شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 94
غروبِ آفتاب سے بہت پہلے خالدؓ اپنے اونٹ کو رافع بن عمیرہ
کے اونٹ کے قریب لے گئے۔
’’ابنِ عمیرہ!‘‘ … خالدؓ نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ زبان سے نکالے۔ …
’’کیا اب ہمیں اس چشمے پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔جس کا تو نے ذکر کیا تھا ۔سویٰ ایک ہی
منزل دور رہ گیا ہو گا۔‘‘
’’اﷲتجھے سلامت رکھے ولید کے بیٹے!‘‘ … رافع بن عمیرہ نے کہا۔ … ’’میں
آشوبِ چشم کا مریض تھا۔ اس صحرا نے میری آنکھوں کا نور ختم کر دیا ہے۔ میں اب کیسے
دیکھوں؟‘‘
’’کیا تو اندھا ہو گیا ہے؟‘‘ … خالدؓ نے گھبرائی ہوئی آوز میں پوچھا۔
… ’’جو تو دیکھ سکتا تھا وہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔کیا ہم بھٹک گئے ہیں؟‘‘
مؤرخ واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ رافع بن عمیرہ کی بینائی
ختم ہو گئی تھی۔ اس نے ذہن میں کچھ حساب رکھاہوا تھا۔ ان دونوں مؤرخوں نے اس کے صحیح
الفاظ اپنی تحریروں میں نقل کیے ہیں۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … رافع نے کہا۔ … ’’لشکر یہیں روک لے۔اپنے کچھ آدمیوں
کو آگے بھیج، انہیں کہہ کہ وہ عورت کے پستانوں کی شکل کے دو ٹیلوں کو تلاش کریں۔‘‘
خالدؓ نے کچھ آدمیوں کو آگے بھیج دیا یہ آدمی جلد ہی واپس
آگئے اور انہوں نے بتایا کہ وہ دو ٹیلے دیکھ آئے ہیں۔رافع نے خالدؓسے کہاکہ … ’’اﷲکے
کرم سے وہ صحیح راستے پر جا رہے ہیں۔ لشکر کو آگے لے چلو۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … رافع بن عمیرہ نے کہا۔ … ’’اب اپنے آدمیوں سے کہہ
کہ ایک درخت کو ڈھونڈیں جس پر کانٹے ہی کانٹے ہوں گے اور وہ کوئی اونچا درخت نہیں ہو
گا۔ وہ دور سے اس طرح نظر آئے گا جیسے کوئی آدمی بیٹھا ہوا ہو۔ یہ درخت ان دو ٹیلوں
کے درمیان ہو گا۔‘‘
آدمی گھوم پھر کر واپس آگئے اور انہوں نے یہ جانکاہ خبر سنائی
کہ انہیں ٹیلوں کے درمیان اور اردگرد بلکہ دور دور تک کوئی ایسادرخت نظر نہیں آیا۔
’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ … رافع بن عمیرہ نے کہا۔ … ’’سمجھ لو
کہ ہم سب مر گئے۔‘‘ … اس نے کچھ سوچ کر اور قدرے جھنجھلا کر کہا۔ … ’’ایک بار پھر جاؤ
،درخت مل جائے گا، ریت کے اندر ڈھونڈو۔‘‘
آدمی پھر گئے ،برچھیاں اور تلواریں ریت میں مار مار کر مطلوبہ
درخت کھوجنے لگے۔ ایک جگہ انہیں ریت کی ڈھیری نظر آئی۔ ریت ہٹائی تو وہاں ایک درخت
کا ٹنڈ منڈ سا تنا ظاہر ہوا۔ یہ خار دار تھا۔
’’اکھاڑ دو اس درخت کو۔‘‘ … رافع نے کہا۔ … ’’اور اس جگہ سے زمین کھودو۔‘‘
زمین اتنی زیادہ نہیں کھودی گئی تھی لیکن پانی امڈ پڑا اور ندی
کی طرح بہنے لگا۔ اس گڑھے کو کھود کھود کر کھُلا کرتے چلے گئے۔ حتٰی کہ یہ ایک وسیع
تالاب بن گیا۔ لشکر کے مجاہدین اس پانی پر ٹوٹ پڑے۔ واقدی لکھتا ہے کہ یہ پانی اتنا
زیادہ تھا کہ اتنے بڑے لشکر نے پیا ،پھر اونٹوں اور گھوڑوں نے پیا، تب بھی یہ امڈتا
رہا۔
مجاہدین نے مشکیزے بھر لیے تب انہیں خیال آیا کہ معلوم نہیں
ان کے کتنے ساتھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اونٹ بھی تروتازہ ہو چکے تھے اور انسان بھی۔اپنے
ساتھیوں کا خیال آتے ہی کئی مجاہدین اونٹوں پر سوار ہوئے اور واپس چلے گئے۔ وہ منظر
بڑا ہولناک تھا، جگہ جگہ کوئی نہ کوئی مجاہد اور کوئی اونٹ یا گھوڑا ریت پر بے ہوش
پڑا جل رہا تھا۔ مجاہدین نے ان کے منہ میں پانی ڈالااور انہیں اپنے ساتھ لے آئے۔ بعض
مجاہدین شہید ہو چکے تھے۔ انہیں ان کے ساتھیوں نے وہیں دفن کر دیا۔
’’ابنِ عمیرہ!‘‘ … خالدؓ نے رافع بن عمیرہ کو گلے سے لگاکر کہا۔ …
’’تو نے لشکر کو بچا لیا ہے۔‘‘
’’اﷲنے بچایا ہے ابنِ ولید!‘‘ … رافع نے کہا۔ … ’’میں اس چشمے پر صرف
ایک بار آیا تھا اور یہ تیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ میں اس وقت کم سن لڑکا تھااور میرا
باپ مجھے اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس چشمے کو اب ریت نے چھپا لیا تھا لیکن مجھے یقین تھا
کہ یہاں چشمہ موجود ہے۔یہ اﷲکا خاص کرم ہے کہ چشمہ موجود تھا۔‘‘
ان مجاہدین کی مہم اس سفر پر ختم نہیں ہو گئی تھی۔ یہ تو آزمائش
کی ایک کڑی تھی جس میں سے وہ گزر آئے تھے۔ ان کا اصل امتحان ابھی باقی تھا۔شام کی
سرحد تک پہنچنے کیلئے ابھی دو منزلیں باقی تھیں لیکن وہ کٹھن نہیں تھیں۔ اصل مشکل یہ
تھی کہ رومی ان کے مقابلے کیلئے اور انہیں شام کی سرحدوں سے دور ہی ختم کرنے کیلئے
اتنی زیادہ فوج اکٹھی کر رہے تھے جس کے مقابلے میں مسلمانوں کی یہ نفری کوئی حیثیت
ہی نہیں رکھتی تھی۔
…………bnb…………
اسلامی فوج کی نفری تو پہلے ہی کم تھی اور خالدؓ نو ہزارنفری
کی جو کمک لے کر گئے تھے اس کے ہر فرد کو بالکل خشک اور ناقابلِ برداشت حد سے بھی زیادہ
گرم صحرا نے پانچ دنوں میں چوس لیا تھا۔ ان کے جسموں میں دم خم ختم ہو چکا تھا۔ ان
میں کچھ تو شہید ہو گئے تھے اور کچھ ایسے تھے جن پر صحرا نے بہت برا اثر کیا تھا۔ وہ
آٹھ دس دنوں کیلئے بیکار ہو گئے تھے۔ باقی نفری کو بھی دو تین دن آرام کی ضرورت تھی
لیکن احوال و کوائف ایسے تھے کہ انہیں آرام کی مہلت نہیں مل سکتی تھی۔ دشمن بیدار
اور تیار تھا اور یہ بڑا ہی طاقتور دشمن تھا۔
اس وقت کے ملک شام پر رومی حکمران تھے اور ان کی فوج اس دور
کی مشہور طاقتور اور مضبوط فوج تھی۔اس دور میں دو ہی شاہی فوجیں مشہور تھیں۔ ایک فارس
کی فوج اور دوسری رومیوں کی۔ دور دور تک ان دونوں فوجوں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ نفری
زیادہ ہونے کے علاوہ ان کے ہتھیار برتر تھے۔ روم کی فوج کے متعلق تاریخ نویسوں نے لکھا
ہے کہ جس راستے سے گزرتی تھی اس راستے کی بستیاں خالی ہو جاتی تھیں۔
فارس کی جنگی طاقت کو تو مسلمانوں نے بڑی تھوڑی نفری سے ختم
کر دیا تھااور عراق کے بے شمار علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔اب مسلمان دوسری بڑی جنگی
طاقت کو للکار رہے تھے۔رومی اکیلے نہیں تھے۔ان کا اتحادی غسان کا بڑا ہی طاقتور قبیلہ
تھا۔رومی جب ان علاقوں میں آئے تھے تو غسان واحد قبیلہ تھا جس نے رومیوں کا مقابلہ
کیا تھا۔یہ مقابلہ چند دنوں یا مہینوں پر ختم نہیں ہو گیا تھا بلکہ غسانی بڑی لمبی
مدت تک لڑتے رہے تھے۔رومیوں نے شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تو بھی غسانی لڑتے
رہے۔ وہ رومی فوج کی سرحدی چوکیوں پر شب خون مارتے رہتے اور کبھی رومیوں کے مقبوضہ
علاقے میں دور اندر جا کر بھی حملے کرتے رہتے۔
غسانی اور رومیوں کی یہ جنگ نسل بعد نسل چلتی رہی۔ آخر رومیوں
کو تسلیم کرنا پڑا کہ غسانی ایک قبیلہ نہیں قوم ہیں اور انہیں تہہ تیغ نہیں کیا جا
سکتا۔ چنانچہ رومیوں نے غسانیوں کی الگ قومی حیثیت تسلیم کرلی اور انہیں شام کا کچھ
علاقہ دے کر انہیں اس طرح کی خود مختاری دے دی کہ ان کا اپنا بادشاہ ہوگا اور وہ کسی
حد تک روم کے بادشاہ کے ماتحت ہو گا، یہ بڑا پرانا واقعہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ غسانی
قبیلہ ایسی صورت اختیار کر گیا کہ اس کے شاہی خاندان کو روم کا شاہی خاندان سمجھا جانے
لگا۔
آج کے اردن اور جنوبی شام پرغسانیوں کی حکمرانی تھی۔ یہ بھی
رومیوں کی طرح ایک بادشاہی تھی، جس کی فوج منظم اور طاقتور تھی اور اسے ہتھیاروں کے
معاملے میں بھی برتری حاصل تھی۔ اس بادشاہی کا پایہ تخت بصرہ تھا۔
مسلمان رومیوں اور غسانیوں کو للکار کر بہت بڑا خطرہ مول لے
رہے تھے۔ جنگ کا یہ دستور ہے کہ حملہ آور فوج کی نفری اس ملک کی فوج سے تین گنا نہ
ہو تو دگنی ضرور ہونی چاہیے کیونکہ جس فوج پر حملہ کیا جاتا ہے وہ قلعہ بند ہوتی ہے
اور وہ تازہ دم بھی ہوتی ہے۔حملہ آور فوج بڑا لمبا سفر کرکے آتی ہے اس لیے وہ تازہ
دم نہیں ہوتی۔جس فوج پر حملہ کیا جاتا ہے وہ اپنے ملک میں ہوتی ہے جہاں اسے رسد اور
کمک کی سہولت موجود ہوتی ہے اس کے مقابلے میں حملہ آور فوج اس سہولت سے محروم ہوتی
ہے۔ وہاں کا بچہ بچہ حملہ آور فوج کا دشمن ہوتا ہے۔
مسلمان جب شام پرحملہ کرنے گئے تو ان کی نفری ۳۷ ہزار تھی۔ اٹھائیس
ہزار پہلے وہاں موجود تھی اورکم و بیش نو ہزار خالدؓ لے کر گئے تھے۔یہ نو ہزار مجاہدین
فوری طور پر لڑنے کے قابل نہیں تھے، جس ملک پر وہ حملہ کرنے گئے تھے وہاں کم و بیش
ڈیڑھ لاکھ نفری کی تازہ دم فوج موجود تھی اور مقابلے کیلئے بالکل تیار۔
…………bnb…………
پانچ دنوں کے بھیانک سفر کے بعد جب مجاہدین نے چشمے سے پانی
پی لیا کھانا بھی کھا لیا تو ان پر غنودگی کا طاری ہونا قدرتی تھا۔ انہیں توقع تھی
کہ انہیں کچھ دیر آرام کی مہلت ملے گی۔ آرام ان کا حق بھی تھا لیکن اپنے سالارِ اعلیٰ
خالدؓ کو دیکھا۔ خالدؓ اب اونٹ کے بجائے اپنے گھوڑے پر سوار رتھے۔ اس کا مطلب یہ تھا
کہ ایک لمحے کابھی آرام نہیں ملے گا۔
مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے ہلکی سی زرہ پہن رکھی تھی،
انہوں نے یہ زرہ اس چشمے پر آکر پہنی تھی۔ زرہ مسیلمہ کذاب کی تھی۔ خالدؓ نے جب اسے
شکست دی تھی تو اس کی زرہ اترواکر اپنے پاس رکھ لی تھی۔ یہ ارتداد پر فتح حاصل کرنے
کی یادگارتھی۔ اس فتح کی ایک نشانی اور بھی خالدؓکے پاس تھی، یہ تلوار تھی۔ یہ بھی
مسیلمہ کذاب کی ہی تھی۔ خالدؓ نے وہی تلوار کمر سے باندھ رکھی تھی۔
واقدی کے مطابق خالدؓکے سر پر زنجیروں والی خود تھی اور خود
پر انہوں نے عمامہ باندھا ہوا تھا۔ عمامہ کا رنگ سرخ تھا۔ خود کے نیچے انہوں نے جوٹوپی
پہن رکھی تھی وہ بھی سرخ رنگ کی ہی تھی۔ خالدؓ کے ہاتھ میں سیاہ اور سفید رنگ کا پرچم
تھا جو صرف اس لئے مقدس نہیں تھا کہ یہ قومی پرچم تھا بلکہ اس لئے کہ یہ پرچم ہر لڑائی
میں رسولِ کریمﷺ اپنے ساتھ رکھتے تھے اور جب آپ ﷺنے خالدؓ کو سیف اﷲ (اﷲکی تلوار)
کا لقب عطا فرمایا تو اس کے ساتھ انہیں یہ پرچم بھی دیا تھا۔ اس پرچم کا نام عقاب تھا۔
نو ہزار مجاہدین میں جہاں صحابہ کرامؓ بھی تھے، وہاں خالدؓ کے
اپنے فرزند عبدالرحمٰن بھی تھے جن کی عمر اٹھارہ سال تھی اور ان میں امیرالمومنین ابو
بکرؓ کے نوجوان فرزند بھی تھے ان کا نام بھی عبدالرحمٰن ہی تھا۔
مجاہدین کھاپی کر اِدھر اُدھر بیٹھ گئے، انہوں نے اپنے سالارِ
اعلیٰ کو گھوڑے پر سوار اپنے درمیان گھومتے پھرتے دیکھا تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ خالدؓنے
زبان سے کچھ بھی نہ کہا۔ وہ ہر ایک کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے۔ ان کی خود اور زرہ
دیکھ کر اور ان کے ہاتھ میں رسولﷺ کا پرچم دیکھ کر مجاہدین سمجھ گئے کہ ان کے سالارِ
اعلیٰ چلنے کو تیار ہیں۔ تمام مجاہدین کسی حکم کے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے اونٹوں
کے بجائے گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ وہ جان گئے کہ اﷲکی شمشیر تھوڑی دیر کیلئے بھی نیام
میں نہیں جائے گی۔
خالدؓکی جانفزا مسکراہٹ نے پورے لشکر کی تھکن دور کر دی۔ لشکر
چلنے کیلئے تیار ہو گیا۔
’’ولید کے بیٹے یہ دیکھ!‘‘ … ایک آدمی پر جوش لہجے میں کہتا اور دوڑتا
آرہا تھا۔ … ’’یہ دیکھ ولید کے بیٹے!اﷲنے میری بینائی مجھے لوٹا دی ہے۔ میں دیکھ سکتا
ہوں، میں تجھے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’بے شک !اﷲایمان والوں پر کرم کرتا ہے۔‘‘ … کسی نے بلندآواز سے کہا۔
’’اﷲرحیم و کریم ہے۔‘‘ … کسی اور نے نعرہ لگایا۔
یہ تھا رافع بن عمیرہ جس نے اس لشکرکی رہنمائی اس خطرناک صحرا
میں کی تھی، وہ آشوبِ چشم کا مریض تھا۔ ریت کی چمک اور تپش سے اس کی بینائی ختم ہو
گئی تھی لیکن جسم میں چشمے کا پانی گیا اور آنکھوں میں پانی کے چھینٹے پڑے تو رافع
کی بینائی واپس آگئی۔ خالدؓ کو اس کی بہت زیادہ خوشی ہوئی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ
ان کے لشکر کا رہنما اور میدانِ جنگ کا شہسوار ہمیشہ کیلئے اندھا نہیں ہو گیاتھا اور
دوسری وجہ یہ تھی کہ رافع بن عمیرہ خالدؓ کا داماد تھا۔
…………bnb…………
مجاہدین بغیر آرام کیے اپنی اگلی منزل کو جا رہے تھے۔ اب ان
کا سفر سہل تھالیکن اس دشمن پر فتح سہل نظر نہیں آتی تھی جن سے لڑنے وہ جا رہے تھے۔وہ
دشمن بہت طاقتور تھا اس کے وہاں قلعے تھے وہ اس کی زمین اور اس کا ملک تھا۔ مسلمان
کھلے میدان میں تھے اور اپنے مستقر سے سینکڑوں میل دور تھے۔ انہیں اپنے لیے اور اپنے
جانوروں کیلئے خوراک کا خود ہی انتظام کرنا تھا اور ان کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا۔
خالدؓ جب اپنے لشکر کے ساتھ شام کی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے
اس وقت غسانی بادشاہ جبلہ بن الایہم اپنے امراء اور سالاروں کو حکم دے چکا تھا کہ مسلمانوں
کی فوج سرحدوں پر آگئی ہے اور اسے سرحدوں پر ہی ختم کردینا ہے اس وقت خالد بن سعید
کو رومی فوج شکست دے چکی تھی اور مدینہ کا اٹھائیس ہزار مجاہدین کا لشکر چار حصوں میں
شام کی سرحد پرپہنچ چکا تھا۔
’’ہم نے رومیوں کو شکستیں دی ہیں۔‘‘ … غسانی بادشاہ جبلہ نے اپنے امراء
اور سالاروں سے کہا تھا۔ … ’’رومیوں سے بڑھ کر جابر اور جنگجو اور کون ہو سکتا ہے؟
ہم نے اس زبردست فوج کو گھٹنوں بٹھا کر اس سے یہ علاقہ لے لیا تھا جس پر آج ہماری
حکمرانی ہے۔ تمہارے سامنے مسلمانوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔یہ مت سوچو کہ مسلمانوں نے
فارسیوں کو شکست دی ہے اور انہیں اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑا، فارسی بزدل تھے اپنے آباو
اجداد کی شجاعت کو یاد کرو۔ اگر تم نے اپنے اوپر مسلمانوں کا خوف طاری کر لیا تو رومی
ہی جو آج ہمارے بھائی بنے ہوئے ہیں تم پر چڑھ دوڑیں گے۔ پھر تم دو دشمنوں کے درمیان
پس جاؤ گے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے، وہ زیادہ دن تمہارے سامے نہیں ٹھہر سکیں
گے۔‘‘
’’شہنشاہ غسان!‘‘ … ایک معمر سالار نے کہا۔ … ’’ان کی تعداد تھوڑی ہے
تو کیا وجہ ہے کہ فارس کے تمام نامور سالار ان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں؟یہ کہنا ٹھیک
نہیں کہ فارسی بزدل تھے، کیا ہم اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے رہے؟ کیا مسلمانوں نے فراض
کے میدان میں رومیوں اور فارسیوں کی متحدہ فوج کو شرمناک شکست نہیں دی؟‘‘
’’ضرور دی ہے۔‘‘ … جبلہ بن الایہم نے کہا۔ … ’’میں تمہاری بات کر رہا
ہوں، اگر تم نے مسلمانوں کو اپنی تلواروں کے نیچے رکھ لیا تو رومیوں اور فارسیوں پر
تمہاری بہادری کی دہشت بیٹھ جائے گی اور تم جانتے ہو کہ اس کا تمہیں کیا فائدہ پہنچے
گا۔ میرا حکم یہ ہے کہ سرحد کی ہر ایک بستی میں یہ پیغام پہنچا دو کہ مسلمانوں کا لشکر
یا ان کا کوئی دستہ کسی طرف سے گزرے اس پر حملہ کردو اور اسے زیادہ سے زیادہ نقصان
پہنچانے کی کوشش کرو، ہر وہ شخص کہ جس نے غسانی ماں کا دودھ پیا ہے وہ اپنے قبیلے کی
آن پر جان قربان کردے۔ لیکن تین چار مسلمانوں کی جان ضرور لے۔ میں اپنے آپ کو دھوکا
نہیں دے رہا، میں ان مسلمانوں کو کمزور نہیں سمجھتا، جو اپنے وطن سے اتنی دور آگئے
ہیں، وہ اپنے عقیدے کے بل بوتے پر آئے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے،
اور وہ خد اکے برتر بندے ہیں، اور خدا ان کی مدد کرتا ہے، اگر تم اپنے عقیدوں کو مضبوطی
سے پکڑ لو تو تم انہیں کچل کر رکھ دو۔ قبیلے کے بچے بچے کو لڑاؤ، عورتوں کو بھی لڑاؤ
اور ہر کوئی یہ کوشش کرے کہ مسلمانوں کو یہاں سے کھانے کو ایک دانہ نہ ملے۔ پینے کو
پانی کی بوند نہ ملے اور ان کے اونٹ اور گھوڑے اس گھاس کی ایک پتی بھی نہ کھا سکیں،
جو تمہاری زمین نے اگائی ہے۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment