Featured Post

Khalid001

15 September 2019

Khalid083


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  83
بہمن جاذویہ کا یہ فاتحانہ اور طنزیہ قہقہہ پہلے کسریٰ کے محلات میں پہنچا،وہاں سے سالاروں تک گیا پھر مدائن کی ہزیمت خوردہ فوج نے سنا اور پھر یہ احکام او رہدایت کی صورت اختیار کر گیا۔بہمن جاذویہ کی بیٹی نے اپنی تمام سہیلیوں اور شاہی محل کی عورتوں کو اور جس کے ساتھ بھی اس نے بات کی،یہ الفاظ کہے۔ … ’’میں تمہیں خالد کی لاش دِکھاؤں گی۔‘‘
’’خالد کی لاش؟‘‘ … تقریبٍاً ہر لڑکی اور ہر عورت کا رد عمل یہی تھا۔ … ’’کہتے ہیں خالدکو کوئی نہیں مار سکتا۔وہ انسان نہیں۔ اسے دیکھ کر فوجیں بھاگ جاتی ہیں۔‘‘
شاہی اصطبل میں جہاں شاہی خاندان اور سالاروں کے گھوڑے ہوتے تھے گہما گہمی بڑھ گئی تھی۔ سائیسوں کو حکم ملا تھا کہ گھوڑے میں ذرا سا بھی نقص یا کزوری دیکھیں تو اسے ٹھیک کریں یا اسے الگ کر دیں۔
بہمن جاذویہ کی بیٹی اس طرح ہر طرف پھدکتی پھر رہی تھی جس طرح عید کاچاند دیکھ کر نئے کپڑوں کی خوشی میں ناچتے کودتے ہیں۔ وہ اصطبل میں گئی ۔وہاں اس کے باپ کے گھوڑوں کے ساتھ اس کا اپنا گھوڑا بھی تھا جو باپ نے اسے تحفے کے طور پر دیا تھا۔
’’میرے گھوڑے کا بہت سا را خیال رکھنا۔‘‘ … اس نے اپنے خاندان کے سائیس سے کہا۔
ایک ادھیڑ عمر سائیس جو تین چار مہینے پہلے اس اصطبل میں آیا تھا۔دوڑا آیا اور لڑکی سے پوچھا کہ اپنی فوج کہیں جا رہی ہے یا مدینہ کے لشکر کے حملے کا خطرہ ہے؟
’’اب تم مدینہ والوں کی لاشیں دیکھو گے۔‘‘ … لڑکی نے کہا۔
باقی گھوڑوں کے سائیس بھی اس کے اردگرد اکھٹے ہو گئے تھے۔ وہ بھی تازہ خبر سننا چاہتے تھے۔ لڑکی نے انہیں بتایا کہ خالد تھوڑی سی فوج پیچھے چھوڑ کر زیادہ تر فوج اپنے ساتھ لے گیا ہے اور وہ عراق سے دور نکل گیا ہے۔ (یہ تمام تر علاقہ جو خالدنے فارس والوں سے چھینا تھا،عراق تھا) لڑکی نے سائیسوں کو بتایا کہ اب اپنی فوج پہلے عین التمرپر پھر دوسرے شہروں پر حملے کرکے انہیں دوبارہ اپنے قبضے میں لے لے گی۔ اگر خالد واپس آیابھی تو اسے اپنی شکست اور موت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
’’کیا اسے زندہ پکڑا جائے گا؟‘‘ … ادھیڑ عمر سائیس نے مسرور سے لہجے میں پوچھا۔
’’زندہ یا مردہ!‘‘ … بہمن کی بیٹی نے کہا۔ … ’’اسے مدائن لایا جائے گا۔ اگر زندہ ہوا تو تم اس کا سر قلم ہوتا دیکھو گے۔‘‘
تین چار روز گزرے تو یہ ادھیڑ عمر سائیس لا پتا ہو گیا۔ اسے سب عیسائی عرب سمجھتے تھے۔ ہنس مکھ اور ملنسار آدمی تھا۔ صرف ایک سائیس نے اس کے متعلق بتایا تھا کہ وہ کہتا تھا کہ وہ اپنے قبیلے میں واپس جانا چاہتا ہے جہاں وہ قبیلے کی فوج میں شامل ہوکر مسلمانوں کے خلاف لڑے گا۔ وہ اپنے خاندان کے ان مقتولین کا انتقام لیناچاہتا تھا جو دو جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
جس وقت شاہی اصطبل میں اس سائیس کی غیر حاضری کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں ،اس وقت وہ مدائن سے دور نکل گیا تھا۔مدائن سے وہ شام کو نکلا تھا،جب شہر کے دروازے ابھی کھلے تھے۔اس کے پاس اپنا گھوڑا تھا۔کسی کو بھی نہیں معلوم تھاکہ وہ عیسائی نہیں مسلمان تھا اور وہ اسی علاقے کا رہنے والا تھا جس پر ایران کے آتش پرستوں کا قبضہ رہا تھا۔ وہ مثنیٰ بن حارثہ کا چھاپہ مار جاسوس تھا، اس نے مدائن میں جاکر شاہی اصطبل کی نوکری حاصل کرلی تھی۔
بہمن جاذویہ کی بیٹی سے اس نے عراق سے خالدؓاور ان کے لشکر کی روانگی اور مدائن کے سالاروں کے عزائم کی تفصیل سنی تو وہ اسی شام مدائن سے نکل آیا، یہ اطلاع بہت قیمتی تھی۔ سورج نے غروب ہوکر جب اس کے اور مدائن کی شہر پناہ کے درمیان سیاہ پردہ ڈال دیا تو اس مسلمان جاسوس نے گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔ اس کی منزل انبار تھی جہاں تک وہ اڑ کر پہنچنے کی کوشش میں تھا۔ جہاں گھوڑا تھکتا محسوس ہوتا۔ وہ اس کی رفتار کم کر دیتا ۔ صرف ایک جگہ اس نے گھوڑے کو پانی پلایا۔
اگلے روز کا سورج افق سے اٹھ آیا تھا جب وہ انبار میں داخل ہوااور کچھ دیر بعد وہ سالار زبرقان بن بدر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ اس نے ہانپتے ہوئے سنایا کہ مدائن میں کیا ہو رہا ہے۔
’’میں اسی روز آجاتا جس روز مجھے بہمن کی بیٹی سے یہ خبر ملی تھی۔‘‘ … اس نے سالار زبرقان سے کہا۔ … ’’لیکن میں وہاں تین دن یہ دیکھنے کیلئے رُکا رہا کہ دشمن کیا کیا تیاریں کر رہا ہے،اور وہ سب سے پہلے کہاں حملہ کرے گا۔‘‘
اس جاسوس نے جسے تاریخ نے ’’ایک جاسوس‘‘ لکھا ہے، مدینہ کی فوج کے سالار زبرقان بن بدر کوجو تفصیلی رپورٹ دی، وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تقریباً ہر مؤرخ نے بیان کیا ہے۔ خالد ؓجب عین التمر سے عیاضؓ بن غنم کی مدد کیلئے دومۃ الجندل کیلئے روانہ ہوئے تو عین التمر سے ایک عیسائی عرب نے مدائن اطلاع بھیج دی کہ خالدؓعراق سے چلے گئے ہیں۔ ان کی منزل دومۃ الجندل بتائی گئی،اس سے مدائن کے تجربہ کار سالار بہمن جاذویہ نے یہ رائے قائم کی کہ مسلمان تخت و تاراج اور لوٹ مار کرنے آئے تھے اور اپنے کچھ دستے برائے نام قبضہ برقرار رکھنے کیلئے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے اور یہ دستے ذرا سے دباؤ سے بھاگ اٹھیں گے۔
اس زمانے میں اکثر یوں ہوتا تھا کہ کوئی بادشاہ بہت بڑی فوج تیار کرکے طوفان کی مانند یکے بعد دیگرے کئی ملکوں پر چڑھائی کرتا اور قتلِ عام اور لوٹ مار کرتا اپنے پیچھے کھنڈر اور لاشوں کے انبار چھوڑ جاتا تھا۔ وہ کسی بھی ملک پر مستقل طور پر قبضہ نہیں کرتا تھا۔ مدائن کے محل میں خالدؓ کے کوچ کے متعلق یہی رائے قائم کی گئی لیکن خالدؓ نے عراق میں فارس کے جو مقبوضہ شہر اور بڑے قلعے فتح کیے تھے، وہاں وہ ایک ایک سالار اور کچھ دستے چھوڑ گئے تھے۔ یہ صورتِ حال کسریٰ کے سالاروں کو کچھ پریشان کر رہی تھی۔
’’فوج کو مدائن سے نکالواور حملے پہ حملہ کرو۔‘‘ … کسریٰ کے دربار سے حکم جاری ہوا۔
’’ہم تیار ہیں۔‘‘ … شیر زاد نے کہا۔جو حاکم ساباط تھا اور انبار سے مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگا تھا۔
’’ہم بالکل تیار ہیں۔‘‘ … مہراں بن بہرام نے کہا جو عین التمر کا بھگوڑا تھا۔
’’مگر لشکر تیار نہیں۔‘‘ … بہمن جاذویہ نے کہا جو تجربہ کار سالار تھا ۔شکست تو اس نے بھی کھائی تھی لیکن اس نے کچھ تجربہ حاصل کیا تھا۔
’’کیا کہہ رہے ہو بہمن؟‘‘ … کسریٰ کے اس وقت کے جانشین نے کہا۔ … ’’کیا ہم نے اس لشکر کو اس لئے پالا تھا کہ شکست کھا کر ہمارے پاس بھاگ آئے اور ہم ان سپاہیوں اور کمانداروں کو سانڈوں کی طرح پالتے رہیں؟‘‘
’’اگر ان سپاہیوں اور کمانداروں کو سزا دینی ہے تو آج ہی کوچ کا حکم دے دیں۔‘‘ … بہمن جاذویہ نے کہا۔ … ’’اپنے لشکر کی حالت مجھ سے سنیں۔‘‘
اس نے اپنے لشکر کی جو کیفیت بیان کی وہ،مؤرخوں اور بعد کے جنگی مبصروں کے الفاظ میں یوں تھی کہ ’’فارس کی اس جنگی طاقت کے پرانے اور تجربہ کار سپاہیوں کی بیشتر نفری مسلمانوں کے ہاتھوں چار پانچ جنگوں میں ماری جا چکی تھی یا جسمانی لحاظ سے معذور بلکہ اپاہج ہوگئی تھی۔خاصی تعداد جنگی قیدی تھی اور لشکر کے جو سپاہی اور ان کے کمانڈر بچ گئے تھے وہ ذہنی معذور نظر آتے تھے۔ تین الفاظ مدینہ،خالد بن ولید،اور مسلمان۔ ان کیلئے خوف کا باعث بن گئے تھے۔ وہ فوری طور پر میدانِ جنگ میں جانے اور لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ان کا جوش اور جذبہ بُری طرح مجروح ہوا تھا۔گھوڑوں کی بھی کمی واقع ہو گئی تھی۔‘‘
بہمن جاذویہ نے دربارِ خاص میں بتایا کہ جو عیسائی قبیلے ان کے اتحادی بن کر لڑے تھے، ان کی بھی یہی کیفیت ہے۔ مہراں بن بہرام نے انہیں عین التمر میں جو دھوکا دیا تھا اس کی وجہ سے وہ فارس والوں کے ساتھ ملنے سے انکار کر سکتے تھے۔
’’پھر بھی انہیں ساتھ ملا لیا جائے گا۔‘‘ … بہمن جاذویہ نے کہا۔ … ’’لیکن اپنے لشکر کیلئے ہزار ہا جوان آدمیوں کی بھرتی کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے لشکر میں نیا خون شامل کرنا پڑے گا۔ان جوانوں کو ہم بتائیں گے کہ مسلمانوں نے ان کی شہنشاہی کو ،ان کی غیرت کو اور ان کے مذہب کو للکارا ہے۔اگر انہوں نے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا تو ان پر زرتشت کا قہرنازل ہوگا۔ان کی جوان اور کنواری بہنوں کو مسلمان اپنی لونڈیاں بنا لیں گے۔‘‘
’’اتنے زیادہ لشکر کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ … مہراں بن بہرام نے کہا۔ … ’’اطلاع تو یہ ملی ہے کہ ہر جگہ مسلمانوں کی نفری برائے نام ہے۔‘‘
’’ہر شہر اور ہر قلعے میں ہمارے اپنے آدمی موجود ہیں۔‘‘ … شیرزاد نے کہا۔ … ’’اس وقت وہ مسلمانوں کی ملازمت میں ہیں لیکن انہیں جب پتہ چلے گا کہ فارس کی فوج نے شہر کا محاصرہ کیا ہے تو…‘‘
’’تو وہ اندر سے قلعے کے دروازے کھول دیں گے۔‘‘ … بہمن جاذویہ نے شیرزاد کی بات پوری کرتے ہوئے کہا۔ … ’’تم جھوٹی امیدوں کے سہارے لڑائی لڑنا چاہتے ہو؟ مجھے اطلاعیں ملتی رہتی ہیں ،مسلمان اپنے مفتوح اور محکوم لوگوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی آدمی بے وفائی نہیں کرتا۔ اگر فاتح اپنے مفتوح کی جوان اور حسین بیٹیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے اور اس کی عزت اور اموال کو تحفظ دے تو مفتوح ایسے فاتح کے ساتھ کبھی بے وفائی نہیں کرے گا۔‘‘
’’نہ سہی!‘‘ … شاہی خاندان کے کسی فرد نے کہا۔ … ’’اتنے زیادہ لشکر کی پھر بھی ضرورت نہیں۔‘‘
’’یہ ان سالاروں سے پوچھیں جو مسلمانوں سے شکست کھا کر آئے ہیں۔‘‘… بہمن جاذویہ نے کہا۔ … ’’میں تو کہتا ہوں کہ مسلمان جتنے تھوڑے ہوتے ہیں اتنے ہی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ یہ بھی خیال رکھیں کہ مسلمان قلعہ بند ہوں گے۔ انہیں زیر کرنے کیلئے ہمارے پاس دس گنا نفری ہونی چاہیے۔ میں اپنی جوابی کارروائی کو فیصلہ کن بنانا چاہتا ہوں۔ یہ خیال بھی رکھو کہ ہم ایک دن میں مقبوضہ شہر مسلمانوں سے واپس نہیں لے سکتے، مسلمان جہاں مقابلے میں جم گئے وہاں ہمیں مہینوں تک باندھ لیں گے۔ اس عرصے میں خالد اپنے لشکرکے ساتھ واپس آ سکتا ہے۔ اس کے واپس آجانے سے صورتِحال بالکل ہی بدل جائے گی۔ اگر ہمارے لشکر کی نفری کم ہوئی تو اس جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ ہم لشکر تیار کرکے اسے کئی حصوں میں تقسیم کریں گے اور ایک ہی وقت ہر جگہ حملہ کریں گے۔‘‘
’’کیا خالد کے خاتمے کاکوئی انتظام نہیں ہو سکتا؟‘‘ … کسریٰ کے جانشین نے پوچھا۔
’’یہ انتظام بھی میرے پیشِ نظر ہے۔‘‘ … بہمن جاذویہ نے کہا۔ … ’’دیکھ بھال کیلئے میں تیز رفتار گھوڑ سوار ہر طر ف پھیلا دوں گا۔خالدجدھر سے بھی آئے گا،مجھے اطلاع مل جائے گی۔میں اسے عراق سے دور روک لوں گا۔‘‘
…………bnb…………

بہمن جاذویہ کو وسیع اختیارات مل گئے۔ اس نے اپنےلشکر میں ان سپاہیوں کو زیادہ ترجیح دی جو مسلمانوں سے لڑ چکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی نئی بھرتی شروع کر دی۔ نوجوانوں کو ایسا بھڑکایا گیا کہ وہ ہتھیاروں اور گھوڑوں سمیت لشکر میں آنے لگے۔ عیسائیوں کو زیادہ مراعات دے کر فوج میں شامل کیا گیا۔
عیسائی قبیلوں کے سرداروں کو مدائن بلایا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ خالدؓ اپنے لشکر کو عراق سے نکال کرلے گیا ہے،اور جو مسلمان فوج پیچھے رہ گئی ہے اسے یہیں ختم کرنا ہے اور زندہ بچے رہنے والے مسلمانوں کو صحرا میں بھٹک بھٹک کر مرنے کیلئے چھوڑ دینا ہے۔
’’بنی تغلب سے اب یہ توقع نہ رکھو کہ وہ تمہاری لڑائی لڑیں گے۔‘‘ … عیسائی قبیلے بنی تغلب کے ایک سالار نے فارس کے سالاروں سے کہا۔ … ’’ہم ایک بار پھر وہ دھوکا نہیں کھانا چاہتے جو ایک بار کھا چکے ہیں۔عین التمر سے مہراں بن بہرام اپنی ساری فوج لے کر نہ بھاگتا تو مسلمان وہیں ختم ہو جاتے۔ہم اپنی لڑائی لڑیں گے ۔ہمیں مسلمانوں سے اپنے سردار عقہ بن ابی عقہ کے خون کا انتقام لینا ہے ۔ہم تمہاری مدد اور تمہارے ساتھ کے بغیر مسلمانوں کو شکست دے سکتے ہیں۔‘‘
’’کیا تم اپنی لڑائی الگ لڑو گے؟‘‘ … بہمن جاذویہ نے پوچھا۔ … ’’کیا ایسا نہیں ہوگا کہ مسلمان ہم دونوں کو الگ الگ شکست دے دیں؟‘‘
’’لڑیں گے تمہارے دوش بدوش ہی۔‘‘ … بنی تغلب کے سردار نے کہا۔ … ’’میری عقل میرے قابو میں ہے۔ہمارا دشمن مشترک ہے۔ ہم تمہارے ساتھ ہوں گے لیکن تم پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ ہمیں خالد کا سر چاہیے۔‘‘
’’خالد یہاں نہیں۔‘‘ … مہراں بن بہرام نے کہا۔ … ’’وہ جا چکا ہے۔‘‘
’’جہاں کہیں بھی ہے۔‘‘ … عیسائی سردار نے کہا۔ … ’’زندہ تو ہے۔ہم پہلے ان کے ان دستوں کو ختم کریں گے جو یہاں ہیں۔پھر ہم خالدبن ولید کے پیچھے جائیں گے … وہ خود آجائے گا۔وہ دستوں کی مدد کو ضرور آئے گا۔لیکن یہاں موت اس کی منتظر ہوگی۔‘‘
یہ مسلمان جاسوس مدائن میں عیسائی بن کرشاہی اصطبل میں نوکری کرتا رہا تھا۔اس لیے وہ عیسائیوں میں گھل مل گیا تھا۔اس نے سالار زبرقان بن بدر کو بتایا کہ آتش پرستوں کی نسبت عیسائی قبیلے خالدؓکے زیادہ دشمن بنے ہوئے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے فارس کے سالاروں سے کہا کہ وہ پیچھے رہیں۔ مسلمانوں پر پہلا وار عیسائی قبیلے بنی تغلب،نمر اور ایاد ہی کریں گے۔
…………bnb…………

سالار زبرقان بن بدر نے مدائن کی یہ رپورٹ سنی اور اسی وقت دو قاصد بلائے۔انہیں کہا کہ دو بہترین گھوڑے لیں اور اُڑتے ہوئے دومۃ الجندل پہنچیں۔زبرقان نے انہیں خالدؓ کے نام زبانی پیغام دیا۔
’’… اور سالارِ اعلیٰ ابن ِ ولید سے یہ بھی کہنا کہ جب تک انبار میں آخری مسلمان کی سانسیں چل رہی ہوں گی ،دشمن شہر کے اندر نہیں آسکے گا۔‘‘ … زبر قان بن بدر نے قاصدوں سے کہا۔ … ’’تو آجائے گا تو ہمیں سہولت ہو جائے گی ،نہیں آسکو گے تو وہ اﷲہمارے ساتھ ہے جس کے رسولﷺ کا پیغام ہم اپنے سینوں میں لیے یہاں تک آئے ہیں … اور ابنِ ولید سے کہنا کہ دومۃ الجندل کی صورتِ حال تجھے آنے دیتی ہے تو آ، اور اگر تووہاں مشکل میں پھنسا ہو اہے تو ہمیں اﷲکے سپرد کر،ہم اسی طرح لڑیں گے جس طرح تیری شمشیر کے سائے تلے لڑتے رہے ہیں۔‘‘
ان قاصدوں کو روانہ کرکے سالار زبرقان نے چند ایک اور قاصدوں کو بلایا اورہر ایک کو اس کی منزل بتائی۔ان قاصدوں کو ان شہروں میں جانا اور وہاں کے سالاروں کو بتانا تھا کہ خالدؓ کی غیر حاضری سے آتش پرستوں نے کیا تاثر لیا ہے اور وہ حملے کی تیاری کر رہے ہیں،پیغام میں زبرقان نے یہ بھی کہا کہ اس نے دومۃ الجندل کو قاصد بھیج دیا ہے،اگر وہاں سے مدد نہیں آئی تو ہم ایک دوسرے کی مدد کو پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
مسلمانوں کیلئے بڑی خطرناک صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔دشمن کے مقابلے میں نفری پہلے ہی تھوڑی تھی۔وہ بھی بکھری ہوئی تھی۔اس صورت میں کہ دشمن بیک وقت تمام اُن شہروں کو جن پر مسلمانوں کا قبضہ تھا،محاصرے میں لے لیتا تو مسلمان ایک دوسرے کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔
دونوں طرف بے پناہ سرگرمی شروع ہو گئی۔عیسائی قبیلوں کے سرداروں نے بستی بستی جاکر لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔وہ ان چھوٹے چھوٹے قبیلوں کو بھی اپنے سالتھ ملا رہے تھے جو عیسائی نہیں تھے۔وہ بت پرست تھے۔عیسائیوں کی جوان لڑکیاں بھی غیر مسلم بستیوں میں چلی گئیں۔وہ عورتوں کومسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی تھیں کہ وہ اپنے مردوں کو،جوان بھائیوں اور بیٹوں کو باہر نکالیں ورنہ تمام جوان لڑکیوں کو مسلمان اپنے ساتھ لے جا کر لونڈیاں بنالیں گے۔ایسے نعرے بھی ان لڑکیوں نے لگائے … ’’ہم مسلمانوں کی لونڈیاں بننے جا رہی ہیں۔‘‘ … اور دوسرا نعرہ جو بستی میں لگ رہا تھاوہ یہ تھا … ’’اپنے مقتولوں کے انتقام کا وقت آگیا ہے … باہر آؤ۔ انتقام لو۔‘‘
اُدھر مدائن میں فارس کے لشکر کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔اب لشکر میں شامل ہونے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جو جوش سے پھٹے جا رہے تھے ۔انہیں میدانِ جنگ میں لڑنے کی تربیت دی جا رہی تھی۔گھوڑ سواری،تیر اندازی، تیغ زنی اور نیزہ بازی تو وہ جانتے تھے، ان میں انہیں مزید طاق کیا جا رہا تھا۔بہمن جاذویہ تو جیسے پاگل ہوا جا رہا تھا۔وہ خود مشقوں کی تربیت اور مشقوں کی نگرانی کرتا تھا۔اس کے ساتھی سالار اسے کہتے تھے کہ حملہ جلدی ہونا چاہیے لیکن وہ نہیں مانتا تھا۔کہتا تھا کہ خالد واپس نہیں آئے گا۔اگر اسے واپس آنا ہی ہوا تو وہ لشکر کے ساتھ اس وقت یہاں پہنچے گا جب عراق کی زمین پر کھڑا ہونے کیلئے اسے ایک بالشت بھر بھی زمین نہیں ملے گی۔
مسلمان جن شہروں پر قابض تھے،وہاں کی سرگرمی اپنی نوعیت کی تھی۔ہر شہر میں مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی،انہوں نے کم تعداد سے قلعوں کے دفاع کی مشقیں شروع کر دی تھیں۔لاکھوں کے حساب سے تیر اور پھینکنے والے برچھے تیارہو رہے تھے۔سالاروں نے مجاہدین کا ایک ایک چھاپہ مار جیش تیار کر لیا تھا۔انہیں زیادہ وقت قلعوں کے باہر گزارنا اور عام راستوں سے دور رہنا تھا۔ان کا کام یہ تھا کہ دشمن شہر کا محاصرہ کر لے تو عقب سے اس پر ’’ضرب لگاؤاور بھاگو‘‘کے اصول پر چھاپے اور شبخون مارتے رہیں۔
خالدؓ کی غیر حاضری میں سالار عاصم بن عمرو کے بھائی قعقاع بن عمرو مفتوحہ علاقوں میں مختلف شہروں میں مقیم دستوں کے سالار تھے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر حیرہ میں تھا۔اس کی ذمہ داری صرف حیرہ کے دفاع تک محدود نہیں تھی۔عراق کے تمام تر مفتوحہ علاقے کا دفاع اس کی ذمہ داریمیں تھا۔اس نے اس علاقے میں بکھرے ہوئے تمام سالاروں کو ہدایات بھیج دی تھیں۔اس نے سب کو زور دے کر کہا تھا کہ دومۃ الجندل سے خالدؓ اور اپنے لشکر کے انتظار میں نہ بیٹھے رہیں،اپنے اﷲپر بھروسہ رکھیں اور یہ سمجھ کر لڑنے کی تیاری کریں کہ ان کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔
قعقاع نے ایک کارروائی یہ کی کہ خالدؓنے جو دستے دریائے فرات کے پار خیمہ زن کئے تھے، ان میں سے زیادہ تر نفری کو حیرہ میں بلالیا تاکہ اس شہر کے دفاع کو مضبوط کیا جاسکے۔قعقاع کا اپنا جاسوسی نظام تھا۔اس کے ذریعے قعقاع کو اطلاع ملی کہ فارس کا لشکر کہاں کہاں جمع ہو گا۔یہ دو جگہیں تھیں۔ایک حُصید اور دوسری خنافس۔یہ دونوں مقام انبار اور عین التمر کے درمیان تھے ۔قعقاع نے اپنے ایک دستے کو حصید کو اور دوسرے کو خنافس اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا کہ فارس کی فوج وہاں آئے تو اس پر نظر رکھیں اور فوج کسی طرف پیشقدمی کرے تو اس پر چھاپے ماریں اور اس پیشقدمی میں رکاوٹ ڈالتے رہیں۔شبخون بھی ماریں۔
یہ دونوں دستے جب ان مقامات پر پہنچے تو دونوں جگہوں پر فارس کے ہراول دستے آئے ہوئے تھے۔ وہ جو خیمے گاڑھ رہے تھے ،ان سے پتا چلتا تھا کہ یہ خیمے کسی بہت بڑے لشکر کیلئے گاڑے جا رہے ہیں۔ مسلمان دستوں نے ان کے سامنے اسی انداز سے خیمے گاڑنے شروع کر دیئے جیسے وہ بھی بہت بڑے لشکر کا ہراول ہوں۔
…………bnb…………

اِدھر یہ تیاریاں ہو رہی تھیں۔مجاہدینِ اسلام کو خس و خاشاک کی مانند اُڑالے جانے کیلئے بڑا ہی تُند طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا،اُدھر سالار زبرقان بن بدرکے روانہ کیے ہوئے دونوں قاصد دومۃ الجندل خالدؓ کے پاس پہنچ گئے۔انہوں نے ساڑھے تین سو میل فاصلہ صرف پانچ دنوں میں طے کیا تھا۔خالدؓ جب دومۃ الجندل گئے تھے تو انہوں نے تین سو میل کا فاصلہ دس دنوں میں طے کیا تھا۔اب دو قاصدوں نے ساڑھے تین سو میل سے زیادہ صحرائی اور دشوارمسافت پانچ دنوں میں طے کی۔بھوک او رپیاس سے ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی تھیں، ان کے چہروں پر باریک ریت کی تہہ جم گئی تھی۔ان کی زبانیں اکڑ گئی تھیں۔انہوں نے پھر بھی بولنے کی کوشش کی۔
’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’خشک جسموں سے تم کیسے بول سکو گے؟‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages