Featured Post

Khalid001

11 October 2019

Khalid098


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  98
پھر وہ وقت آگیا جب وہ مسلمانوں پر اپنی فتح کی خبر کا منتظر تھا۔اب تک خبر آجانی چاہیے تھی۔ وہ باغ میں جا بیٹھا تھا۔ایک جواں سال خادمہ طشتری میں شراب کی صراحی اور پیالہ رکھے اس کی طرف جا رہی تھی۔اُدھر سے دربان بڑا تیز چلتا اس تک پہنچا۔
’’آیا ہے کوئی؟‘‘ … جبلہ نے بیتاب ہو کر دربان سے پوچھا۔ … ’’کوئی مرج الراہط سے آیا ہے؟‘‘
’’قاصد آیا ہے۔‘‘ … دربان سے دبے دبے سے لہجے میں کہا۔ … ’’زخمی ہے۔‘‘
’’بھیجو اسے!‘‘ … جبلہ نے جوش سے اٹھتے ہوئے کہا۔ … ’’وہ فتح کی خبر لایا ہے۔اسے جلدی میرے پاس بھیجو۔‘‘
خادمہ طشتری اٹھائے اس کے قریب کھڑی تھی۔ ادھر سے ایک زخمی چلا آرہا تھا۔
’’وہیں سے کہو کہ تم فتح کی خبر لائے ہو۔‘‘ … جبلہ بن الایہم نے کہا۔
زخمی قاصد نے کچھ نہ کہا۔وہ چلتا آیا۔ اس کے کپڑے اپنے زخموں کے خون سے لال تھے۔اس کا سر کپڑے میں لپٹا ہوا تھا۔
’’کیا تم اتنے زخمی ہو کہ بول نہیں سکتے؟‘‘ … جبلہ نے بلند آواز سے پوچھا۔
’’بول سکتا ہوں۔‘‘ … قاصد نے کہا۔ … ’’لیکن جو خبر لایا ہوں وہ اپنی زبان سے سنانے کی جرأت نہیں۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ … جبلہ کی آواز دب سی گئی۔ … ’’کیا مسلمان پھندے میں نہیں آئے؟ … آکر نکل گئے ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘ … قاصد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔ … ’’وہ نکل گئے … انہوں نے ایسی چال چلی کہ ہم ان کے پھندے میں آگئے۔اپنی فوج کٹ گئی ہے۔مرج راہط کو انہوں نے لوٹ لیا ہے۔‘‘
جبلہ بن الایہم نے طشتری سے شراب کی صراحی اٹھائی ۔خادمہ نے پیالہ اٹھا کر اس کے آگے کیا۔جبلہ نے صراحی بڑی زور سے قاصد پر پھینکی۔ قاصد بہت قریب کھڑا تھا۔ صراحی ا س کے ماتھے پر لگی۔ وہ تیورا کر گرا۔ جبلہ نے خادمہ کے ہاتھ سے پیالہ چھین کر اس کے منہ پر مارا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔
غسانیوں کے بادشاہ کامحل ماتمی فضاء میں ڈوب گیا، مرج راہط کے بھگوڑے غسانی بصرہ میں آگئے اور بصرہ ماتمی شہر بن گیا۔ اصل ماتم تو ان کے یہاں تھا جن کے بیٹے بھائی خاوند اور باپ اس پھندے میں آکر مارے گئے تھے جو انہوں نے خالدؓ کے مجاہدین کیلئے تیار کیا تھا۔
اس ماتم کے ساتھ ایک دہشت بھی آئی تھی اور یہ دہشت ہر گھر میں پہنچ گئی تھی۔
’’ان کے تیر زہر میں بجھے ہوئے ہوتے ہیں۔کسی کو اس تیر سے خراش بھی آجائے تو وہ مر جاتا ہے۔‘‘
’’ان کے گھوڑے پروں والے ہیں، کہتے ہیں ہوا سے باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’ان مسلمانوں کا رسول (ﷺ)جادوگر تھا۔اس کا جادو چل رہا ہے۔‘‘
’’ان کے سامنے لاکھوں کی فوج بھی نہیں ٹھہر سکتی۔‘‘
’’سنا ہے دل کے بڑے نرم ہیں، جو ان کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں انہیں وہ گلے لگا لیتے ہیں۔‘‘
’’جس شہر میں ان کا مقابلہ ہوتا ہے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔‘‘
’’کسی کو زندہ نہیں چھوڑتے، لڑنے والوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔‘‘
دبی دبی ایسی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ … ’’مذہب ان کا سچا معلوم ہوتا ہے۔وہ اﷲاور اس کے رسولﷺکومانتے ہیں، یہی ان کی طاقت ہے ،جنون سے لڑتے ہیں۔‘‘
ان لوگوں پر جو حیرت اور دہشت طاری ہو گئی تھی اس میں وہ حق بجانب تھے۔
…………bnb…………

’’تم لوگ بصرہ کو بھی نہیں بچا سکو گے۔‘‘ … جبلہ بن الایہم قہر بھرے لہجے میں اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا۔ … ’’تمہاری بزدلی کو دیکھ کر میں نے رومیوں کو مدد کیلئے پکارا ہے، اگر تم مسلمانوں کو شکست دے دیتے تو میں رومیوں کے سینے پر کودتا۔ ان پر میری دھاک بیٹھ جاتی۔مگر تم نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ رومی ہمارے پایہ تخت کی حفاظت کرنے آئے ہیں۔‘‘
وہ اپنے سالاروں کوکوس ہی رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ مسلمانوں کی ایک فوج بصرہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
’’اتنی جلدی؟‘‘ … اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ … ’’مرج راہط سے وہ اتنی جلدی بصرہ تک کس طرح آگئے ہیں؟رومی سالار کو اطلاع دو۔‘‘
رومی فوج جو خالدؓ کی کامیابیوں کی خبریں سن کر جبلہ بن الایہم کی مددکو آئی تھی وہ بصرہ کے باہر خیمہ زن تھی، اس کے سالار کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کی فوج آرہی ہے تو سالار نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا، اس فوج میں عرب عیسائی بھی تھے۔
فوج جو بصرہ کی طرف بڑھ رہی تھی وہ خالدؓ کی نہیں تھی۔یہ ایک مسلمان سالار شرجیلؓ بن حسنہ کا لشکر تھا، جس کی نفری چار ہزار تھی۔ مسلمان لشکر جو شام کی فتح کیلئے بھیجا گیا تھایہ اس کا حصہ تھا۔خلیفۃ المسلمینؓ کے احکام کے مطابق سالار ابو عبیدہؓ نے لشکر کے دوسرے حصوں کو بھی یکجا کرکے اپنی کمان میں لے لیا تھا:
’’بصرہ پر شرجیلؓ بن حسنہ کے حملے کا پس منظر یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمینؓ نے ابو عبیدہؓ کو ایک خط لکھا تھا:’’میں نے خالد بن ولید کو یہ کام سونپاہے کہ رومیوں پر چڑھائی کرے۔ تم پر اس کی اطاعت فرض ہے۔ کوئی کام اس کے حکم کے خلاف نہ کرنا۔ میں نے اسے تمہارا امیر مقررکیا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ دین کے باقی معاملات میں تم خالد سے برتر ہو اور تمہارا رتبہ اونچا ہے لیکن جنگ کی جو مہارت خالد کو ہے وہ تمہیں نہیں۔ اﷲہم سب کو صراط المستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔‘‘
خالدؓ کو اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ جس وقت خالدؓ اپنے رستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو کچلتے جا رہے تھے، اس وقت ابو عبیدہؓ فارغ بیٹھے تھے۔ خالدؓنے جب مرج راہط کے مقام پر بھی دشمن کو شکست دے دی تو ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا، اس وقت ابو عبیدہؓ کے دستے دریائے یرموک کے شمال مشرق میں ایک مقام حوران میں تھے۔ ان کے ماتحت دو سالار تھے ایک شرجیلؓ بن حسنہ اور دوسرے یزیدؓ بن ابی سفیان۔
’’رفیقو!‘‘ابو عبیدہؓ نے دونوں سالاروں سے کہا۔’’ہم کس طرح شکر ادا کریں اﷲتبارک وتعالیٰ کا جو ابنِ ولید کو راستے میں آنے والے ہر دشمن پر حاوی کرتا آ رہا ہے۔ کیا تم نےنہیں سوچا کہ ہم ابنِ ولید کے کسی کام نہیں آرہے؟ وہ جوں جوں آگے بڑھتا جا رہا ہے ، اس کی مشکلات خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔اس کا لشکر تھک کر بے حال ہو چکا ہو گا، آگے دمشق ہے،بصرہ ہے۔ غسانی ہیں، عیسائی اوررومی ہیں، کیا یہ تینوں یہ نہیں سوچ رہے ہوں گے کہ مسلمانوں کو آگے آنے دیں اور جب وہ مسلسل کوچ اورلڑائیوں سے شل ہو جائیں اور ان کی نفری کم ہو جائے تو انہیں کسی مقام پر گھیر کر ختم کر دیا جائے؟‘‘
’’رومیوں نے ایسا ضرور سوچا ہوگا۔‘‘ … سالار یزیدؓ نے کہا۔ … ’’رومی لڑنے والی قوم ہے،اور اس کے سالار عقل والے ہیں۔‘‘
’’خدا کی قسم! میں رومیوں کو ایسا موقع نہیں دوں گا۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پر جوش لہجے میں کہا۔ … ’’کیا ہم اتنی دور سے ابنِ ولید کی کوئی مدد نہیں کر سکتے؟ … بے شک کر سکتے ہیں۔‘‘
’’تو نے جو سوچا ہے وہ ہمیں بتا ابو عبیدہ!‘‘ … شرجیلؓ بن حسنہ نے کہا ۔ … ’’ اﷲاس کا مددگار ہے۔‘‘
’’ابنِ ولید کے آگے دمشق اور بصرہ دو ایسے مقام ہیں جہاں رومیوں اور غسانیوں نے اپنی فوجیں جمع کر رکھی ہوں گی۔‘‘ … ابوعبیدہؓ نے کہا۔ … ’’اس سے پہلے کہ سالارِ اعلیٰ ابنِ ولید بصرہ پہنچے ہم بصرہ پر حملہ کردیتے ہیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ رومی اور غسانی بھی تازہ دم نہیں رہیں گے … ابنِ حسنہ!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے شرجیلؓ سے کہا۔ … ’’میں یہ کام تمہیں سونپتا ہوں۔ چار ہزار نفری کافی ہوگی۔‘‘
ابو عبیدہؓ نے سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو ہدایات دیں اور بصرہ کو روانہ کر دیا۔
…………bnb…………

اس وقت خالدؓ مرج راہط سے فارغ ہو چکے تھے ،اور انہوں نے ابو عبیدہؓ کے نام یہ پیغام دے کر قاصد روانہ کر دیا تھا کہ ابو عبیدہؓ اپنے دستوں کے ساتھ انہیں بصرہ کے قریب کہیں ملیں، خالدؓ نے مرج راہط کے قصبے کے باہر دو چار روز قیام کیا تھا،۔
شرحبیلؓ چار ہزار مجاہدین کے ساتھ بصرہ پہنچ گئے … رومی بصرہ کے باہر خیمہ زن تھے، وہ سمجھے یہ خالدؓکی فوج ہے۔ان کے جاسوسوں نے انہیں بتایا کہ اس فوج کا سالار کوئی اور ہے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار یہ سمجھے کہ یہ مسلمانوں کی فوج کا ہراول ہے اور پوری فوج پیچھے آرہی ہے … وہ مان نہیں سکتے تھے کہ اتنی فوج اتنے بڑے لشکر کو محاصرے میں لینے آئی ہوگی۔رومی فوج جس کی تعداد بارہ ہزار تھی قلعے کے اندر چلی گئی ۔بصرہ قلعہ بند شہر تھا۔
شرجیلؓ نے قلعے کے قریب مغرب کی طرف کیمپ کیا اور اپنے لشکر کو کئی دستوں میں تقسیم کرکے قلعے کے ہر طرف متعین کر دیا۔
دودن گزر گئے۔رومی اور غسانی قلعے کی دیواروں کے اوپر سے مسلمانوں کو دیکھتے رہے۔شرجیلؓ نے قلعے کے اردگرد کچھ نہ کچھ حرکت جاری رکھی۔ دشمن قلعے سے دور دور بھی دیکھتا تھا۔ اسے توقع تھی کہ مسلمانوں کی پوری فوج آرہی ہے۔اسے اب اپنے جاسوسوں کے ذریعے کوئی خبر نہیں مل سکتی تھی کیونکہ قلعہ محاصرے میں تھا۔
سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے متعلق یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ رسولِ کریمﷺکے قریبی صحابیؓ تھے۔جو صحابہ کرامؓ وحی لکھتے تھے ، ان میں شرجیلؓ بن حسنہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔اسی حوالے سے انہیں کاتبِ رسول کہا جاتا تھا۔شرجیلؓ کا زہدوتقویٰ تو مشہور تھا ہی ، وہ فن حرب و ضرب اور میدانِ جنگ میں قیادت کی مہارت رکھتے اور کہا کرتے تھے کہ انہوں نے یہ فن خالدؓ سے یمامہ کی جنگ میں پھر آتش پرستوں کے خلاف لڑائیوں میں سیکھا ہے۔ محاصرہ بصرہ کے وقت ان کی عمر ستر سال سے کچھ ہی کم تھی، جذبے اور جوش و خروش کے لحاظ سے وہ جوان تھے اور ان کی شہسواری اور تیغ زنی جوانوں جیسی ہی تھی۔
…………bnb…………

محاصرے کا تیسرا دن تھا، رومیوں کو یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کی نفری اتنی ہی ہے جس نے محاصرہ کررکھا ہے۔اگر مزید فوج نے آنا ہوتا تو اب تک آچکی ہوتی۔چنانچہ انہوں نے اپنی بارہ ہزار نفری کی فوج باہر نکال لی۔نفری کی افراط کے بل پر وہ ایسی دلیرانہ کارروائی کر سکتے تھے۔مسلمان کل چار ہزار تھے۔
شرجیلؓ نے بڑی تیزی سے اپنے دستوں کو اکٹھاکرکے جنگی ترتیب میں کرلیا۔اس طرح دونوں فوجیں آمنے سامنے آ گئیں۔
’’اے رومیو!‘‘ … شرجیلؓ نے آگے آکر بلند آواز سے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!ہم بھاگنے کیلئے نہیں آئے۔اپنی پہلی شکستوں کو یاد کرو، تم ہر میدان میں ہم سے زیادہ تھے۔خون خرابے سے تم بچتے کیوں نہیں؟ہماری شرطیں سن لو اور اپنے شہر اور اپنی آبادی کو تباہی سے بچالو۔‘‘
’’ہم شکست کھانے کیلئے باہر نہیں آئے۔‘‘ … رومی سالارنے آگے آکر کہا۔ … ’’واپس چلے جاؤ اور زندہ رہو، وہ کوئی اور تھے جنہوں نے تم سے شکستیں کھائی ہیں۔‘‘
’’خدا کی قسم!ہم لڑائی سے منہ نہیں موڑیں گے۔‘‘ … شرجیلؓ نے اعلان کیا۔ … ’’لیکن تمہیں ایک موقع دیں گے کہ سوچ لو، آگے آؤاور ہماری شرطیں سن لو۔‘‘
مکالموں اور للکار کا تبادلہ ہوا، اور رومی سالاروں نے شرائط پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ان کا سپہ سالار آگے گیا۔ادھر سے شرجیلؓ بن حسنہ آگے گئے۔
’’بول اے مسلمان سالار!‘‘ … رومی سالار نے کہا۔ … ’’اپنی شرائط بتا۔‘‘
’’اسلام قبول کرلو۔‘‘ … شرجیلؓ نے کہا۔ … ’’یہ منظور نہیں تو جزیہ ادا کرو۔ یہ بھی منظور نہیں تو لڑائی کیلئے تیار ہو جاؤ۔‘‘
’’ہم اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے اور ہم جزیہ نہیں دیں گے ۔لڑائی کیلئے ہم تیار ہیں۔‘‘ … اس کے ساتھ ہی رومی سالار نے مسلمانوں پر حملے کا حکم دے دیا۔
رومیوں کی تعداد تین گنا تھی۔شرجیلؓ نے اپنے چار ہزار مجاہدین کو جنگی ترتیب میں صف آراء کررکھا تھا۔ انہیں اپنی نفری کی قلت کا احساس بھی تھا۔انہوں نے اپنے دونوں پہلوؤں کو پھیلا دیا تھا تاکہ دشمن گھیرے میں نہ لے سکے۔
رومی جنگجو تھے اور ان کے سالار تجربہ کار تھے۔وہ مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی ہی کوشش کر رہے تھے، لڑائی گھمسان کی تھی ، شرجیلؓ قاصدوں کو دائیں بائیں دوڑا رہے تھے اور مجاہدین کو للکار بھی رہے تھے ، مجاہدین اپنی روایت کے مطابق بے جگری سے لڑ رہے تھے لیکن رومی بارہ ہزار تھے ۔ ان کے سالار انہیں دائیں بائیں پھیلاتے جا رہے تھے۔
شرجیلؓ نے اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو انہیں اپنے دستوں کی صورتِ حال بڑی تشویشناک دکھائی دی۔ایسی صورت حال پسپائی کا مطالبہ کیا کرتی ہے لیکن شرجیلؓ کی للکار پر مجاہدین کا جوش اور جذبہ بڑھ گیا۔ وہ پسپائی کے نام سے ناواقف تھے ، ان پر جنونی کیفیت طاری ہو گئی اور چارپانچ گھنٹے گزر گئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages