑے سالار جودی بن ربیعہ کو گھیرے میں لے لیا۔ اس کے خاندان کے چند ایک جوان اس
کے ساتھ تھے۔ وہ تو کٹ گئے اور جودی کو زندہ پکڑ لیا گیا۔
خالدؓنے اپنے لشکر کو ایسی ترتیب میں رکھاتھا جو دشمن کیلئے
پھندہ تھا۔دشمن کے سپاہی جدھر کو بھاگتے تھے ادھر مسلمانوں کی تلواریں اور برچھیاں
ان کا راستہ روکتی تھیں۔ آخر وہ قلعے کی طرف بھاگے مگر دروازہ بند تھا۔مسلمان اوپر
آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دروازے کے سامنے عیسائیوں اور بت پرستوں کی لاشوں کا انبار
لگ گیا۔
ایک دروازہ اور بھی تھا۔اپنے آدمیوں کو پناہ میں لینے کیلئے
قلعے والوں نے دروازہ کھول دیا۔عیسائی اور بت پرست بھاگ کر دروازے میں داخل ہونے لگے
لیکن مسلمان تو جیسے ان کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔اس طرح صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ دشمن
کا ایک آدمی اندر جاتا تو دو مسلمان اس کے اندر چلے جاتے تھے۔
عیسائیوں اور بت پرستوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔مسلمان قلعے
میں داخل ہو گئے تھے۔اب جو کچھ ہو رہا تھاوہ لڑائی نہیں تھی۔وہ عیسائیوں اور بت پرستوں
کا قتلِ عام تھا۔خالدؓچاہتے تھے کہ قتلِ عام کا یہ سلسلہ جاری رہے۔
یہ اگست ۶۳۳ء کے آخری (جمادی
الآخر ۱۲ھجری کے وسط کے) دن تھے۔خالدؓ نے جودی بن ربیعہ اور اس کے تمام
ساتھی سالاروں اور سرداروں کو سزائے موت دے دی تھی۔دومۃ الجندل مسلمانوں کے زیرِ نگیں
آگیا۔
…………bnb…………
اسلام دشمن طاقتیں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں۔ ایران کے آتش
پرستوں کو جس طرح اسلام کے علمبرداروں نے شکست پہ شکست دی اور جتنا جانی نقصان انہیں
پہنچایا تھا،اتنا کوئی قوم برداشت نہیں کر سکتی تھی۔لیکن وہاں صرف آتش پرست نہیں تھے۔تمام
غیر مسلم قبیلے جن میں اکثریت عربی عیسائیوں کی تھی،ان کے ساتھ تھے۔آتش پرستوں نے
اب ان قبیلوں کو آگے کرنا شروع کر دیا تھا۔جیسا مہراں بن بہرام نے عین التمر میں کیا
تھا۔آتش پرستوں کے سالار میدانِ جنگ سے بھاگ بھاگ کر مدائن میں اکھٹے ہوتے جا رہے
تھے۔
ان کے نامور سالار بہمن جاذویہ نے جب مہراں بن بہرام کو اپنی
فوج کے ساتھ واپس آتے دیکھا تو اسے اتنا صدمہ ہوا تھا کہ اس پر خاموشی طاری ہو گئی
تھی۔
’’مت گھبرا بہمن!‘‘ … مہراں نے اسے کہا تھا۔ … ’’دل چھوٹا نہ کر۔آخر
فتح ہماری ہو گی۔میں شکست کھا کر نہیں آیا۔شکست بدوی قبیلوں کو ہوئی ہے۔‘‘
’’اور تو لڑے بغیر واپس آگیا ہے؟‘‘ … سالار بہمن جاذویہ نے کہا تھا۔
… ’’تو اتنا بڑا شہر اپنے دشمن کی جھولی میں ڈال آیا ہے تو خوش قسمت ہے کہ تجھے یہاں
سزا دینے والا کوئی نہیں۔سزا دینے والے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ وہ جانشینی پر ایک دوسرے
کے خون بہا رہے ہیں۔‘‘
’’بہمن!‘‘ … مہراں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ … ’’کیا تومجھے سرزنش کر
رہا ہے؟کیا تو مسلمانوں سے شکست کھانے والوں میں سے نہیں؟اگر تو میدان میں جم جاتا
تو آج مدینہ والے یوں ہمارے سر پر نہ آبیٹھتے۔شکستوں کی ابتداء تجھ سے ہوئی ہے۔میری
تعریف کر کے میں اپنے لشکر کو بچا کر لے آیا ہوں۔میں اسی لشکر سے مسلمانوں کو شکست
دوں گا۔مدائن میں اس وقت جو لشکر جمع ہو چکا ہے اسے ہم ایک فیصلہ کن جنگ کیلئے تیار
کریں گے۔‘‘
اس وقت مدائن میں فارس کے جتنے بھی نامور سالار تھے وہ سب خالدؓ
سے شکست کھا کر آئے تھے۔انہوں نے اسے ذاتی مسئلہ بنالیا تھا،ورنہ وہاں حکم دینے والا
کوئی نہ تھا،حکم دینے والے شاہی خاندان کے افراد تھے جو تخت کی وراثت کیلئے جوڑ توڑ
میں لگے ہوئے تھے ۔وہ سالاروں کو بھی اپنی سازشوں میں استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن
سالار فارس کی شہنشاہی کے تحفظ کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔یہ چند ایک سالار ہی تھے جنہوں
نے مدائن کا بھرم رکھا ہوا تھا ورنہ کسریٰ کی بنیادیں ہِل چکی تھیں اور یہ عمارت زمین
بوس ہوا ہی چاہتی تھی۔
اس وقت خالدؓ مدائن سے کم و بیش چار سو میل دور دومۃ الجندل
میں تھے۔ آتش پرستوں اور عیسائیوں کو ابھی معلوم نہ تھا۔وہ سمجھتے تھے کہ خالدؓعین
التمر میں ہیں۔خالدؓ کو دراصل حیرہ واپس آنا تھا۔ایک تو وہ مفتوحہ علاقوں کے انتظامات
وغیرہ کو بہتر بنانا چاہتے تھے،دوسرے یہ کہ فوج کو کچھ آرام دینا تھااور تیسرا کام
یہ تھا کہ فوج کو از سر نو نظم کرنا تھا۔
…………bnb…………
ایک تو یہ مجاہدین تھے جو میدانِ جنگ میں دشمن کے آمنے سامنے
آکر لڑتے تھے، دوسرے مجاہدین وہ تھے جو دشمن کے مختلف شہروں میں بہروپ دھار کر خفیہ
سرگرمیوں میں مصروف تھے۔وہ جاسوس تھے۔وہ ہر لمحہ جان کے خطرے میں رہتے تھے۔وہ دشمن
کی نقل و حرکت اور عزائم معلوم کرتے اور پیچھے اطلاع بھجواتے یا خود اطلاع لے کر آتے
تھے۔تاریخ میں ان میں سے کسی کا بھی نام نہیں آیا۔ (دوچار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ
جانیے کتنے ہیں) ان میں بعض پکڑ لیے گئے اور دشمن کے جلادوں کے حوالے ہوئے۔ان جاسوسوں
کی بروقت اطلاعوں پر خالدؓ کئی بار دشمن کے اچانک حملے اور شکست سے بچے۔
خالدؓ جب دومۃ الجندل میں تھے تو مفتوحہ علاقوں کیلئے ایک خطرناک
صورتِ حال پیدا ہوگئی۔مدائن پر کسریٰ کی شکست اور زوال کی سیاہ کالی گھٹائیں چھائی
ہوئی تھیں۔لوگوں پر خوف و ہراس طاری تھا۔کسریٰ کی اس تلوار پر زنگ لگ چکا تھا جس کا
خوف بڑی دور تک پہنچا ہوا تھا مگر دو چار سالار تھے جو اس ڈوبتی کشتی کو طوفان سے نکال
لے جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
ان حالات میں ایک گھوڑا مدائن میں داخل ہوا اور بہمن جاذویہ
تک پہنچا۔
’’اب اور کیا بُری خبر رہ گئی تھی جو تو لایا ہے؟‘‘ … بہمن نے پوچھا۔
… ’’کہاں سے آیا ہے تو؟کیا مسلمانوں کا لشکر مدائن کی طرف آرہا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ … اس آدمی نے کہا۔ … ’’مسلمانوں کا لشکر چلا گیا ہے۔‘‘
’’چلا گیا ہے؟‘‘ … بہمن جاذویہ نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ … ’’تو ان
لشکریوں میں سے معلوم ہوتا ہے جنہیں مسلمانوں کی دہشت نے پاگل پن تک پہنچا دیا ہے۔کیا
تو نہیں جانتا تیرے جرم کی سزا موت ہے؟‘‘
یہ آدمی گھوڑے سے اتر چکا تھا۔اس کی اطلاع پر بہمن جاذویہ باہر
آگیاتھا۔اس نے اس آدمی کو اندر لے جا کر عزت سے بٹھانے کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ سزائے
موت کانام سنتے ہی اس آدمی نے گھوڑے کی باگ چھوڑدی اور تیزی سے آگے ہوکر سالار بہمن
جاذویہ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
’’میں عین التمر سے آیا ہوں۔‘‘ … اس نے گھبرائی ہوئی ملتجی آواز میں
کہا۔ … ’’بے شک میں شکست کھانے والوں میں سے ہوں۔لیکن ان میں سے بھی ہوں جو شکست کو
فتح میں بدلنا چاہتے ہیں۔پہلے وہ بات سن لیں جو میں بتانے آیا ہوں پھر میرا سر کاٹ
دینا لیکن میری بات کو ٹالو گے تو یہ نہ بھولنا کہ تم میں سے کسی کا بھی سر مسلمانوں
کے ہاتھوں سلامت نہیں رہے گا۔‘‘
’’بول، جلدی بول!‘‘ … بہمن نے کہا۔ … ’’کیا بات ہے جو مجھے اتنی دور
سے سنانے آیا ہے؟‘‘
بہمن جاذویہ کی ایک بیٹی جو جوان تھی ،ایک آدمی کو اپنے باپ
کے قدموں میں بیٹھا دیکھ کر قریب آگئی۔وہ دیکھ رہی تھی کہ جب سے اس کا باپ شکست کھا
کر آیا ہے وہ غصے سے بھرا رہتا ہے اور سزائے موت کے سوا اور کوئی بات نہیں کرتا۔لڑکی
تماشہ دیکھنے آئی تھی کہ اس کا باپ آج ایک اور سپاہی کو جلاد کے حوالے کرے گا۔
’’خالدعراق سے چلا گیا ہے۔‘‘ … عین التمر سے آئے ہوئے آدمی نے کہا۔
… ’’میں خود نہیں آیا۔ مجھے شمشیر بن قیس نے بھیجاہے۔آپ اسے جانتے ہوں گے۔ مسلمانوں
کے سالار خالدنے عین التمر پر قبضہ کرکے وہیں کے سرکردہ افراد کو عمال مقرر کر دیا
ہے۔اس کا اور باقی سب حملہ آور مسلمانوں کا سلوک مقامی لوگوں کے ساتھ اتنا اچھا ہے
کہ سب ان کے وفادار ہو گئے ہیں۔لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ
مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔میں خود دیکھ رہا تھا کہ مسلمانوں کی فوج اچانک عین التمر
سے نکل گئی۔‘‘
’’زرتشت کی قسم!‘‘ … بہمن جاذویہ نے کہا۔ … ’’خالد ان شکاریوں میں سے
نہیں جو پنجوں میں آئے ہوئے شکار کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں … کیا اس کی ساری فوج ہمارے
علاقے سے نکل گئی ہے؟‘‘
’’میں پوری خبر لایا ہوں سالار!‘‘ … اس آدمی نے کہا۔ … ’’عین التمر
،حیرہ اور دوسرے شہروں میں جن پر مسلمانوں کا قبضہ ہے ،مسلمانوں کی بہت تھوڑی فوج رہ
گئی ہے اورایک ایک سالار ہے۔معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کا بڑا لشکر دومۃ الجندل چلا
گیا ہے جہاں ان کی کسی کے ساتھ لڑائی ہو رہی ہے۔شمشیر بن قیس نے مجھے آپ کے پاس اس
پیغام کے ساتھ بھیجا ہے کہ یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔اس وقت اپنے مفتوحہ علاقے مسلمانوں
سے چھڑائے جا سکتے ہیں۔‘‘
کچھ اور سوال و جواب کے بعد بہمن جاذویہ کو یقین ہو گیا کہ یہ
آدمی غلط خبر نہیں لایا ہے۔بہمن کو معلوم تھا کہ دومۃ الجندل کتنی دور ہے اور وہاں
تک پہنچنے اور واپس آنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔
’’تم واپس چلے جاؤ۔‘‘ … بہمن جاذویہ نے اس آدمی سے کہا۔ … ’’اور شمشیر
بن قیس سے کہنا کہ اتنا بڑا انعام تمہارے نام لکھ دیا گیا ہے جسے تم تصور میں بھی نہیں
لا سکتے۔ایک آدمی تمہارے پاس تاجر کے روپ میں آئے گا ،اس کے ساتھ تمہاری بات ہوگی۔وہ
تمہارا سائل ہوگا۔ہم بہت جلد حملے کیلئے آرہے ہیں۔اندر سے دروازے کھولنا تمہارا کام
ہوگا۔‘‘
’’کیا ہو گیا ہے محترم باپ؟‘‘ … بہمن کی بیٹی نے عین التمر کے سوار
کے جانے کے بعد بہمن سے پوچھا۔ … ’’مسلمان کہاں چلے گئے ہیں؟‘‘
’’اوہ میری پیاری بیٹی!‘‘ … بہمن نے بیٹی کو فرطِ مسرت سے گلے لگا لیا
اور پر جوش اور پر عزم آواز میں بولا۔ … ’’مسلمان وہیں چلے گئے ہیں جہاں سے آئے تھے۔میں
نے کہا تھا کہ وہ مدائن تک پہنچنے کی جرات نہیں کریں گے۔انہوں نے جو فتح حاصل کرنی
تھی وہ کر چکے ہیں۔اب ہماری باری ہے۔اب میں اپنی بیٹی کو مسلمانوں کی لاشیں دِکھاؤں
گا۔‘‘
’’کب؟‘‘ … بیٹی نے بچوں کے سے اشتیاق سے پوچھا۔ … ’’مجھے خالدکی لاش
دِکھانا محترم پدر! یہاں سب کہتے ہیں کہ وہ انسانوں کے روپ میں آیا ہوا جن ہے۔‘‘
بہمن جاذویہ نے بڑی زور کا قہقہہ لگایا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment