Featured Post

Khalid001

17 September 2019

Khalid084


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  84
اِدھر یہ تیاریاں ہو رہی تھیں۔ مجاہدین اسلام کو خس و خاشاک کی مانند اُڑالے جانے کیلئے بڑا ہی تُند طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا،اُدھر سالار زبرقان بن بدرکے روانہ کیے ہوئے دونوں قاصد دومۃ الجندل خالدؓ کے پاس پہنچ گئے۔انہوں نے ساڑھے تین سو میل فاصلہ صرف پانچ دنوں میں طے کیا تھا۔خالدؓ جب دومۃ الجندل گئے تھے تو انہوں نے تین سو میل کا فاصلہ دس دنوں میں طے کیا تھا۔اب دو قاصدوں نے ساڑھے تین سو میل سے زیادہ صحرائی اور دشوارمسافت پانچ دنوں میں طے کی۔بھوک او رپیاس سے ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی تھیں ،ان کے چہروں پر باریک ریت کی تہہ جم گئی تھی۔ان کی زبانیں اکڑ گئی تھیں۔انہوں نے پھر بھی بولنے کی کوشش کی۔
’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’خشک جسموں سے تم کیسے بول سکو گے؟‘‘
انہیں کھلایا پلایا گیا تو وہ بولنے کے قابل ہوئے۔
’’سالارِ اعلیٰ کو انبار کے سالار زبرقان بن بدر کا سلام پہنچے۔‘‘ … ایک قاصد نے کہا۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ … خالد نے پوچھا … ’’اور وہ پیغام کیا ہے جو لائے ہو؟‘‘
’’مدائن میں بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے۔‘‘ … قاصد نے کہا … ’’اور ایک لشکر عیسائی قبیلوں کا تیار ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ابن ولید ان کے علاقوں سے چلا گیا ہے اور وہ تھوڑے سے جو دستے چھوڑ گیا ہے انہیں ایک ہی حملے میں ختم کر کے اپنے علاقے واپس لیں گے۔‘‘
دونوں قاصدوں نے خالدؓ کو تمام تر تفصیل بتائی اور کہا کہ خالدؓ کو دومۃ الجندل کے حالات اجازت نہ دیں تو نہ آئیں‘ دستے جو فارس کی شہنشاہی کے علاقے میں ہیں وہ اسی طرح لڑیں گے جس طرح خالدؓ کی قیادت میں لڑے تھے۔
خالدؓ دومۃ الجندل پر قبضہ مکمل کر چکے تھے۔ انہوں نے وہاں کا انتظام ایک نائب سالار کے حوالے کیا اور فوری کوچ کا حکم دے دیا۔
’’خدا کی قسم!‘‘ … مؤرخوں کے مطابق‘ خالدؓ نے ان الفاظ میں قسم کھائی … ’’بنی تغلب پر اس طرح جھپٹوں گا کہ پھر کبھی وہ اسلام کے خلاف اُٹھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔‘‘
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے مجاہدین سے کہا کہ اتنی تیز چلو کہ صحرا کی ہوائیں پیچھے رہ جائیں‘ پیادے گھوڑٔں سے آگے نکل جائیں۔ یہ ایک امتحان ہے جو بڑا ہی سخت ہے۔ یہ ایک دوڑ تھی‘ آتش پرستوں اور حق پرستوں کی۔ آتش پرستوں کو اپنے ہی علاقے میں پھنچنا تھا اور یہ مسافت کچھ بھی نہیں تھی۔ حق پرست بڑی دور سے چلے تھے۔ ان کے سامنے سینکڑوں میلوں کی مسافت ہی نہیں‘ بڑا ظالم صحرا تھا۔ میل ہا میل کی وسعت میں صحرائی ٹیلے تھے اور باقی سب ریت کا سمندر تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ پانی کا اور اس سے بڑا مسئلہ رفتار کا تھا جو کم نہیں کی جا سکتی تھی۔ ناممکن کو ممکن کر دکھانا تھا۔
چاند اور ستاروں نے انہیں چلتے دیکھا۔ سورج نے انہیں چلتے دیکھا۔ صحرا کی آندھی بھی انہیں نہ روک سکی۔ آندھی‘ سورج‘ پیاس اور بھوک جسموں کو معذور کیا کرتی ہے۔ وہ جو تپتے صحراؤں میں پیاس سے مر جاتے ہیں وہ جسم ہوتے ہیں اور وہ جو خالدؓ کی قیادت میں دومۃ الجندل سے چلے تہے وہ اپنے جسموں سے دستبردار ہو گئے۔ ان کی قوت ارادی کا اور قوت ایمانی کا کرشمہ یہ تھا کہ انہوں نے جسمانی ضروریات سے نگاہیں پھیر لیں اور روحانی قوتوں کو بیدار کر لیا تھا۔ ان کی زبان پر اللہ کا نام تھا‘ دلوں میں ایمان اور یقین محکم تھا۔ اپنی ہی آواز ان پر وجد طاری کر رہی تھی۔
جنگی ترانی گانے والے لشکر کے وسط میں اونٹوں پر سوار تھے۔ ان کی آواز آگے بھی اور پیچھے بھی جاتی تھی۔ لشکر کے قدم دفوں اور نفیریوں کی تال پر اُٹھتے تھے اور یہ تال بڑی تیز تھی۔ کچھ فاصلہ طے کر کے ترانے اور دف خاموش ہو جاتے اور تمام لشکر کلمہ طیبہ کا ورد بلند آواز میں شروع کر دیتا۔ ہزار ہا حق پرستوں کی آواز ایک ہو جاتی پھر یہ آواز ایک گونج بن جاتی اور یوں لگتا جیسے صحراء اور صحرائی ٹیلوں پر وجد طاری ہو گیا ہو۔
اسلام کے شیدائیوں کا لشکر اپنی ہی آواز سے مسحور ہوتا چلا جا رہا تھا۔
…………bnb…………

بہمن جاذویہ نے اپنے تیار کیے ہوئے لشکر کو آخری بار دیکھا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے کو حصید کی طرف اور دوسرے کو خنافس کی طرف روانہ کر دیا۔ اب اس نے کمان نئے سالاروں کو دی تھی۔ حصید والے حصے کا سالار روزبہ تھا اور خنافس والے حصے کا زرمہر۔ ان کے لیے حکم تھا کہ اپنے اپنے مقام پر جا کر خیمہ زن ہو جائیں اور بنی تغلب اور دوسرے عیسائی قبیلوں کے لشکر کا انتظار کریں۔ قعقاع کے جاسوس نے صحیح اطلاع دی تھی کہ مدائن کے لشکر حصید اور خنافس کو اجتماع گاہ بنائیں گے اور اگلی کارروائی یہیں سے کریں گے۔
عیسائیوں کا لشکر ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوا تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ایرانیوں کی طرح عیسائی بھی دو حصوں میں تیار ہو رہے تھے۔ ایک کا سردار ہذیل بن عمران تھا اور دوسرے کا ربیعہ بن بجیر۔ یہ لشکر حصید اور خنافس سے کچھ دور دو مقامات ثنیٰ اور ذُمیل پر جمع ہو رہے تھے۔
مدائن کے لشکر کے دو حصوں اور عیسائیوں کے دو حصوں کو یکجا ہونا تھا۔ یہ بہت بڑی جنگی طاقت تھی۔ مسلمانوں کی تعداد ہر جنگ میں دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی رہی ہے لیکن اب مسلمان آٹے میں نمک کے برابر لگتے تھے۔ اسلام کے فدائیوں کا سامنا اتنے بڑے لشکر سے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ان چاروں خیمہ گاہوں میں رات کو سپاہی اس طرح ناچتے اور گاتے تھے جیسے انہوں نے مسلمانوں کو بڑی بری شکست دے دی ہو۔ انہیں اپنی فتح صاف نظر آ رہی تھی۔ حالات ان کے حق میں تھے‘ نفری ان کی بے پناہ تھی‘ ہتھیار ان کے بہتر تھے۔ گھوڑوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ انعام واکرام جو انہیں پیش کیے گئے تھے پہلے کبھی نہیں کیے گئے تھے۔ مالِ غنیمت کے متعلق انہیں بتایا گیا تھا کہ اب ان کا ہو گا۔ ان سے کچھ نہیں لیا جائے گا۔
ان میں صرف ان پرانے سپاہیوں پر سنجیدگی سی چھائی ہوئی تھی جو مسلمانوں کے ہاتھ دیکھ چکے تھے۔ وہ جب کوئی سنجیدہ بات کرتے تھے تو نوجوان سپاہی ان کا مذاق اڑاتے تھے۔
ایسی ایک اور رات فارس کے لشکر نے گاتے بجاتے اور پیتے پلاتے گذار دی۔ صبح ابھی سورج نہیں نکلا تھا اور حصید کی خیمہ گاہ میں مدائن کے لشکر کا ایک حصہ سویا ہوا تھا۔ انہیں جاگنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ مسلمان قلعوں میں ہیں اور تعداد میں اتنے تھوڑے کہ وہ باہر آنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ ان سے کچھ دور مسلمانوں نے آکر جو ڈیرے ڈالے تھے وہ واپس چلے گئے ہیں۔ مسلمان ایک شام پہلے وہاں سے آگئے تھے۔
آتش پرستوں کی خیمہ گاہ کے سنتری جاگ رہے تھے یا چند ایک ہ لوگ بیدار تھے جو گھوڑوں کے آگے چارہ ڈال رہے تھے۔ پہلے سنتریوں نے واویلا بپا کیا پھر گھوڑوں کو چارہ وغیرہ ڈالنے والے چلانے لگے۔ … ’’ہوشیار … خبردار … مدینہ کی فوج آکئی ہے۔‘‘ … خیمہ گاہ میں ہڑبونگ مچ گئی۔ سپاہی ہتھیاروں کی طرف لپکے۔ سوار اپنے گھوڑوں کی طرف دوڑے لیکن مسلمان صحرائی آندھی کی مانند آ رہے تھے۔ ان کی تعداد آتش پرستوں کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی تھی لیکن یہ غیرم توقع تھا کہ وہ حملہ کریں گے۔
مسلمانوں کی تعداد صرف پانچ ہزار تھی۔ ان کا سالار قعقاع بن عمرو تھا۔ گذشتہ شام خالدؓ اپنے لشکر سمیت پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے آرام کرنے کی بجائے صورت حال معلوم کی۔ انہوں نے شام کو ان مختصر سے دستوں کو حصید اور خنافس سے واپس بلا لیا تھا۔ اس سے آتش پرستوں کے حوصلے اور بڑھ گئے وہ یہ سمجھے کہ مسلمان ان کے اتنے بڑے لشکر سے مرعوب ہو کر بھاگ گئے ہیں۔
خالدؓ نے دوسرا اقدام یہ کیا کہ پانچ ہزار نفری ایک اور سالار ابولیلیٰ کو دی اور اسے مدائن کے اس لشکر پر حملہ کرنے کو روانہ کیا جو خنافس کے مقام پر خیمہ زن تھا۔
’’تم پر اللہ کی رحمت ہو میرے دوستو!‘‘ … خالدؓ نے ان دونوں سالاروں سے کہا … ’’تم دونوں صبح طلوع ہوتے ہی بیک وقت اپنے اپنے ہدف پر حملہ کرو گے۔ خنافس حصید کی نسبت دور ہے۔ ابولیلیٰ! تجھے تیز چلنا پڑے گا۔ کیا تم دونوں سمجھتے ہو کہ دونوں لشکروں پر ایک ہی وقت کیوں حملہ کرنا ہے؟‘‘
’’اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کو نہ جا سکیں۔‘‘ … قعقاع بن عمرو نے جواب دیا … ’’ابن ولید! تیری اس چال کو ہم ناکام نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
’’فتح اور شکست اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا … ’’تمہارے ساتھ صرف پانچ پانچ ہزار سوار اور پیادے ہیں۔ میں دشمن کی تعداد کو دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ یہ لڑائی نہیں ہو گی‘ یہ چھاپہ ہو گا۔ اتنے بڑے لشکر پر اتنے کم آدمیوں کا حملہ چھاپہ ہی ہوتا ہے … وقت بہت کم ہے میرے رفیقو! جاؤ۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘
خالدؓ خود عین التمر میں اس خیال سے تیاری کی حالت میں رہے کہ عیسائی قبیلے جو ثِنّی اور ذُمَیل میں اکٹھے ہو رہے تھے وہ فارس کے لشکر کے ساتھ جا ملنے کو چلیں تو انہیں وہیں اُلجھا لیا جائے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ خالدؓ کی جنگی ذہانت کا کمال تھا کہ انہوں نے دشمن کی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ اس کا لشکر ابھی چار حصوں میں بٹا ہوا چار مختلف مقامات پر تھا۔ ان چار حصوں کو یکجا ہونا تھا۔ خالدؓ نے ایسی چال چلی کہ چاروں حصے الگ الگ رہیں اور ایک دوسرے کی مدد کو نہ پہنچ سکیں اور ہر ایک کو الگ الگ شکست دی جائے۔
یورپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ کا یہ حکم تھا … ’’دشمن کو تباہ کر دو۔‘‘ … ان مؤرخوں نے اس حکم کا مطلب یہ لیا کہ جنگی قیدی اکٹھے نہ کیے جائیں‘ دشمن کا صفایا کر دو۔ خالدؓ اتنے طاقتور دشمن کی طاقت کو ختم کرنا چاہتے تھے‘ لیکن دیکھنا یہ تھا کہ خالدؓ اتنی تھوڑی اور تھکی ہوئی نفری سے اتنے طاقت ور دشمن کو ختم کر سکتے تھے؟!
…………bnb…………

سالار قعقاع بن عمرو تو وقت پر اپنے ہدف پر پہنچ گئے۔ دشمن کے لیے ان کا حملہ غیر متوقع تھا۔ حصید کی خیمہ گاہ میں ہڑبونگ مچ گئی۔ مسلمان بند توڑ کر آنے والے سیلاب کی مانند آ رہے تھے۔ پانچ ہزار نفری کو سیلاب نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن ان پانچ ہزار کی تندی اور تیزی سیلاب سے کم نہ تھی۔
آتش پرستوں کا سالار روزبہ اس صورت حال سے گھبرا گیا۔ اس نے ایک قاصد کو اپنے اس لشکر کے سالار زرمہر کی طرف جو خنافس میں خیمہ زن تھا‘ اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیا کہ مسلمانوں نے اچانک حملہ کر دیا ہے اور صورت حال مخدوش ہے۔
قاصد بہت تیز وہاں پہنچا۔ فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ سالار زرمہر اپنے ساتھی سالار روزبہ کے اس پیغام پر ہنس پڑا۔ اس نے کہا کہ روزبہ کا دماغ چل گیا ہے‘ مسلمانوں میں اتنی جرأت کہاں کہ باہر آکر حملہ کریں۔ قاصد نے اسے بتایا کہ وہ کیا دیکھ آیا ہے۔ زرمہر اپنے لشکر کو وہاں سے کہیں بھی نہیں لے جا سکتا تھا کیونکہ اس کے سالارِ اعلیٰ بہمن جاذویہ کا حکم تھا کہ کسی اور جگہ کچھ ہی ہوتا رہے‘ کوئی لشکر بغیر اجازت ادھر ادھر نہیں ہو گا‘ لیکن قاصد نے زرمہر کو پریشان کر دیا تھا۔ اس نے بہتر سمجھا کہ لشکر کو خنافس رہنے دے اور خود حصید جا کر دیکھے کہ کیا معاملہ ہے۔
وہ جب حصید پہنچا تو اپنے ساتھی سالار روزبہ کو مشکل میں پھنسا ہوا پایا۔ قعقاع کا حملہ بڑا زور دار ہلہ تھا۔ اس نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا تھا۔ دشمن کو یہ سہولت حاصل تھی کہ اس کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس افراط کے بل بوتے پر آدھا لشکر بڑی عجلت میں لڑنے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔
زرمہر بھی آگیا تھا۔ اس نے روزبہ کا ساتھ دیا۔ توقع یہی تھی کہ آتش پرست مسلمانوں پر چھا جائیں گے۔ قعقاع خالدؓ والی شجاعت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ روزبہ کو للکار رہا تھا۔ روزبہ قلب میں تھا۔ قعقاع کی بار بار للکار پر وہ سامنے آگیا۔ قعقاع اپںے محافظوں کے نرغے میں اس کی طرف بڑھے جا رہے تھے۔ وہ اپنے محافظوں کے حصار سے نکل آیا۔ ادھر قعقاع اپنے محافظوں کو چھوڑ کر آگے ہوا۔
دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیے‘ وار روکے‘ پینترے بدلے اور زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ قعقاع کی تلوار روزبہ کے پہلو میں بغل سے ذرا نیچے اتر گئی۔ قعقاع نے تلوار کھینچ لی اور گھوڑے کو روک کر پیچھے کو موڑا۔ روزبہ گھوڑے پر سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ قعقاع نے پیچھے سے آکر تلوار اس کی پیٹھ میں خنجر کی طرح ماری جو روزبہ کے جسم میں کئی انچ اتر گئی۔ روزبہ گھوڑے سے اس طرح گرا کہ اس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔ قعقاع نے دیکھ لیا اور گھوڑے کو روزبہ کے گھوڑے کے قریب کر کے گھوڑے کو تلوار کی نوک چبھوئی۔ گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑا اور روزبہ کو زمین پر گھسیٹتا اپںے ساتھ ہی لے گیا۔
زرمہر قریب ہی تھا۔ کسی بھی مؤرخ نے اس مسلمان کماندار کا نام نہیں لکھا جس نے زرمہر کو دیکھ لیا اور اسے للکارا۔ زرمہر مقابلے کے لیے سامنے آیا اور اس کا بھی وہی انجام ہوا جو اس کے ساتھی روزبہ کا ہو چکا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اسے اس کے گھوڑے نے گھسیٹا نہیں۔ وہ خون میں لت پت اپںے گھوڑے سے گرا اور مر گیا۔
مدائن کے اس لشکر میں ایک تو کماندار اور سپاہی تھے جو پہلے بھی مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ چکے تھے اور انہیں بے جگری سے لڑتے دیکھ چکے تھے۔ انہیں اپنی شکست کا یقین تھا۔ ان کے حوصلے اور جذبے میں ذرا سی بھی جان نہیں تھی۔ وہ کٹ رہے تھے یا لڑائی سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جاذویہ نے جن نوجوانوں کو بھرتی کیا تھا وہ تیغ زنی‘ تیر اندازی وغیرہ میں تو طاق تھے اور ان میں جوش وخروش بھی تھا لیکن انہوں نے میدان جنگ پہلی بار دیکھا تھا اور مسلمانوں کو لڑتا بھی انہوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ انہوں نے تڑپتے ہوئے اور پیاس سے مرتے ہوئے زخمی کبھی نہیں دیکھے تھے۔ زخم خوردہ گھوڑوں کو لے لگام دوڑتے اور انسانوں کو کچلتے بھی انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اب انہوں نے اتنی غارت گری اور اتنا زیادہ خون دیکھا کہ زمین لال ہو گئی تو انہیں ان پرانے سپاہیوں کی باتیں یاد آنے لگیں جو مسلمانوں سے لڑے اور بھاگے تھے۔اب وہ سپاہی زخمی ہو ہو کر گر رہے تھے یا بھاگ رہے تھے۔نوجوانوں کے حوصلے جواب دے گئے۔تلواروں اور برچھیوں پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔
آتش پرستوں کے لشکر کا حوصلہ تو پہلے ہی ٹوٹ رہا تھا انہوں نے جب وہ نعرے سنے تو وہ فرار کا راستہ دیکھنے لگے۔
’’خدا کی قسم!‘‘ …یہ کسی مسلمان کا نعرہ تھا۔ … ’’زرتشت کے پجاریوں کے دونوں سالار مارے گئے ہیں۔‘‘ … یہ للکار بلند ہوتی چلی گئی۔
پھر دشمن کے اپنے سپاہیوں نے چلّانا شروع کر دیا۔ … ’’روزبہ اور زرمہر ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ یہ بھی للکار سنائی دی۔ … ’’خالدبن ولیدآگیا ہے … خالد بن ولید کا لشکر آگیا ہے۔‘‘
اس نعرے نے مدائن کے لشکر کا رہا سہا دم خم بھی ختم کر دیا اور لشکر بکھر کرفرداًفرداً بھاگ اٹھا۔بھاگنے والوں کا رخ خنافس کی طرف تھا جہاں مدائن کے لشکرکا دوسرا حصہ خیمہ زن تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages