شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 95
خالدؓ کی اگلی منزل سویٰ تھی جس کے متعلق انہیں بتایا گیا تھا
کہ سرسبزوشاداب جگہ ہے۔ ان کے راستے میں پہلی بستی آئی تواس سے کچھ دور کم و بیش چالیس
گھوڑ سواروں نے مسلمانوں کے ہراول پر اس طرح حملہ کیا کہ گھوڑے اچانک ٹیلوں کے پیچھے
سے نکلے ،سرپٹ دوڑتے آئے اور برچھیوں سے مجاہدین پر ہلہ بول دیا، مجاہدین بھی شہسوار
تھے اور اس طرح کی چھاپہ مار لڑائی میں مہارت رکھتے تھے۔ اس لیے انہیں زیادہ نقصان
نہیں اٹھانا پڑا۔ کچھ مجاہدین زخمی ہو گئے اور انہوں نے حملہ آور سواروں میں سے تین
چار کو گرا لیا۔
یہ غسانی سوار تھے جنہوں نے پہلے ہلے میں مسلمانوں کو بتا دیا
تھا کہ وہ لڑنا جانتے ہیں، اور ان میں لڑنے اور مرنے کا جذبہ بھی ہے۔ وہ ہلہ بول کر
آگے نکل گئے اور بکھر گئے تھے۔ دور جا کر وہ پھر واپس آئے۔ اب مسلمان پوری طرح تیار
تھے۔ غسانیوں نے ہلہ بولا، وہ برچھیوں اور تلواروں سے مسلح تھے۔ مسلمانوں نے انہیں
گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن وہ بے جگری سے لڑتے ہوئے نکل گئےان کا انداز جم کر
لڑنے والا تھا ہی نہیں۔
تقریباًاتنے ہی غسانی سواروں نے مجاہدین کے لشکر کے عقبی حصے
پر حملہ کیا، یہ بھی چھاپہ مار قسم کا ہلہ تھا، گھوڑے سر پٹ دوڑتے آئے، اور آگے نکل
گئے۔ خالدؓلشکر کے وسط میں تھے انہیں اطلاع ملی تو انہوں نے لشکر کی ترتیب بدل دی لیکن
وہ لشکر کو زیادہ نہ پھیلا سکے کیونکہ وہ علاقہ ہموار نہیں تھا۔
کچھ دیر بعد خالدؓ کے سامنے چند ایک غسانی قیدی لائے گئے، انہیں
مجاہدین نے گھوڑوں سے گرا لیا تھا، ان سے جب جنگی نوعیت کی معلومات حاصل کی جانے لگیں
توان سب نے بڑی جرأت سے باتیں کیں۔
’’تم جدھر جاؤ گے تم پر حملے ہوں گے۔‘‘ … ایک قیدی نے کہا۔
’’جب آدمی نہیں ہوں گے وہاں تم پر عورتیں حملہ کریں گی۔‘‘ … ایک اور
قیدی نے کہا۔
’’تمہیں کس نے بتایا ہے کہ ہم تمہارے دشمن ہیں؟‘‘ … خالدؓنے پوچھا۔
’’دشمن نہیں ہو تو یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘ … ایک قیدی نے جواب دیا۔
ان قیدیوں نے اور کچھ نہ بتایا کہ ان کی فوج کتنی ہے اور کہاں
کہاں ہے، ان سے یہ پتہ چل گیا کہ تمام سرحدی بستیوں میں ان کے بادشاہ کا یہ حکم پہنچا
تھا کہ مسلمانوں پر حملے کرتے رہیں تاکہ جب مسلمان غسانیوں کی فوج کے مقابلے میں آئیں
تو وہ تھکے ہوئے ہوں اور کمزور ہو چکے ہوں۔
’’یہاں سے تمہیں اناج کا ایک دانہ نہیں ملے گا۔‘‘ … ایک قیدی نے کہا۔
… ’’پینے کو پانی کا ایک قطرہ نہیں ملے گا۔‘‘
’’تمہارے اونٹوں اور گھوڑوں کو ہم بھوکا مار دیں گے۔‘‘ … ایک اور قیدی
نے کہا۔ … ’’ہماری زمین سے یہ گھاس کی ایک پتی نہیں کھا سکیں گے۔‘‘
’’کیا تمہاری موت تمہیں یہاں لے آئی ہے؟‘‘ … ایک اور قیدی بولا۔
’’لڑنے آئے تھے تو خالد بن ولید کو ساتھ لاتے۔‘‘ … ایک اور قیدی نے
کہا۔
’’وہ آجاتا تو تم کیا کرتے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’سنا ہے اس کے سامنے اس کا کوئی دشمن پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔‘‘
… قیدی نے جواب دیا۔ … ’’اور سنا ہے وہ بڑا ظالم آدمی ہے، قیدیوں کو اپنے ہاتھوں قتل
کر دیتا ہے۔‘‘
’’اگر وہ اتنا ظالم ہوتا،تو تم اس وقت اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوتے۔‘‘
… خالدؓ نے کہا۔ … ’’تمہارے سر تمہارے کندھوں پر نہ ہوتے۔‘‘
’’کہاں ہے وہ؟‘‘ … قیدی نے پوچھا۔
’’تمہارے سامنے کھڑا ہے۔‘‘ … خالدؓ بن ولید نے مسکراتے ہوئے کہا۔ …
’’میں تمہاری بہادری کی تعریف کرتا ہوں، ایسا حملہ بہادر کیا کرتے ہیں جیسا تم نے کیا
ہے۔‘‘
تمام قیدیوں پر خاموشی طاری ہو گئی تھی اور وہ حیرت زدہ تاثر
چہروں پر لیے خالدؓ کو دیکھ رہے تھے۔
’’کیا تم مجھ سے ڈر رہے ہو کہ میں تمہیں قتل کر دوں گا؟‘‘ … خالدؓ نے
پوچھا۔
ان میں سے کوئی بھی نہ بولا۔
’’نہیں۔‘‘ … خالدؓ نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا۔ … ’’تمہیں قتل
نہیں کیا جائے گا، تمہارے بہت سے بھائی ابھی ہماری قید میں آئیں گے۔ کسی کو قتل نہیں
کیا جائے گا، قتل وہی ہوگا جو ہمارے مقابلے میں آئے گا … کیا تم غسان کے لشکر کے آدمی
ہو؟‘‘
’’نہیں!‘‘ … ایک قیدی نے جواب دیا۔ … ’’ہم اس بستی کے رہنے والے ہیں۔‘‘
’’تم میرا نام کس طرح جانتے ہو؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … ایک ادھیڑ عمر قیدی نے جواب دیا۔ … ’’تیرا نام غسان
کے بچے بچے نے سنا ہے۔ غسان کی فوج تیرے نام سے واقف ہے۔ فارس کی فوج کو شکست دینے
والا سالار عام قسم کا انسان نہیں ہو سکتا۔ لیکن ابنِ ولید!اب تیرا مقابلہ قبیلہ غسان
سے ہے۔‘‘
خالدؓ اس شخص کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس
کے ساتھ اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ دوستانہ انداز میں باتیں جاری رکھیں اور ان سے کچھ
باتیں معلوم کر لیں، مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ خالدؓکو اندازہ ہی نہیں تھا کہ غسانیوں
اور ومیوں تک ان کا صرف نام ہی نہیں پہنچا تھا بلکہ ان کے نام کے ساتھ کچھ روائتیں
اور حکایتیں بھی پہنچ گئی تھیں، بعض لوگ خالدؓ کو مافوق الفطرت شخصیت سمجھنے لگے تھے۔
…………bnb…………
خالدؓ آگے بڑھتے گئے،غسانیوں کے گروہوں نے دواور جگہوں پر مسلمانوں
کے لشکر پر حملہ کیا، ایک حملہ جو چھاپہ مار قسم کا تھا، خاصا سخت تھا۔ مسلمان چونکہ
چوکس اور تیار تھے اس لیے ان کا زیادہ نقصان نہ ہوا۔ حملہ آوروں کا جانی نقصان زیادہ
ہوا۔ خالدؓکو قیدیوں سے معلوم ہو چکا تھا کہ ان پر ان حملوں کا مقصد کیا ہے۔ انہوں
نے سوچا کہ اس طرح مزاحمت جاری رہی توانہیں اپنے لشکر کے کھانے پینے کیلئے بھی کچھ
نہیں ملے گا۔
وہ سویٰ کے قریب ظہر اور عصر کے درمیان پہنچے تو انہیں بڑا ہی
وسیع سبزہ زار نظر آیا۔ اس میں بے شمار بھیڑیں ،بکریاں اور مویشی چر رہے تھے۔یہ وسیع
چراگاہ تھی اس کے قریب سویٰ کی بستی تھی۔ خالدؓ نے اس خیال سے کہ پیشتر اس کے کہ ان
پر حملہ ہو، انہوں نے حکم دے دیا کہ تمام بھیڑ بکریاں اور مویشی پکڑ لیے جائیں اور
انہیں کھانے کیلئے اور ان میں جودودھ دینے والے جانورتھے انہیں دودھ کیلئے استعمال
کیا جائے۔
مجاہدین ان جانوروں کو پکڑنے لگے تو بستی والوں نے مسلمانوں
پر حملہ کر دیا۔ غسانیوں کے گھوڑے اچھے تھے اور ان کے ہتھیار بھی اچھے تھے لیکن مسلمانوں
کے آگے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔ خالدؓنے چراگاہ پر قبضہ کرلیا،جب بستی میں گئے تو وہاں
لڑنے والا ایک آدمی بھی نہیں تھا، وہ بوڑھے تھے اور عورتیں تھیں اور بچھے تھے۔مسلمانوں
کو دیکھ کر وہ بھاگنے لگے۔ عورتیں اپنے بچوں کو اٹھائے چھپ گئیں یا بھاگ اٹھیں۔ خالدؓ
کے حکم سے ان سب کو روک کر کہا گیا کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ اگر
بستی سے مسلمان لشکرکے خلاف کوئی کاروائی ہوئی تو بستی کو اجاڑ دیا جائے گا۔
…………bnb…………
مخبروں نے خالدؓکو اطلاع دی کہ کچھ دور آگے ایک قلعہ ہے جس
میں عیسائی فوج ہے اور اس کا سالار رومی ہے۔ یہ اطلاع بھی ملی کہ سویٰ کے بھاگے ہوئے
غسانی اس قلعے میں چلے گئے ہیں۔
اس قلعے کا نام اَرک تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔شام گہری ہو
گئی، قلعے کے دروازے سورج غروب ہوتے ہی بند ہو گئے تھے۔ اس کے بعد قلعے کے سنتریوں
کو جو دیوار پر ٹہل رہے تھے گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیئے۔ سنتریوں نے خبردار ہوشیار کی
صدائیں لگانی شروع کردیں۔ کماندار دیوار پر گئے اور نیچے دیکھا۔ بہت سے گھوڑے دوڑے
آرہے تھے۔ وہ قلعے کے بڑے دروازے پر آکر رک گئے۔ ابھی اورگھوڑے اور اونٹ آرہے تھے۔
’’کون ہو تم لوگ؟‘‘ … دروازے کے اوپر ایک بُرج سے ایک کماندار نے پوچھا۔
’’ہم غسانی ہیں۔‘‘ … باہر سے ایک سوار نے جواب دیا۔ … ’’مسلمانوں کا
لشکر آرہا ہے ۔ہم نے سویٰ میں انہیں روکنے کی کوشش کی تھی لیکن ہم ان کے مقابلے میں
جم نہ سکے۔ ہم بستی میں جاتے تو مسلمان ہمیں زندہ نہ چھوڑتے۔‘‘
’’کیا تم پناہ لینے آئے ہو؟‘‘
’’پناہ بھی لیں گے۔‘‘ … ایک غسانی سوار نے جواب دیا۔ … ’’اور مسلمانوں
کے خلاف لڑیں گے بھی۔تمہیں ہماری ضررت ہو گی۔‘‘
رومی سالار کو بلایا گیا۔اس نے ان لوگوں سے اپنی تسلی کیلئے
کئی سوال کیے اور ان کیلئے قلعے کا دروازہ کھلوا دیا۔ انہوں نے رومی سالار کو تفصیل
سے بتایا کہ مسلمانوں کی نفری کتنی ہے اور اب وہ کہاں ہیں۔
اگلی صبح طلوع ہوئی تو خالدؓکا لشکر قلعے تک پہنچ گیا تھا اور
قلعے کو محاصرے میں لے رہا تھا۔ عیسائی فوج جو قلعے میں تھی قلعے کی دیواروں پر چلی
گئی اور فوج کا ایک حصہ قلعے کے بڑے دروازے سے کچھ دور کھڑا ہو گیا۔ اس حصے کو ایسی
صورتِ حال کیلئے تیاررکھاگیا کہ دروازہ ٹوٹ جائے تو یہ دستہ حملہ آوروں کو اندر نہ
آنے دے اور حکم ملنے پر باہر جا کر مسلمانوں پر حملے کرے۔ قلعے کے باہر للکار اور
نعرے گرج رہے تھے۔
’’قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ … خالدؓ کے حکم سے رافع بن عمیرہ نے بلند
آواز سے کہا۔ … ’’ورنہ ہر غسانی قتل ہونے کیلئے تیار ہو جائے، ہتھیار ڈال دو اور کسی
کو باہر بھیجوجو ہمارے ساتھ صلح کی شرطیں طے کرے۔‘‘
’’اے مسلمانو!‘‘ … اوپر سے ایک کماندار نے للکار کر کہا۔ … ’’یہ قلعہ
تمہیں اتنی آسانی سے نہیں ملے گا۔‘‘
واقدی لکھتا ہے کہ قلعہ میں ایک ضعیف العمر عالم تھا۔اس نے رومی
سالار کو بلایا۔ اس عالم کی قدرومنزلت تھی اور غسانی اس کا حکم مانتے اور اس کی ہر
بات کو برحق تسلیم کرتے تھے۔
’’کیا اس فوج کا پرچم کالے رنگ کا ہے؟‘‘ … عالم نے پوچھا۔
’’ہاں مقدس باپ!‘‘ … رومی سالار نے جواب دیا۔ … ’’ان کا جھنڈا نظر آرہا
ہے جو سفید اور کالے رنگ کا ہے۔‘‘
’’کیا یہ فوج صحرا میں سے اس راستے سے گزر کر آئی ہے جس راستے سے کبھی
کوئی نہیں گزرا؟‘‘ … عالم نے پوچھا۔
مؤرخ واقدی، طبری اور ابنِ یوسف نے لکھا ہے کہ دو مخبروں نے
اس عالم کو بتایا کہ مسلمانوں کی فوج صحرا کے اس حصے میں سے گزر کر آئی ہے جہاں اونٹ
بھی نہیں جاتے اور جہاں سانپ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔
’’کیا اس فوج کے سالار کا قد اونچا ہے؟‘‘ … معمر عالم نے پوچھا۔ …
’’کیا اس کا جسم گٹھا ہوا ہے، اور اس کے کندھے چوڑے ہیں؟‘‘
’’مقدس باپ!‘‘ … کسی نے جواب دیا۔ … ’’قد تو ان سب کے اونچے ہیں اور
جسم بھی سب کے گٹھے ہوئے ہیں لیکن اس کے کندھے سب سے چوڑے ہیں۔‘‘
’’کیا اس کی داڑھی زیادہ گھنی ہے؟‘‘ … عالم نے پوچھا۔ … ’’اور کیا اس
کے چہرے پر کہیں کہیں چیچک کے گہرے داغ ہیں؟‘‘
’’ہاں مقدس درویش!‘‘ … کسی اور نے جواب دیا۔ … ’’اس کی داڑھی دوسروں
سے زیادہ گھنی ہے اور یہ داڑھی اس کے چہرے پر بہت اچھی لگتی ہے اور اس کے چہرے پر چیچک
کے کچھ داغ ہیں۔‘‘
اس عالم درویش نے رومی سالار اور عیسائی سرداروں کی طرف دیکھا
اور کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے اپنا سر دائیں بائیں دو بار ہلایا۔
’’یہ وہی شخص ہے جس کا مقابلہ کرنے کی ہمت تم میں سے کسی میں بھی نہیں
۔‘‘ … اس نے کہا۔
’’اَے کہ تو جس کا احترام ہم سب پر لازم ہے، کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ … رومی
سالار نے کہا۔ … ’’وہ تو ہمارا قیدی ہو گا جس سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے۔‘‘
’’کیا تو نے ان کا انجام نہیں دیکھا جنہوں نے اس کا مقابلہ کیا تھا؟‘‘
… عالم نے کہا۔
’’کیا وہ آسمانوں کا کوئی دیوتا ہے جسے زمین کا کوئی انسان شکست نہیں
دے سکتا؟‘‘ … ایک عیسائی سردار نے پوچھا۔
’’اے عیسائی سردار!‘‘ … عالم نے کہا۔ … ’’وہ چوڑے کندھوں اور چیچک کے
داغوں والا جو مدینہ سے آیا ہے۔ اس کے پاس عَلَم ہے اور میرے پاس علم ہے۔ تیرے پاس
نہ عَلَم ہے نہ علم۔ تو رومی نہیں، تو غسانی بھی نہیں اور جو مجھے نظر آتا ہے وہ تو
نہیں دیکھ سکتا … اور تو کہتا ہے کہ وہ آسمان کا دیوتا تو نہیں … سن رومی سالار! اور
تو بھی سن عیسائی سردار! جو اپنے لشکر کو اس صحرا میں سے زندہ گزار لایا ہے جہاں کی
ریت پہلے اندھا کرتی پھر جسم کوخشک لکڑی بناتی اور پھر جلا دیتی ہے وہ انسان آسمانوں
کے دیوتاؤں کو بھی شکست دے سکتا ہے … میں کچھ اور نہیں کہتا سوائے اس کے کہ قلعہ اس
کے حوالے کردو، اور اگر لڑنا چاہو تو عقل اور ہوش سے کام لینا لیکن عقل تمہارا ساتھ
نہیں دے گی۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment