Featured Post

Khalid001

11 October 2019

Khalid097


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  97
خالدؓنے آگے بڑھنے کا حکم دیا۔آگے قریتین کا قصبہ تھا، جس کی آبادی دوسری بستیوں کی نسبت زیادہ تھی۔خالدؓ نے اس کے قریب پہنچ کر لشکر کو روک لیا اور اپنے دو نائبین سے کہا کہ وہ بستی میں جا کر صلح اور معاہدے کی بات کریں۔یہ دونوں ابھی چلے ہی نہیں تھے کہ وہاں ایک آبادی نے دائیں اور بائیں سے مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کر دیا۔
یہ حملہ اگر غیر متوقع نہیں تو اچانک ضرور تھا، خالدؓ نے اپنے لشکر کو ہجوم کی صورت میں نہیں بلکہ جنگی تربیت میں رکھا ہوا تھا، وہ آخر دشمن ملک میں تھے، انہوں نے ایک دو دستے پیچھے رکھے ہوئے تھے۔ جوں ہی حملہ ہوا، خالدؓ نے پیچھے والے دستوں کو آگے بڑھا دیا۔
حملہ آوروں میں بستی کے لوگ زیادہ معلوم ہوتے تھے، اور ان میں کچھ تعداد باقاعدہ فوجیوں کی بھی تھی۔یہ دوسری جگہوں مثلاً ارک اور تدمر سے آئے ہوئے فوجی تھے۔یہ سب لوگ تعداد میں تو زیادہ تھے لیکن ان کے لڑنے کا انداز اپنا ہی تھا اور یہ انداز باقاعدہ فوج والا نہیں تھا۔ خالد کی جنگی چالوں کے سامنے تو بڑے تجربہ کار سالار بھی نہیں ٹھہر سکے تھے۔تھوڑے ہی وقت میں مجاہدین نے اس ہجوم کی یہ حالت کردی کہ ان کیلئے بھاگ نکلنا بھی محال ہو گیا۔
چونکہ یہ لڑائی تھی اور مسلمانوں پر باقاعدہ حملہ ہوا تھا، اس لیے خالدؓ نے جنگی اصولوں کے تحت احکام دیئے۔ مسلمانوں نے بستی پر حملہ کیا اور مالِ غنیمت اکٹھا کیا۔ قیدی بھی پکڑے اور آگے بڑھے۔ اب خالدؓ پہلے سے زیادہ محتاط ہو گئے تھے۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتے جا تے تھے۔انہیں دشمن قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا جاتا تھا۔
اس جھڑپ سے فارغ ہو کر آگے گئے تو آٹھ نو میل آگے بے شمار مویشی چر رہے تھے۔خالدؓنے حکم دیا کہ تمام مویشی اپنے قبضے میں لے لیے جائیں۔ یہ حوّاریں کا علاقہ تھا، مجاہدین مویشیوں کو پکڑ رہے تھے تو ہزاروں آدمیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ یہ سب عیسائی تھے غسانیوں کی خاصی تعداد نہ جانے کہاں سے ان کی مدد کو آن پہنچی، یہ ایک شدید حملہ تھا۔ حملہ آور قہر اور غضب سے لڑ رہے تھے۔ ان کا ایک ہی نعرہ سنائی دے رہا تھا۔ … ’’اُنہیں (مسلمانوں کو) کاٹ دو … انہیں زندہ نہ جانے دو۔‘‘
خالدؓ کی حاضر دماغی اور مجاہدین کی ہمت اور ان کے استقلا ل نے انہیں اس میدان میں بھی فتح دی لیکن مجاہدین کے جسموں میں اگر کچھ تازگی رہ گئی تھی تو وہ بھی ختم ہو گئی۔
کسی بھی تاریخ میں مجاہدین کی شہادت اور زخمی ہونے کے اعدادوشمار نہیں ملتے،ان پر جو حملے ہوئے تھے ان میں یقیناًکئی مجاہدین شہید ہوئے ہوں گے۔بعض شدید زخمی ہو کر ساری عمر کیلئے معذور بھی ہوئے ہوں گے،شہیدوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے ، یہ کہنا کہ کوئی بھی شہید نہیں ہوا، درست نہیں۔اس طرح مجاہدین کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی اور کمک کی کوئی امید نہیں تھی ۔پھر بھی مجاہدین سیلاب کی مانند بڑھے جا رہے تھے۔
…………bnb…………

خالدؓ اب زنجیروں والی خود جس پر وہ سرخ عمامہ باندھے رکھتے تھے۔رات کو ہی اتارتے تھے، لشکر کا کہیں قیام ہوتا تھا تو خالدؓ مجاہدین کے درمیان گھومتے پھرتے رہتے، ان کے چہرے پر تازگی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی تھی، ان کی مسکراہٹ میں طلسماتی سا تاثر تھا، جو مجاہدین کے حوصلوں اور جذبے کو تروتازہ کر دیتا تھا۔
حوّاریں کے لوگوں کو شکست دے کر خالدؓ نے وہاں صرف ایک رات قیام کیا، اور صبح دمشق کی سمت کوچ کر گئے۔
شام اور لبنان کے درمیان ایک سلسلہ کوہ ہے، اس کی ایک شاخ شام میں چلی جاتی ہے، دمشق سے تقریباً بیس میل دور دو ہزار فٹ کی بلندی پراک درہ ہے جس کانام ثنیۃ العقاب (درہ عقاب) ہے۔ اسے یہ نام خالدؓ نے دیا تھا۔ دمشق کی طرف کوچ کے دوران خالدؓکا لشکر تقریباًایک گھنٹے کیلئے رکا تھا اور خالدؓ نے اپنا پرچم عقاب یہاں گاڑا تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ کتنی دیر وہاں رکے رہے، ایک جگہ کھڑے دمشق کی طرف دیکھتے رہے۔ ان کے سامنے زرخیز، سرسبز اور شاداب علاقہ تھا۔ صحراؤں کے یہ مجاہد اتنا سر سبز اور دلنشیں خطہ دیکھ کر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔
دمشق سے گیارہ بارہ میل دور مرج راہط نام کا ایک شہر تھا،اس کی تمام تر آبادی غسانیوں کی تھی۔غسانیوں کی بادشاہی میں ہلچل بپا تھی، ان کے پایہ تخت بصرہ میں اطلاع پہنچ چکی تھی کہ مسلمان بڑی تیزی سے بڑھے چلے آرہے ہیں، اور عیسائی ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے جا رہے ہیں۔
غسانیوں کا بادشاہ جبلہ بن الایہم غصے میں رہنے لگا تھا۔ فارسیوں کی طرح وہ بھی بار بار کہتا تھا کہ ان ذرا جتنے مسلمانوں کو اس کی بادشاہی میں داخل ہونے کی جرات کیسے ہوئی ہے۔ اس نے اپنے جاسوس بھیج کر معلوم کر لیا تھا کہ مسلمان کس طرف سے آرہے ہیں، اور ان کی نفری کتنی ہے، اسے آخری اطلاع یہ ملی کہ خالدؓ بن ولید دمشق سے کچھ دور رہ گیا ہے اور وہ مرج راہط کے راستے دمشق تک پہنچے گا۔
’’مرج راہط!‘‘ … جبلہ غسانی نے کہااور سوچ میں پڑ گیا پھر بھڑک کر بولا۔ … ’’مرج راہط … کیا ان دنوں وہاں میلہ نہیں لگا کرتا؟‘‘
’’میلہ شروع ہے۔‘‘ … اسے جواب ملا۔
جبلہ نے اسی وقت اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں کچھ احکام دیئے اور کہا کہ ان احکام پر فوراً عمل درآمد شروع ہو جائے۔ یہ ایک جال تھا جو اس نے خالدؓ کے لشکر کیلئے مرج راہط کے میلے میں بچھا دیا تھا۔
’’وہ عیسائی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔‘‘ … اس نے کہا۔ … ’’مسلمان اس خوشی کے ساتھ آگے بڑھتے آرہے ہیں کہ ان کے راستے میں جو بھی آئے گا ان کی اطاعت قبول کر لے گا۔ رومیوں کو نیچا دکھانے والے غسانی عرب کے بدوؤں کی اطاعت قبول نہیں کریں گے۔ ہم مرج راہط میں ہی ان کا خاتمہ کر دیں گے۔‘‘
…………bnb…………

خالدؓمرج راہط کے قریب پہنچ رہے تھے اور انہیں میلہ نظر آرہا تھا۔بہت بڑا میلہ تھا۔ یہ غسانیوں کا کوئی تہوار تھا۔ہزار ہا لوگ جمع تھے ، کھیل تماشے ہورہے تھے ، گھڑ دو ڑ اور شتر دوڑ بھی ہو رہی تھی،کہیں ناچ تھا کہیں گانے تھے، ایک وسیع میدان تھا جس میں آدمی ہی آدمی تھے ۔ان کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔
خالدؓکا لشکر جب کچھ اور قریب گیا تو تہوار منانے والا یہ ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے فوج کی صورت اختیار کرکے جنگی ترتیب میں آگیا۔ گھوڑ سوار باقاعدہ رسالہ بن گئے۔ ہر آدمی تلوار یا برچھی سے مسلح تھا، عورتیں اور بچے بھاگ کر قصبے میں چلے گئے اور ہجوم جو فوج کی صورت اختیار کرگیا تھا ، اس طرح دائیں اور بائیں پھیلنے لگا جیسے مجاہدین کو گھیرے میں لینا چاہتا ہو۔
مجاہدین کو اپنے پیچھے سر پٹ دوڑتے گھوڑوں کا قیامت خیز شور سنائی دیا۔اُدھر دیکھا ، غسانی سواروں کا ایک دستہ تلواریں اور برچھیاں تانے سمندر کی طوفانی لہروں کی طرح چلا آرہا تھا، یہ تھا وہ جال جو جبلہ بن الایہم نے خالدؓ کیلئے بچھایا تھا۔
ممکن نظر نہیں آتا تھاکہ خالدؓ اپنے لشکر کو اس جال سے نکال سکیں گے،مجاہدین کی تعداد نو ہزار بھی نہیں رہ گئی تھی،اور جس دشمن نے انہیں اپنے جال میں لیا تھا اس کی تعداد تین گنا تھی۔ مجاہدین تھکے ہوئے بھی تھے۔پانچ روزہ صحرائی سفر کے بعد وہ مسلسل پیش قدمی اور معرکہ آرائی کرتے آرہے تھے۔
غسانیوں کے بادشاہ جبلہ نے ٹھیک سوچا تھا کہ مسلمان کوچ کی ترتیب میں آرہے ہوں گے اور انہیں جنگی ترتیب میں آتے کچھ وقت لگے گااور ان پر حملہ اس طرح ہوگا کہ انہیں سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس نے مسلمانوں کی قلیل تعداد کو بھی پیشِ نظر رکھا تھااور یہ کہ مسلمان میلے کو بے ضرر لوگوں کا میلہ ہی سمجھیں گے۔
غسانیوں کو معلوم نہیں تھا کہ خالدؓمیلے پر نہیں آئے تھے۔وہ تجربہ کار سالار تھے۔انہیں اچانک حملوں کا تجربہ ہو چکا تھا،انہیں احساس تھا کہ جوں جوں وہ دشمن ملک کے اندر ہی اندر جا رہے ہیں ، حملوں اور چھاپوں کا خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، چنانچہ وہ لشکر کو ایسی ترتیب میں رکھتے تھے کہ اچانک اور غیر متوقع حملے کا فوراًمقابلہ کیا جائے۔
ان کے عقب سے غسانیوں کے جو سوار طوفانی موجوں کی طرح آرہے تھے وہی مسلمانوں کو کچلنے کیلئے کافی تھے۔خالدؓ کی توجہ اس رسالے پر تھی اور وہ مطمئن تھے۔ مجاہدین ایک مشین کی طرح اس صورتِ حال سے نمٹنے کی ترتیب میں آگئے۔ خالدؓ نے خود نعرہ تکبیر بلند کیا جس کا مجاہدین نے رعد کی کڑک کی طرح جواب دیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے بلند آواز سے کچھ احکام دیئے۔
’’خدا کی قسم! ہم انہیں سنبھال لیں گے۔‘‘ … خالدؓ نے بلند آواز سے کہا۔ … ’’اﷲکے نام پر، محمد الرسول اﷲﷺ کے نام پر!‘‘
غسانیوں کا رسالہ بڑی تیزی سے قریب آرہا تھا۔اس کے پیچھے اور کچھ دائیں سے ایک اور رسالہ نکلا، سینکڑوں گھوڑے انتہائی رفتار سے دوڑے آرہے تھے۔ان کا رخ غسانی سواروں کی طرف تھا۔
’’پیچھے دیکھو!‘‘ … کسی غسانی سوار نے چلّا کر کہا۔ … ’’یہ مسلمان سوار معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
پیچھے سے آنے والے سوار مسلمان ہی تھے ۔یہ مجاہدین کے لشکر کا عقبی حصہ (ریئر گارڈ) تھا۔ ان سواروں نے غسانی سواروں کو آن لیا، غسانی سوار اس حملے کیلئے تیار نہیں تھے۔ان کا ہلّہ (چارج) بے ترتیب ہوتے ہوتے رک گیا۔ ادھر سے خالدؓ نے اپنے سوار دستے کو تیز حملے کا حکم دے دیا۔ غسانی سوار گھیرے میں آکر سکڑنے لگے، پھر وہ اتنے سکڑ گئے کہ ان کے گھوڑوں کو ایک قدم بھی دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہلنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔
اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے شتر سوار تیر اندازوں کو میلے والے لشکر پر تیر برسانے کا حکم دے دیا اور دوسرے دستوں کو دشمن کے پہلوؤں پر حملے کیلئے بھیج دیا انہوں نے اپنے دستے کے سامنے سے حملہ کیا۔
یہ عقل اور جذبے کی لڑائی تھی۔ غسانی پیادوں کو اپنے گھوڑ سواروں پر بھروسہ تھا جواَب مجاہدین کی تلواروں سے کٹ رہے تھے یا معرکے سے نکل کر بھاگ رہے تھے۔
خالدؓکی کوشش یہ تھی کہ دشمن کے لشکر کے عقب میں چلے جائیں تاکہ دشمن شہر میں نہ جا سکے، خالدؓکے حکم سے غسانیوں کے خیموں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ خیمے میلے کیلئے لگے ہوئے تھے۔ شعلوں نے غسانیوں پر خوف طاری کر دیا۔ ان کے حوصلے تو یہی دیکھ کر ٹوٹ گئے تھے کہ انہوں نے جو جال بچھایا تھا وہ بری طرح ناکام ہوگیا تھا۔
غسانیوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ ان کا جانی نقصان اتنا زیادہ ہو رہا تھا کہ خون دیکھ کر وہ گھبراگئے۔آخر وہ بھاگنے لگے۔خالدؓ بار بار اعلان کرا رہے تھے کہ اپنے شہر کو تباہی سے بچانا چاہتے ہو تو باہر رہو۔
شام تک خالدؓ اس شہر سے مالِ غنیمت اور بہت سے قیدی اکٹھے کر چکے تھے۔ شہر میں ان عورتوں کے بَین سنائی دے رہے تھے جن کے خاوند بھائی باپ اور بیٹے مارے گئے تھے۔
خالدؓنے رات کو ابو عبیدہؓ کے نام ایک پیغام بھیجا کہ وہ خالدؓ کو بصرہ کے قرب و جوار میں ملیں، بصرہ غسانی حکومت کا پایہ تخت تھا۔ غسانی اور رومی مل کر بصرہ کے دفاع کا انتظام کر رہے تھے۔ مجاہدین کا بڑا ہی سخت امتحان ابھی باقی تھا۔
…………bnb…………

وہ جو محمد ﷺکو اﷲکا بھیجا ہوا رسول نہیں مانتے تھے، اور اﷲکو واحدہ لا شریک نہیں سمجھتے تھے۔ وہ ابھی تک جنگی طاقت کو افراد کی کمی بیشی سے اور ہتھیاروں کی برتری اورکمتری سے ناپ تول رہے تھے۔حیران تو وہ ہوتے تھے کہ مسلمان کس طرح اور کس طاقت کے بل بوتے پر فتح حاصل کرتے آرہے ہیں، لیکن اپنی فوجوں اور گھوڑوں کی افراط اور اپنے ہتھیاروں کی برتری کا ان کو ایسا گھمنڈتھا کہ وہ سوچتے ہی نہیں تھے کہ انسان میں کوئی اور طاقت بھی ہو سکتی ہے اور یہ طاقت عقیدے اور مذہب کی سچائی ہوتی ہے۔
غسانیوں کا بادشاہ جبلہ بن الایہم بصرہ میں اس خبر کا انتظار بڑی بے تابی سے کر رہا تھا کہ مرج راہط میں اس کا دھوکا کامیاب رہا ہے اور مسلمانوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ اس نے فرض کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو شکست دی جا چکی ہے۔ اسے آخری اطلاع یہ ملی تھی کہ مسلمانوں کیلئے میلے کی صورت میں پھندا تیار ہوچکا ہے اور مسلمان تیزی سے اس پھندے میں آرہے ہیں۔
جبلہ کے طور اور انداز ہی بدل گئے تھے ۔گذشتہ رات اس نے اپنے ہاں جشن کا سماں بنا دیاتھا۔شراب کے مٹکے خالی ہو گئے تھے۔ جبلہ بن الایہم شراب میں تیرتا اور نشے میں اڑتا جوان ہو گیا تھا۔ اس نے بڑھاپے کا مذاق اڑایا تھا۔اس نے یہ بھی نہیں دیکھا تھا کہ اس کے حرم کی جوان عورتیں من مانی کر رہی ہیں اور ان میں سے بعض اس کی قید وبند سے آزاد ہو کر اپنی پسند کے آدمیوں کے ساتھ محل کے باغیچوں میں غائب ہو گئی ہیں۔
خود جبلہ کی بدمستی کا یہ عالم تھا کہ اس جشنِ مے نوشی میں ایک بڑی حسین اور نوجوان لڑکی اس کے سامنے سے گزری تو اس نے لپک کر لڑکی کو پکڑ لیا اور اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ کر بے ہودہ حرکتیں کرنے لگا۔ لڑکی اس کے بازوؤں سے آزاد ہونے کو تڑپنے لگی۔
’’تیری یہ جرات؟‘‘ … اس نے لڑکی کو الگ کرکے ایک جھٹکے سے اپنے سامنے کھڑا کیا اور بڑے سخت غصے میں بولا۔ … ’’کون ہے تو جو میرے جسم کو ناپسند کر رہی ہے؟‘‘
’’تیری بھانجی!‘‘ … لڑکی نے روتے ہوئے چلّا کر کہا۔ … ’’تیرے باپ کی بیٹی کی بیٹی!‘‘
جبلہ بن الایہم نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا۔
’’فتح کی خوشی کا نشہ شراب کے نشے سے تیز ہوتاہے۔‘‘ … جبلہ نے کہا۔اس کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔ … ’’کل جب مجھے خبر ملے گی کہ مسلمانوں کو کچل دیا گیا ہے اور ان میں سے کوئی بھی بھاگ نہیں سکا تو میری حالت اور زیادہ بری ہو جائے گی۔‘‘
اس کی بھانجی روتی ہوئی جشن سے نکل گئی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages