Featured Post

Khalid001

11 October 2019

Khalid093


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  93
اس پیغام نے خالدؓ کو پریشان کر دیا تھا۔ یہ سنایا جا چکا تھا کہ انہوں نے امیر المومنینؓ کے حکم کے مطابق اپنے لشکر کو دو حصو ں میں تقسیم کیا، ایک حصہ مثنیٰ بن حارثہ کے حوالے کر دیا۔ خالدؓنے فوج کو فوری کوچ کا حکم دے دیا۔ انہوں نے جب فاصلے کا اندازہ کیا، تو وہ اتنا زیادہ تھا کہ خالدؓ کو وہاں پہنچتے بہت دن لگ جاتے۔ انہیں ڈر تھاکہ اتنے دن ضائع ہو گئے تو معلوم نہیں کیا ہو جائے گا۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ رومیوں کی فوج فارسیوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور برتر ہے۔ خالدؓان راستوں سے واقف تھے۔ سیدھا اور آسان راستہ بہت طویل تھا۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایاکہ بہت جلد پہنچنے کیلئے انہیں کوئی راستہ معلوم نہیں۔ سالارو ں میں سے کسی کو چھوٹا راستہ معلوم نہیں تھا۔
’’ اگر کوئی راستہ چھوٹا ہوا بھی تو وہ سفرکے قابل نہیں ہوگا۔‘‘ … ایک سالار نے کہا۔ … ’’اگر کسی ایسے راستے سے ایک دو مسافر گزرتے بھی ہوں تو ضروری نہیں کہ وہ راستہ ایک لشکر کیلئے گزرنے کے قابل ہو۔‘‘
’’میں ایک آدمی کو جانتا ہوں۔‘‘ … ایک اور سالار بولا۔ … ’’رافع بن عمیرہ۔ وہ ہمارے قبیلے کا زبردست جنگجو ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ خد انے اسے کوئی ایسی طاقت دی ہے کہ وہ زمین کے نیچے کے بھید بھی بتا دیتا ہے۔ وہ اس صحرا کا بھیدی ہے۔‘‘
خالدؓ کے حکم سے رافع بن عمیرہ کو بلایا گیااور اس سے منزل بتا کر پوچھاگیا کہ چھوٹے سے چھوٹا راستہ کوئی ہے؟
’’زمین ہے تو راستے بھی ہیں۔‘‘ … رافع نے کہا۔ … ’’یہ مسافر کی ہمت پر منحصر ہے کہ وہ ہر راستے پر چل سکتاہے یا نہیں۔تم منزل تک کسی بھی راستے سے پہنچ سکتے ہو لیکن بعض راستے ایسے ہوتے ہیں جن پر سانپ بھی نہیں رینگ سکتا۔ میں ایک راستہ بتا سکتا ہوں، لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ اس سے لشکر کے کتنے آدمی منزل تک زندہ پہنیں گے اور میں یہ بھی بتا سکتاہوں کہ گھوڑا اس صحرائی راستے سے نہیں گزر سکتا، گھوڑا اتنی پیاس برداشت نہیں کر سکتا، اور گھوڑوں کیلئے پانی ساتھ لے جایا نہیں جا سکتا۔‘‘
خالدؓنے اپنا بنایا ہوا نقشہ اس کے آگے رکھا اور پوچھا کہ وہ کون سا راستہ بتا رہا ہے؟
’’یہ قراقر ہے۔‘‘ … رافع بن عمیرہ نے نقشہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔ … ’’یہاں ایک نخلستان ہے جو اتنا سر سبز و شاداب ہے کہ مسافروں پر اپنا جادو طاری کر دیتا ہے، یہاں سے ایک راستہ نکلتاہے جو سویٰ کو جاتاہے۔ سویٰ میں پانی اتنا زیادہ ہے کہ سارا لشکر اور لشکر کے تمام جانور پانی پی سکتے ہیں لیکن یہ پانی اسے ملے گا جو سویٰ تک زندہ پہنچ جائے گا۔ اوپر سورج کی تپش دیکھو دن کو کتناچل سکو گے، کتنی دور تک چل سکو گے؟یہ میں نہیں جانتا، اتنے اونٹ لاؤ کہ لشکر کا ہر فرد اونٹ پر سوار ہو۔ ابنِ ولید! تم صحرا کے بیٹے ہو مگر اس صحرا سے نہیں گزر سکو گے۔‘‘
رافع بن عمیرہ نے جو راستہ بتایا یہ مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق اک سو بیس میل تھا، یہ ایک سو بیس میل کا فاصلہ طے کرنے سے منزل تک کئی دن جلدی پہنچا جا سکتا تھا۔ خالدؓ وہ سالار تھے جو مشکلات کی تفصیلات سن کر نہیں بلکہ مشکلات میں پڑ کر اندازہ کیا کرتے تھے کہ ان کی شدت کتنی کچھ ہے، ان کے دماغ میں صرف یہ سمایا ہوا تھا کہ مدینہ کا لشکر مشکل میں ہے، اور اس کی مدد کو پہنچنا ہے، سیدھے راستے سے فاصلہ چھ سے سات سو میل تک بنتا تھا۔ رافع کے بتائے ہوئے راستے سے جانے سے فاصلہ کم رہ جاتا تھا۔ مگر رافع بتاتا تھا کہ اس خطرناک راستے سے جاؤ تو پانچ چھ دن ایسی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے جو انسان کیا برداشت کرے گا گھوڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ پانی تو مل ہی نہیں سکتا، اور سب سے بڑی مشکل یہ کہ مہینہ مئی کاتھا، جب ریگستان جل رہے ہوتے ہیں۔
’’خدا کی قسم ابنِ ولید!‘‘ … ایک سالار نے کہا۔ … ’’تو اتنے بڑے لشکر کو اس راستے پر نہیں لیجائے گا۔جو تباہی کا اور بہت بری موت کا رستہ ہوگا۔‘‘
’’اور جس کا دماغ صحیح ہو گا وہ اس راستے پر نہیں جائے گا۔‘‘ … ایک اور سالار نے کہا۔
’’ہم اسی راستے سے جائیں گے۔‘‘ … خالدؓ نے ایسی مسکراہٹ سے کہا،جس میں عجیب سی سنجیدگی تھی۔
’’ہم پر فرض ہے کہ تیری اطاعت کریں۔‘‘ … رافع بن عمیرہ نے کہا۔ … ’’لیکن ایک بار پھر سوچ لو۔‘‘
’’میں وہ حکم دیتا ہوں جو حکم اﷲمجھے ددیتا ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ہارتے وہ ہیں جن کے ارادے کمزور ہوتے ہیں، اﷲکی خوشنودی ہمیں حاصل ہے اور پھر اﷲکی راہ میں جو مصیبتیں آئیں گی ہم کیوں نہ انہیں بھی برداشت کریں۔‘‘
یہ واقعہ اور یہ گفتگو طبری نے ذرا تفصیل سے بیان کی ہے، خالدؓ کے سالاروں نے ان کے عزم کی یہ پختگی دیکھی تو سب نے پر جوش لہجے میں لبیک کہی، ان میں سے کسی نے کہا۔ … ’’ ابنِ ولید تجھ پر اﷲکا کرم! وہ کر جو تو بہتر سمجھتا ہے۔ ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘
…………bnb…………

خالدؓنے اس سفر پر روانگی سے پہلے ایک حکم یہ دیا کہ لشکر کا ہر فرد اونٹ پر سوار ہو گا۔ گھوڑے سواروں کے بغیر پیچھے پیچھے چلیں گے۔ دوسرا حکم یہ کہ عورتوں اور بچوں کو مدینہ بھیج دیا جائے۔ سالاروں کو خالدؓ نے کہا تھا کہ تمام لشکر کو اچھی طرح بتا دیں کہ وہ ایسے راستے پر جا رہے ہیں جس راستے پر پہلے کبھی کوئی لشکر نہیں گزرا۔ ہر کسی کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔‘‘
مئی کا مہینہ اونٹوں کی فراہمی میں گزر گیا۔ جون ۶۳۴ء (ربیع الآخر ۱۳ھ) کا مہینہ شروع ہو گیا۔ اب تو صحرا جل رہا تھا۔ خالدؓ نے کوچ کا حکم دے دیا۔ ان کے ساتھ نو ہزار مجاہدین تھے جو اس خود کُش سفر پر جا رہے تھے۔
قراقر تک سفر ویسا ہی تھا جیسا اس لشکر کا ہر سفر ہوا کرتا تھا۔ وہ سفر قراقر سے شروع ہونا تھاجسے مسلمان مؤرخوں نے اور یورپی مؤرخوں نے بھی تاریخ کا سب سے خطرناک اور بھیانک سفر کہا ہے۔ مثنیٰ بن حارثہ قراقر تک خالدؓ کے ساتھ گئے۔ مثنیٰ کو حیرہ واپس آنا تھا۔
قراقر سے جس قدر پانی ساتھ لے جایا جا سکتا تھا مشکیزوں میں بھر لیا گیا۔مٹکے بھی اکٹھے کر لیے گئے تھے۔ان میں بھی پانی بھر لیا گیا۔اگلی صبح جب لشکر روانہ ہونے لگا تو مثنیٰ بن حارثہ خالدؓسے اور اس کے سالاروں سے گلے لگ کے ملے۔ یعقوبی اور ابنِ یوسف نے لکھا ہے کہ مثنیٰ بن حارثہ پر رقت طاری ہو گئی تھی۔ ان کے منہ سے کوئی دعا نہ نکلی، آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ دعائیں ان کے دل میں تھیں۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ خالدؓ کو اور ان کے نو ہزار مجاہدین کوپھر کبھی دیکھ سکیں گے۔
خالدؓ اونٹ پر سوار ہونے لگے تو رافع بن عمیرہ دوڑتا آیا۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … رافع نے خالدؓ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ … ’’اب بھی سوچ لے، رستہ بدل لے، اتنی جانوں سے مت کھیل!‘‘
’’ابنِ عمیرہ!‘‘ … خالدؓ نے غصے سے کہا۔ … ’’اﷲتجھے غارت کرے، مجھے اﷲکی راہ سے مت روک یا مجھے وہ رستہ بتا جو مدینہ کے لشکر تک جلدی پہنچا دے۔ تو نہیں جانتا، توہٹ میرے سامنے سے، اور حکم مان جو میں نے دیا ہے۔‘‘
رافع خالدؓ کے آگے سے ہٹ گیا۔ خالدؓ اونٹ پر سوار ہوئے اور لشکر چل پڑا۔ سب سے آگے رافع کا اونٹ تھا اسے رہبری کرنی تھی۔
مثنیٰ کھڑے دیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ … ’’امیر المومنین نے ٹھیک کہا تھا کہ اب کوئی ماں خالدجیسا بیٹا پیدا نہیں کرے گی۔‘‘
…………bnb…………

وہی صحرا جو رات کو خنک تھا سورج نکلتے ہی تپنے لگا اورجب سورج اور اوپر آیا تو زمین سے پانی کے رنگ کے شعلے اٹھنے لگے۔ پانی کے رنگ کا جھلمل کرتا ایک پردہ تھا جو آگے آگے چل رہا تھا۔ اسکے آگے کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ کیا ہے۔ جون کا سورج جب سر پر آیا تو لشکر کے افراد ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے۔ ہرکوئی زمین سے اٹھتی ہوئی تپش کے لرزتے پردے میں لرزتا کانپتا یا لٹکے ہوئے باریک کپڑے کی طرح لہروں کی طرح ہلتا نظر آتا تھا۔
مجاہدین نے ایک جنگی ترانہ مل کر گانہ شروع کر دیا، خالدؓنے انہیں روک دیا کیونکہ بولنے سے پیاس بڑھ جانے کا امکان تھا۔ اونٹ کئی کئی دنوں تک پیاسا سفر کر سکتا ہے لیکن انسان پیدل جا رہا ہو یا اونٹ یا گھوڑے پر سوار ہو وہ چند گھنٹوں سے زیادہ پیاس برداشت نہیں کر سکتا۔ پہلی شام جب پڑاؤ ہوا تو تمام لوگ پانی پر ٹوٹ پڑے، ان کے جسم جل رہے تھے۔ کھانے کی جگہ بھی انہوں نے پانی پی لیا۔
دوسرے دن لشکر کا ہر آدمی محسوس کرنے لگا تھا کہ یہ وہ صحرا نہیں جس میں انہوں نے بے شمار بار سفر کیا ہے۔ یہ تو جہنم ہے جس میں وہ چلے جا رہے ہیں۔ایک تو تپش تھی جو جلا رہی تھی، دوسرے ریت کی چمک تھی جو آنکھیں نہیں کھولنے دیتی تھی۔ریت کا سمندر تھا بلکہ یہ آگ کا سمندر تھا اور لشکر شعلوں میں تیرتا جا رہا تھا۔
تیسرے روز کا سفر اس طرح ہولناک اور اذیت ناک ہو گیاکہ ٹیلوں اور نشیب و فراز کا علاقہ شروع ہو گیاتھا۔ یہ ریت اور مٹی کے ٹیلے تھے جو آگ کی دیواروں کی مانند تھے۔ پہلے تو لشکر سیدھا جا رہا تھا اب تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مڑنا پڑتا تھا۔ دیواروں جیسے ٹیلے مجاہدین کو جلا رہے تھے یہاں سب سے زیادہ خطرہ بھٹک جانے کا تھا۔ بعض دیواروں جیسے ٹیلوں کے درمیان جگہ اتنی تنگ تھی کہ اونٹ دونوں طرف رگڑ کھا کر گزرتے تھے۔ اونٹ بدک جاتے تھے کہ ان کے جسموں کے ساتھ گرم لوہا لگایا گیا ہے۔
تیسری شام پڑاؤ ہوا تو سب کے منہ کھلے ہوئے تھے اور وہ آپس میں بات بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس شام لشکر نے پانی پیا تو یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ باقی سفر کیلئے پانی نہیں رہا۔ پانی کا ذخیرہ پانچ دنوں کیلئے کافی تھا مگر یہ تیسرے روز ہی ختم ہو گیا۔ راستے میں بھی مجاہدین پانی پیتے تھے۔
چوتھا دن قیامت سے کم نہ تھا۔ پانی کی ایک بوند نہیں تھی۔ پیاس کا اثر جسمانی ہوتا ہے اور ایک اثر صحرا کا اپنا ہوتا ہے۔ جو ذہن کو بگاڑ دیتا ہے، یہ ہوتی ہے وہ کیفیت جب سراب نظر آتے ہیں، پانی اور نخلستان دکھائی دیتے ہیں، شہر اور سمندری جہاز نظر آتے ہیں اور مسافر انہیں حقیقت سمجھتے ہیں۔ ریت کی چمک کا اثر بھی بڑا ہی خوفناک تھا۔
لشکر میں کسی نے چلّا کر کہا … ’’وہ پانی آگیا۔پہلے میں پیوں گا۔‘‘ … وہ آدمی چلتے اونٹ سے کود کر ایک طرف دوڑ پڑا۔ تین چار مجاہدین اس کے پیچھے گئے۔
’’اسے اﷲکے سپرد کرو۔‘‘ … رافع بن عمیرہ نے دور سے کہا۔ … ’’صحرا نے قربانیاں وصول کرنی شروع کر دی ہیں۔ … اس کے پیچھے مت دوڑو، سب مرو گے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ایک مجاہد بے ہوش ہو کر اونٹ سے گرا وہ اٹھا اور اونٹ کی طرف آنے کے بجائے دوسری طرف چل پڑا کوئی بھی اس کے پیچھے نہ گیا۔ پیچھے نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سب کی آنکھیں بند تھیں۔ ایک ریت کی چمک اور تپش آنکھیں کھولنے ہی نہیں دیتی تھی۔
…………bnb…………

چوتھا دن جو پانی کے بغیر گزر رہا تھا صحیح معنوں میں جہنم کے دنوں میں سے ایک تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے سورج اور نیچے آگیا ہو۔ پہلے تو سب خود آنکھیں بند رکھتے تھے کیونکہ چمک اور تپش آنکھوں کو جلاتی تھی اب آنکھیں کھلتی ہی نہیں تھیں۔ اونٹ تک ہارنے لگے تھے۔ کوئی اونٹ بڑی خوفناک آواز نکالتا بیٹھنے کیلئے اگلی ٹانگوں کو دوہری کرتا اور ایک پہلو پر لڑھک جاتا تھا۔ سوار بھی گرتا مگر اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔لشکر میں ہر کسی کی آنکھیں بند تھیں اور دماغ بیکار ہو گئے تھے۔ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کا کوئی ساتھی اونٹ سے گر پڑا ہے یا یہ کہ اس کا اونٹ بھی گر پڑ اہے اور اسے اٹھا کر اپنے ساتھ اونٹ پر بٹھالیں۔
سراب کا شکار ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ خود خالدؓکی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ انہیں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ لشکر میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ تو عزم اور ایمان کی قوت تھی جو انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی اور یہ اونٹ تھے جو چلے جا رہے تھے۔ اگر اونٹ رک جاتے تولشکر کا کوئی ایک بھی فرد ایک قدم نہ چل سکتا۔
گھوڑوں کے منہ کھل گئے تھے اور زبانیں لٹک آئی تھیں۔ مجاہدین کی زبانیں سوج گئی تھیں حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ اس وجہ سے ان کے منہ بھی کھل گئے تھے۔ وہ تو اب لاشوں کی مانند ہو گئے تھے۔ اونٹوں کی پیٹھوں پر اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتے تھے اسی لیے ان میں سے کوئی نہ کوئی گر پڑتا تھا۔ اب وہ عالمِ نزع کے قریب پہنچ رہے تھے، جسموں کی نمی خشک ہو چکی تھی۔
رات کو لشکر رکا۔ تمام رات مجاہدین نے جاگتے گزاری جسموں کے اندر سوئیاں چبھتی تھیں۔ زبانوں کی حالت ایسی تھی جیسے منہ میں کسی نے لکڑی کا ٹکڑا رکھ دیا ہو۔
سفر کے آخری دن کا سورج طلوع ہوکر مجاہدین کو موت کاپیغام دینے لگا۔ کئی مجاہدین اونٹوں پر بے ہوش ہو گئے۔ وہ خوش قسمت تھے جو لڑھک کر گرے نہیں، یہ لشکر اب ایک لشکر کی طرح نہیں جارہا تھا۔ اونٹ بکھر گئے تھے بعض بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ کئی دائیں اور بائیں پھیل گئے تھے ۔رفتار خطرناک حد تک سست ہو گئی تھی۔
یہ پانی کے بغیر دوسرا دن تھا، اور یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ اب بھی زندہ تھے۔ کون سی طاقت تھی جو انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی؟ وہ اﷲکا وہ پیغام تھا جو رسولِ کریمﷺ لائے تھے اور یہ مجاہدین انسانیت کی نجات کے لیے اﷲکا یہ پیغام زمین کے گوشے گوشے تک پہنچانے کیلئے صحرا کی آگ میں سے گزر رہے تھے۔ اﷲ نے انہیں بڑی ہی اذیت ناک آزمائش میں ڈال دیا تھا اور اسی کی ذات انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages