شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 91
امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ نے اپنی مجلسِ مشاورت کے سامنے یہ
مسئلہ پیش کیا۔ اس مجلس میں جو اکابرین شامل تھے، ان میں عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ،
زبیرؓ، عبدالرحمٰنؓ بن عوف، سعدؓ بن ابی وقاص، ابو عبیدہؓ بن الجراح، معاذؓ بن جبل،
ابیؓ بن کعب، اور زیدؓ بن ثابت خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
’’میرے دوستو!‘‘ … خلیفہ ابو بکر صدیقؓ نے کہا۔ … ’’ رسولِ کریم ﷺ کا
ارادہ تھا کہ شام کی طرف سے رومیوں کے حملہ کا سدّباب کیا جائے۔ آپﷺ نے جو تدبیریں
سوچی تھیں، ان پر عمل کرنے کی آپﷺ کو مہلت نہ ملی۔ آپﷺ انتقال فرما گئے۔اب تم نے
سن لیا ہے کہ ہرقل جنگی تیاری مکمل کر چکا ہے، اور ہمارا ایک سالار شکست کھا کر واپس
بھی آگیا ہے۔ اگر ہم نے رومیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تو ایک تو اپنے لشکر کے
حوصلے کمزور ہوں گے اور وہ رومیوں کو اپنے سے زیادہ بہادر سمجھنے لگیں گے۔ دوسرا نقصان
یہ ہوگا کہ رومی آگے بڑھ آئیں گے اور ہمارے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اس صورتِ حال میں
تم مجھے کیا مشورہ دو گے؟یہ بھی یاد رکھنا کہ ہمیں مزید فوج کی ضرورت ہے۔‘‘
’’امیرالمومنین!‘‘ … عمرؓ نے کہا۔ … ’’آپ کے عزم کو کون رد کر سکتا
ہے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ شام پر حملے کا اشارہ اﷲکی طرف سے ملا ہے۔ لشکر کیلئے
مزید نفری بھرتی کریں ، اور جو کام رسول اﷲﷺنے کرنا چاہا تھا اسے ہم پورا کریں۔‘‘
’’امیرالمومنین!‘‘ … عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔ … ’’اﷲکی سلامتی ہو
تم پر، غور کر لے، رومی ہم سے طاقتور ہیں۔ خالدبن سعید کاانجام دیکھ، ہم رسول اﷲﷺ کے
ارادوں کو ضرور پورا کریں گے لیکن ہم اس قابل نہیں کہ رومیوں پر بڑے پیمانے کا حملہ
کریں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہمارے دستے رومیوں کی سرحدی چوکیوں پر حملے کرتے رہیں
اور ہر حملے کے بعد دور پیچھے آجائیں۔ اس طرح رومیوں کا آہستہ آہستہ نقصان ہوتا
رہے گا اور اپنے مجاہدین کے حوصلے کھلتے جائیں گے، اس دوران ہم اپنے لشکر کیلئے لوگوں
کو اکھٹا کرتے رہیں۔ امیرالمومنین !لشکر میں اضافہ کرکے تم خود جہاد پر روانہ ہو جاؤ
اور چاہو تو قیادت کسی اور سردار کو دے دو۔‘‘
مؤرخوں نے اس دور کی تحریروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ تمام مجلس
پر خاموشی طاری ہو گئی، عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے بڑی جرأت سے اپنا مشورہ پیش کیا تھا۔
ایسالگتا تھا جیسے اب کوئی اور بولے گا ہی نہیں۔
’’خاموش کیوں ہو گئے ہو تم؟‘‘ … امیرالمومنینؓ نے کہا۔ … ’’اپنے مشورے
دو۔‘‘
’’کون شک کر سکتا ہے تمہاری دیانتداری پر!‘‘ … عثمانؓ بن عفان نے کہا۔
… ’’بے شک تم مسلمانوں کی او ردین کی بھلائی چاہتے ہو۔ پھر کیوں نہیں تم حکم دیتے کہ
شام پر حملہ کرو۔ نتیجہ جو بھی ہوگا ہم سب بھگت لیں گے۔‘‘
مجلس کے دوسرے شرکاء نے عثمانؓ بن عفان کی تائید کی اور متفقہ
طور پر کہا کہ دین اور رسول اﷲ ﷺکی امت کے وقار کیلئے مسندِ خلافت سے جو حکم ملے گا
سے سب قبول کریں گے۔
’’تم سب پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ … خلیفۃ المسلمینؓ نے آخر میں کہا۔ …
’’میں کچھ امیر مقرر کرتا ہوں۔ اﷲکی اور اس کے رسولﷺ کے بعد اپنے امیروں کی اطاعت کرو۔
اپنی نیتوں اور ارادوں کو صاف رکھو۔ بے شک اﷲانہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
امیر المومنین ابو بکرؓ کا مطلب یہ تھا کہ شام پر حملہ ہوگا
اور رومیوں کے ساتھ جنگ لڑی جائے گی۔ مجلس پر پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ محمد حسین ہیکل
لکھتا ہے کہ یہ خاموشی ایسی تھی کہ جیسے وہ رومیوں سے ڈر گئے ہوں یا انہیں امیرالمومنینؓ
کا یہ فیصلہ پسند نہ آیا ہو۔ عمرؓ نے سب کی طرف دیکھا اور ان کی آنکھیں جذبات کی
شدت سے سرخ ہو گئیں۔
’’مومنو!!‘‘ … عمرؓ نے گرج کر کہا۔ … ’’کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ خلیفہ
کی آواز پر لبیک کیوں نہیں کہتے؟ کیا خلیفہ نے اپنی بھلائی کیلئے کوئی حکم دیا ہے؟
کیا خلیفہ کے حکم میں تمہاری بھلائی شامل نہیں؟ امتِ رسول کی بھلائی نہیں؟ … بولو
… لبیک کہو اور آواز اپنے دلوں سے نکالو۔‘‘
مجلس کا سکوت ٹوٹ گیا، لبیک لبیک کی آوازیں اٹھیں، اور سب نے
متفقہ طور پر کہا کہ وہ رومیوں سے ٹکر لیں گے۔
حج سے واپس آکر خلیفۃ المسلمین ابوبکرؓ نے مدینہ میں گھوڑ دوڑ
، نیزہ بازی ، تیغ زنی، تیر اندازی، اور کُشتیوں کا مقابلہ منعقد کرایا۔ اردگرد کے
قبیلوں کو بھی اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ تین دن مدینہ میں انسانوں کے
ہجوم کا یہ عالم رہا کہ گلیوں میں چلنے کو رستہ نہیں ملتا تھا۔کوئی جگہ نہیں رہی تھی۔
جدھر نظر جاتی تھی گھوڑے اور اونٹ کھڑے نظر آتے تھے۔دف اور نفیریاں بجتی ہی رہتی تھیں۔قبیلے
اپنے شہسواروں اور پہلوانوں کو جلوسوں کی شکل میں لا رہے تھے۔
تین دن ہر طرح کے مقابلے ہوتے رہے۔ جن قبیلوں کے آدمی جیت جاتے
وہ قبیلے میدان میں آکر ناچتے کودتے اور چلّا چلّا کر خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ ان
کی عورتیں اپنے جیتنے والے آدمیوں کی مدح میں گیت گاتی تھیں، مقابلے میں باہر کا کوئی
گھوڑ سوار یا تیغ زن یا کوئی شتر سوارزخمی ہو جاتا تھا تو مدینہ کا ہر باشندہ اسے اٹھا
کر اپنے گھر لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ مدینہ والوں کی میزبانی نے قبیلوں کے دل موہ
لیے۔
مقابلوں اور میلے کا یہ اہتمام خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے کیا
تھا، مقابلے کے آخری روز مدینہ کا اک آدمی گھوڑے پر سوار میدان میں آیا۔ میدان کے
اردگرد لوگوں، گھوڑوں اور اونٹوں کا ہجوم جمع تھا۔
’’اے رسول اﷲﷺ کے امتیو!‘‘ … میدان میں اترنے والے سوار نے بڑی بلند
سی آواز سے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!کوئی نہیں جوتمہیں نیچا دِکھا سکے ۔تم نے اس میدان
میں اپنی طاقت اور اپنے جوہر دیکھ لیے ہیں۔کونسا دشمن ہے جو تمہارے سامنے اپنے پاؤں
پرکھڑا رہ سکے گا، یہ طاقت جو تم نے اک دوسرے پر آزمائی ہے ، اب اسے دشمن پر آزمانے
کا وقت آگیا ہے جو تمہاری طرف بڑھا آرہا ہے…
اے مومنین!اپنی زمین کو دیکھو۔ اپنے اموال کو دیکھو، اپنی عور
توں کو دیکھو جو تمہارے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، اپنی جوان اور کنواری بیٹیوں کو دیکھو،
جو تمہارے دامادوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں کہ حلال بچے پیدا کریں۔ اپنے دین کودیکھو
جو اﷲکا سچا دین ہے۔ خدا کی قسم!تم غیرت والے ہو۔ عزت والے ہو، اﷲنے تمہیں برتری دی
ہے۔ تم پسند نہیں کرو گے کہ کوئی دشمن اس وقت تم پر آپڑے جب تم سوئے ہوئے ہو گے، اور
تمہارے گھوڑے اور تمہارے اونٹ بغیر زینوں کے بندھے ہوئے ہوں گے اور تم نہیں بچا سکو
گے اپنے اموال کو، اپنے بچوں کو، اپنی عورتوں کو، اور اپنی کنواری بیٹیوں کو اور دشمن
تمہیں مجبور کر دے گا کہ سچے دین کو چھوڑ کر دشمن کے دیوتاؤں کی پوجا کرو۔‘‘
’’بتا ہمیں وہ دشمن کون ہے؟‘‘ … ایک شتر سوار نے چلّا کر پوچھا۔ …
’’کون ہے جو ہماری غیرت کو للکار رہا ہے۔‘‘
’’رومی!‘‘ … گھوڑ سوار نے اعلان کرنے کے لہجے میں کہا۔ … ’’وہ ملک شام
پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں، ان کی فوج ہم سے زیادہ ہے، بہت زیادہ ہے، ان کے ہتھیار ہم سے
اچھے ہیں، لیکن وہ تمہارا وار نہیں سہ سکتے، تم نے اس میدان میں اپنی طاقت اور اپنی
ہمت دیکھ لی ہے، اب اُس میدان میں چلوجہاں تمہاری طاقت اور ہمت تمہارا دشمن دیکھے گا۔‘‘
’’ہمیں اس میدان میں کون لے جائے گا؟‘‘ … ہجوم میں سے کسی نے پوچھا۔
’’مدینہ والے تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘ … مدینہ کے گھوڑ سوار
نے کہا۔ … ’’دیکھو انہیں جو برسوں سے محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ کٹ رہے ہیں اور وہین دفن
ہو رہے ہیں، انہیں اپنے بچوں کی یاد نہیں رہی، انہیں اپنے گھر یاد نہیں رہے، وہ بڑی
تھوڑی تعداد میں ہیں اور اس دشمن کو شکست پہ شکست دے رہے ہیں جوتعداد میں ان سے بہت
زیادہ ہے۔ وہ راتوں کو بھی جاگتے ہیں تمہاری عزتوں کیلئے … انہوں نے آتش پرست فارسیوں
کا سر کچل ڈالا ہے۔ اب رومی رہ گئے ہیں لیکن ہمارے مجاہدین تھک گئے ہیں۔ محاذ ایک دوسرے
سے دور ہیں، وہ ہر جگہ فوراً نہیں پہنچ سکتے … کیا تم جو غیرت اور عزت والے ہو، طاقت
اور ہمت والے ہو، ان کی مدد کو نہیں پہنچوگے؟‘‘
ہجوم جو پہلے ہی بے چین تھا، جوش و خروش سے پھٹنے لگا۔ امیرالمومنینؓ
کا یہی منشاء تھا کہ لوگوں کو اسلامی لشکرمیں شامل کیا جائے۔ قبیلوں کی جو عورتیں مدینہ
آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے مردوں کو لشکر میں بھرتی ہونے پر اکسانا شروع کر دیا۔
اس روز جو مقابلوں کا آخری روز تھا، مقابلوں میں کچھ اور ہی
جوش اور کچھ اور ہی شور تھا۔ مقابلوں میں اترنے والوں کا انداز ایسا ہی تھاجیسے وہ
لشکر میں اچھی حیثیت حاصل کرنے کیلئے اپنے جوہر دِکھا رہے ہوں۔ اس کے بعد ان لوگوں
میں سے کئی اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے۔
…………bnb…………
یمن میں اسلام مقبولِ عام مذہب بن چکا تھا۔ارتداد بھی ختم ہو
گیا تھا اور یہاں کا غالب مذہب اسلام تھا۔ خلیفۃ المسلمینؓ نے اہلِ یمن کے نام ایک
خط لکھا جو ایک قاصد لے کر گیا۔خط میں لکھا تھا:
’’اہلِ یمن! تم پر اﷲکی رحمتیں برسیں۔تم مومنین ہو اور مومنین پر اس
وقت جہاد فرض ہو جاتا ہے جب ایک طاقتور دشمن کا خطرہ موجود ہو۔ حکم رب العالمین ہے
کہ تم تنگدستی میں ہو یا خوشحالی میں، تمہارے پاس سامان کم ہے یا زیادہ، تم جس حال
میں بھی ہو ،دشمن کے مقابلے کیلئے نکل پڑو۔ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ
میں جہاد کیلئے نکلو۔ تمہارے جو بھائی مدینہ آئے تھے۔ انہیں میں نے بغرضِ جہاد جانے
کی ترغیب دی تو وہ بخوشی تیار ہوگئے اور اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے۔ میں یہی ترغیب
تمہیں دیتا ہوں۔ میری آواز تم تک پہنچ گئی ہے، اس میں اﷲکا حکم ہے وہ سنو اور جس نے
تمہیں پیدا کیا ہے اس کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘
اس دور کے رواج کے مطابق مدینہ کے قاصد نے یمن میں تین چار جگہوں
پر لوگوں کو اکٹھا کیا اور امیرالمومنینؓ کا پیغام سنایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک
سردار ذوالکلاع حمیری نے نہ صرف اپنے قبیلے کے جوان آدمیوں کو تیار کرلیا بلکہ اپنے
زیرِاثر چند اور قبیلوں کے لڑنے والے آدمیوں کو ساتھ لیا اور مدینہ کو روانہ ہو گیا۔
مدینہ کا قاصد ہر قبیلے میں گیا تھا تین اور قبیلوں کے سرداروں
قیس بن ہبیرمرادی، جندب بن عمرو الدوسی اور حابس بن سعد طائی۔ نے اپنے اپنے قبیلے کے
جوانوں اور لڑنے کے قابل افراد کو ساتھ لیا اور شام کی جنگی مہم میں شریک ہونے کی لیے
عازمِ مدینہ ہوئے۔
یہ ایک اچھا خاصہ لشکر بن گیا،ہر فرد گھوڑے یا اونٹ پر سوار
اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر آیا، یہ لوگ تیروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی
ساتھ لے آئے، مدینہ میں اس لشکرکا اجتماع ۶۳۴ء (محرم ۱۳ھ) میں ہوا تھا۔
امیرالمومنین ابو بکرؓ نے خود اس اجتماع کے ہر آدمی کواچھی
طرح سے دیکھاکہ وہ تندرست ہے اور وہ کسی کے مجبور کرنے پر نہیں بلکہ جہاد کا مطلب اور
مقصد سمجھ کرخود آیا ہے۔ پھر اس لشکرکی چھان بین یہ معلوم کرنے کیلئے کی گئی کہ ان
میں کئی افراد مرتدین کے ساتھ رہے اور مسلمانوں نے ارتداد کے خلاف جو جنگ لڑی تھی،
اس میں وہ مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے۔ انہوں نے اسلام تو قبو ل کرلیا تھا لیکن ان پر
بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا، مرتدین نے یہ عادت بنالی تھی کہ مرتد بنے رہے، جب مسلمانوں
کے ہاتھوں میدانِ جنگ میں پِٹ گئے تو اسلام قبول کر لیا مگر مسلمان ان پر بھروسہ کرکے
ان کی بستیوں سے ہٹے تو ان میں سے کئی ایک اسلام سے منحرف ہو کر پھر مرتد ہو گئے۔
مدینہ میں چھان بین کی گئی تو ان میں سے بعض کو لشکر سے نکال
دیا گیا۔ باقی لشکر کو چار حصوں مین بانٹ کر ہر حصے کا سالار مقرر کیا گیا۔ ہر حصے
میں سات ہزار آدمی تھے یعنی لشکر کی تعداد اٹھائیس ہزار تھی۔ زیادہ تر مؤرخوں نے
یہ تعداد تیس ہزار لکھی ہے، ایک حصے کے سالار تھے عمروؓ بن العاص، دوسرے کے یزید ؓبن
ابی سفیان، تیسرے کے شرجیلؓ بن حسنہ اور چوتھے حصے کے سالار ابو عبیدہؓ بن الجراح تھے۔
ان سالاروں نے چند دن لشکر کو بڑے پیمانے کی جنگ لڑنے کی ٹریننگ
دی جس میں معرکے کے دوران دستوں کا آپس میں رابطہ اور نظم و نسق قائم رکھنا شامل تھا۔
…………bnb…………
اپریل ۶۳۴ء (صفر ۱۳ھ) کے پہلے ہفتے میں اس لشکر کو شام کی طرف کوچ کا حکم ملا۔ہر حصے کے الگ الگ مقامات
پر پہنچنا اور ایک دوسرے سے الگ کوچ کرنا تھا۔ عمروؓ بن العاص کو اپنے دستوں کے ساتھ
فلسطین تک جانا تھا، یزیدؓ بن ابی سفیان کی منزل دمشق تھی، انہیں تبوک کے راستے سے
جانا تھا، شرجیلؓ بن حسنہ کو اُردن کی طرف جانا تھا، انہیں کہا گیا تھا کہ یزیدؓ بن
ابی سفیان کے دستوں کے پیچھے پیچھے جائیں، ابو عبیدہؓ بن الجراح کی منزل حمص تھی۔ انہیں
بھی تبوک کے راستے سے ہی جانا تھا۔
’’اﷲ تم سب کا حامی و ناصر ہو۔‘‘ … خلیفۃ المسلمینؓ نے آخری حکم یہ
دیا۔ … ’’سالار اپنے اپنے دستے ایک دوسرے سے الگ رکھیں گے۔ اگر رومیو ں کے ساتھ کہیں
ٹکر ہو گئی تو سالار ایک دوسرے کو مدد کیلئے بلا سکتے ہیں۔ اگر لشکرکے چاروں حصوں کو
مل کر لڑنا پڑا تو ابو عبیدہ بن الجراح تمام لشکر کے سپاہ سالار ہوں گے۔‘‘
سب سے پہلے یزیدؓ بن ابی سفیان اپنے دستوں کو ساتھ لے کر مدینہ
سے نکلے۔ مدینہ کی عورتیں اور بچے بھی باہر نکل آئے تھے۔ چھتوں پر عورتیں کھڑی ہاتھ
اوپر کرکے ہلا رہی تھیں۔ بوڑھی عورتوں نے دعاکے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔ کئی بوڑھوں
کی آنکھیں اس لیے اشکبار ہو گئی تھیں کہ وہ لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔
یزیدؓ بن ابی سفیان اپنے دستوں کے آگے آگے جا رہے تھے۔ یزیدؓ
کے ساتھ امیر المومنین ابو بکرؓ پیدل جا رہے تھے، یزیدؓ گھوڑے سے اتر آئے، امیرالمومنینؓ
کے اصرار کے باوجود وہ گھواڑے پر سوار نہ ہوئے، امیرالمومنینؓ ضعیف تھے پھر بھی وہ
دستوں کی رفتار سے چلے جا رہے تھے۔ یزیدؓ نے انہیں کئی بار کہا کہ وہ واپس چلے جائیں
لیکن ابو بکرؓ نہ مانے، مدینہ سے کچھ دور جاکر یزیدؓ رک گئے۔
’’امیرالمومنین واپس نہیں جائیں گے تو میں ایک قدم آگے نہیں بڑھوں
گا۔‘‘ … یزیدؓ بن ابی سفیان نے کہا۔
’’خدا کی قسم ابو سفیان!‘‘ … امیرالمومنینؓ نے کہا۔ … ’’تو مجھے سنتِ
رسول اﷲﷺسے روک رہا ہے۔ کیا تجھے یاد نہیں کہ رسول اﷲﷺ جہاد کو رخصت ہونے والے ہر لشکرکے
ساتھ دور تک جاتے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے تھے؟ آپﷺ فرمایا کرتے تھے، کہ پاؤں
جو جہاد فی سبیل اﷲکے راستے پر گرد آلود ہو جاتے ہیں، دوزخ کی آگ ان سے دور رہتی
ہے۔‘‘
تاریخ کے مطابق امیر المومنینؓ کے لشکر کے اس حصے کے ساتھ مدینہ
سے دو میل دور تک چلے گئے تھے۔
’’یزید!‘‘ … امیرالمومنین ؓنے کہا۔ … ’’اﷲتجھے فتح و نصرت عطا فرمائے،
کوچ کے دوران اپنے آپ پر اور اپنے لشکر پر کوئی سختی نہ کرنا۔ فیصلہ اگر خود نہ کر
سکو تو اپنے ماتحتوں سے مشورہ لے لینا، اور تلخ کلامی نہ کرنا … عدل و انصاف کا دامن
نہ چھوڑنا۔ ظلم سے باز رہنااور بے انصافی کرنے والی قوم کو اﷲپسند نہیں کرتا، اور ایسی
قوم کبھی فاتح نہیں ہوتی … میدانِ جنگ میں پیٹھ نہ دکھانا، کہ جنگی ضرورت کے بغیر پیچھے
ہٹنے والے پر اﷲکا قہر نازل ہوتا ہے … اور جب تم اپنے دشمن پر غالب آجاؤ تو عورتوں
، بچوں اور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا، اور جو جانور تم کھانے کیلئے ذبح کرو ان کے سوا
کسی جانور کو نہ مارنا۔‘‘
مؤرخین واقدی، ابو یوسف، ابنِ خلدون اور ابنِ اثیر نے امیرالمومنین
ابو بکرؓ کے یہ الفاظ لکھے ہیں، ان مؤرخین کے مطابق امیرالمومنین ابو بکرؓ نے یزید
ؓبن ابی سفیان سے کہا: … ’’تجھے خانقاہیں یا عبادت گاہیں سی نظر آئیں گی اور ان کے
اندر راہب بیٹھے ہوں گے، وہ تارک الدنیا ہوں گے۔ انہیں اپنے حال میں مست رہنے دینا،
نہ خانقاہوں اور عبادت گاہوں کو کوئی نقصان پہنچانا، نہ ان کے راہبوں کو پریشان کرنا
… اور تمہیں صلیب کو پوجنے والے بھی ملیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہوگی کہ ان کے سروں کے
اوپر درمیان میں بال ہوتے ہی نہیں، منڈوادیتے ہیں۔ ان پر اسی طرح حملہ کرنا جس طرح
میدانِ جنگ میں دشمن پر حملہ کیا جاتا ہے۔ انہیں صرف اس صورت میں چھوڑنا کہ اسلام قبول
کرلیں یا جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں … اﷲکے نام پر لڑنا، اعتدال سے کام لینا۔
غداری نہ کرنا، اور جو ہتھیار ڈال دے اسے بلا وجہ قتل نہ کرنا نہ ایسے لوگوں کے اعضاء
کاٹنا۔‘‘
یہ رسولِ کریمﷺ کا طریقہ تھا کہ رخصت ہونے والے ہر لشکر کے ساتھ
کچھ دورتک جاتے، سالاروں کوان کے فرائض یاد دلاتے، اور لشکر کو دعاؤں سے رخصت کرتے
تھے۔ خلیفہ اول ابو بکرؓ نے رسول کریمﷺ کی پیروی کرتے ہوئے چاروں سالاروں کو آپﷺ ہی
کی طرح رخصت کیا۔
لشکر اور دستے تو محاذوں پر روانہ ہوتے ہی رہتے تھے لیکن یہ
لشکر بڑے ہی خطرناک اور طاقتور دشمن سے نبرد آزما ہونے جا رہا تھا۔ شہنشاہ ہرقل جو
حمص میں تھا، صرف شہنشاہ ہی نہیں تھا وہ میدانِ جنگ کا استاد اور جنگی چالوں کا ماہر
تھا اس لشکر کو مدینہ سے روانہ کرکے مدینہ والوں پر خاموشی سی طاری ہو گئی تھی اور
وہ خاموشی کی زبان میں ہر کسی کے سینے سے دعائیں پھوٹ رہی تھیں۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment