شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 92
یہ تھی وہ جنگی مہم جس کیلئے امیر المومنینؓ نے فیصلہ کیا تھاکہ
اس کی کمان اور قیادت کیلئے خالدؓ سے بہتر کئی سالار نہیں۔ مدینہ کا یہ اٹھائیس ہزار
کا لشکر پندرہ دنوں میں شام کی سرحدوں پر اپنے بتائے ہوئے مقامات پر پہنچ چکا تھا۔
حمص میں شہنشاہ ہرقل کے محل میں وہی شان و شوکت تھی جو شہنشاہوں
کے محلات میں ہوا کرتی تھی۔ مدائن کے محل کی طرح حمص کے محل میں بھی حسین اور نوجوان
لڑکیاں ملازم تھیں۔ ناچنے اور گانے والیاں بھی تھیں، اور ایک ملکہ بھی تھی اور جس کی
وہ ملکہ تھی اس کی ملکہ ہونے کی دعویدار چند ایک اور بھی تھیں۔
شہنشاہ ہرقل کے دربار میں ایک ملزم پیش تھا ،اس کا جرم یہ تھا
کہ وہ شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا، اس کا تعلق اس خاندان کے ساتھ تھا جوشہنشاہ
کا نام سنتے ہی سجدے میں گر پڑتاتھا، یہ ملزم ان لوگوں میں سے تھا جو شہنشاہ کو روزی
رساں سمجھا کرتے تھے۔
اس ملزم کا جرم یہ تھا کہ شاہی خاندان کی ایک شہزادی اس پر مر
مٹی تھی۔ شہزادی غزال کے شکار کو گئی تھی، اور جنگل میں اسے کہیں یہ آدمی مل گیا تھا۔
شہزادی نے تیر سے ایک غزال کو معمولی سا زخمی کر دیا تھا، اور اس کے پیچھے گھوڑا ڈال
دیا تھا، لیکن غزال معمولی زخمی تھا، وہ گھوڑے کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز بھاگ رہا
تھا۔
اس ملزم نے دیکھ لیا، وہ گھوڑے پر سوار تھا اور اس کے ہاتھ میں
برچھی تھی اس نے غزال کے پیچھے گھوڑا دوڑادیا۔ غزال مڑتا تھا تو سوار رستہ چھوٹا کرکے
اس کے قریب پہنچ جاتا تھا، وہ غزال کو اس طرف لے جاتا جدھر شہزادی رُکی کھڑی تھی۔شہزادی
نے تین چار تیر چلائے۔ سب خطا گئے۔ اس جوان اور خوبرو آدمی نے گھوڑے کو ایسا موڑا
کہ غزال کے راستے میں آگیا، اس نے برچھی تاک کر پھینکی جو غزال کے پہلو میں اتر گئی
اور وہ گر پڑا۔
شہزادی اپنا گھوڑا وہاں لے آئی تو یہ آدمی اپنے گھوڑے سے کود
کر اترا اور شہزادی کے گھوڑے کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گیا۔
’’میں اگر شہزادی کے شکار کو شکار کرنے کا مجرم ہوں تو مجھے معاف کیا
جائے۔‘‘ … اس نے ہاتھ جوڑکر کہا۔ … ’’لیکن میں غزال کو شہزادی کے سامنے لے آیا تھاکہ
شہزادی اسے شکار کرے۔‘‘
’’تم شہسوار ہو۔‘‘ … شہزادی نے مسکرا کر کہا۔ … ’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘
’’ہر وہ کام کر لیتا ہوں جس سے دو وقت کی روٹی مل جائے۔‘‘ … اس آدمی
نے کہا۔ … ’’میں تجھے محل کے محافظوں میں شامل کروں گی۔‘‘
رعایا کے اس ناچیز بندے میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ انکار کرتا۔
شہزادی اسے ساتھ لے آئی اور محافظوں میں رکھوادیا، اسے جب شاہی محافظوں کا لباس ملا
اور جب وہ اس لباس میں شاہی اصطبل کے گھوڑے پر سوار ہوا تو اس کی مردانہ وجاہت نکھر
آئی۔ وہ شہزادی کا منظورِ نظر بن گیا پھر شہزادی نے اسے اپنا دیوتا بنا لیا۔
شہزادی کی شادی ہونے والی تھی لیکن اس نے اپنے منگیتر کے ساتھ
بے رخی برتنا شروع کردی۔ منگیتر نے اپنے مخبروں سے کہا کہ وہ شہزادی کو دیکھتے رہا
کریں کہ وہ کہاں جاتی ہے اور اس کے پاس کون آتا ہے۔
ایک رات شہزادی کے منگیتر کو اطلاع ملی کہ شہزادی شاہی محل کے
باغ میں بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ محل سے تھوڑی ہی دور ایک بڑی خوبصورت جگہ تھی۔ وہاں چشمہ
تھا اور سبزہ زار تھا۔ درخت تھے اور پھولدار پودوں کی باڑیں تھیں۔ چاندنی رات تھی۔
شہزادی اور اس کا منظورِنظر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بیٹھے تھے کہ انہیں بھاری بھرکم قدموں
کی دھمک سنائی دی۔ وہ شاہی محافظوں کے نرغے میں آگئے تھے۔
اس محافظ کو قید میں ڈال دیا گیا،شہنشاہ ہرقل کو صبح بتایا گیا
اور محافظ کو زنجیروں میں باندھ کر دربار میں پیش کیا گیا۔ اس پر الزام یہ تھا کہ اس
نے ایک شہزادی کی شان میں گستاخی کی ہے۔ یہ الزام دربار میں بلند آواز سے سنایا گیا۔
’’شہنشاہِ ہرقل کی شہنشاہی ساری دنیا میں پھیلے!‘‘ … ملزم نے کہا۔
… ’’شہزادی کو دربار میں بلا کر پوچھا جائے کہ میں نے گستاخی کی ہے یا محبت کی ہے
… اور محبت میں نے نہیں شہزادی نے کی ہے۔‘‘
’’لے جاؤ اسے!‘‘ … شہنشاہ ہرقل نے گرج کر کہا۔ … ’’رَتھ کے پیچھے باندھ
دو اور رتھ اس وقت تک دوڑتی رہے جب تک اس کا گوشت اس کی ہڈیوں سے الگ نہیں ہو جاتا۔‘‘
’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘ … ملزم للکار کر بولا۔ … ’’ تو ایک شہزادی کی محبت
کا خون کر رہا ہے۔‘‘
اُسے دربار سے گھسیٹ کر لے جا رہے تھے اور اس کی پکار اور للکار
سنائی دے رہی تھی … وہ رحم کی بھیک نہیں مانگ رہا تھا۔
’’تیرا انجام قریب آرہا ہے ہرقل!‘‘ … وہ چلّاتا جارہا تھا۔ … ’’اپنے
آپ کو دیوتا نہ سمجھ ہرقل!ذلت اور رسوائی تیری طرف آرہی ہے۔‘‘
محبت کے اس مجرم کو ایک رتھ کے پیچھے باندھ دیاگیا اور دو گھوڑوں
کی رتھ دوڑ پڑی، محل سے شور اٹھا۔ … ’’شہزادی نے پیٹ میں تلوار اتار لی ہے۔‘‘
…………bnb…………
یہ خبر شہنشاہ ہرقل تک پہنچی تو اس نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں
کیا۔وہ تخت پر بیٹھا رہا،درباریوں پر سناٹا طاری تھا۔کچھ دیر بعد اٹھا اور اپنے خاص
کمرے میں چلا گیا۔وہ سر جھکائے یوں کمرے میں ٹہل رہاتھا، ملکہ کمرے میں آئی،ہرقل نے
اسے قہر کی نظروں سے دیکھا۔
’’شگون اچھا نہیں۔‘‘ … ملکہ نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔ … ’’صبح
ہی صبح دو خون ہو گئے ہیں۔‘‘
’’یہاں سے چلی جاؤ۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’میں شاہی خاندان کی بے عزتی
برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’میں کچھ اور کہنے آئی ہوں۔‘‘ … ملکہ نے کہا۔ … ’’سرحد سے ایک عیسائی
آیا ہے۔اس نے تمام رات سفر میں گھوڑے کی پیٹھ پر گزاری ہے۔اسے کسی نے دربار میں داخل
ہونے نہیں دیا۔ مجھے اطلاع ملی تو…‘‘
’’وہ کیوں آیا ہے؟‘‘ … ہرقل نے جھنجھلا کر پوچھا۔ … ’’کیا وہ سرحد
سے کوئی خبر لایا ہے؟‘‘
’’مسلمانوںکی فوجیں آرہی ہیں۔‘‘ … ملکہ نے کہا۔
’’اندر بھیجو اسے!‘‘ … ہرقل نے کہا۔
ملکہ کے جانے کے بعد ایک ادھیڑ عمر آدمی کمرے میں آیا۔اس کے
کپڑوں پر اور چہرے پر گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی۔وہ سلام کیلئے جھکا۔
’’تو نے محل تک آنے کی جرأت کیسے کی؟‘‘ … ہرقل نے شاہانہ جلال سے
پوچھا۔ … ’’کیا تو یہ خبر کسی سالار یا ناظم کو نہیں دے سکتا تھا؟‘‘
’’یہ جرم ہے تو مجھے بخش دیں۔‘‘ … اس آدمی نے کہا۔ … ’’مجھے ڈر تھا
کہ اس خبرکو کوئی سچ نہیں مانے گا۔‘‘
’’تو نے مسلمانوں کا لشکر کہاں دیکھا ہے؟‘‘
’’حمص سے تین روز کے فاصلے پر۔‘‘ … اس نے جواب دیا۔
یہ ایک عیسائی عرب تھا۔جس نے ابو عبیدہؓ بن الجراح کے دستوں
کو شام سے کچھ دور دیکھ لیا تھا ۔اسی شام دو اور جگہوں سے اطلاعیں آئیں کہ مسلمانوں
کی فوج ان جگہوں پر پڑاؤڈالے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کے لشکر کے چوتھے حصے کی اطلاع ابھی
نہیں آئی تھی۔ رات کو ہرقل نے اپنے جرنیلوں اور مشیروں کو بلایا۔
’’کیا تمہیں معلوم ہے سرحد پر کیا ہو رہا ہے؟‘‘ … ہرقل نے پوچھا۔ …
’’مدینہ کی فوج تین جگہوں پر آگئی ہے۔ اپنی کسی سرحدی چوکی نے کوئی اطلاع نہیں دی
۔کیا وہاں سب سوئے رہتے ہیں؟ کیا تم برداشت کر سکتے ہو کہ عرب کے چند ایک لٹیرے قبیلے
تمہیں سرحدوں پر آکر للکاریں، کیا تم ان کے ایک سالار کو اپنی طاقت نہیں دکھا چکے۔
وہ خوش قسمت تھا کہ نکل گیا اب وہ زیادہ تعداد میں آئے ہیں وہ مالِ غنیمت کے بھوکے
ہیں۔ فوراً تیاری شروع کرو ان کا کوئی ایک آدمی اور کوئی گھوڑا یا اونٹ واپس نہ جائے۔‘‘
’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘ … شام کی فوجوں کے کمانڈر نے کہا۔ … ’’آپ اتنے نا
تجربہ کار تو نہیں جیسی آپ نے بات کی ہے۔ اگر یہ معاملہ کچھ اور ہوتا تو ہم آپ کی
تائید کرتے لیکن یہ مسئلہ جنگی ہے آپ جانتے ہیں کہ شکست کے بعد کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے سبق نہیں مشورہ چاہیے۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’وہ کیا ہے جو میں
نہیں جانتا۔‘‘
’’شہنشاہ سب کچھ جانتے ہوئے ایسی بات نہ کریں۔ جس نے فارس کے شہنشاہ
اردشیر کی جان لے لی تھی۔‘‘ … رومی فوجوں کے کمانڈر نے کہا۔ … ’’اس کی جنگی طاقت ہماری
ٹکر کی تھی۔ آپ بھی اس فوج سے لڑ چکے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو بھی عراق پر فوج کشی کی
جرات نہیں ہوئی۔ اب فراض کے میدان میں ہمیں مسلمانوں کے خلاف فارسیوں کو اتحادی بنانا
پڑا اور ہم نے عیسائی قبیلوں کو ساتھ ملایا مگر خالد بن ولید ہمیں شکست دے گیا۔‘‘
’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہمیں مسلمانوں سے ڈرنا چاہیے؟‘‘ ہرقل
نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں شہنشاہ ۔‘‘ … کمانڈر نے کہا۔ … ’’اردشیر بھی مدائن میں بیٹھا
ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا۔جیسی آپ حمص میں بیٹھے کر رہے ہیں۔میں آپ کو یاد دلا
رہا ہوں کہ فارسیوں کاانجام دیکھیں، مدائن کے محل اب بھی کھڑے ہیں لیکن مقبروں کی طرح۔
اردشیر نے پہلے پہل مسلمانوں کو عرب کے بدو اور ڈاکو کہا تھا۔میں نے فارسیوں کی شکست
کی چھان بین پوری تفصیل سے کی ہے۔ اردشیر کے منہ سے یہی الفاظ نکلتے تھے۔ کچل دو۔ مگر
اس کا جو بھی جرنیل مسلمانوں کے مقابلے کو گیا وہ چلا گیا۔ مسلمان ان کے علاقوں پہ
علاقہ فتح کرتے آئے حتیٰ کہ ان کے تیر مدائن میں گرنے لگے۔‘‘
’’اور شہنشاہِ ہرقل! مجھے معلوم
ہوا ہے کہ مسلمان مذہبی جنون سے لڑتے ہیں۔ مالِ غنیمت کیلئے نہیں۔ ہم زمین کیلئے لڑتے
ہیں مسلمان جنگ کو ایک عقیدہ سمجھتے ہیں۔ ہم ان کے عقیدے کو سچا سمجھیں یا نہ سمجھیں
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ شہنشاہ کو اس پر بھی غور کرنا پڑ ے گا کہ مسلمان ہر میدان میں
تھوڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔ وہ جذبے اور جنگی چالوں کے زور پر لڑتے ہیں۔ فراض میں ہم
نے اپنے فارسیوں کی اور عیسائیوں کی نفری کو اتنا زیادہ پھیلا دیا تھا کہ مسلمانوں
کی تھوڑی سی نفری ہمارے پھیلاؤمیں آکر گم ہو جاتی، لیکن مسلمانوں نے ایسی چال چلی
کہ ہمارا پھیلاؤ سکڑ گیا اور ہم پِٹ کر رہ گئے۔‘‘
دوسرے جرنیلوں نے بھی اسی طرح کے مشورے دیئے اور ہرقل قائل ہو
گیاکہ مسلمانوں کو طاقت ور اور خطرناک دشمن سمجھ کر جنگ کی تیاری کی جائے۔
’’لیکن میں اسے اپنی توہین سمجھتا ہوں کہ مسلمان جو کچھ ہی سال پہلے
وجود میں آئے ہیں، عظیم سلطنت روم کو للکاریں۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’ہمارے پاس ہماری
صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ رومیوں نے ساری دنیا پر دہشت طاری کیے رکھی ہے۔ ہمارا مذہب دیوتاؤں
کا مذہب ہے۔ آسمانوں اور زمین پر ہمارے دیوتاؤں کی حکمرانی ہے۔ اسلام ایک انسان کا
بنایا ہوا مذہب ہے جس کے پھیل جانے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ میں صرف یہ حکم
دوں گاکہ اس مذہب کے پیروکاروں کو اس طرح ختم کرو کہ اسلام کا نام لینے والا کوئی زندہ
نہ رہے۔‘‘
اگلے ہی روز ہرقل کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے ساتھ رومی فوج
کی ٹکر ہوئی ہے اور رومی فوج بڑی بری طرح پسپا ہوئی ہے۔
یہ عمروؓ بن العاص کے دستے تھے جو تبوک سے آگے بڑھے تو رومی
فوج کے کچھ دستے ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔ یہ شام کے عیسائی عربوں کے دستے تھے۔جن
کے ذمے سرحدوں کی دیکھ بھال کا کام تھا۔ عمروؓ بن العاص بڑے ہوشیار سالار تھے۔انہوں
نے ایسی چال چلی کہ اپنے ہراول دستے کو دشمن سے ٹکر لینے کیلئے آگے بھیجا اور دشمن
کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن شام کے عیسائی عربوں کے دستے تھوڑا سا نقصان اٹھا
کر پسپا ہو گئے۔
عمروؓ بن العاص ایلہ کے مقام پرپہنچ گئے۔ یزیدؓ بن ابی سفیان
بھی اپنے دستوں کے ساتھ ان سے آملے۔ جوں ہی مدینہ کے لشکر کے یہ دونوں حصے اکھٹے ہوئے
روم کی فوج ان کا راستہ روکنے کیلئے سامنے آگئی۔ مؤرخوں کے مطابق روم کی اس فوج کی
نفری تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ مسلمانوں کی تھی۔ اب دو مسلمان سالار اکٹھے ہو گئے
تھے انہوں نے رومیوں کے ساتھ آمنے سامنے کی ٹکر لی۔ رومیوں نے جم کر مقابلہ کرنے کی
کوشش کی لیکن قدم جما نہ سکے اور پسپا ہو گئے۔
یزیدؓ بن ابی سفیان نے ایک سوار دستے کو ان کے تعاقب میں بھیج
دیا۔ رومیوں پر کچھ ایسی دہشت طاری ہو گئی تھی کہ وہ سوائے کٹ کٹ کر مرنے کہ اور کچھ
بھی نہ کر سکے۔
شہنشاہ ہرقل کو جب اپنے دستوں کی اس پسپائی کی اطلاع ملی تو
وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے اپنے جرنیلوں کو ایک بار پھر بلایا اور حکم دیا کہ زیادہ
سے زیادہ فوج اکٹھی کرکے شام کی سرحد کے باہر کسی جگہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ لڑی جائے
اور انہیں وہیں ختم کیا جائے۔
مسلمان سالاروں نے ان جگہوں سے جہاں وہ پڑاؤڈالے ہوئے تھے،
چند آدمیوں کو اپنے زیرِ اثر لے لیا،اور انہیں بے انداز انعام و اکرام کا لالچ دیا
جس کے عوض وہ مسلمانوں کیلئے جاسوسی کرنے پر آمادہ ہو گئے۔چند دنوں میں ہی وہ مطلوبہ
خبریں لے آئے۔ ان کی رپورٹوں کے مطابق رومی جو فوج اکٹھی کر رہے تھے اس کی تعداد ایک
لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ اس فوج کا ایک حصہ اجنادین کی طرف کوچ کر رہا تھا جاسوسوں نے
یہ اطلاع بھی دی کہ رومی فیصلہ کن جنگ کیلئے تیار ہو کر آرہے ہیں۔ جاسوسوں نے تیاریوں
کی پوری تفصیل بیان کی۔
ابو عبیدہؓ بن الجراح کو امیر المومنینؓ نے یہ حکم دیا تھا کہ
لشکر کے چاروں حصوں کو اکٹھے لڑنا پڑا تو وہ یعنی ابو عبیدہؓ پورے لشکر کے سالارہوں
گے۔ صورت ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ لشکر کے چاروں حصوں کو اکٹھا ہونا پڑا۔ ابو عبیدہؓ
نے پورے لشکر کی کمان لے لی، لیکن لشکر کو مکمل طور پر ایک جگہ اکٹھا نہ ہونے دیا۔اس
کے ساتھ ہی انہوں نے امیرالمومنینؓ کو تیز رفتار قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا جس میں مکمل
صورتِ حال لکھی اور یہ بھی کہ رومیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو گی۔
یہ تھے وہ حالات جن کے پیشِ نظر امیر المومنینؓ نے خا لدؓ کو
حکم بھیجا تھا کہ وہ شام کی سرحد پر اس جگہ پہنچیں جہاں مدینہ کا لشکر خیمہ زن ہے۔اس
حکم میں یہ بھی لکھاتھا کہ اپنا لشکر کچھ مشکلات میں الجھ گیا ہے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment