Featured Post

Khalid001

17 September 2019

Khalid088


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  88
سالار ابولیلیٰ نے بلال بن عقہ کے متعلق معلوم کیا۔پتہ چلا کہ وہ ایک روز پہلے یہاں سے نکل گیا تھا۔یہ بھی پتا چلا لیا گیا کہ ذومیل سے تھوڑی دور رضاب نام کی ایک بستی ہے جس میں عیسائیوں کی خاصی تعداد جمع ہو گئی ہے اور ان کے ساتھ مدائن کی فوج کے ایک دو دستے بھی ہیں۔
خالدؓ نے دو حکم دیئے۔ ایک یہ کہ ثنّی سے مالِ غنیمت اوردشمن کی عورتوں اور بچوں کو ذومیل لایا جائے ۔ دوسرا حکم یہ کہ فوری طور پر رضاب پر حملہ کیا جائے،آتش پرستوں کا لڑنے کا جذبہ تو جیسے بالکل سرد پڑ گیا تھا۔
مسلمان تین اطراف سے رضاب پر حملہ آور ہوئے لیکن یہ گھونسہ ہوا میں لگا۔ رضاب بالکل خالی تھا۔ پتہ چلتا تھا کہ یہاں فوج موجود رہی ہے لیکن اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ اپنے باپ عقہ بن ابی عقہ کا بیٹا بلال بھی لا پتا تھا۔ فوج کا ایک سوار دستہ دوردور تک گھوم آیا۔ دشمن کا کہیں نام و نشان نہیں ملا۔ آخر فوج واپس آگئی۔
ثنّی کی عورتیں ذومیل لائی جا چکی تھیں۔ مالِ غنیمت بھی آگیا۔ خالدؓنے خلافتِ مدینہ کا حصہ الگ کرکے باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ ابولیلیٰ نے صابحہ کو بلایا۔
بلال بن عقہ یہاں سے بھی بھاگ گیا ہے۔‘‘ … ابولیلیٰ نے اسے کہا۔ … ’’اس نے اپنے باپ کے خون کا انتقام لینا ہوتا تو یوں بھاگانہ پھرتا۔کیا اب بھی تو اس کا انتظار کرے گی؟‘‘
’’میں اپنی مرضی سے تو کچھ بھی نہیں کرسکتی۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔
ابولیلیٰ خالدؓ سے بات کر چکے تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس لڑکی کی خوبصورتی اور جوانی کو دیکھ کر سب کا خیال یہ تھا کہ خالدؓ اس سے شادی کر لیں گے۔ صابحہ کی یہ خواہش بھی پوری ہو سکتی تھی کہ وہ سب سے زیادہ بہادر اور بے خوف آدمی کی بیوی بننا چاہتی ہے لیکن خالدؓ نے کہا کہ مجھ سے زیادہ بہادر موجود ہیں۔ چنانچہ خالدؓ نے اس پیغام کے ساتھ مالِ غنیمت اور عورتیں مدینہ کو روانہ کر دیں۔
جو دستہ مالِ غنیمت کے ساتھ بھیجا گیا اس کے کماندار نعمان بن عوف شیبانی تھے۔انہوں نے صابحہ کے متعلق مدینہ میں بتایا کہ یہ لڑکی کون ہے۔کیسی ہے اور اس کی خواہش کیا ہے۔
مؤرخوں کے مطابق صابحہ کو حضرت علیؓ نے خرید لیا۔ صابحہ نے بخوشی اسلام قبول کر لیا اور حضرت علیؓ نے اس کے ساتھ شادی کرلی۔ حضرت علیؓ کے صاحبزادے عمر اور صاحبزادی رقبعہ صابحہ کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔
…………bnb…………

مدائن میں کسریٰ کے محل پہلے کی طرح کھڑے تھے۔ان کے درودیوار پر خراش تک نہ آئی تھی۔ان کا حسن ابھی جوان تھا لیکن ان پر ایسا تاثر طاری ہو گیا تھا جیسے یہ کھنڈر ہوں۔ایران کی اب کوئی رقاصہ نظر نہیں آتی تھی۔رقص و نغمہ کی محفلیں اب سوگوار تھیں۔یہ وہی محل تھا جہاں سے انسانوں کی موت کے پروانے جاری ہوا کرتے تھے۔یہاں کنواریوں کی عصمتیں لٹتی تھیں۔رعایا کی حسین بیٹیوں کو زبردستی نچایا جاتا تھا۔
عرب کے جو مسلمان عراق میں آباد ہو گئے تھے انہیں فارس کے شہنشاہوں نے بھیڑ بکریاں بنا دیاتھا۔عراق فارس کی سلطنت میں شامل تھا۔مسلمانوں کو آتش پرستوں نے دجلہ اور فرات کے سنگم کے دلدلی علاقے میں رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ان کی فصل ان کے خون پسینے کی کمائی اور ان کے مال و اموال پر ان کا کوئی حق نہ تھا۔حد یہ کہ مسلمانوں کی بیٹیوں بہنوں اور بیویوں پر بھی ان کا حق نہیں رہا تھا۔کسریٰ کا کوئی حاکم کسی بھی مسلمان خاتون کو جب چاہتا زبردستی اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔
یہی وہ حالات ہوتے ہیں جو مثنیٰ بن حارثہ جیسے مجاہدین کو جنم دیا کرتے ہیں،مثنیٰ بن حارثہ کو پکڑ کر قتل کردینے کا حکم انہی محلات میں سے جاری ہوا تھااور اب ان محلات میں یہ خبر پہنچی تھی کہ مدینہ کے مسلمانوں کا لشکر فارس کی سرحد میں داخل ہو گیا ہے تو یہاں سے فرعونوں جیسی آواز اٹھی تھی کہ عرب کے ان بدوؤں کو یہ جرات کیسے ہوئی … تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ فرعونوں کے ان محلات میں موت کا سناٹا طاری تھا۔ان کا کوئی سالار مسلمانوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکا تھا،نامی گرامی سالار مارے گئے تھے اور جو بچ گئے تھے وہ بھاگے بھاگے پھر رہے تھے۔
’’مدائن کو بچاؤ۔‘‘ … اب کسریٰ کے محلات سے بار بار یہی آواز اٹھتی تھی۔
’’مدائن مسلمانوں کا قبرستان بنے گا۔‘‘ … یہ آواز ہارے ہوئے سالاروں کی تھی۔ … ’’وہ مدائن پر حملے کی جرات نہیں کریں گے۔‘‘
’’کیا تم اب بھی اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہو؟‘‘ … کسریٰ کا جانشین کہہ رہا تھا۔ … ’’کیا وہ مدائن تک آنے کی جرات نہیں کریں گے جنہوں نے چند دنوں میں چار میدان اس طرح مار لیے ہیں کہ ہماری تجربہ کار فوج کو ختم کر ڈالا ہے؟ ہماری فوج میں رہ کیا گیا ہے؟ ڈرے ہوئے شکست خوردہ سالار اور اناڑی نوجوان سپاہی … کیا کوئی عیسائی زندہ رہ گیا ہے؟ … مدائن کو بچاؤ۔‘‘
خالدؓ کی منزل مدائن ہی تھی،مدائن فارس کی شہنشاہی کا دل تھا لیکن مدائن پر شب خون نہیں مارا جا سکتا تھا۔خالدؓجانتے تھے کہ مدائن کوبچانے کیلئے کسریٰ ساری جنگی طاقت داؤ پر لگا دیں گے اور خالدؓ یہ بھی جانتے تھے کہ غیر مسلموں خصوصاًعیسائیوں کے چھوٹے چھوٹے قبیلے ہیں جو کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے۔خطرہ تھا کہ آتش پرست ان قبیلوں کو اپنے ساتھ ملا لیں گے اور مدائن کے اردگرد انسانوں کی بڑی مضبوط دیوار کھڑی ہو جائے گی۔اس خطرے سے نمٹنے کیلئے ضروری تھا کہ ان قبیلوں کو اپنا وفادار بنا لیا جائے۔اس مقصد کیلئے خالدؓ نے اپنے ایلچی مختلف قبیلوں کے سرداروں سے ملنے کیلئے روانہ کر دیئے صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ یہ لوگ سوچتے کیا ہیں اور ان کا رجحان کیا ہے۔
…………bnb…………

’’ان قبیلوں پر ہماری دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘ … ایک جاسوس نے خالدؓ کو تفصیلی اطلاع دی۔ … ’’وہ اپنی عورتوں اور اموال کی وجہ سے پریشان ہیں۔انہیں کسریٰ پر بھروسہ نہیں رہا۔‘‘
’’… اور وہ نوشیرواں عادل کے دور کو یاد کرتے ہیں۔‘‘ … ایک ایلچی نے آکر بتایا۔ … ’’وہ مدائن کی خاطر لڑنے پر آمادہ نہیں۔انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ بنی تغلب، نمر اور ایاد۔ جیسے بڑے اور جنگجو قبیلوں کا کیا انجام ہوا ہے۔‘‘
’’وہ اطاعت قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘‘ … ایک اور ایلچی نے بتایا۔ … ’’بشرطیکہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور محصولات کیلئے انہیں مفلس اور کنگال نہ کر دیاجائے۔‘‘
’’خداکی قسم!وہ مانگیں گے ہم انہیں دیں گے۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’کیا انہیں کسی نے بتایا نہیں کہ ہم زمین پر قبضہ کرنے اور یہاں کے انسانوں کو غلام بنانے نہیں آئے؟ … بلاؤ … ان سب کے سرداروں کو بلاؤ۔‘‘ایک دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓنے عراق کے طول و عرض میں جگہ جگہ حملے کرکے اور شب خون مار کر تمام قبیلوں کو اپنا مطیع بنا لیا تھا۔یہ صحیح نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جو زیادہ تر مؤرخوں نے بیان کی ہے کہ خالدؓ نے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ان قبیلوں کو اپنا اتحادی بنا لیا تھا،ان کے اطاعت قبول کرنے میں خالدؓکی دہشت بھی شامل تھی۔یہ خبر صحرا کی آندھی کی طرح تما م تر قبیلوں کو پہنچ گئی تھی کہ مسلمانوں میں کوئی ایسی طاقت ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں ٹھہر سکتی۔
ایرانیوں کے متعلق بھی انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ ہر میدان میں انہوں نے مسلمانوں سے شکست کھائی ہے اور عیسائیوں کو آگے کر کے خود بھاگ کر آتے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ایرا ن کے بادشاہوں اور ان کے حاکموں نے انہیں زرخرید غلام بنائے رکھا اور ان کے حقوق بھی غصب کیے تھے۔
خالدؓ نے ان کے ساتھ دوستی کے معاہدے کرکے ان سے اطاعت بھی قبول کروا لی اور انہی میں سے عمال مقررکرکے محصولات وغیرہ کی فراہمی کا بندوبست کر دیا۔انہیں مذہبی فرائض کی ادائیگی میں پوری آزادی دی۔ان لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ مسلمان ان کی اتنی خوبصورت عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔خالدؓنے ان کے ساتھ معاہدے میں یہ بھی شامل کرلیا کہ مسلمان ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔
’’ولید کے بیٹے!‘‘ … ایک قبیلے کے بوڑھے سردار نے خالدؓ سے کہا تھا۔ … ’’نوشیرواں عادل کے دور میں ایسا ہی انصاف تھا۔یہ ہمیں بڑی لمبی مدت بعد نصیب ہوا ہے۔‘‘
…………bnb…………

خالدؓنے دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔آگے عراق (فارس کے زیرنگیں) کی سرحد ختم ہوتی اور رومیوں کی سلطنت شروع ہوتی تھی۔ شام پر رومیوں کا قبضہ تھا۔ خالدؓنے بڑے خطرے مول لیے تھے مگر یہ خطرہ جس میں وہ جا رہے تھے ،سب سے بڑا تھااور مسلمانوں کی فتوحات پر پانی پھیر سکتا تھا۔یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یکے بعد دیگرے اتنی زیادہ فتوحات نے خالدؓ کا دماغ خراب کر دیا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ حقائق کا جائزہ لے کر سوچتے تھے ۔ان کا کوئی قدم بلاسوچے نہیں اٹھتا تھا۔
’’خدا کی قسم!ہم نے مدینہ کو زرتشت کے پجاریوں سے محفوظ کر لیا ہے۔‘‘ … خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔ … ’’اب ایسا خطرہ نہیں رہا کہ وہ ہماری خلافت کے مرکز پر حملہ کریں گے۔‘‘
’’کیا یہ اﷲکا کرم نہیں کہ فارسیوں کو اب اپنے مرکز کا غم لگ گیا ہے؟‘‘ … سالار قعقاع نے کہا۔ … ’’وہ اب عرب کی طرف دیکھنے سے بھی ڈریں گے۔‘‘
’’لیکن سانپ ابھی مرا نہیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اگر ہم یہیں سے واپس چلے گئے تو کسریٰ کی فوج پھر اٹھے گی اور یہ علاقے واپس لینے کی کوشش کرے گی جو ہم نے فارسیوں سے چھین لیے ہیں،ہمیں ان کے راستے بند کرنے ہیں … اور میرے بھائیو! کیا تم میں سے کسی نے ابھی سوچا نہیں کہ آتش پرستوں کے پہلو میں رومی ہیں، اگر رومیوں میں کچھ عقل ہے تو وہ اس صورتِ حال سے جو ہم نے عراق میں پیدا کر دی ہے، فائدہ اٹھائیں گے۔ وہ آگے بڑھیں گے اور اگر وہ کامیاب ہو گئے تو عرب کیلئے وہی خطرہ پیدا ہو جائے گا جو اس سے پہلے ہمیں زرتشت کے پجاریوں سے تھا۔‘‘
خالدؓنے زمین پر انگلی سے لکیریں کھینچ کر اپنے سالاروں کو بتایا کہ وہ کون سا راستہ ہے جس سے رومی آسکتے ہیں،اور وہ کون سا مقام ہے جہاں قبضہ کرکے ہم اس راستے کو بندکر سکتے ہیں۔
وہ مقام فراض تھا۔ یہ شہر فرات کے مغربی کنارے پر واقع تھا۔وہاں پر رومیوں اور فارسیوں کی یعنی شام اور عراق کی سرحدیں ملتی تھیں۔عراق کے زیادہ تر علاقے پر اب مسلمان قابض ہو گئے تھے۔یہی علاقے خطرے میں تھے۔فراض سے خشکی کے راستے کے علاوہ رومی یا فارسی دریائی راستہ بھی اختیار کر سکتے تھے۔مشہور یورپی مؤرخ لین پول اور ہنری سمتھ جو جنگی امور پر زیادہ نظر رکھتا تھا ،لکھتے ہیں کہ خالدؓ نہ صرف میدانِ جنگ میں دشمن کو غیر متوقع چالیں چل کر شکست دینے کی اہلیت رکھتے تھے بلکہ جنگی تدبر بھی ان میں موجود تھا اور ان کی نگاہ دور دور تک دیکھ سکتی تھی۔ وہ آنے والے وقت کے خطروں کو پہلے ہی بھانپ لیا کرتے تھے۔
خالدؓ جب فراض کی طرف کوچ کر رہے تھے اس وقت ایک خطرے سے وہ آگاہ نہیں تھے،وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ دشمن فوجوں کے درمیان آجائیں گے۔
…………bnb…………

رومیوں کے دربار میں ایسی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جن میں ضروری پن تھا، اور صاف پتا چلتا تھا کہ کوئی ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔تخت شاہی کے سامنے رومی فوج کے بڑے بڑے جرنیل بیٹھے تھے۔
’’خبر ملی ہے کہ مسلمان فراض تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا ارادہ کیا ہے۔‘‘
’’وہ کسی اچھے ارادے سے تو نہیں آئے … کیا آپ کو فارسیوں کے متعلق کوئی خبر نہیں ملی؟‘‘
’’ان کے پاس مدائن کے سوا کچھ نہیں رہا۔‘‘
’’پھر ہمیں انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ پیشتر اس کے کہ مسلمان ہمارے ملک میں داخل ہو جائیں ہمیں ان پر حملہ کر دینا چاہیے۔‘‘
’’کیا تم سے بڑھ کر کوئی احمق ہماری فوج میں کوئی اور ہو گا؟کیا تم نے سنا نہیں کہ فارس کی فوج کو اور ان کے ساتھی ہزار ہا عیسائیوں کو ان مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ ہر جگہ شکست دی ہے بلکہ ان کے نامور جرنیلوں کواورہزاروں سپاہیوں کو مار ڈالا ہے؟‘‘
’’آپ نے ٹھیک کہا ہے۔یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مدینہ والوں کے لڑنے کا طریقہ کیا ہے۔‘‘
’’ بہت ضروری ہے دیکھنا۔جو اتنی تھوڑی تعداد میں اتنی زیادہ تعداد کو شکست دے کر ختم کر چکے ہیں، ان کا کوئی خاص طریقہ جنگ ہو گا، ہم بھی فارس کی فوج کے خلاف لڑ چکے ہیں، یہ صحیح ہے کہ ہم نے فارسیوں کو شکست دی تھی لیکن ہماری فوج کی نفری ان سے زیادہ تھی۔‘‘
’’اب میرا فیصلہ سن لو۔ہم فارسیوں کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے۔‘‘
’’فارسیوں کو ساتھ ملا کر؟کیا ہیمں یہ بھول جانا چاہیے کہ فارسیوں کے ساتھ ہماری دشمنی ہے؟ہماری آپس میں جنگیں ہو چکی ہیں۔‘‘
’’ہاں!ہمیں بھول جانا چاہیے۔مسلمان ان کے اور ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔ایسے دشمن کو شکست دینے کیلئے اپنے دشمن کو دوست بنالینا دانشمندی ہوتی ہے۔ہم فارسیوں کی طرح شکست نہیں کھانا چاہتے۔اگر فارسی ہمارے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیتے ہیں تو ان کے ساتھ عیسائی قبیلے بھی آجائیں گے۔‘‘
اس فیصلے کے مطابق رومیوں کا ایلچی دوستی کا پیغام لے کر مدائن گیا تو آتش پرستوں نے بازو پھیلا کر ایلچی کا استقبال کیا۔تحائف کا تبادلہ ہوا اور ایلچی کے ساتھ معاہدے کی شرطیں طے ہو گئیں۔فارس والوں کو اپنا تخت الٹتا نظر آرہا تھا۔رومیوں کے اس پیغام کو انہوں نے غیبی مدد سمجھا۔
مدائن کے دربار سے ان تمام عیسائی قبیلوں کے سرداروں کو بلاوابھیجا گیا۔یہ وہی تین قبیلے بنی تغلب، نمر اور ایاد تھے جو مسلمانوں سے بہت بری شکست کھا چکے تھے۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ انہیں جوں ہی اطلاع ملی تو وہ فوراًمدائن پہنچے۔وہ اپنے ہزار ہا مقتولین کا انتقام لینا چاہتے تھے اور وہ اسلام کے پھیلاؤ کو بھی روکنا چاہتے تھے۔ ان قبیلوں میں جو لڑنے والے تھے وہ مسلمانون کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے ۔جواں سال آدمی بہت کم رہ گئے تھے۔اب اکثریت ادھیڑ عمرلوگوں کی تھی۔
خالدؓ کا فراض کی طرف کوچ ان کی خود سری کا مظاہرہ تھا۔امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں صرف فارس والوں سے لڑنے کی اجازت دی تھی۔امیر المومنینؓ کو یہ بھی توقع نہیں تھی کہ اپنی اتنی کم فوج فارس جیسی طاقتور فوج کو شکست دے گی لیکن امیرالمومنینؓ ایسا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے کہ اتنی لڑائیاں لڑکر رومیوں سے بھی ٹکر لی جائے،رومیوں کی فوج فارسیوں کی فوج سے بہتر تھی۔
یہ خالدؓ کا اپنا فیصلہ تھا، کہ فراض کے مقام پر جا کر رومیوں اور فارسیوں کی ناکہ بندی کردی جائے۔ خالدؓ چَین سے بیٹھنے والے سالار نہیں تھے۔اس کے علاوہ وہ رسول کریمﷺ کے جنگی اصولوں کے شائق تھے۔ مثلاًیہ کہ دشمن کے سر پر سوار رہو۔اگر دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے تو اس کے حملے کا انتظار نہ کرو۔ آگے بڑھو اور حملہ کردو۔ خالدؓنے اپنے آپ پر جہادکا جنون طاری کر رکھا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages