Featured Post

Khalid001

11 October 2019

Khalid096


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  96
اس وقت جب یہ عالم اور درویش قلعہ دار اور عیسائی سرداروں کو بتا رہا تھا کہ وہ خالدؓ کے مقابلے میں آئیں تو ذرا سوچ لیں، اس وقت قلعے کے اندر مسلمانوں کی للکار سنائی دے رہی تھی۔
’’دروزے کھول دو … ہتھیار ڈال دو … ہم قلعہ لینے آئے ہیں … اپنے لشکر کو، عورتوں کو اور بچوں کو بچاؤ۔‘‘
رومی سالار عیسائی سرداروں کے ساتھ قلعے کی دیوار پر آیا اور ہر طرف جا کر دیکھا۔ اسے مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ دکھائی نہیں دے رہی تھی کہ وہ قلعہ سر کر لیتی لیکن وہ مسلمانوں کا پرچم عقاب دیکھتا تو وہ اپنے آپ میں دھچکہ محسوس کرتا تھا۔
’’کیا یہی ہے سارا لشکر؟‘‘ … رومی سالار نے کسی سے پوچھا۔ … ’’یہی نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’یہ لشکر اتنا ہی ہے۔‘‘ … اسے جواب ملا۔
’’تیروں کا مینہ برسا دو ان پر!‘‘ … اس نے حکم دیا۔ … ’’قریب آئیں تو برچھیاں پھینکو۔‘‘
دیوار سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔
’’خداکی قسم!یہ تیر ہمیں نہیں روک سکتے۔‘‘ … خالدؓ نے گلا پھاڑ کر کہا۔ … ’’ایسے تیر ہم پر بہت برسے ہیں۔تیر اندازوں کو آگے کرو۔دروازوں پر ہلہ بول دو … اور سب سے کہہ دو کہ یہ شام کا پہلا قلعہ ہے۔اگر ہم پہلے قلعے پر ہار گئے تو شکست ہمارا مقدر بن جائے گی۔‘‘
خالدؓ کے قاصدوں نے جب قلعے کے چاروں طرف یہ پیغام پہنچا دیا تو تیر اندازتیروں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھے اور اندھا دھند نہیں بلکہ ایک ایک آدمی کا نشانہ لے کر تیر چلا نے لگے، سب سے زیادہ تیر انداز قلعے کے بڑے دروازے کے سامنے جمع ہو گئے تھے اور دروازے کے اوپر اور بُرجوں میں تیر پھینک رہے تھے۔ مجاہدین کی بے خوفی اور شجاعت کا یہ عالم تھا کہ کئی مجاہدین دروازے تک پہنچ گئے اور کلہاڑیوں سے دروازہ توڑنے لگے۔
دروازہ مضبوط تھاجسے اس حالت میں توڑنا آسان نہیں تھا کہ اوپر سے تیر آرہے تھے لیکن مجاہدین کی اس جرأت نے اور لشکر کے نعروں نے قلعے والوں کا حوصلہ توڑ دیا۔ان پر اپنے عالم درویش کی باتوں کا اثر بھی تھا۔
’’اب بھی وقت ہے۔‘‘ … خالدؓ کے حکم سے ایک بلند آواز مجاہد نے اعلان کیا۔ … ’’قلعہ دے دو گے تو فائدے مین رہو گے ۔قلعہ ہم نے لے لیا تو ہم سے رحم کی امید نہ رکھنا۔‘‘
تھوڑی ہی دیر بعد قلعے پر سفید جھنڈا لہرانے لگا۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں کی طرف قاصد دوڑا دیئے کہ رُک جاؤ۔
’’باہر آکر بات کرو۔‘‘ … مسلمانوں کی طرف سے اعلان ہوا۔
قلعے کا دروازہ کھلا۔ رومی سالار دو تین عیسائی سرداروں کے ساتھ باہر آیا اورمدینہ کے اس سالار کے سامنے آن کھڑا ہوا جس کے کندھے چوڑے، داڑھی گھنی اور جس کے چہرے پر چیچک کے چند ایک داغ تھے۔
’’خدا کی قسم!تو عقل والا ہے۔‘‘ … خالدؓ نے رومی سالار سے کہا۔ … ’’تو نے اپنی آبادی کو اور اپنے لشکر کو قتلِ عام سے بچا لیا ہے۔ اب تو مجھ سے وہ توقع رکھ سکتا ہے جو دوست دوستوں سے رکھا کرتے ہیں۔‘‘
خالدؓ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ رومی سالار نے مصافحہ کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا۔
’’ہاتھ نہیں!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’پہلے تلوار۔‘‘
رومی سالا رنے اپنی کمر بند سے تلوار مع نیام کھول کر خالدؓ کے حوالے کر دی۔ پھر عیسائی سرداروں نے اپنی اپنی تلواریں اتار کر خالدؓ کے آگے پھینک دیں۔
’’اب بتا اے سالارِ مدینہ!‘‘ … رومی سالار نے پوچھا۔ … ’’تیری اور شرط کیا ہے؟کیا ہماری جوان لڑکیاں اور بچے تیرے لشکر سے محفوظ رہیں گے؟‘‘
’’ہم تمہاری لڑکیاں اٹھانے نہیں آئے اے رومی سالار!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ہم جزیہ لیں گے۔کوئی اور محصول نہیں لیں گے۔ اگر تو کچھ دیر اور لڑتا اور ہم قلعہ اپنے زور پر لیتے تو اَرک کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی اور اندر لاشوں کے ڈھیر لگے ہوتے۔ تو امن سے آیا ہے امن سے جا، اپنی لڑکیوں کو،بچوں کواور ان کی ماؤں کو ساتھ لے جا … اور دل میں یہ بات رکھ کہ ہم لوٹ مار کرنے نہیں آئے، ہم کچھ دینے آئے ہیں،یہ ہمارا عقیدہ ہے اسلام، اس پرغور کرنا۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار اور عیسائی سردار خوف زدہ حالت میں آئے تھے۔ خوف یہ تھا کہ خالدؓانہیں قتل کرادے گا،اور قلعے میں کچھ بھی نہیں چھوڑے گا، لیکن خالدؓ نے جزیہ کے سوا اور کوئی شرط عائد نہ کی۔ اب رومی اور عیسائی خوف زدہ نہیں حیرت زدہ تھے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی فاتح مفتوح کے ساتھ اتنی فیاضی سے پیش آسکتا ہے۔ ان لوگوں پر کرم یہ کیا گیا کہ صرف فوج کو وہاں سے نکالا گیا۔ باقی تمام آبادی امن و امان میں وہاں موجود رہی۔
…………bnb…………

خالدؓ کو وہاں سے مقامی گائیڈ مل گئے تھے۔ اَرک سے آگے دومقامات سخنہ اور قدمہ تھے۔خالدؓ نے اَرک پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اپنے لشکر کو قصبے کے باہر خیمہ زن کیا۔ رات کو خالدؓ نے اپنے سالاروں کے ساتھ بڑے جذباتی انداز سے اﷲکا شکر ادا کیا۔ شام کے پہلے ہی قلعہ دار نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ شام کی سرحد سے قریب پہنچ کر خالدؓ کی چال ڈھال میں تبدیلی سی آگئی تھی۔ وہ سرخ رنگ کا عمامہ سر پر رکھتے تھے۔ مسیلمہ کذاب کی تلوار ان کے پاس رہتی تھی۔ رسولِ اکرمﷺ کا دیا ہوا مقدس پرچم ان کے خیمے پر لگا رہتا، اور خالدؓ کو اکثر دیکھا گیا کہ اس مقدس پرچم پر نظریں گاڑے کھڑے ہیں۔ کوچ اور پیش قدمی کے دوران بھی وہ اس پرچم عقاب کودیکھتے تو ان کی نظریں کچھ دیر پر چم پر جمی رہتی تھیں۔ انہیں شاید یہ احساس پریشان کر رہا تھا کہ وہ وطن سے بہت دور ایک طاقتور ملک کو فتح کرنے آگئے ہیں لیکن ان کی باتوں اور مسکراہٹوں میں حوصلہ مندی صاف نظر آتی تھی۔
رات کو خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔
’’بیشک اﷲغفورالرحیم ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’فتح اور شکست اسی کے ہاتھ میں ہے۔ہم لڑتے ہیں تو اﷲکے نام پر ہی لڑتے ہیں، جانیں دیں گے تو اسی کے نام پر دیں گے … میرے دوستو!کیسے شکر بجالاؤگے رب کریم کا جس نے تمہارے نام کا خوف تمہارے قدم یہاں پڑنے سے پہلے ہی دشمنانِ اسلام کے دلوں پر طاری کر دیا تھا۔کیسے احسان چکاؤگے اپنے اﷲکا جس نے پہلا ہی قلعہ کسی جانی نقصان کے بغیر تمہاری جھولی میں ڈال دیا ہے۔تکبر نہ کرنا، اور یہ نہ بھولنا کہ ہمارے ساتھ وہ پرچم ہے جو رسول اﷲﷺاپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔یہ پرچم نہیں یہ ہمارے رسول اﷲﷺکی روحِ مقدس ہے جو ہمارے ساتھ ہے…‘‘
’’تم نے صبر اور تحمل کی، جرأت اور شجاعت کی جو روایت قائم کی ہے یہ ہماری آنے والی نسلوں کو راستہ دکھانے والی روشنی کا کام دے گی۔ ہمیں ابھی اور روایات قائم کرنی ہیں، اور یہی روایات اسلام کو زندہ رکھیں گی۔‘‘
ایسی کچھ اور باتیں کرکے خالدؓ اپنی اگلی پیش قدمی کے متعلق احکام دینے لگے۔ انہوں نے دو دستوں کے سالاروں سے کہا کہ وہ اگلے دو مقامات پر قبضے کیلئے جائیں گے۔ ایک کو سخنہ اوردوسرے کو قدمہ جانا تھا۔خالدؓ نے انہیں کہا کہ انہیں ایک ایک دستے سے ان دونوں بستیوں کو لینا ہے۔ جاسوسوں کی اطلاع کے مطابق یہ دونوں بستیاں چھوٹے چھوٹے قلعوں یا قلعہ نما حویلیوں کا مجموعہ تھیں۔
’’اَرک کی فتح دونوں بستیوں کی فتح کو مشکل بنا چکی ہوگی۔‘‘ … خالدؓ نے سالاروں سے کہا۔ … ’’اَرک کے شکست خوردہ آدمی وہاں پہنچ چکے ہوں گے۔ عیسائی اور رومی اَرک کی شکست کا انتقام ضرور لیں گے۔ تمہیں بڑے سخت مقابلے کا سامنا ہوگا۔ پسپا نہ ہونا، میں کمک تیاررکھوں گا۔ اﷲنے ہمیں یہ اڈہ دے دیا ہے۔میں تمہاری مدد کو پہنچوں گا۔ اﷲتمہارے ساتھ ہے۔‘‘
خالدؓ نے سالار ابو عبیدہؓ کے نام ایک پیغام لکھوایا اور ایک قاصد کو دے کر کہا کہ فجر کی نماز کے فوراًبعد وہ روانہ ہو جائے گا،اور یہ پیغام ابو عبیدہؓ کو دے آئے۔
ابو عبیدہؓ ان اٹھائیس ہزار مجاہدین کے ایک حصے کے سالار تھے جو امیرالمومنین ابوبکرؓنے مدینہ سے تیار کراکے شام کی فتح کیلئے روانہ کیا تھا۔ اس لشکر کے چار حصے کیے گئے تھے اور ہر حصہ شام کی سرحد پرایک دوسرے سے دور مختلف جگہوں پر پہنچ گیا تھا۔ سالار ابو عبیدہؓ جابیہ کے علاقے میں تھے۔ خالدؓ نے انہیں پیغام بھیجا کہ وہ جہاں بھی ہیں وہیں رہیں اور جب تک انہیں خالدؓ کی طرف سے کوئی حکم نہ ملے وہ کوئی حرکت نہ کریں۔
’’اور میں تدمُر جارہا ہوں۔‘‘ … خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بتایا۔ … ’’تدمُر باقاعدہ قلعہ ہے۔ اسے سرکرنا آسان نہیں ہوگااس لیے اسے میں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے…! میرے رفیقو!معلوم نہیں ہم ایک دوسرے کو زندہ مل سکیں گے یا نہیں۔ یہ خیال رکھنا کہ ہم اﷲکے حضور اکٹھے ہوں گے تونہ اﷲکے آگے شرمسار ہوں نہ ایک دوسرے کے آگے!‘‘
…………bnb…………

خالدؓ کے ساتھ مجاہدین کاجو لشکر تھا اس کی تعداد نوہزار پوری نہیں تھی۔ اسے بھی خالدؓ نے تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ہر حصے کو ایک ایک مقام فتح کرنا تھا، خالدؓ نے بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا لیکن انہیں اﷲکی ذات پر اتنابھروسہ تھا کہ انہوں نے اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا۔
صبح ہوتے ہی خالدؓ تدمر کی طرف کوچ کر گئے اور دو سالار اپنے اپنے دستوں کو لے کر سخنہ اور قدمہ کو روانہ ہوگئے۔
خالدؓ نے جاتے ہی تدمر کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔اس میں بھی عیسائیوں کی فوج تھی۔ خالدؓنے نعروں کے ساتھ قلعے کے دروازوں پر ہلے بولے اور بار بار اعلان کرایا کہ قلعہ ان کے حوالے کر دیا جائے،یہ دیکھا گیا کہ قلعہ کے دفاع میں لڑنے والوں میں کوئی جوش و خروش نہیں تھا۔
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ قلعے کا دروازہ کھلا اور عیسائی سردار باہر آگئے۔انہوں نے خالدؓ سے پوچھا کہ وہ کن شرائط پر صلح کرنا چاہتے ہیں؟
’’جزیہ ادا کرو۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اور یہ معاہدہ کہ یہاں سے مسلمانوں کا جوبھی لشکر یا دستہ گزرا کرے گا اسے کھانے پینے کاسامان تم مہیا کرو گے اور قلعہ میں رُکنا ہوا تو تم اسے جگہ دو گے۔‘‘
’’تمہاری فوج لوٹ مار تو نہیں کرے گی؟‘‘ … ایک عیسائی سردار نے پوچھا۔
’’جزیئے کے عوض تمہاری عزت اور تمہاری جانوں اور اموال کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہوگی۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’کسی اور نے تم پر حملہ کیا تو مسلمان تمہاری مدد کو پہنچیں گے اور تم رومی اور غسانیوں کا ساتھ نہیں دو گے۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … ایک سردار نے کہا۔ … ’’ہم نے جیسا سنا تھا تجھے ویسا ہی پایا۔اب تو ہمیں اپنا دوست پائے گا۔‘‘
عیسائیوں کے سب سے بڑے سردار نے اعلیٰ نسل کا ایک گھوڑا خالدؓ کو پیش کیا۔ یہ بڑا قیمتی گھوڑا تھا۔
یہ دوسرا قلعہ تھا جو خالدؓکے قدموں میں آن پڑا اور خالدؓ اﷲکے حضور سجدے میں گر پڑے۔
…………bnb…………

ادھر سخنہ اور قدمہ میں ایک جیسا ہی معجزہ ہوا۔ دونوں دستوں کے سالاروں پر ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ ایک خطرہ یہ تھا کہ وہ دشمن ملک کے زیادہ اندر یعنی گہرائی میں جا رہے تھے، دوسرے یہ کہ اَرک سے فوجی چلے گئے تھے۔ان کا ان قصبوں میں ہونا وہاں کے لوگوں کو ساتھ ملا کر مقابلے میں آنا لازمی تھا اور سب سے بڑا خطرہ تو یہ تھا کہ دونوں سالاروں کے پاس صرف ایک ایک دستہ تھا۔
دونوں دستے تقریباًایک ہی وقت اپنے اپنے ہدف پر پہنچے۔ دونوں سالاروں نے اپنے اپنے طور پر یہ طے کر لیا تھا کہ ان کامقابلہ اگر زیادہ تعداد سے ہو گیا تو وہ جم کر نہیں لڑیں گے بلکہ گھوم پھر کر اوردشمن کو بکھیر کر لڑیں گے۔انہوں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ خالدؓ سے مدد نہیں مانگیں گے کیونکہ خالدؓ ایک قلعہ پر حملہ کرنے گئے تھے۔
ایمان کے جذبے کی یہ انتہا تھی کہ وہ اتنی قلیل تعداد میں کہاں جا پہنچے تھے۔ انہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال اﷲکے سپرد کر دیئے تھے۔وہ اپنی بیویوں اور اپنے ماں باپ اور اپنے بہن بھائیوں کو فراموش کیے ہوئے تھے۔ان پر یہ نشہ طاری تھا کہ کفر کے فتنے کو ختم کرکے اﷲکے پیغام کو زمین کے دوسرے سرے تک پہنچانا ہے۔ ان کے دلوں میں اﷲکا نام اور رسول ﷺ کا عشق تھااور ان کے ذہنوں میں کوئی وہم اور کوئی شک نہ تھا،جہاد ان کی عبادت تھی اور وہ اﷲہی سے مدد مانگتے تھے … اور اب وہ اس مقام پر اور ایسے حالات میں جا پہنچے تھے کہ اللہ ہی ان کا حافظ تھا۔
ایک سالار سخنہ کے قریب اور دوسرا قدمہ کے قریب پہنچا تو دونوں جگہوں پر ایک ہی جیسا منظر دیکھنے میں آیا۔وہاں کے لوگ باہر نکل آئے اور ان کی تعداد بڑھتی گئی۔
سالاروں نے اپنے اپنے دستے کو پھیلادیا۔ یہاں کوئی دھوکا دکھائی دے رہا تھا،وہ لوگ مسلح نہیں تھے۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی باہر آگئے اور سب ہاتھ اوپر کرکے ہلا رہے تھے۔ سالاروں نے اپنے اپنے دستے کو محاصرے کی ترتیب میں کردیا،ان کی نظریں ان مکانوں پر لگی ہوئی تھیں جو چھوٹے چھوٹے قلعوں کی مانند تھے سالاروں کو خطرہ یہ نظر آرہاتھا کہ وہ اگر آگے بڑھیں گے تو ان مکانوں سے ان پر تیر برسنے لگیں گے۔
وہ رک رک کر آگے بڑھنے لگے۔ دونوں بستیوں کی آبادی عربی عیسائیوں کی تھی، ان میں سے چار پانچ معمر سفید ریش آگے بڑھے، قریب آکر انہوں نے استقبال کے انداز میں بازو پھیلا دیئے۔
’’ہم تمہارا استقبال کرتے ہیں۔‘‘ … ایک سفید ریش عیسائی نے کہا۔ … ’’آؤ … دوستوں کی طرح آؤ، ہم امن کے بندے ہیں۔‘‘
’’اور اگر ہم پر ایک بھی تیر آیا تو اس بستی کی تباہی دیکھ کر بھی یقین نہیں کروگے۔‘‘ … سالار نے کہا۔
’’مکانوں کے دروازے کھلے ہیں۔‘‘ … عیسائی بزرگ نے کہا۔ … ’’آبادی کا ایک بچہ بھی اندر نہیں، دیکھ لو، کسی کے ہاتھ میں کمان نہیں، برچھی نہیں تلوار نہیں۔‘‘
’’کہاں ہیں وہ جو اَرک سے یہاں آئے تھے؟‘‘ … سالار نے پوچھا۔
’’کچھ ہیں کچھ چلے گئے ہیں۔‘‘ … ایک معمر عیسائی نے کہا۔ … ’’انہوں نے ہی ہمیں بتایا ہے کہ تمہاری فوج لوٹ مار نہیں کرتی، نہتوں اور بے کسوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتی، اور تم ایسی شرطوں پر دوستی قبول کر لیتے ہو جو کسی پر بار نہیں ہوتیں۔‘‘
’’اور جو ہماری شرطیں قبول نہ کرے اس کا انجام کچھ اور ہوتا ہے۔‘‘ … سالار نے کہا۔
’’اے مدینہ کے سالار!‘‘ … عیسائی سردار نے کہا۔ … ’’بتا تیری شرطیں کیا ہیں؟‘‘
’’وہی جو تمہاری پیٹھ اٹھا سکے گی، اور کمر کو توڑے گی نہیں۔‘‘ … سالار نے کہا۔ … ’’جزیہ … ہم خود دیکھیں گے کہ جو جزیہ ادا کرنے کے قابل نہیں اس سے ہم کچھ بھی نہیں لیں گے۔‘‘
’’کچھ اور؟‘‘
’’مسلمانوں کا لشکر، یا کوئی دستہ یا کوئی قاصد یہاں سے گزرے گا تو یہ اس بستی کی ذمہ داری ہوگی کہ اس پر حملہ نہ ہو۔‘‘ … سالار نے کہا۔ … ’’اگر وہ یہاں رکنا چاہیں گے تو ان کے جانوروں کا چارہ بستی کے ذمہ ہوگا۔ ان کی کوئی اور ضرورت جو تم پر بار نہیں ہوگی وہ تم پوری کرو گے۔ہمارے لشکر کا کوئی فرد بستی کے کسی گھر میں داخل نہیں ہوگا،تمہاری عزتوں کی اور تمہارے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔رومیوں کی طرف سے، غسانیوں اور فارسیوں کی طرف سے تمہیں کوئی دھمکی ملے گی یا تم پر کوئی حملہ کرے گا تو اس کا جواب ہم دیں گے۔‘‘
دونوں بستیوں میں ایسے ہی ہوا، اس دور میں فوجوں کا یہ رواج تھا کہ بستیوں کو لوٹتی اجاڑتی چلی جاتی تھیں۔ کوئی عورت ان سے محفوظ نہیں رہتی تھی، جو آبادیاں ان کے آگے جھک جاتی تھیں، ان کے ساتھ تو فاتح فوجیں اور زیادہ برا سلوک کرتی تھیں۔ لیکن یہ روایت مسلمانوں نے قائم کی کہ جس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اسے اپنی پناہ میں لے لیا، اور اس کی عزت کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔اسی کا اثر تھا کہ کفار کی بستیاں ان کے ساتھ دوستی کے معاہدے کرتی جارہی تھیں۔
خالدؓ کو اطلاع ملی کہ سخنہ اور قدمہ کی آبادی نے اطاعت قبول کرلی ہے تو انہوں نے وہاں کیلئے عمال مقررکرکے دونوں دستوں کو اپنے پاس بلا لیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages