Featured Post

Khalid001

17 September 2019

Khalid089


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  89
جب خالدؓ کے جاسوسوں نے انہیں اطلاعیں دینی شروع کیں تو خالدؓکے چہرے پر سنجیدگی طاری ہو گئی ۔انہیں پتا چلا کہ وہ دو فوجوں کے درمیان آگئے ہیں۔ ایک طرف رومی اور دوسری طرف فارسی اور ان کے ساتھ عیسائی قبیلوں کے لوگ بھی تھے۔خالدؓ کے ساتھ نفری پہلے سے کم ہو گئی تھی کیونکہ جو علاقے انہوں نے فتح کیے تھے وہیں اپنی کچھ نفری کا ہونا لازمی تھا۔بغاوت کا بھی خطرہ تھااور آتش پرست فارسیوں کے جوابی حملے کابھی۔
خالدؓ فراض میں رمضان۱۲ھ (دسمبر ۶۳۳ء کے پہلے) ہفتے میں پہنچے تھے۔ مجاہدین روزے سے تھے۔
مسلمانوں کی فوج دریائے فرات کے ایک کنارے پر خیمہ زن تھی۔دوسرے کنارے پر بالکل سامنے رومی، ایرانی او رعیسائی پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔دونوں طرف کے سنتری فرات کے کناروں پر ہر وقت پہرے پر کھڑے رہتے اور گشتی سنتری گھوڑوں پر سوار دریا کے کناروں پر پھرتے رہتے تھے۔خود خالدؓ دریا کے کنارے دور تک چلے جاتے اور دشمن کو دیکھتے تھے۔
ایک شام رومیوں اور ایرانیوں کی خیمہ گاہ میں ہڑبونگ مچ گئی، اور وہ لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔وجہ یہ ہوئی کہ مسلمانوں کے کیمپ سے ایک شور اٹھا تھااور دف اور نقارے بجنے لگے تھے۔تمام فوج اچھل کود کررہی تھی،دشمن اسے حملے سے پہلے کا شور سمجھا۔اس کے سالار وغیرہ فرات کے کنارے پر آکر دیکھنے لگے۔
’’ان کے گھوڑے زینوں کے بغیر بندھے ہوئے ہیں۔‘‘ … دشمن کے کسی آدمی نے چلا کر کہا۔
’’وہ تیاری کی حالت میں نہیں ہیں۔‘‘ … کسی اور نے کہا۔
’’وہ دیکھو!‘‘ … ایک اور نے کہا۔ … ’’آسمان کی طرف دیکھو۔مسلمانوں نے عیدکا چاند دیکھ لیا ہے ۔آج رات اور کل سارا دن یہ لوگ خوشیاں منائیں گے۔‘‘
اگلے روز مسلمانوں نے ہنگامہ خیز طریقے سے عیدالفطر کی خوشیاں منائیں۔ اسی خوشی میں فتوحات کی مسرتیں بھی شامل تھیں۔مسلمان جب عید کی نمازکیلئے کھڑے ہوئے تو دریا کے کنارے اور کیمپ کے اردگرد سنتریوں میں اضافہ کردیا گیا تاکہ دشمن نماز کی حالت میں حملہ نہ کر سکے۔
’’مجاہدینِ اسلام!‘‘ … خالدؓ نے نماز کے بعد مجاہدین سے مختصرسا خطاب کیا۔ … ’’نماز کے بعد ایسے انداز سے اس تقریب ِ سعید کی خوشیاں مناؤ کہ دشمن یہ تاثر لے کہ مسلمانوں کو کسی قسم کا اندیشہ نہیں اور انہیں اپنی فتح کا پورا یقین ہے۔ دریاکے کنارے جاکر ناچوکودو،تم نے جس طرح دشمن پر اپنی تلوار کی دھاک بٹھائی ہے، اس طرح اس پر اپنی خوشیوں کی دہشت بٹھا دو۔لیکن میرے رفیقو! اس حقیقت کو نہ بھولنا کہ تم اﷲکی طرف سے آئی ہوئی ایک سے ایک کٹھن آزمائش میں پورے اترے ہو ،مگر اب تمہارے سامنے سب سے زیادہ کٹھن اور خطرناک آزمائش آگئی ہے۔تمہارا سامنا اس وقت کی دو طاقتور فوجوں سے ہے جنہیں عیسائیوں کی مدد بھی حاصل ہے۔میں جانتا ہوں تم جسمانی طور سے لڑنے کے قابل نہیں رہے۔ لیکن اﷲنے تمہیں روح کی جو قوتیں بخشی ہیں انہیں کمزور نہ ہونے دینا، کیونکہ تم ان قوتوں کے بل پر دشمن پر غالب آتے چلے جا رہے ہو۔میں بتا نہیں سکتا کہ کل کیا ہوگا۔ ہر خطرے کیلئے تیار رہو۔اﷲتمہارے ساتھ ہے۔‘‘
خالدؓکے خاموش ہوتے ہی مجاہدین کے نعروں نے ارض و سما کو ہلا ڈالا۔پھر سب دوڑتے کودتے دریا کے کنارے جا پہنچے۔انہوںنے دریا کے کنارے گھوڑے بھی دوڑائے اور ہر طرح عید کی خوشی منائی۔
…………bnb…………

خالدؓ کے سالاروں کو توقع تھی کہ خالدؓ بن ولید یہاں بھی شب خون کی سوچ رہے ہوں گے۔خالدؓ نے اتنے دن گزر جانے کے باوجود بھی سالاروں کو نہیں بتایا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ایک مہینہ گزر چکا تھا۔فوجیں آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔آخر خالدؓ نے اپنے سالاروں کو مشورے تجاویز اور احکام کیلئے بلایا۔
’’میرے رفیقو!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’شاید تم یہ سوچ رہے ہو گے کہ یہاں بھی شب خون مارا جائے گالیکن تم دیکھ رہے ہو کہ یہاں صورتِ حال شب خون والی نہیں۔ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم ہمیشہ قلیل تعداد میں لڑے ہیں لیکن یہاں ہمارے درمیان دریا حائل ہے۔ دشمن اس دریا سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ دشمن اتنی زیادہ تعداد کے باوجود ہم پر حملہ نہیں کر رہا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احتیاط سے کام لے رہا ہے۔ ہمارے لیے بہتر یہ ہے کہ اس کی احتیاط کو ہم اور طول دیں اور حملے میں پہل نہ کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ حملے میں پہل وہ کرے۔ اگر تم کوئی مشورہ دینا چاہو تو میں اس پر غور اور عمل کروں گا۔‘‘
تقریباً تمام سالاروں نے متفقہ طور پر کہا کہ ہم پہل نہ کریں اور کوئی ایسی صورت پیدا کریں کہ دشمن دریا عبور کرآئے۔کچھ دیر سالاروں نے بحث و مباحثہ کیا اور ایک تجویز پر متفق ہو گئے،اور اسی روز اس پر عمل شروع کر دیا گیا۔اس کے مطابق کوئی ایک دستہ تیار ہو کر دریا کے ساتھ کسی طرف چل پڑتا۔دشمن یہ سمجھتا کہ مسلمان کوئی نقل و حرکت کر رہے ہیں چنانچہ اسے بھی اس کے مطابق کوئی نقل و حرکت یا پیش بندی کرنی پڑتی۔
یہ سلسلہ پندرہ سولہ دن چلتا رہا۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رومی مسلمانوں کی ان حرکات سے تنگ آگئے۔وہ پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف کسی میدان میں نہیں لڑے تھے،ان کے سالاروں کے ذہنوں پر یہ بات آسیب کی طرح سوار ہو گئی تھی کہ جس قلیل فوج نے فارسیوں جیسی طاقت ور فوج کو ہلنے کے قابل نہیں چھوڑا، وہ فوج کوئی خاص داؤ چلتی ہے جسے ان کے سوا کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔
پہلے کہا جا چکا ہے کہ خالدؓ دشمن پر نفسیاتی وار کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔اس صورتِ حال میں بھی انہوں نے رومیوں کو تذبذب میں مبتلا کرکے ان کے ذہنوں پر ایسا نفسیاتی اثر ڈالا کہ وہ نہ کچھ سمجھنے کے اور نہ کوئی فیصلہ کرنے کے قابل رہے۔
…………bnb…………

۲۱ جنوری ۶۳۴ء (۱۵ ذیقعد ۱۲ھ) کے روز دشمن اس قدر تنگ آگیا کہ کے ایک سالار نے دریا کے کنارے کھڑے ہوکر بڑی بلند آواز سے مسلمانوں سے کہا۔ … ’’کیا تم دریا پار کرکے ادھر آؤ گے یا ہم دریا پار کرکے اُدھر آجائیں؟لڑنا ہے تو سامنے آؤ۔‘‘
’’ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہیں۔‘‘ … خالدؓ بن ولید نے اعلان کروایا۔ … ’’ہم سے ڈرتے کیوں ہو؟تمہاری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تمہیں ہم سے پوچھے بغیر ادھر آجانا چاہیے۔‘‘
’’پھر سنبھل جاؤ۔‘‘ … دشمن کی طرف سے للکار سنائی دی۔ … ’’ہم آرہے ہیں۔‘‘
دشمن نے دریا عبور کرنا شروع کر دیا۔خالدؓ نے اپنے مجاہدین کو دریا کے کنارے سے ہٹا کر کچھ دور لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔حسبِ معمول ان کی فوج تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی،اور خالدؓ خود درمیانی حصے کے ساتھ تھے۔جنگی مبصروں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے دشمن کیلئے اتنی زیادہ جگہ خالی کردی کہ دشمن اور اس کے پیچھے دریا، ان دونوں کے درمیان اتنی جگہ خالی رہے کہ اس کے عقب میں جانا پڑے تو جگہ مل جائے ورنہ دریا ان کے عقب کی حفاظت کرتا۔
جب دشمن میدان میں آگیا تو رومی جرنیلوں نے فارسیوں اور عیسائیوں کے لشکر کو ان کے قبیلوں کے مطابق تقسیم کر دیا۔انہوں نے ایرانی سالاروں سے کہا … ’’اس تقسیم سے یہ پتہ چل جائے گا کہ کون کس طرح لڑا ہے؟ بھاگنے والوں کے قبیلے کا بھی علم ہو جائے گا۔‘‘
یہ تقسیم اس طرح ہوئی کہ رومی الگ ہو گئے، مدائن کی فوج ان سے کچھ دور الگ ہو گئی، اور عیسائیوں کے قبیلے مدائن کی فوج سے الگ اور ہر قبیلہ ایک دوسرے سے الگ الگ ہو گیا۔رومی جرنیلوں نے (مؤرخوں کے مطابق) یہ تقسیم اس لیے بھی کی تھی کہ مسلمانوں کو بھی اس تقسیم کے مطابق اپنی تقسیم کرنی پڑے گی جس کے نتیجے میں وہ بکھر جائیں گے اور انہیں آسانی سے شکست دی جا سکے گی۔
’’میرے رفیقو!‘‘ … خالدؓ نے دشمن کو اس طرح تقسیم ہوتے دیکھ کر اپنے سالاروں کو بلایا اور ان سے کہا۔ … ’’خدا کی قسم !دشمن خود احمق ہے یا ہمیں احمق سمجھتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ دشمن نے اپنی جمعیت کو کس طرح بکھیر دیا ہے؟‘‘
’’دشمن نے ہمارے لیے مشکل پیدا کر دی ہے ابنِ ولید!‘‘ … سالار قعقاع بن عمرو نے کہا۔ … ’’اس کے مطابق ہمیں بھی بکھرنا پڑے گا۔پھر ایک ایک کا مقابلہ دس دس کے ساتھ ہو گا۔‘‘
’’دماغوں کو روشنی دینے والا اﷲ ہے۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’ہم آمنے سامنے کی لڑائی نہیں لڑیں گے۔سوار دستوں کے سالار سن لیں ۔فوراًسوار دو حصوں میں تقسیم ہو کر دشمن کے دائیں اور بائیں چلے جائیں۔ پیادے بھی ان کے ساتھ رہیں اور دائیں اور بائیں پہنچ کر عقب میں جانے کی کوشش کریں۔ میں اپنے دستوں کے ساتھ دشمن کے سامنے رہوں گا، دشمن پر ہر طرف سے شدید حملہ کر دو۔ دشمن ابھی لڑائی کیلئے تیار نہیں ہوا۔ چاروں طرف سے دشمن پر ایسا حملہ کردو کہ اس کی تقسیم درہم برہم ہو جائے۔ اﷲکا نام لو اور نکل جاؤ۔‘‘
…………bnb…………

رومی ایرانی اور عیسائی تقسیم تو ہو گئے تھے لیکن ابھی لڑائی کیلئے تیار نہیں ہوئے تھے۔ خالدؓکے اشارے پر مسلمانوں نے ہر طرف سے حملہ کر دیا۔دشن پر جب حملے کے ساتھ ہر طرف سے تیر برسنے لگے تو اس کے بٹے ہوئے حصے اندر کی طرف ہونے لگے اور ہوتے ہوتے وہ ہجوم کی صورت میں یکجا ہو گئے۔ مسلمان سواروں نے تھوڑی سی تعداد میں ہوتے ہوئے اتنے کثیر دشمن کو گھیرے میں لے لیا۔ دشمن کی حالت ایک گھنے ہجوم کی سی ہو گئی جس سے گھوڑوں کے گھومنے پھرنے کیلئے جگہ نہیں رہی۔ ایرانی اور عیسائی پہلے ہی مسلمانوں سے ڈرے ہوئے تھے،وہ چھپنے یا پیچھے ہٹنے کے انداز سے رومی دستوں کے اندر چلے گئے اور انہیں حرکت کے قابل نہ چھوڑا۔
مسلمان سواروں نے دوڑتے گھوڑوں سے دشمن کے اس ہجوم پر تیر برسائے جیسے دشمن کی اتنی بڑی تعداد اور زیادہ سمٹ گئی۔اس کیفیت میں پیادہ مجاہدین نے ہلّہ بول دیا۔عقب سے حملہ ایک سوار دستے نے کیا۔ خالد ؓنے اپنے تمام سوار دستوں کو ایک ہی بار حملے میں نہ جھونک دیا۔ دستے باری باری حملے کرتے تھے۔
خالدؓ نے ایسی چال چلی تھی کہ لڑائی کی صورت لڑائی کی نہ رہی بلکہ یہ رومیوں‘ آتش پرستوں اور عیسائیوں کا قتل عام تھا۔ رومیوں نے دفاعی لڑائی لڑنے کی کوشش کی لیکن میدانِ اُس کے زخمیوں اور اُس کی لاشوں سے بھر گیا۔ سپاہیوں کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور وہ میدان سے بھاگنے لگے۔
’’پیچھے جاؤ۔‘‘ … خالدؓ نے حکم دیا۔ … ’’ان کے پیچھے جاؤ۔ کوئی زندہ بچ کر نہ جائے۔‘‘
مجاہدین نے تعاقب کرکے بھاگنے والوں کو تیروں اور برچھیوں سے ختم کیا اور معرکہ ختم ہو گیا۔تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس معرکے میں ایک لاکھ رومی، ایرانی اور عیسائی مارے گئے تھے۔ایک بہت بڑی اتحادی فوج ختم ہو گئی، مسلمانوں کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔
خالدؓ دس روز وہیں رہے، انہوں نے بڑی تیزی سے وہاں کا انتظامی ڈھانچہ مکمل کیا۔ ایک دستہ وہاں چھوڑا، اور ۳۱ جنوری ۶۳۴ء (۲۵ ذیقعد ۱۲ھ) کے روز لشکر کو حیرہ کی طرف کوچ کا حکم دیا۔
…………bnb…………

’’کیا تم دیکھ نہیں رہے، ابنِ ولید چپ سا ہو گیا ہے؟‘‘ … ایک سالار اپنے ساتھی سالار سے کہہ رہا تھا۔ … ’’خدا کی قسم!میں نہیں مانوں گا کہ ابنِ ولید تھک گیا ہے یا مسلسل معرکوں سے اُکتا گیا ہے۔‘‘
’’اور میں یہ بھی نہیں مانوں گا کہ ابنِ ولید ڈر گیا ہے کہ وہ اپنے مستقر سے اتنی دور دشمن ملک کے اندر آگیا ہے۔‘‘ … دوسرے سالار نے کہا۔ … ’’لیکن میں اسے کسی سوچ میں ڈوبا ہوا ضرور دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’ہاں وہ کچھ اور سوچ رہا ہے۔‘‘
’’پوچھ نہ لیں؟‘‘
’’ہم نہیں پوچھیں گے تو اور کون پوچھنے آئے گا؟‘‘
خالدؓ سوچ میں ڈوب ہی جایا کرتے تھے۔ یہ ایک معرکے کی فراغت کے بعد اگلے معرکے کی سوچ ہوتی تھی۔وہ سوچ سمجھ کر اور تمام تر دماغی قوتوں کو بروئے کار لا کر لڑاکرتے تھے۔دشمن کے پاس بے پناہ جنگی قوت تھی۔وہ گہری سوچ کے بغیر اپنی فوج کی برتری اور افراط کے بل بوتے پر بھی لڑ سکتا تھا۔ مسلمان ایساخطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ان کی تعداد کسی بھی معرکے میں اٹھارہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ان کی تعداد پندرہ اور اٹھارہ ہزارکے درمیان رہتی تھی۔ایک ایک مجاہد کا مقابلہ تین سے چھ کفار سے ہوتا تھا۔لہٰذا انہیں عقل اور ہوشمندی کی جنگ لڑنی پڑتی تھی۔
ایسی عقل اورہوشمندی میں خالدؓ کا کوئی ثانی نہ تھاانہی اوصاف کی بدولت رسولِ اکرمﷺ نے انہیں اﷲکی تلوار کہا تھا۔جذبہ تو خالدؓ میں تھا ہی لیکن انہیں دماغ زیادہ لڑانا پڑتا تھا۔ہر معرکے سے پہلے خالدؓ جاسوسوں سے دشمن کی کیفیت اور اس کی زمین اور نفری وغیرہ کی تفصیلات معلوم کرکے گہری سوچ میں ڈوب جاتے پھر اپنے سالاروں سے صلاح و مشورہ کرتے تھے لیکن فراض کی جنگ کے بعد ان پر ایسی خاموشی طاری ہو گئی تھی جوکچھ اور ہی قسم کی تھی۔ان کی اس خاموشی کو دیکھ کر ان کے سالار کچھ پریشان سے ہو رہے تھے، یہ فراض سے حیرہ کی طرف کوچ (۲۵ذیقعد ۱۲ ھ) سے دو روز پہلے کا واقعہ ہے۔ تین چار سالار خالدؓکے خیمے میں جا بیٹھے۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … سالار قعقاع بن عمرو نے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!جس سوچ میں تو ڈوبا ہوا ہے اس کا تعلق کسی لڑائی کے ساتھ نہیں ہے۔ ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں، تجھے اکیلا پریشان نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
خالدؓ نے سب کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔
’’ابنِ عمرو ٹھیک کہتا ہے۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’میں جس سوچ میں پڑا رہتا ہوں اس کا تعلق کسی لڑائی کے ساتھ نہیں۔‘‘
’’کچھ ہمیں بھی بتا ابنِ ولید!‘‘ … ایک اور سالار نے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!تو پسند نہیں کرے گا کہ ہم سب تجھے دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتے رہیں۔‘‘
’’نہیں پسند کروں گا۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’تم میں سے کوئی بھی پریشان ہو گا تو یہ مجھے ناپسند ہو گا۔میں کسی لڑائی کیلئے کبھی پریشان نہیں ہوا۔تین تین دشمنوں کی فوجیں مل کر ہمارے خلاف آئیں ، میں پریشان نہیں ہوا۔میں نے خلیفۃ المسلمین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رومیوں کو جا للکارا۔ میں نے ایک خطرہ مول لیا تھا۔میں پریشان نہیں ہوا۔ مجھے ہر میدان میں اور ہر مشکل میں اﷲنے روشنی دکھائی ہے اور تمہیں اﷲنے ہمت دی ہے کہ تم اتنے جری دشمن پر غالب آئے…‘‘
’’… اب میری پریشانی یہ ہے کہ میں فریضہ حج ادا کرنا چاہتا ہوں لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ میں کہاں ہوں اور میری ذمہ داریاں کیا ہیں۔کیا میں اس فرض کو چھوڑ کر حج کا فرض ادا کر سکتا ہوں؟ … نہیں کر سکتا میرے رفیقو! لیکن میرا دل میرے قابو سے باہر ہو گیا ہے۔ خدا کی قسم!یہ میری روح کی آواز ہے کہ ولید کے بیٹے، کیا تجھے یقین ہے کہ تو اگلے حج تک زندہ رہے گا؟ … مجھے یقین نہیں میرے رفیقو!ہم نے جن دو دشمنوں کو شکستیں دی ہیں ، ان کی جنگی طاقت تم نے دیکھ لی ہے اور تم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ تمام قبیلے فوراً ان سے جا ملتے ہیں۔میں محسوس کر رہا ہوں کہ میری زندگی چند روزہ رہ گئی ہے …‘‘
’’… اور میرے رفیقو! میں کچھ بھی نہیں۔تم کچھ بھی نہیں۔ صرف اﷲہے جو ہمارے سینوں میں ہے۔ وہی سب کچھ ہے۔ پھر میں کیوں نہ اس کے حضور اس کے عظیم گھر میں جا کر سجدہ کروں۔ کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں اپنی طرف سے تم سب کی طرف سے اور ہر ایک مجاہد کی طرف سے خانہ کعبہ جاکر اﷲکے حضور شکر ادا کروں؟‘‘
’’بے شک، بے شک۔‘‘ … ایک سالار نے کہا۔ … ’’کون رَد کر سکتا ہے اس جذبے کو اور اس خواہش کو جو تو نے بیان کی ہے!‘‘
’’لیکن تو حج پر جائے گا کیسے ابنِ ولید؟‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے پوچھا۔ … ’’پیچھے کچھ ہو گیا تو؟‘‘
’’میں کسی لڑائی میں مارا جاؤں گا تو خدا کی قسم تم یہ نہیں سوچو گے کہ اب کیا ہوگا؟‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کیا میرے نہ ہونے سے تمہارے حوصلے ٹوٹ جائیں گے؟ … نہیں … نہیں … ایسا نہیں ہو گا۔‘‘
’’رب کعبہ کی قسم ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ … قعقاع بن عمرو نے کہا۔ … ’’ہم میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہو گا تو وہ اسلام کے پرچم کو گرنے نہیں دے گا … یوں کر ابنِ ولید! آج ہی قاصد کو روانہ کر دے کہ وہ امیرالمومنین سے اجازت لے آے کہ تو حج پر جا سکتا ہے۔‘‘
’’جس سوچ نے مجھے پریشان کر رکھا ہے یہی وہ سوچ ہے۔‘‘ … خالدؓنےمسکرا کر کہا۔ … ’’ میں جانتا ہوں امیر المومنین اجازت نہیں دیں گے۔انہیں یہاں کے حالات کا علم ہے۔ اگر وہ اجازت دے بھی دیں تو یہ خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ دشمن کو پتا چل جائے گا کہ ابنِ ولید چلا گیا ہے۔ میں اپنے لشکر کو بھی نہیں بتانا چاہتا کہ میں ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں بہت کم وقت میں جا کر واپس آنا چاہتا ہوں۔‘‘
 ’’خدا کی قسم ولید کے بیٹے!‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔ … ’’تو نہیں جانتا کہ تو جو کہہ رہا ہے یہ نا ممکن ہے۔‘‘
 ’’اﷲناممکن کو ممکن بنا دیا کرتا ہے۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’انسان کو ہمت کرنی چاہیے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کیا کروں گا۔ اور کس راستے سے جاؤں گا۔‘‘
خالدؓ نے انہیں پہلے یہ بتایا کہ وہ کیا کریں پھر وہ راستہ بتایا جس راستے سے انہیں حج کیلئے مکہ جانا اور آناتھا۔حج میں صرف چودہ دن باقی تھے۔ اور فراض سے مکہ تک کی مسافت تیز چلنے سے اڑھائی مہینے سے کچھ زیادہ تھی۔خالدؓ کو کوئی چھوٹا راستہ دیکھنا تھا لیکن کوئی چھوٹا راستہ نہیں تھا۔خالدؓتاجر خاندان کے فرد تھے، قبولِ اسلام سے پہلے خالدؓ نے تجارت کے سلسلے میں بڑے لمبے اور کٹھن سفر کئے تھے۔ وہ ایسے راستوں سے بھی واقف تھے جو عام راستے نہیں تھے۔ بلکہ وہ راستے کہلاتے ہی نہیں تھے۔خالدؓ نے اپنے سالاروں کو ایک ایسا ہی راستہ بتایا۔
’’خدا کی قسم ابنِ ولید!‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔ … ’’تیرا دماغ خراب نہیں ہوا، پھر بھی تو نے ایسی بات کہہ دی ہے جو ٹھیک دماغ والے نہیں کہہ سکتے۔ تو جو راستہ بتا رہاہے وہ کوئی راستہ نہیں، وہ ایک علاقہ ہے اور اس علاقے سے صحرا کی ہوائیں بھی ڈر ڈر کر گزرتی ہیں، کیا تو مرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں جانتا!کیا میں اس علاقے سے واقف نہیں؟‘‘
’’جس اﷲنے ہمیں اتنے زبردست دشمنوں پر غالب کیا ہے وہ مجھے اس علاقے سے بھی گزاردے گا۔‘‘ … خالدؓ نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جس میں عزم اور خود اعتمادی تھی۔ … ’’میں یقین سے کہتا ہوں کہ تم مجھے جانے سے نہیں روکو گے اور میرے اس راز کواس خیمے سے باہر نہیں جانے دو گے۔ میں راز امیر المومنین سے بھی چھپا کر رکھوں گا۔‘‘
’’اگر امیر المومنین بھی حج پر آگئے تو کیا کرے گا تو؟‘‘ … ایک سالار نے پوچھا۔
’’میں ان سے اپنا چہرہ چھپا لوں گا۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’تم سب میرے لیے دعا تو ضرور کرو گے۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس طرح تم سے آملوں گا کہ تم کہو گے کہ یہ شخص راستے سے واپس آگیا ہے۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages