Featured Post

Khalid001

09 November 2019

Khalid099


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  99
پھر وہ صورت پیدا ہو گئی جس سے شرحبیلؓ بچنے کی کوشش کر رہے تھے ، دشمن کے پہلو پھیل کر مسلمانوں کے پہلوؤں سے آگے نکل گئے تھے۔ وہ گھیرے میں آچکے تھے۔
’’اندر کی طرف نہیں سکڑنا۔‘‘ … شرحبیلؓ نے اپنے دونوں پہلوؤں کے کمانداروں کو پیغام بھیجے۔ … ’’باہر کی طرف ہونے کی کوشش کرو۔‘‘
شرحبیلؓ کی چالیں بے کار ہونے لگیں۔بے شک مسلمانوں کا جذبہ رومیوں کی نسبت زیادہ تھا لیکن رومی تعداد میں اتنے زیادہ تھے کہ مسلمانوں پر غالب آسکتے تھے۔
’’اﷲکے پرستارو!‘‘ … شرجیل نے للکار کر کہا۔ … ’’فتح یا موت … فتح یا موت … فتح یا موت … اﷲسے مددمانگو۔ اﷲکی راہ میں جانیں دیدو۔ … اﷲکی مدد آئے گی۔‘‘
مسلمانوں کیلئے یہ زندگی اور موت کا معرکہ بن گیا تھا۔شرحبیلؓ کی پکار اور للکار پر مجاہدین نے بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا جس سے انہیں تقویت ملی لیکن رومی ان پر حاوی ہو گئے تھے،مسلمانوں کے جوش اور جذبے میں قہر پیدا ہو گیا تھا۔
رومی فوج مسلمانوں کے عقب میں چلی گئی ، اب مسلمانوں کا کچلا جانا یقینی ہو گیا تھا۔
رومی جو مسلمانوں کے عقب میں چلے گئے تھے ،انہیں اپنے عقب میں گھوڑے سر پٹ دوڑنے کا طوفانی شور سنائی دیا۔ انہوں نے پیچھے دیکھا تو سینکڑوں گھوڑے ان کی طرف دوڑے آرہے تھے۔ان کے آگے دو سوار تھے جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ان میں سے ایک کے سر پر جو عمامہ تھا اس کا رنگ سرخ تھا … وہ خالدؓ تھے۔
خالدؓ اپنے لشکر کے ساتھ بصرہ کی طرف آرہے تھے۔ان کے راستے میں دمشق آیا تھا لیکن وہ دمشق سے ہٹ کر گزر آئے تھے، پہلے وہ بصرہ کو فتح کرنا چاہتے تھے۔یہ اﷲکے اشارے پر ہوا تھا۔اﷲنے کاتبِ رسولﷺ کی پکار اور دعا سن لی تھی۔ خالدؓ جب کوچ کرتے تھے تو اپنے جاسوسوں کو بہت آگے بھیج دیا کرتے تھے۔ بصرہ کی طرف آتے وقت بھی انہوں نے جاسوسوں کو بہت آگے بھیج دیا تھا۔
خالدؓ بصرہ سے تقریباًایک میل دور تھے۔جب ان کا ایک شتر سوار جاسوس اونٹ کو بہت تیز دوڑاتا واپس خالدؓ کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ … ’’مسلمانوں کا کوئی لشکر بصرہ کے باہر رومیوں کے گھیرے میں آرہا ہے۔‘‘
’’کون ہے وہ سالار؟‘‘ … خالدؓ نے کہا اور سوار دستوں کو ایڑھ لگانے اور برچھیاں اور تلواریں نکال لینے کا حکم دے دیا۔
خالدؓکے ساتھ جو دوسرا سوار گھوڑ سواروں کے آگے آگے آرہا تھا وہ خلیفۃ المسلمینؓ کا بیٹا عبدالرحمٰنؓ تھا۔ اس نے اﷲاکبر کا نعرہ لگایا۔
رومیوں نے مقابلے کی نہ سوچی۔ ان کے سالاروں نے تیزی دکھائی، اپنے پہلوؤں کے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا اور اپنے تمام دستوں کو قلعے کے اندر لے گئے۔ ان کا مسلمانوں کی تلواروں سے کٹ جانا یقینی تھا۔ قلعے میں داخل ہوتے ہوتے مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور کئی رومیوں کو ختم کردیا۔
قلعے کے دروازے بند ہو گئے۔ خالدؓغصے میں تھے۔ انہوں نے ایک حکم یہ دیا کہ زخمیوں اور لاشوں کو سنبھالو، اور دوسرا حکم یہ کہ تمام لشکر اکٹھا کیا جائے، انہوں نے سالار شرحبیلؓ بن حسنہ کو بلایا۔
’’ولیدکے بیٹے!‘‘ … شرحبیلؓ نے آتے ہی خالدؓ سے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!تو اﷲکی تلوار ہے۔تو اﷲکی مدد بن کر آیا ہے۔‘‘
’’لیکن تو نے یہ کیا کیا ابنِ حسنہ!‘‘ … خالدؓ نے غصے سے کہا۔ … ’’کیا تو یہ نہیں جانتا کہ یہ قصبہ دشمن کا مضبوط قلعہ ہے اور یہاں بے شمار فوج ہوگی؟کیا اتنی تھوڑی نفری سے تو یہ قلعہ سر کر سکتا تھا؟‘‘
’’میں نے ابو عبیدہؓ کے حکم کی تعمیل کی ہے ابنِ ولید!‘‘ … شرحبیلؓ نے کہا۔
’’آہ ابوعبیدہ!‘‘ … خالدؓ نے آہ لے کر کہا۔ … ’’میں اس کا احترام کرتا ہوں۔ وہ متقی و پرہیزگارہے۔لیکن میدانِ جنگ کو وہ اچھی طرح نہیں سمجھتا۔‘‘
مؤرخ واقدی لکھتا ہے کہ ابوعبیدہؓ کو سب خصوصاًخالدؓ بزرگ و برتر سمجھتے تھے۔لیکن جس نوعیت کی لڑائیاں جاری تھیں ان کیلئے ابو عبیدہؓ موزوں نہیں تھے لیکن جہاں نفری کی کمی تھی وہاں سالاروں کی بھی کمی تھی۔ بہرحال،مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ جذبے اور حوصلے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے اور وہ بڑی تیزی سے تجربہ حاصل کرتے جا رہے تھے۔ بصرہ پر ان کا حملہ جرات مندانہ اقدام تھا۔
…………bnb…………

خالدؓ قلعے کے باہر اپنی اور شرحبیلؓ کی نفری کا حساب کر رہے تھے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے کہ قلعے کے اندر کتنی نفری ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں چند ایک رومی سپاہی آگئے تھے جو زخمی تھے۔ خالدؓ کے لشکرکے آجانے سے مسلمانوں کی نفری تیرہ ہزار کے قریب ہو گئی تھی ،لیکن رومیوں غسانیوں اور عیسائیوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ تھی۔
’’کیا تم بھی ڈر کر بھاگ آئے ہو؟‘‘ … قلعے کے اندر جبلہ بن الایہم رومی فوج کے سپہ سالار پر غصہ جھاڑ رہا تھا۔ … ’’کیا تم نے اس فوج کا جو قلعے کے اندر تھی اور شہر کے لوگوں کا حوصلہ توڑ نہیں دیا؟‘‘
’’نہیں!‘‘ … رومی سالار نے کہا۔ … ’’میں مسلمانوں پر باہر نکل کر حملہ کر رہا ہوں، اگر میں ان کے عقب میں گئے ہوئے دستوں کوپیچھے نہ ہٹا لیتا تو ان کے عقب سے مسلمان سالار انہیں بری طرح کاٹ دیتے۔ مجھے ان کی نفری کا اندازہ نہیں تھا۔میں صرف ایک دن انتظار کروں گا، ہو سکتا ہے کہ ان کی مز ید فوج آرہی ہو، میں انہیں آرام کرنے کی مہلت نہیں دوں گا۔‘‘
’’پھر انہیں قلعے کا محاصرہ کرلینے دو۔‘‘ … جبلہ نے کہا۔ … ’’انہیں قلعے کے ا ردگرد پھیل جانے دو، پھر تم قلعے سے اتنی تیزی سے نکلنا کہ انہیں اپنے دستے اکٹھے کرلینے کی مہلت نہ ملے … اور شہر میں اعلان کر دو کہ گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ، دشمن کو قلعے کے باہر ہی ختم کر دیا جائے گا۔‘‘
قلعے کے اندر ہڑبونگ بپا تھی، شہریوں میں بھگدڑ اور افراتفری مچی ہوئی تھی۔رومی فوج کا باہر جاکر لڑنا اور اندر آجانا شہریوں کیلئے دہشت ناک تھا۔ مسلمان فوج کی ڈراؤنی ڈراؤنی سی باتیں تو شہر میں پہلے ہی پہنچی ہوئی تھیں۔
مؤرخوں کے مطابق رومیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسلمانوں کو آرام کی مہلت ہی نہ دی جائے لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ مسلمان آرام کر نے کے عادی ہی نہیں ، انہیں اتنی ہی مہلت کی ضرورت تھی کہ زخمیوں کو سنبھال لیں اور شہیدوں کی لاشیں دفن کر لیں۔
…………bnb…………

اگلے روز کا سورج طلوع ہونے تک رومی فوج قلعے سے باہر آگئی اور دروزے بند ہو گئے۔خالدؓ نے اپنے لشکر کو جنگی ترتیب میں کر لیا ۔قلعے کے باہر میدان کھلا تھا۔
خالدؓنے حسبِ معمول اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ قلب کی کمان اپنے پاس رکھی، اب چونکہ انہیں شرحبیلؓ کے چار ہزار مجاہدین مل جانے سے ان کے پاس نفری کچھ زیادہ ہو گئی تھی اس لیے انہوں نے قلب کو محفوظ کرنے کیلئے ایک دستہ قلب کے آگے رکھا، اس دستے کی کمان خلیفۃ المسلمینؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن بن ابو بکرؓ کے پاس تھی۔
ایک پہلو کے دستوں کے سالار رافع بن عمیرہ اور دوسرے پہلو کے سالار ضرار بن الازور تھے۔
جنگ کا آغاز مسلمانوں کے نعرہ تکبیر سے ہوا۔ رومی سپہ سالار اپنے قلب کے آگے آگے آرہا تھا۔عبدالرحمٰنؓ بن ابو بکر جوان تھے۔خالدؓ نے جوں ہی ان کے دستے کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، عبدالرحمٰنؓ سیدھے رومی سالار کی طرف گئے۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی ان کی نظریں اس رومی سالار پر لگی ہوئی تھیں۔
عبدالرحمٰنؓ نے گھوڑے کو ایڑلگائی اور تلوار سونت کر اس کی طرف گئے مگر اس کی طرف گئے تو وہ بڑی پھرتی سے آگے سے ہٹ گیا۔ عبدالرحمٰنؓ آگے نکل گئے۔ رومی سالار نے گھوڑا موڑا اور عبدالرحمٰنؓ کے پیچھے گیا۔ عبدالرحمٰن ؓنے گھوڑا موڑتے موڑتے دیکھ لیا، رومی نے وار کر دیا جو عبدالرحمٰنؓ بچا گئے۔ تلوار کا زنّاٹہ ان کے سر کے قریب سے گزرا۔
اب عبدالرحمٰنؓ اس کے پیچھے تھے۔رومی گھوڑا موڑ رہا تھا، عبدالرحمٰنؓ نے تلوار کا زورداروار کیا جس سے رومی تو بچ گیا لیکن اس کے گھوڑے کی زین کا تنگ کٹ گیا، اور ضرب گھوڑے کو بھی لگی۔ گھوڑے کا خون پھوٹ آیا اور وہ رومی کے قابو سے نکلنے لگا۔
رومی تجربہ کار جنگجو تھا۔ اس نے بڑی مہارت سے گھوڑے کو قابو میں رکھا، اور اس نے وار بھی کیے۔ عبدالرحمٰنؓ نے ہر وار بچایا، اور انہوں نے رکابوں میں کھڑے ہوکر وار کیے تو رومی گھبرا گیا۔ اس کے آہنی خود اور زرہ نے اسے بچالیا لیکن اپنی ایک ٹانگ کو نہ بچا سکا، گھٹنے کے اوپر سے اس کی ٹانگ زخمی ہو گئی۔ تابڑ توڑ وار اسے مجبور کرنے لگے کہ وہ بھاگے اور وہ بھاگ اٹھا۔ اسے اپنی جان کا غم تھا یا نہیں ، اسے خطرہ یہ نظر آرہا تھا کہ وہ گر پڑا تو اس کا سارا لشکر بھاگ اٹھے گا۔ یہ سوچ کر کو وہ اپنے لشکر میں غائب ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ عبدالرحمٰنؓ اس کے تعاقب سے نہ ہٹے، وہ ان کے ہاتھ تو نہ آیا لیکن اپنے لشکر کی نظروں سے بھی اوجھل ہو گیا۔
خالدؓ نے رومیوں پر اس طرح حملہ کیا کہ سالار رافع بن عمیرہ اور سالار ضرار بن الازور کو حکم دیاکہ وہ باہر کو ہو کر رومیوں پر دائیں اور بائیں سے تیز اور شدید ہلہ بولیں۔ مجاہدین شدید کا مطلب سمجھتے تھے۔ مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق یہ حملہ اتنا تیز اور اتنا سخت تھا جیسے مجاہدین تازہ دم ہوں اور ان کی تعداد دشمن سے دگنی ہو۔ دونوں سالاروں کے دستے دیوانگی کے عالم میں حملہ آور ہوئے۔
مؤرخ واقدی اور ابنِ قتیبہ لکھتے ہیں کہ سالار ضرار بن الازور نے جوش میں آکر اپنی زرہ اتار پھینکی۔یہ ہلکی سی تھی لیکن جولائی کا آغاز تھا، اور گرمی عروج پر تھی۔ ضرار نے گرمی سے تنگ آکر اور لڑائی میں آسانی پیدا کرنے کیلئے زرہ اتاری تھی۔ انہوں نے اپنے دستوں کو حملے کا حکم دیا۔ان کا گھوڑا ابھی دشمن کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ انہوں نے قمیص بھی اتار پھینکی، اس طرح ان کا اوپر کا دھڑ بالکل ننگا ہو گیا۔
ایسی خونریز لڑائی میں زرہ ضروری تھی، اور سَر کی حفاظت تو اور زیادہ ضروری تھی، لیکن ضرار بن الازور نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی تھی۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر ان دستوں میں کوئی اور ہی جوش پیدا ہو گیا۔ ضرار دشمن کو للکارتے اور ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے۔ان کے سامنے جو آیا ان کی تلوار سے کٹ گیا۔ وہ سالار سے سپاہی بن گئے تھے۔
رافع بن عمیرہ نے رومیوں کے دوسرے پہلو پر ہلہ بولا تھا، ان کا انداز ایسا غضب ناک تھا کہ دشمن پر خوف طاری ہو گیا۔
خالدؓ نے جب دیکھا کہ ضرار اور رافع نے دونوں پہلوؤں سے ویسا ہی ہلہ بولا ہے جیسا وہ چاہتے تھے اور دشمن کے پہلو عقب کی طرف سکڑ رہے ہیں تو خالدؓ نے سامنے سے ہلہ بول دیا۔
رومی پیچھے ہٹنے لگے لیکن پیچھے قلعے کی دیوار تھی جو دراصل شہر کی پناہ تھی، ان کیلئے پیچھے ہٹنے کو جگہ نہ رہی۔ مجاہدین انہیں دباتے چلے گئے۔
’’دروازے کھول دو۔‘‘ … دیوار کے اوپر سے کوئی چلایا۔
قلعے کے اس طرف کے دروازے کھل گئے اور رومی سپاہی قلعے کے اندر جانے لگے۔انہیں قلعے میں ہی پناہ مل سکتی تھی، مسلمانوں نے دباؤ جاری رکھا، اور رومی جم کر مقابلہ کرتے رہے۔ ان میں سے جسے موقع مل جاتا وہ قلعے کے اندر چلا جاتا۔
…………bnb…………

جو رومی قلعے میں پناہ لینے کو جا رہے تھے وہ ان کی تمام نفری نہیں تھی،ان کی آدھی نفری بھی نہیں تھی۔ان کی آدھی نفری خالدؓ کے دستوں سے نبرد آزما تھی، خالدؓ نے جب دیکھ لیا تھا کہ ان کے پہلوؤں کے سالار وں نے ویسا ہی حملہ کیا ہے جیسا کہ وہ چاہتے تھے تو انہوں نے دشمن کے قلب پر حملہ کر دیا۔ رومی بڑے اچھے سپاہی تھے، وہ پسپا ہونے کی نہیں سوچ رہے تھے اور خالدؓانہیں پسپائی کے مقام تک پہنچانے کی سر توڑ کوششیں کررہے تھے۔
خالدؓنے شجاعت اور بے خوف قیادت کا یہ مظاہرہ کیا کہ گھوڑے سے اتر آئے اور سپاہیوں کی طرح پا پیادہ لڑنے لگے۔اس کا اثر مجاہدین پر ایساہوا کہ وہ بجلیوں کی مانند کوندنے لگے۔یہ ان کے ایمان کا اور عشقِ رسولﷺ کا کرشمہ تھا کہ مسلسل کوچ اور معرکوں کے تھکے ہوئے جسموں میں جان اور تازگی پیدا ہو گئی تھی ۔یہ مبالغہ نہیں کہ وہ روحانی قوت سے لڑ رہے تھے۔
خالدؓ اس کوشش میں تھے کہ رومیوں کو گھیرے میں لے لیں لیکن رومی زندگی اور موت کا معرکہ لڑ رہے تھے۔وہ اب وار اور ہلے روکتے اور پیچھے یادائیں بائیں ہٹتے جاتے تھے۔وہ محاصرے سے بچنے کیلئے پھیلتے بھی جا رہے تھے۔آخر وہ بھی بھاگ بھاگ کر قلعے کے ایک اور کھلے دروازے میں غائب ہونے لگے۔
خالدؓ نے بلند آواز سے حکم دیا۔’’ان کے پیچھے قلعے میں داخل ہو جاؤ۔ ‘‘لیکن دیوار کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ برچھیاں بھی آئیں۔مجاہدین کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا، اور رومی جو بچ گئے تھے وہ قلعے میں چلے گئے اور قلعے کا دروازہ بندہو گیا۔
باہر رومیوں اور ان کے اتحادی عیسائیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔زخمی تڑپ رہے تھے۔زخمی گھوڑے بِدکے اور ڈرے ہوئے بے لگام اور منہ زور ہو کر دوڑتے پھر رہے تھے۔چند ایک گھوڑ سواروں کے پاؤں رکابوں میں پھنسے ہوئے تھے اور گھوڑے انہیں گھسیٹتے پھر رہے تھے ۔سوار خون میں نہائی لاشیں بن چکے تھے۔
لڑائی ختم ہو چکی تھی۔مجاہدین کے فاتحانہ نعرے گرج رہے تھے۔فتح ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی،دشمن کا نقصان تو بہت ہوا تھا لیکن وہ قلعہ بند ہو گیا تھا۔فتح مکمل کرنے کیلئے قلعے سر کرنا ضروری تھا۔خالدؓ نے اپنے زخمیوں کو اٹھانے کا حکم دیا اور قاصد سے کہا کہ تمام سالاروں کو بلا لائے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages