Featured Post

Khalid001

18 April 2020

Khalid126


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  126
’’تجھ پر اﷲ کی سلامتی ہو ابنِ احدی!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے اسے گلے لگا کر کہا۔ … ’’ہم انطاکیہ کی خبر کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔‘‘
ابنِ احدی نے خالدؓکے ساتھ مصافحہ کیا۔خالدؓ نے بھی اسے گلے لگا لیا۔
’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’سیاہ کالی گھٹا ہے جو انطاکیہ کے افق سے اٹھ رہی ہے۔‘‘ … ابنِ احدی نے عربوں کے مخصوص شاعرانہ انداز میں کہا۔ … ’’اس گھٹا سے جو مینہ برسے گا وہ زمین پر سیلاب بن کر چٹانوں کو بھی بہا لے جائے گا۔ امین الامت اور ابن الولید! اﷲ نے تمہیں اشارہ دیا ہے کہ آگے نہ جانا۔‘‘
’’ہمیں یہ اشارہ دشمن کے ایک قافلے نے دیا ہے۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’یہ رومیوں کا فوجی قافلہ ہے جسے ہم نے پکڑ لیا ہے۔‘‘
’’اسے اﷲکا بھیجا ہوا قافلہ سمجھ امین الامت!‘‘ … ابنِ احدی نے کہا۔ … ’’اب پوری بات مجھ سے سن۔ انطاکیہ کے اندر اور باہر لشکر کے سپاہیوں اور گھوڑوں کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ انطاکیہ کے گردونواح میں دور دور تک خیموں کا جنگل ہے۔ جو بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ہرقل نے جو منصوبہ بنایا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔‘‘
’’کیا تیری خبر مصدقہ ہو سکتی ہے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’میں ہرقل کی فوج کے ایک ٹولے کا کماندار ہوں ابو سلیمان!‘‘ … ابنِ احدی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ … ’’رومیوں کی اس وقت یہ حالت ہے کہ جو کوئی انطاکیہ کے دروازے پر جا کر کہے کہ فوج میں بھرتی ہونے آیا ہوں تو اس کیلئے شہر کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔‘‘
ابنِ احدی جس طرح انطاکیہ کی فوج میں شامل ہوا تھا اس کی اس نے تفصیلات بتائیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ عیسائی عرب بن کر انطاکیہ گیا تھا۔ انہیں اسی وقت فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ اس روز گھوڑ دوڑ کے میدان میں شہسواری، تیغ زنی اور دوڑتے گھوڑے سے تیر نشانے پر چلانے کے مقابلے ہورہے تھے ان میں ہر کوئی شامل ہو سکتا تھا۔ ابنِ احدی اپنی فوج کا مشہور شہسوار تھا اور بڑا ہی خوبصورت جوان۔ وہ مقابلے میں اس طرح شریک ہوا کہ میدان میں جا کر گھوڑا چکر میں دوڑایا اور تلوار نکال کر تیغ زن سواروں کو مقابلے کیلئے للکارا۔ ایک سوار اس کے مقابلے میں اترا وہ رومی تھا۔
’’اگر تجھے اپنے بازوؤں اور اپنے گھوڑے پر پورا بھروسہ ہے تو میرے مقابلے میں آ اے اجنبی سوار!‘‘ … ابنِ احدی نے اس سے کہا۔ … ’’میری تلوار تیرے خون کی پیاسی تو نہیں لیکن اس کے سامنے تیری تلوار آئے گی تو …‘‘
’’تیری تلوار کے مقابلے میں میری برچھی آئے گی اے بد قسمت اجنبی!‘‘ … دوسرے سوار نے کہا۔ … ’’اگر تجھے زندگی عزیزنہیں تو آجا۔‘‘
ابنِ احدی نے گھوڑا اس کے اردگرد دوڑایا اور اسے للکارا۔ رومی سوار گھوڑے کو کچھ دور لے گیا اور گھوڑا موڑ کر ایڑ لگائی۔ اس نے برچھی نیزہ بازی کے انداز سے آگے کر لی تھی۔ ابنِ احدی اس کی طرف منہ کرکے کھڑا رہا۔ رومی کی رفتار اور تیز ہو گئی جب اس کی برچھی کی انّی ابنِ احدی کے سینے سے تھوڑی ہی دور رہ گئی تو وہ اس قدر پھرتی سے گھوڑے کی دوسری طرف جھک گیا جیسے وہ گھوڑے پر تھا ہی نہیں۔
رومی کی برچھی ہوا کو کاٹتی آگے نکل گئی۔ ابنِ احدی گھوڑے پر سیدھا ہوا اور اپنے گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا۔ اس کاگھوڑا دوڑا اورفوراً ہی مڑ کر رومی کے پیچھے چلا گیا۔ رومی اپنا گھوڑا موڑ رہا تھا، کہ ابنِ احدی اس تک جا پہنچا اور تلوار سے اس کی برچھی توڑ دی۔ رومی نے گھوڑا موڑ کر تلوار نکال لی لیکن وہ ابنِ احدی پر صرف ایک وار کر سکا۔ جو ابنِ احدی نے بچا لیا اور فوراً ہی اس مسلمان شہسوار کی تلوار رومی سوار کے پہلو میں اتر گئی۔ وہ اس پہلو کی طرف لڑھک گیا۔
اسے گرتا دیکھ کر ایک رومی سوار ابنِ احدی کے مقابلے میں آیا وہ آتا نظر آیا اور تماشائیوں نے اسے گھوڑے سے گرتے دیکھا۔ ایک اور سوار میدان میں آیا۔
’’رُک جاؤ!‘‘ … ہرقل کی گرجدار آواز سنائی دی۔ … ’’اِدھر آ شہسوار۔‘‘
ابنِ احدی نے گھوڑا ہرقل کے سامنے جا روکا۔ ہرقل اونچی جگہ بیٹھا ہوا تھا۔
’’کیا تجھے بتایا نہیں گیا تھا کہ یہ مقابلے ہیں لڑائی نہیں۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’ تم ان دونوں کو زخمی کر سکتے تھے جان سے نہیں مارنا تھا۔ پھر بھی ہم تمہاری قدر کرتے ہیں۔ کہاں سے آیا ہے تو؟‘‘
’’مت پوچھ شہنشاہ کہاں سے آیا ہوں۔‘‘ … ابنِ احدی نے کہا۔ … ’’یہ میرے دشمن نہیں تھے لیکن میرے ہاتھ میں جب تلوار ہوتی ہے اور جب کوئی مجھے مقابلے کیلئے للکارتا ہے تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ شخص مسلمان ہے میں جب اسے قتل کر چکتا ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں تھا۔ میرا دماغ میرے قابو میں نہیں رہتا۔ میں عیسائی عرب ہوں شہنشاہ۔ بہت دور سے آیا ہوں۔‘‘
’’کیا تیرے دل میں مسلمانوں کی اتنی دشنمی ہے کہ تو اندھا ہو جاتا ہے۔‘‘ … ہرقل نے پوچھا۔
’’اس سے بھی زیادہ جتنی شہنشاہ سمجھیں گے۔‘‘ … ابنِِ احدی نے کہا۔ … ’’کیا شہنشاہ مجھے آگے نہیں بھیجیں گے؟ میں مسلمانوں سے لڑنے آیا ہوں۔‘‘
’’ہم تجھے آگے بھیجیں گے۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’تو نے دو شیروں کو مارا ہے اور تو معمولی سے خاندان کا فرد نہیں لگتا۔‘‘
…………bnb…………

’’امین الامت!‘‘ … ابنِ احدی نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓسے کہا۔ … ’’میرا خیال تھا کہ وہ مجھے سپاہی کی حیثیت میں فوج میں رکھ لیں گے لیکن انہوں نے مجھے ایک سو سپاہیوں کا کماندار بنا دیا۔ اس طرح میری رسائی سالاروں تک ہو گئی۔ میرے دوسرے ساتھی بھی کسی نہ کسی ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے انہیں قیمتی خبریں مل سکتی ہیں۔ ہم سب عیسائی عرب بنے رہے اور آپس میں ملتے رہے۔ کچھ باتیں مجھے انہوں نے بتائی ہیں۔ باقی حالات میں نے خود دیکھے ہیں۔… ‘‘
’’… حمص پر اپنے دستوں کی اطلاع انطاکیہ پہنچی تو میرے ساتھی مجھے ملے۔ ہمیں معلوم تھا کہ تم حمص میں زیادہ دن نہیں رکو گے اور انطاکیہ کی طرف پیشقدمی کرو گے۔ ہم تمہیں حمص میں ہی روکناچاہتے تھے، تمہیں آگے کے خطرے سے خبردار کرنا ضروری تا۔ انطاکیہ کے اردگرد کے علاقے میں اپنے لشکر کی تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘
ابنِ احدی نے آگے کے جو حالات بتائے وہ اس طرح تھے کہ ہرقل نے بہت بڑی فوج تیار کرنے کی مہم ایسے طریقے سے چلائی تھی کہ عیسائیوں کے تمام قبیلے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے اپنے گھوڑوں اونٹوں اور ہتھیاروں کے ساتھ انطاکیہ میں جمع ہو گئے تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان قبیلوں کے علاوہ یورپی ملکوں کے لوگ بھی آگئے تھے۔ روم، یونان، اور آرمینیہ کے رہنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں آئے تھے۔ ان سب کو اس فوج کے ساتھ ملا کر جو پہلے موجود تھی ہرقل کی فوج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہو گئی تھی۔
…………bnb…………

اتنے بڑے لشکر کو تیس تیس ہزار کے پانچ حصوں میں تقسیم کر دیاگیاتھا۔ ہر حصے کا جو سالار مقرر کیا گیا تھا وہ تجربے کار اور منتخب تھا۔ ان پانچ سالاروں میں سے ایک کا نام ماہان تھا۔جو آرمینیہ کا بادشاہ اور اپنے وقتوں کا مانا ہوا سپہ سالار تھا، دوسرا غسان کا حکمران جبلہ بن الایہم تھا۔ جو اپنی فوج ساتھ لایا تھا اور اسی کاوہ سالار تھا۔ تیسرا روس کا ایک شہزادہ قناطیر تھا۔ چوتھے کا نام گریگری اور پانچویں کا دیرجان تھا ۔ یہ سب عیسائی تھے، اور انہوں نے اسے صلیب اور ہلال کی جنگ بنا دیا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ کے اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ ماہان تھا۔
ہرقل نے اس لشکر کو اپنے بہتر ہتھیاروں سے مسلح کر دیا اور جب یہ تیار ہو کر پانچ حصوں میں تقسیم ہو گیا تو ہرقل نے اتنے بڑے لشکر کو اکٹھا کیا۔
’’صلیب کے پاسبانو!‘‘ … ہرقل نے بلند جگہ کھڑے ہو کر گلا پھاڑ پھاڑ کر کہا۔ … ’’تم جس جنگ کیلئے اکٹھے ہوئے ہو یہ کسی ملک کو فتح کرنے کیلئے نہیں لڑی جائے گی۔ یہ تمہارے مذہب اور تمہاری عزت کی جنگ ہے۔ ایک نیا مذہب ہمارے مذہب کے خلاف اٹھا ہے ہمارا یہ فرض ہو کہ اس مذہب کو جو دراصل کوئی مذہب نہیں ختم کردیں۔مسلمانوں کی فوج چالیس ہزار سے زیادہ نہیں، تم ان کی ہڈیاں بھی پیس ڈالو گے ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہماری فوج میں مسلمانوں کی دہشت پھیل گئی ہے۔ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ مسلمانوں نے جہاں بھی ہماری فوج پرحملہ کیا ہے چوروں کی طرح کیا ہے اور وہاں ہماری نفری تھوڑی تھی وہ کوئی جن بھوت نہیں تمہاری طرح کے انسان ہیں۔ وہ لٹیرے ہیں جو تمہارے گھروں میں گھس آئے ہیں لیکن وہ صرف تمہارا مال و اموال نہیں لوٹتے وہ تمہارا مذہب اور تمہاری عزت لوٹنے آئے ہیں۔‘‘
مؤرخ واقدی بلاذری اور ہنری سمتھ لکھتے ہیں کہ ہرقل نے پہلے ہی ان لوگوں کوبھڑکا کر اپنے لشکر میں شامل کیا تھا اب انہیں اور زیادہ بھڑکا دیا، ابنِ احدی نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو بتایا کہ ہرقل نے دوسرا اجتماع سالاروں نائب سالاروں اور کمانداروں کا کیا۔ پہلے انہیں بھی بھڑکایا۔ پھر انہیں احکام دیئے، اور ہدایات دیں ان کے مطابق ہر سالار کی پیش قدمی اور اس کے ہدف کا تعین کیا گیا تھا۔
یہ ایک دہشت ناک منصوبہ تھا جو اتنے بڑے لشکر سے آسانی سے کامیاب ہو سکتا تھا۔ ہدف حمص تھا اور دوسرا دمشق۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی تمام تر فوج کو جس کی نفری تقریباً چالیس ہزار تھی گھیرے میں لے کر ختم کرنا تھا۔ ہرقل نے گھیرا ڈالنے کا بڑا اچھا منصوبہ تیار کیا تھا اس کے سالار قناطیر کو اپنے تیس ہزار لشکر کے ساتھ انطاکیہ سے سمندر کے ساتھ ساتھ بیروت تک پہنچنا اور وہاں سے دمشق کی طرف مڑ جانا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ مسلمان آگے سے پسپا ہو کر دمشق کی طرف آئیں تو قناطیر کا لشکر ان پر حملہ کردے۔
جبلہ بن الایہم نے حمص کی طرف جاکر مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکنا اور انہیں ختم کرنا تھا۔ مؤرخوں نے لکھاہے کہ حمص پر حملہ کرنے والے لشکر میں صرف عرب عیسائی تھے جن کی تعداد تیس ہزار تھی۔ ہرقل نے کہا تھا کہ وہ عربوں کے خلاف عربوں کو لڑانا چاہتا ہے۔
’’لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے۔‘‘ … یہ ہرقل کے تاریخی الفاظ ہیں۔
حمص کے علاقے میں ہرقل کے ایک اور سالار دیرجان نے بھی جانا تھا۔ اس نے جبلہ سے الٹی سمت سے پیش قدمی کرنی تھی تاکہ مسلمان کسی طرف سے بھی نہ نکل سکیں۔
سالار گریگری کو ایک اور سمت سے حمص کے علاقے میں پہنچنا اور مسلمانوں پر حملہ کرنا تھا اس طرح صرف حمص اور گردونواح کے علاقے میں مسلمانوں پر حملہ کرنے والی رومی فوج کی تعداد نوے ہزار تھی۔ ماہان جو سالارِ اعلیٰ تھا اسے اپنا تیس ہزار کا لشکر کہیں قریب رکھنا تھا تاکہ جہاں کہیں اس کی ضرورت پڑے وہ پہنچے۔
…………bnb…………

’’تجھ پراﷲکی سلامتی ہو ابنِ احدی!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے ہرقل کا تمام تر منصوبہ سن کر کہا۔ … ’’خدا کی قسم! تو نے اپنا گھر جنت میں بنا لیا ہے۔ اگر تو یہ خبریں لے کر نہ آتا تو خود سوچ کہ ہمارا کیا انجام ہوتا … ابو سلیمان!…‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’کیا تو نے یہ محسوس نہیں کیا کہ ہم اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں؟‘‘
خالدؓ جو میدانِ جنگ میں دشمن کے اعصاب پر چھاجایا کرتے تھے، چپ چاپ ابو عبیدہؓ کو دیکھ رہے تھے۔
’’کیا ہمیں پیچھے نہیں ہٹ جانا چاہیے ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔
’’امین الامت!‘‘ … خالدؓنے آہ بھر کر کہا۔ … ’’پیچھے ہٹنا ایک ضرورت ہے لیکن پیچھے ہٹنا میری فطرت نہیں۔‘‘
’’خد اکی قسم! ابو سلیمان! جو تو سوچ سکتا ہے وہ شاید میں نہ سوچ سکوں۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’اس وقت اپنی ذات کو نہ دیکھ۔ اپنے ساتھیوں کو اور ان کے انجام کو دیکھ اور بتا ہم کیا کریں۔‘‘
’’ہاں ابنِ عبداﷲ!‘‘ … خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کو دوسرے نام سے پکارتے ہوئے کہا۔ … ’’میں اس حقیقت کو دیکھ کر بات کروں گا جو ہمارے سامنے ہے، اور یہ طوفان جو آرہا ہے، اسے روکنا ہمارے بس کی بات نہیں لیکن ہمیں اس اﷲکو بھی منہ دکھانا ہے جس کے نام پر ہم یہاں تک اپنا اور اپنے دشمن کا خون بہاتے پہنچے ہیں۔ ہماری جانیں اسی کی امانت ہیں … پہلا کام یہ کر کہ اپنے تمام سالاروں کو جہاں جہاں وہ ہیں، دستوں سمیت ایک جگہ اکٹھا کرلے۔‘‘
’’اور ان جگہوں کا کیا بنے گا جو ہمارے قبضے میں ہیں؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔
’’امین الامت!‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’تو یقیناً دشمن کے ارادے کوسمجھتا ہے، وہ فیصلہ کن جنگ لڑنے آرہا ہے، اور ہر طرف سے آرہا ہے … آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے … اور تو نے ابن احدی سے سن لیا ہے کہ ہرقل نے ہماری پسپائی کے راستے روکنے کابھی انتظام کر دیا ہے … ابنِ عبداﷲ! ہرقل ہمارے دستوں کو وہیں گھیرے میں لینا چاہتا ہے جہاں جہاں وہ ہیں۔ یہ تو اﷲکا احسانِ عظیم ہے کہ ہمیں پہلے سے ہی اس کے منصوبوں کا علم ہو گیا ہے۔ ‘‘
’’ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کو ہماری شکست منظور نہیں؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔
’’اﷲہمارے ساتھ ہے امین الامت!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’لیکن اﷲ ان کی مدد نہیں کیا کرتا جو اپنے آپ کو دشمن اور حالات کے رحم و کرم پر پھینک دیتے ہیں … ہرقل ہمیں بکھرا ہوا رکھناچاہتا ہے۔ تمام سالاروں کو وہ تمام جگہیں چھوڑنی پڑیں گی جو ہمارے قبضے میں ہیں۔ اگر اﷲ نے ہمیں فتح عطا کی تو یہ سب جگہیں ہماری ہوں گی۔‘‘
’’ہمیں کہاں اکٹھے ہونا چاہیے؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔
’’جہاں صحرا ہمارے عقب میں ہو۔‘‘ … خالدؓ نے جواب دیا۔ … ’’جتنی آسانی اور تیزی سے ہم صحرا میں حرکت کر سکتے ہیں اتنی تیزی سے ان علاقوں میں نہیں کر سکتے جہاں ہم اس وقت موجود ہیں۔ صحرا میں ہمارا دشمن نہیں لڑ سکتا۔ ہم صحرا کو اپنے قریب رکھیں گے تو پیچھے ہٹنے میں سہولت ہو گی، اور جب دشمن ہمارے پیچھے آئے گا تو وہ اپنے علاقے کی سہولتوں سے محروم ہو جائے گا۔‘‘
 ’’تیرے سامنے ایسی کون سی جگہ ہے؟‘‘
’’جابیہ!‘‘ … خالدؓ نے جواب دیا۔ … ’’وہاں سے تین راستے نکلتے ہیں اور قریب سے ہی صحرا شروع ہو جاتا ہے۔ دریائے یرموک بھی بالکل قریب ہے۔‘‘
مسلمانوں کے بکھرے ہوئے دستوں کے سالارِ اعلیٰ ابوعبیدہؓ تھے لیکن وہ خالدؓ کو اپنی نسبت زیادہ قابل ، تجربہ کار اور جارح سالار سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے خالدؓ کو اپنا مشیرِ خاص بلکہ دستِ راست بناکر ساتھ رکھا ہو اتھا ۔اب ہرقل نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی تھی جس میں انہیں خالدؓ کے مشوروں کی شدید ضرورت تھی۔ خالدؓ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک اور خوفناک صورتِ حال میں بھی نہیں گھبراتے تھے۔ انہوں نے جو مشورے دیئے ، ابو عبیدہؓ نے فوری طور پر ان پر عمل کیا۔ وہ زیادہ سوچنے کا وقت تھا ہی نہیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔
ہرقل کا لشکر انطاکیہ سے کوچ کر چکا تھا،حمص پر مسلمانوں کے قبضے کا تیسرا مہینہ گزر رہا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages